شرمگاہ سے خارج ہونے والی رطوبات کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

عورت سے خارج ہونے والے رطوبات کا کیا حکم ہے؟
کیا اسے وضو کو توڑنے والی نجاست سمجھا جائے گا؟ اور کیا وہ کپڑے جن کو یہ لگ جاتے ہیں پلید ہو جائیں گے؟ اور اس عورت کا کیا حکم ہے جس سے یہ رطوبات کبھی منقطع نہیں ہوتیں حتی کہ ان عبادات کے دوران بھی جن میں کافی وقت صرف ہوتا ہے ، جیسے عمرہ ، طواف اور دیر تک مسجد میں بیٹھنا؟ اور نیز ان رطو بات کا نکیا حکم ہے جو عورت کی جنسی خواہش کو ابھارتے وقت نیز جماع کے بغیر بوس و کنار کے وقت خارج ہوتے ہیں؟ کیا ایسی صورت میں غسل جنابت کی طرح غسل واجب ہو گا؟

جواب:

عورت کی قبل (اگلی شرمگاہ) سے نکلنے والے بلاشبہ نجس ہیں اور وضو کو توڑ دیتے ہیں اور بدن یا کپٹروں کے جس حصے کو لگ جائیں اس کو پلید کر دیتے ہیں ، لہٰذا ان رطوبات کے خارج ہونے کے وقت وہ استنجا کرے اور جب وہ نماز کا ارادہ کرے تو وضو کرنا اور بدن یا کپٹرے کی جس جگہ یہ لگ جائیں ان کو دھونا واجب ہو گا ۔ اسی طرح مسلمان جب بھی نماز پڑھنا چاہے اس پر سبیلین سے نکلنے والی ہر چیز سے وضو کرنا واجب ہو گا ۔
اور وہ عورت جس کو یہ رطوبات نکلتے ہی رہتے ہیں وہ استنجا کرے ، اپنی شرمگاہ کو صاف کرے اور اس میں کوئی ایسی چیز رکھے جو اس سے کسی چیز کے نکلنے کو روکے ، اور ہر نماز کے وقت نیز جب وہ طواف کرنا چا ہے تو وہ وضو کرے ۔ اور اس کے مسجد میں ٹھرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ یہ رطوبات حیض کے حکم میں نہیں ہیں ، اور جو چیز عورت کو مسجد میں ٹھرنے سے روکتی ہے وہ حیض ، نفاس اور جنابت ہے ۔ اور خاوند کے بوس و کنار کرنے اور کھیل کود کرنے کے نتیجہ میں عورت سے نکلنے والی رطوبات غسل کو واجب نہیں کرتی ہیں ، الا یہ کہ عورت سے جھٹکے اور لذت کے ساتھ منی خارج ہو ۔

(صالح بن فوزان بن عبداللہ حفظ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: