شروع شروع میں حضر و سفر کی نماز کتنی فرض رہی؟
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: فرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتُ صَلَاةُ السَّفَرِ وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں ”نماز سفر و حضر میں دو دو رکعت فرض کی گئی تھی ، سفر کی نماز برقرار رہی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا ۔ “ متفق علیہ
تحقیق و تخریج:

بخاری: 350، مسلم: 685
وَعَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ يَقْصُرُ فِي الصَّلَاةِ وَيُتِمُ وَيَصُومُ وَيُفْطِرُ . أَخْرَجَهُ الدَّارُ قُطَنِيُّ، وَقَالَ: هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں قصر نماز بھی پڑھتے تھے اور پوری بھی پڑھ لیا کرتے تھے، روزہ رکھ بھی لیتے اور حالت سفر میں چھوڑ بھی لیتے ۔“ دارقطنی، اور کہا ہے کہ یہ سند صحیح ہے ۔
تحقیق و تخریج:

یہ حدیث منکر ہے ۔ رواہ الدار قطنی: 2/ 189، امام دارقطنی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد صیح ہیں ۔ امام احمد بن حنبل نے اسے منکر قرار دیا ۔ التلخیص: 44/2 ۔
فوائد:

➊ شروع شروع میں حضر و سفر کی نماز دو رکعت فرض رہی بعد میں سفر کی نماز دو ہی رہی اور حضر کی نماز میں دو رکعت کا اور اضافہ ہو کر چار رکعت ہوئی ۔
➋ اسلام نے انسان کو پیش آنے والی تکالیف کو بھی سامنے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ سفر جو کہ عذاب کا ایک قطعہ ہوتا ہے اس میں نماز دو رکعت ہی رہی باقی امن اور گھر کی صورت میں دو رکعت کا اضافہ ہوا ۔
➌ سفر میں نماز قصر کرنا راجح قول یہی ہے کہ یہ رخصت پر مبنی ہے جو قرآن پاک میں آیا ہے قصر نماز کے بارے میں تو وہ واجب نہیں ہے بلکہ قصر کرنے میں اختیار ہے ۔ اگر مسافر پوری نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ۔ البتہ اللہ کی دی ہوئی رخصت کو عمل میں لانا چاہیے ۔
➍ اسی طرح سفر میں روزہ چھوڑنا یا رکھنا اختیاری معاملہ ہے ۔ سفر میں روزہ رکھا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے لیکن نماز چھوڑی نہیں جا سکتی البتہ تقدیم و تاخیر کا اہتمام حالات کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے ۔ نفلی روزے کی قضائی نہیں جو فرضی روزہ ہے اس کی سفر سے واپسی کے بعد قضائی دینا ہو گی ۔ یہ ضروری ہے ورنہ گناہ گار ہو گا ۔
➎ سفر میں روزہ رکھا ہو فرضی ہو خواہ نفلی تو بوقت عذر سفر میں توڑا بھی جا سکتا ہے لیکن قضائی کو بعد میں ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: