شب قدر، شب براءت یا شب نصف شعبان :۔
پندرہ شعبان کے دن کا بڑے اہتمام کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے، اور رات کو قیام کیا جاتا ہے۔ اور اس رات کو ”شب براءت“ کہا جاتا ہے۔ یا ”شب قدر“ کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ احادیث میں اور فقہاء ومحدثین کی تصریحات میں اس رات کے بارے میں شب براءت یا شب قدر کے الفاظ کا کہیں ذکر نہیں اور نہ ہی آج تک عربوں میں ایسے ناموں سے یہ معروف ہے، یہ نام صرف برصغیر تک ہی ہیں۔
اور جن بعض روایات میں اس رات کا ذکر آیا ہے وہ بھی نصف شعبان کی رات کے حوالے سے آیا ہے۔ اور ویسے بھی شب قدر یا شب براءت سے مراد دراصل وہ لیلۃ القدر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل کر کے اس اُمت کے لیے نظام زندگی مہیا کیا اور جادۂ حق کی طرف رہنمائی فرمائی تھی۔ لہذا یہ تعین کرنا ہوگا کہ نزول قرآن کی رات کون سی ہے اور کب ہے؟ اور قرآن کس ماہ اور کس رات میں نازل کیا گیا ؟ اُس رات کی صراحت خود قرآن کریم میں موجود ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت : 185 میں ارشاد الہی ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ (سورۃ البقرۃ : 185)
رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو راہ بتلاتا ہے لوگوں کو ، اور اس میں کھلی دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق کو ناحق سے پہچاننے کی۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے مہینے کی تعیین فرمادی ہے جو کہ رمضان المبارک ہے۔ اور پھر یہ کس رات میں نازل کیا گیا ؟ اس کا ذکر سورہ قدر میں موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (سورۃ القدر: 1)
ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا۔
اور پھر یہ شب قدر صحیح احادیث کی رو سے ماہ رمضان المبارک کی آخری دس راتوں اور پھر اُن میں سے بھی طاق راتوں یعنی 21 ، 23 ، 25 ، 27 یا 29 میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اور نزول قرآن کی اس رات کو سورہ دخان کے شروع میں شب مبارک کہا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
حم ﴿١﴾ وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿٢﴾ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (سورۃ الدخان: 1-5)
حاء میم ، قسم ہے اس کتاب مبین کی ، ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے۔ اور ہم لوگوں کو اپنے عذاب سے متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اسی رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے، ہمارے پاس سے حکم لے کر۔
یعنی سال بھر میں جو بڑے بڑے کام سرانجام پانے ہوتے ہیں۔ اُن کا آخری فیصلہ اللہ کے حکم سے کر دیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ پیدائش و اموات خوشی و غم اور رزق و فقر کے جو بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ اُسی مبارک شب میں ہوتے ہیں۔ جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ اور وہ شب مُبارک ، شب قدر، رمضان میں ہے نہ کہ ماہ شعبان میں۔ اور شب فارسی ترجمہ ہے لیلۃ کا اور قدر تو ہر دو زبانوں میں مشترک ہے، لہذا لیلۃ القدر کو فارسی میں شب قدر کہا جاتا ہے۔ اور یہ نام اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات کو دیا ہے۔
تفسیر لیلۃ مباركۃ :۔
سورۂ دخان کی مذکورہ آیت میں جو لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ کے الفاظ آئے ہیں ان سے بعض لوگوں نے پندرہ شعبان کی رات مراد لی ہے۔ لہذا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ سورہ دخان کی مذکورہ آیت کی تفسیر قدرے تفصیل سے ذکر کر دی جائے۔
تفسیر خازن :۔
چنانچہ معالم التنزیل المعروف تفسیر خازن میں ہے :
قال قتادة و ابن زيد هي ليلة القدر أنزل الله القرآن فى ليلة القدر
حضرت قتادہ رحمہ اللہ اور ابن زید رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ليلة مباركة سے وہ ليلة القدر مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل کیا۔
اور آگے لکھا ہے :
قيل هي ليلة النصف من شعبان
(تفسیر خازن : 143/5)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔
اور یہاں یہ بات یاد رہے کہ اہلِ علم کے نزدیک جو بات صحیح تر ہوتی ہے اسے پہلے معروف کے صیغے سے ذکر کر دیا جاتا ہے، اور جو غیر معتبر اقوال ہوں انہیں مجہول کے صیغہ قيل کے بعد لایا جاتا ہے۔ جیسا کہ یہاں ہے اور ایسے ہی دیگر مقامات اور دیگر مسائل میں بھی ہوتا ہے۔ لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ امام خازن رحمہ اللہ کے نزدیک حضرت قتادہ رحمہ اللہ اور ابن زید رحمہ اللہ کی تفسیر ہی زیادہ معتبر اور صحیح تر ہے۔ اور ان کے نزدیک یہاں ليلة مباركة سے رمضان المبارک والی ليلة القدر ہی مراد ہے نہ کہ نصف شعبان والی رات اور یہ دوسرا قول ضعیف ومرجوح ہے۔
تفسير جامع البيان :۔
تفسير جامع البیان میں جمہور اہل علم کا مسلک یہی ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے مراد رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے۔ البتہ مرجوح قول ذکر کرنے کے لیے یہ بھی لکھا ہے :
وعن بعض هي ليلة النصف من شعبان
(جامع البيان ص : 420)
بعض کے نزدیک اس سے نصف شعبان کی رات مراد ہے۔
تفسیر جلالین :۔
دوسری مختصر و جامع تفسیر جلالین میں تفسیر المدارك کے حوالے سے لکھا ہے۔
هي ليلة القدر أو ليلة النصف من شعبان
اس سے مراد رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے، یا پھر نصف شعبان والی رات۔
اور آگے اس لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس مبارک رات میں قرآن کریم ساتویں آسمان سے آسمان دنیا پر نازل ہوا ، اور پھر شعبان و رمضان کی دونوں راتوں کے بارے میں لکھا ہے :
والجمهور على الأول
(تفسیر جلالین : 410)
جمہور اہل علم کے نزدیک اس مبارک رات سے پہلی یعنی رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔
تفسير فتح القدير :۔
معروف محدث و مجتہد اور مفسر قرآن امام شوکانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر فتح القدیر میں لکھتے ہیں :
الليلة المباركة ليلة القدر كما فى قوله تعالى : إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ولها أربعة أسماء الليلة المباركة ليلة البراءة ليلة الصك وليلة القدر
الليلة المباركة سے مراد ليلة القدر ہے، جیسا کہ ارشاد الہی إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں مذکور ہے، اور اس کے چار نام ہیں : ليله مباركه ، ليلة البراءة ، ليلة الصك (یعنی قراردادوں کی رات) اور ليلة القدر
آگے چل کر لکھتے ہیں :
عکرمہ رحمہ اللہ نے اس سے نصف شعبان کی رات مراد لی ہے، مگر حق یہ ہے کہ صحیح بات وہی ہے جو جمہور کا مسلک ہے کہ اس سے لیلۃ القدر ہی مراد ہے، کیونکہ یہاں تو اللہ تعالیٰ نے مجمل ذکر فرمایا ہے، مگر سورۃ بقرۃ کی آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ میں واضح کر دیا ہے۔ اسی طرح سورة قدر کی آیت إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں بھی وضاحت موجود ہے۔ اور اس واضح بیان کے بعد کوئی وجہ ہی نہیں رہ جاتی کہ اختلاف کیا جائے۔ اور نہ ہی کسی شک وشبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ (فتح القدير 570/4 تفسیر آیت البقره 185 وسورة القدر)
تفسیر ابن عباس :۔
ترجمان القرآن حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہا سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس رات سے رمضان والی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔
تفسير كبير :۔
امام رازی رحمہ اللہ نے لیلۃ مبارکہ سے لیلۃ القدر مراد ہونے کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے :
القائلون بأن المراد من الليلة المباركة المذكورة فى هذه الآية هي ليلة النصف من شعبان فما رأيت لهم دليلا يعول عليه
(التفسير الكبير للامام الرازي)
جو لوگ کہتے ہیں کہ سورۂ دخان کی اس مذکورہ آیت میں لیلۃ مبارکہ سے مراد نصف شعبان کی رات ہے ، ان کے پاس کوئی قابلِ اعتماد دلیل نہیں ہے۔
تفسیر ابن کثیر :۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں جمہور کے مسلک کی ہی تائید کی ہے کہ اس رات سے مراد رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہی ہے۔
اور اس کے بعد لکھتے ہیں :
من قال إنها ليلة النصف من شعبان فقد أبعد النجعة فإن نص القرآن أنها فى رمضان
(ابن كثير، مختصر الرفاعی 19/4 طبع اول)
جو شخص اس رات کو پندرہ شعبان کی رات کہے اس کی بات دور کی کوڑی یا بعید از حقیقت ہے۔ کیونکہ نص قرآن سے ثابت ہے کہ وہ رات رمضان المبارک میں ہے۔
احکام القرآن :۔
اور قاضی ابو بکر ابن العربی رحمہ اللہ احکام القرآن میں رقمطراز ہیں :
جمهور العلماء على أنها ليلة القدر و منهم من قال إنها ليلة النصف من شعبان وهو باطل لأن الله تعالى قال فى كتابه الصادق القاطع : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنَ فنص على أن ميقات نزوله رمضان ثم عبر عن زمانية الليل ههنا بقوله : فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ و ليس فى ليلة النصف من شعبان حديث يعول عليه لا فى فضلها ولا فى نسخ الآجال فيها فلا تلفتوا إليها
(احکام القرآن 169/4 ، الابداع في مضار الابتداع ص : 291 وفوائد سلفية للأستاذ محمد عبدة الفلاح)
جمہور علماء کے نزدیک اس سے رمضان کی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔ اور پندرہ شعبان والا قول باطل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صادق اور قاطع نزاع کتاب قرآن کریم میں فرمایا ہے : رمضان المبارک ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نص مہیا فرمادی کہ نزول قرآن کا مہینہ ماہ رمضان ہے۔ پھر یہاں اُس رات کے وقت کو ان الفاظ میں تعبیر فرمایا کہ اس مبارک رات میں اور نصف شعبان والی رات کی فضیلت اور نسخ آجال یا تقدیر کے بارے میں کوئی قابل اعتبار و اعتماد حدیث نہیں ہے۔
ان تفسیری حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سورہ دخان کی آیت 3 میں مذکور رات رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے، نہ کہ 15 شعبان والی رات اور تفسیری کتب کی طرح ہی شروح حدیث میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ مثلاً :
معروف حنفی محدث ملا علی قاری ”مرقاۃ شرح مشکوۃ“ میں لکھتے ہیں :
بعض اسلاف کا خیال ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔ لیکن یہ قول نصوص قرآن کے مخالف ہے، کیونکہ قرآن کا نزول رمضان میں لیلۃ القدر میں ہے۔ لہذا ليلة المباركه سے بھی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔ اس طرح آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (بحوالہ تحفة الأحوذي 442/2)
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ تحفتہ الاحوذي شرح جامع ترمذی میں رقمطراز ہیں :
بے شک آیت إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ میں ليلة مبارکہ سے مراد جمہور کے نزدیک لیلۃ القدر ہے بعض اُسے نصف شعبان کی رات سمجھتے ہیں مگر یہ قول مرجوح وضعیف ہے۔(التحفة ايضا)
شب براءت منانے کے چھ طریقے :۔
سابقہ تفصیلات کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پندرہ شعبان کی رات کے یہ مروجہ نام، شب قدر یا شب براءت، کتب تفسیر و حدیث میں نہیں پائے جاتے ، اور اس رات کا جو ذکر آیا ہے وہ صرف نصف شعبان کی رات کے حوالہ سے ہے، اور جہاں تک اس رات کو منانے کا تعلق ہے، تو ہمارے یہاں اس کے پانچ مختلف انداز اور طریقے مروج ہیں :
اُس شام کو اچھے اور عمدہ کھانے یا حلوے مانڈے تیار کیے جاتے ہیں اور انہیں خود تیار کرنے والے ہی مل بیٹھ کر مزے لے لے کر کھا جاتے ہیں. آتش بازی اور چراغاں کیا جاتا ہے، خوب گولہ بارود چلایا اور فضول خرچی کی جاتی ہے۔
بعض لوگ اس رات کے استقبال کے لیے گھروں کو صاف کرتے اور خوب معطر کرتے ہیں، اور یہ سب اس عقیدہ کے پیش نظر کیا جاتا ہے کہ اس رات فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں۔
بعض جگہوں پر لوگ اس رات خصوصی اہتمام کے ساتھ اور بعض اوقات اجتماعی شکل میں قبرستان کی زیارت اور دعاء کے لیے جاتے ہیں۔ اس دن کا روزہ رکھا جاتا ہے۔ اس رات کو ذکر و عبادت کی جاتی ہے۔
پہلا طريقه : حلوے مانڈے پکانا کھانا :۔
جہاں تک اس پہلے طریقہ یعنی اچھے اور عمدہ کھانے اور حلوے مانڈے تیار کرنے اور کھانے کا تعلق ہے، تو یہ اسلامی تہواروں کی علامت سمجھے جاتے ہیں ، جبکہ نصف شعبان کی رات کو سرے سے اسلامی تہوار کہا ہی نہیں جا سکتا، اور اسے عیدین یا حج کی شکل دینا غلط ہے، اور اگر کوئی کہے کہ ہم تہوار سمجھ کر ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اچھے کھانے پکانا کسی بھی دن جائز نہ ہو؟ اس سلسلہ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بلا شبہ اسراف و تبذیر یعنی فضول خرچی کے ضمن میں نہ آنے والے کھانے تیار کرنے میں واقعی کوئی حرج نہیں، لیکن اگر یہ ہر روز یا اکثر ایام میں معمول ہو، اور اگر یہ صرف پندرہ شعبان کی شام کے ساتھ خاص کر دیا جائے تو معاملہ یقینا مشکوک سا ہو جاتا ہے، اور مشکوک سے احتراز ہی مؤمن کی شان ہے۔
اب ہر شخص اپنے عمل کا جائزہ خود لے سکتا ہے کہ وہ یہ حلوے تہوار سمجھ کر تیار کرتا ہے یا معمول کے مطابق ہی تیار کیے جاتے ہیں؟ ویسے بظاہر چرب لسانی سے چاہے کوئی کچھ بھی ثابت کرتا پھرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ تہوار ہی شمار کیا جاتا ہے، اور بعض حلوہ خور مذہبی پیشواؤں نے یہ رسم اپنے مخصوص مفادات کے لیے جاری کی ہے، جو اگر اس تہوار کے نظریہ سے معمول نہ رہے تو پھر یہ ہر گز جائز نہیں ہے۔
اور ایسی رسوم کو جاری کرنے کے لیے بڑے عجیب و غریب ثبوت بھی دیئے جاتے ہیں اور اس رات کو حلوہ پکانا سنت قرار دیا جاتا ہے، ایسے لوگوں کی تردید کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”ما ثبت بالسنۃ“ کے ص : 214 پر فضائل شعبان کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ اس رات سید الشہدا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ تناول فرمایا تھا ، یہ بالکل لغو اور بے اصل بات ہے، کیونکہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ غزوہ اُحد ماہِ شوال 3ھ میں واقع ہوا تھا نہ کہ شعبان میں ، لہذا یہ عقیدہ رکھنا کہ آج حلوہ ہی واجب اور ضروری ہے، بدعت ہے، بعض لوگ مسور اور چنے کی دال پکانے کا اہتمام کرتے ہیں، یہ بھی حلوہ کی طرح ہی ہے.
بس صحیح بات یہ ہے کہ حسب معمول کھانا پکانا چاہیئے ، اور اس رات کو تہوار نہیں بنانا چاہیئے۔
معروف حنفی عالم علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ کا اس رات کے حلوے کے بارے میں فتویٰ ہے کہ اس کے متعلق کوئی نص نفی یا اثبات میں وارد نہیں ، لہذا حکم شرعی یہ ہے کہ اگر پابندی رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لازم ہوگی ، ورنہ کوئی حرج نہیں۔ (فتاوی عبد الحي مترجم ص : 110)
ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”اقتضاء الصراط المستقيم“ میں فرمایا ہے :
وكذلك الخاده موسما تصنع فيه الأطعمة و تظهر فيه الزينة هو من المواسم المحدثة التى لا أصل لها
(اقتضاء الصراط المستقيم : 62/2)
اور اسی پندرہ شعبان کی رات کو تہوار منانا، کھانے پکانا اور زیب و زینت کا اظہار کرنا بھی ہے ، اور یہ سب بدعات کے قبیل سے ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہے۔
دوسرا طريقه : چراغاں و آتش بازی کرنا، دین کو کھیل تماشہ بنانا :۔
شب براءت کے منانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس رات بڑے زور وشور سے آتش بازی کی جاتی ہے ، گولہ بارود چلایا جاتا ہے، پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں موم بتیاں اور شمعیں جلا کر چراغاں کیا جاتا ہے، اس کا آغاز اور اسبابِ آغاز حتی کہ اس کے جانی و مالی نقصانات بالتفصیل جشن معراج کے ضمن میں ذکر ہو چکے ہیں، اور اُس پر مستزاد یہ کہ آتش بازی کے ساتھ کسی دن یا تہوار منانے کا اسلام میں سرے سے کوئی تصور ہی نہیں، بلکہ شرعا یہ افعال قبیح و مذموم ہیں ، کیونکہ ضرورت سے زیادہ کسی جگہ بھی روشنی کرنا اور لا تعداد شمعیں جلانا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ اسراف و تبذیر اور صریح فضول خرچی ہے، جسے اللہ نے قرآن کریم میں ممنوع قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت : 26۔27 میں ارشاد الہی ہے :
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿٢٦﴾ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (سورۃ الاسراء : 26-27)
اور بے جا فضول خرچی نہ کرو، بیشک بے جا مال اُڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔
یہاں اسراف و تبذیر یا فضول خرچی کو ایک شیطانی فعل اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی اور پیرو کار کہا گیا ہے، کیونکہ جو شخص اپنے مالک حقیقی کے دیئے ہوئے مال کو اس کی نافرمانی میں خرچ کرتا ہے، وہ شیطان ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
حضرت محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنے تفسیری حواشی موضح القرآن میں فرماتے ہیں :
یعنی مال بڑی نعمت ہے اللہ کی ، جس سے خاطر جمع ہو عبادت میں اور درجے بڑھیں بہشت میں ، اس کو بے جا اڑانا نا شکری ہے۔
جس طرح تبذیر کی قباحت و ممانعت آئی ہے، ایسے ہی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اسراف کی مذمت کی گئی ہے۔ جیسا کہ سورہ انعام کی آیت : 141 میں ارشاد الہی ہے :
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (سورۃ الانعام : 141)
اور اپنے مال کو بے جامت اڑاؤ، کیونکہ بے شک اللہ تعالی بے جامال اڑانے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
سورۃ اعراف کی آیت : 31 میں فرمایا :
كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (سورۃ الاعراف : 31)
کھاؤ اور پیو، اور اڑاؤ نہیں ، کیونکہ اللہ تعالی اڑانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
سورۃ فرقان کی آیت : 67 میں مؤمنوں اور اللہ والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا (سورۃ الفرقان: 67)
اور وہ لوگ بھی اللہ کے محبوب بندے ہیں جو خرچ کرتے وقت بیکار اپنا پیسہ نہیں اڑاتے اور نہ ہی تنگی کرتے ہیں کہ جائز ضرورت میں بھی نہ اٹھائیں اور ان کے بیچ بیچ میں ان کا خرچ رہتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تبذیر اور اسراف میں فرق ہے، حلال و جائز مقام پر حد اعتدال اور ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے، جبکہ حرام و ناجائز مقام پر خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے اور اس کے لیے قلیل و کثیر کی کوئی حد نہیں بلکہ اگر ایک پیسہ بھی خرچ کرے گا تو حرام ہوگا اور ایسا شخص شیطان کا بھائی اور پیرو کار ٹھہرے گا۔
علاوہ ازیں یہ آتش بازی و چراغاں دین حق کے ساتھ ایک صریح اور بھونڈا مذاق ہے، اور دشمنان دین کی سازشی کاروائیوں کو عملی جامہ پہنا کر اُن سے تعاون اور اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے ، اور اپنے دین کو لہو ولعب یا کھیل تماشا بنا دینا عذاب الہی کو آواز دینے والی بات ہے۔ قرآن کریم پڑھ کر دیکھیں کہ پہلی قوموں میں سے جن اقوام نے اپنے دین کو تماشا بنایا ان کا کیا انجام ہوا؟ اور انہیں کن کن عذابوں میں مبتلا کیا گیا؟ ہمیں اُن قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے ورنہ عذاب الہی کوئی دور نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں سورہ انعام کی آیت : 70 میں ارشاد الہی ہے :
وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ(سورۃ الانعام : 70)
چھوڑ ان لوگوں کو جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں مبتلا کیے ہوئے ہے، ہاں انہیں یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہیں کہ کہیں کوئی شخص اپنے کرتوتوں کے بدلے میں گرفتار نہ ہو جائے اور اگر گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور اگر وہ ہر ممکن چیز بھی فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجہ میں پکڑے جائیں گے، ان کو اپنے انکار حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پینے کو پانی اور دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا۔
اورسورۃ اعراف کی آیت: 50 51 میں ارشاد الہی ہے:
وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٥٠﴾ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَٰذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (سورۃ الاعراف : 50-51)
اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ تعالی نے تمہیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو، وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں ان منکرین حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے : آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔ ان آیات میں اقوام ماضی اور اہل سابقہ کو جو وعید سنائی گئی ہیں، ہمیں اُن سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے اور اپنے دین کو آتش بازی اور چراغاں وغیرہ سے کھیل تماشا نہیں بنا لینا چاہئے۔
تیسرا طريقه : گھروں کی صفائی اور فوت شدگان کی روحوں کی آمد کا نظریہ :۔
پندرہ شعبان کی رات کو منانے کا تیسرا مروجہ طریقہ یہ ہے کہ اس رات کے استقبال کے لیے گھروں کو صاف کیا جاتا ہے، اور صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ سجاوٹ کی جاتی ہے، اور اس میں یہ عقیدہ کار فرما ہوتا ہے کہ فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں۔
اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ صفائی ستھرائی اپنے بدن کی ہو لباس و پوشاک کی ہو ، یا گھر کی ، یہ سب چیزیں اسلام میں مرغوب و محبوب ہیں۔ بلکہ اسلامی تعلیمات میں تو اسے جزو ایمان قرار دیا گیا ہے، اور مختلف طریقوں سے اس کی ترغیب دلائی گئی ہے حتی کہ ایک صحیح حدیث شریف کا جزو اول تو زبان زد خاص و عام ہے، جس میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
الطهور شطر الإيمان
(مختصر مسلم : 120 ، مسند احمد 342/5 ، صحیح ترمذی 2791 صحيح الجامع : 3957)
طہارت و پاکیزگی ایمان کا ایک حصہ ہے۔
اس حدیث کا اطلاق مسلمانوں کی پوری زندگی کے ہر ماہ و سال اور شب و روز پر ہوتا ہے، تو پھر اس حکم کو صرف ایک رات کے ساتھ خاص کیوں کیا جائے ؟ اور پھر جمعہ وعیدین کے دنوں میں اللہ ورسول اللہ کو بطور خاص طہارت و پاکیزگی مطلوب تھی تو اُس کا الگ سے حکم موجود ہے لیکن اس رات کے استقبال کے لیے اس فعل کی بطور خاص کوئی دلیل نہیں ، ہاں اگر مطلق حکم طہارت پر عمل پیرا ہونے کی مسلسل توفیق حاصل ہو تو حسب معمول اس رات میں بھی کوئی حرج نہیں، اور اگر تہوار سمجھ کر اور روحوں کی آمد کے عقیدہ سے ہو تو پھر جب یہ دونوں ہی چیزیں بے دلیل ہیں تو ہمارا یہ فعل بھی کسی تردید کا محتاج نہیں رہتا.
پندرہ شعبان کی شام کو گھروں کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کی تہہ میں کار فرما نظریہ ، کہ اس رات فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں ، یہ عقیدہ سراسر باطل ہے ، قرآن وسنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ، مرنے کے بعد کسی کی روح کا واپس آنا نہ شعبان کی اس رات میں ممکن ہے اور نہ کسی دوسرے دن میں ، ہمارے برصغیر کے معاشرے میں مخصوص حلوہ کھانے اور کھلانے کے شوقین بعض مذہبی پیشواؤں نے تو اپنے مخصوص مفادات کے لیے روحوں کی آمد ورفت کا با قاعدہ ایک چارٹ مہیا کر رکھا ہے جس کے مطابق وہ عوام سے فوت شدگان کے نام پر کھاتے ، پیتے اور کپڑے کی شکل میں نذرانے وصول کرتے رہتے ہیں۔
اُن حضرات کے مطابق تیجے یعنی تیسرے ساتویں یعنی ساتویں اور دسویں دن حتی کہ میت کی روح چالیس دن تک مسلسل اپنے گھر آتی رہتی ہے، اور پھر مومنین کی روحیں ہر ہفتہ میں ایک دن یعنی جمعرات کو اور ہر سال میں ایک رات یعنی شب براءت کو آتی ہیں اور ان کا ایک سالانہ میلہ شاید برسی کے دن ہوتا ہوگا۔
یہ نظریہ و عقیدہ اہل سنت کے متفقہ عقائد کی رو سے صحیح نہیں بلکہ باطل ہے، کیونکہ فوت شدگان برزخی زندگی سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور عالم برزخ کا عالم دنیا سے کوئی تعلق نہیں رہتا ، اور کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ اس رات روھیں اپنے گھروں میں واپس آتی ہیں بلکہ قرآن کریم ، سورہ مومنون کی آیت : 99 – 100 میں تو اس کی واضح تردید موجود ہے۔ بد عملی میں مبتلا لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے افعال سے باز نہ آئیں گے :
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ﴿٩٩﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (سورۃ المؤمنون : 99-100)
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کر دے گا کہ اے میرے رب ! مجھے اس دنیا میں واپس بھیج دے، اُمید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا جسے چھوڑ آیا ہوں۔ ہرگز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب مرنے والوں کے پیچھے برزخ پردہ حائل ہے، جو دوسری زندگی کے لیے اٹھائے جانے کے دن قیامت تک رہے گا۔
بعض لوگ تیسویں پارے کی سورۃ القدر کے الفاظ :
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا (سورۃ القدر: 4)
سے دھوکہ کھاتے یا مغالطہ دیتے ہیں اور ان الفاظ کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ اس رات یعنی لیلۃ القدر میں فرشتے اور روحیں اُترتی ہیں ، اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے روحوں کا اترنا ہی مراد ہے ، حالانکہ اول تو وہاں مذکورہ رات سے مراد رمضان المبارک والی رات لیلۃ القدر ہے نہ کہ شعبان والی ، دوسرے یہ کہ ان اور ایسے ہی دیگر الفاظ میں رُوح سے مراد فوت شدگان کی روحیں نہیں بلکہ روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام مراد ہیں۔
اور پھر اسی ایک آیت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو روح سے تعبیر نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کریم کے دیگر متعدد مقامات پر بھی انہیں روح الامین اور روح القدس کے ناموں سے ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت : 87 اور 253 میں روح القدس سے مراد جبرائیل ہے یا وحی الہی کا علم ہے اور بعض کے نزدیک خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی روح پاک مراد ہے جسے اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا، پھر سورۂ مائدہ کی آیت : 110 میں بھی یہی بات مذکور ہے، سورہ نحل کی آیت : 2 میں روح سے مراد روح نبوت یا علم وحی ہے فوت شدگان کی روحیں نہیں ، سورہ نحل ہی کی آیت 102 میں روح القدس حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، سورۂ شعراء کی آیت : 193 ، سورہ معارج کی آیت : 4 اور سورہ نباء کی آیت : 38 میں روح الامین اور روح سے مراد بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔
الغرض اُوپر سے نیچے اترنے اور نیچے سے اوپر چڑھنے کے حوالہ سے قرآنِ کریم میں جہاں کہیں بھی روح کا لفظ استعمال ہوا ہے ، وہاں روح الامین حضرت جبریل علیہ السلام ہی مراد ہیں نہ کہ فوت شدگان کی روھیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شعبان کی شام کو روحوں کی آمد اور ان کے استقبال کی نیت سے جھاڑ پونچھ ، صفائی ستھرائی اور تزئین و سجاوٹ کرنا محض ایک خود ساختہ عقیدہ ہے، جسے قرآن وسنت سے کوئی دلیل نصیب نہیں لیکن اگر کوئی بلکہ عموما لوگ روزانہ ہی صفائی کرتے ہیں ، وہ حسب معمول ہی اس شام بھی کرتے ہیں تو پھر کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ایک مرغوب فعل ہے۔
چوتھا طريقه : اجتماعی شکل میں زیارت قبور :۔
نصف شعبان کی رات کو منانے کا چوتھا طریقہ یہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ اس رات خصوصی اہتمام کے ساتھ اور اجتماعی شکل میں قبرستان کی زیارت کے لیئے جاتے ہیں۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یوں تو کسی بھی دن یا کسی بھی رات مسنون طریقہ سے زیارت جائز ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کی ترغیب دلائی ہے کہ یہ فکر موت و ذکر آخرت میں معاون ہوتی ہے ، اور زیارت کے وقت جو دعاء ہے، وہ بھی صحیح احادیث میں ثابت ہے، اور زیارت قبور کی تین قسمیں ہیں ، جن میں سے شرکیہ اور بدعیہ کو چھوڑ کر صرف شرعیہ کے پیش نظر محض موقع بموقع صرف اپنے گاؤں کے قریبی قبرستان میں جایا جاسکتا ہے، لیکن وہ بھی صرف انفرادی شکل میں ہو تو مفید مطلب ہے اور یہ زیادہ عبرت انگیز بھی ہوگی ، اور جب بہت سارے لوگ مل کر قبرستان میں جائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہیں وہ عبرت حاصل نہیں ہو سکتی جو اکیلے شخص کے لیے ممکن ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس بات پر شاہد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غرض سے جو زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے تو اکیلے تھے ، با جماعت نہیں تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو زیارت کے لیے اکیلے جائیں اور ہم با جماعت وہاں جا نکلیں تو یہ اتباع نہیں ابتداع ہے ، سنت نہیں بدعت ہے، باعث ثواب نہیں موجب عذاب ہے، اور پھر نصف شعبان کی اس رات کی فضیلت کے پیش نظر بطور خاص زیارت کے لیے جانا کسی صحیح حدیث سے ثابت بھی نہیں ، اور اس سلسلہ میں جو روایت بیان کی جاتی ہے، محدثین نے اس کی سند پر کلام کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے، خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بیان کرنے کے بعد ذکر کیا ہے کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو سنا کہ وہ اس روایت کو ضعیف کہتے تھے ، اور آگے اس کی سند میں پائے جانے والے دو جگہوں کے انقطاع کو بیان کیا ہے کہ اس کی سند میں حجاج اور یحیی کے مابین اور پھر یحیی اور عروہ کے مابین بھی انقطاع ہے کیونکہ یحیی نے عروہ سے نہیں سُنا ، اور حجاج نے یحیی سے نہیں سنا۔ (ترمذی مع التحفه 441/3 ، ضعيف الترمذي : 119 ، ضعيف أبن ماجه: 295، ضعيف الجامع : 1761 ، مشكوة : 1299،مسند احمد 2/238)
نیز اس روایت کی سند میں مذکور ایک شخص حجاج بن ارطاۃ ہے جو کہ مدلس شمار کیا گیا ہے، اور کوئی مدلس راوی اگر کسی روایت کو بیان کرتے ہوئے یہ کہے کہ میں نے فلاں سے سنا تو وہ روایت مقبول ہوتی ہے ورنہ نہیں ، جبکہ اس روایت میں حجاج نے ایسا بھی نہیں کہا، بلکہ یہ تحدیث کی بجائے عنعنه (عن فُلان … کے انداز) سے مروی ہے، امام بخاری نے بھی اسے غالباً انہی دونوں وجوہات کی بناء پر ضعیف قرار دیا ہے۔(بحواله الصحيحة للألباني 138/3 ، تحقيق المشكوة 406/1)
لہذا محض اس روایت کو بنیاد بنا کر پندرہ شعبان کی رات جوق در جوق اجتماعی شکل میں اور باجماعت زیارت قبور کے لیے جانا درست نہیں ہوگا۔ البتہ حسب معمول اگر کوئی شخص مشروع طریقہ سے زیارت کے لیے جاتا ہے تو اُس کا معاملہ دوسرا ہے۔
سابقہ تفصیلات سے آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ کتنے ہی امور ایسے ہیں جو فی نفسہ جائز تو ہیں مگر ہم لوگوں نے انہیں اپنی اصل حالت میں نہیں رہنے دیا، بلکہ ان پر اپنا رنگ چڑھا لیا ہے جس کی وجہ سے وہ مسنونات کے دائرہ سے نکل کر دوسرے دائرہ بدعات میں شمار ہونے لگے ہیں۔ قابل توجہ بات صرف اتنی سی ہے کہ دین جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اُسے اسی طرح ہی اختیار کیا جائے تو ثواب ہوگا ، اور اگر اپنی طرف سے اس میں سرِ مُو بھی فرق اور تصرف کریں گے تو معاملہ بگڑ جائے گا۔
پانچواں طریقه : نصف شعبان کا روزہ :۔
پندرہ شعبان کی رات المعروف شب براءت کو منانے کا پانچواں طریقہ یہ ہے کہ اس دن کا روزہ رکھا جاتا ہے اور رات کو ذکر و عبادت کے لیئے مخصوص کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ معروف و معمول یہ طریقہ یہی ہے، لہذا آئیے پہلے دیکھیں کہ اُس دن کا جو روزہ رکھا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
اس سلسلہ میں پہلے وہ باتیں مستحضر کر لیں جو ہم نے اس موضوع کو شروع کرتے وقت ذکر کی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلا تخصیص یوم ، اس ماہ شعبان کے بکثرت روزے رکھا کرتے تھے ، اور جو شخص صوم داؤدی یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کا عادی ہو ، وہ اس ماہ کے حسب معمول روزے رکھ سکتا ہے ، اس میں چاہے پندرہ شعبان کا روزہ بھی ہو ، چاہے رمضان سے ایک یا دو دن قبل کا روزہ بھی کیوں نہ آجائے اور وہ شخص جو ہر ماہ ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھتا آرہا ہے وہ بھی بلا اختلاف اس دن کا روزہ رکھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف پندرہ شعبان کا روزہ نہیں رکھے گا بلکہ ساتھ ہی تیرہ اور چودہ کا بھی رکھے گا ، اور وہ صرف ماہ شعبان میں ہی ایسا نہیں کر رہا، بلکہ وہ سال بھر کے تمام مہینوں میں مسلسل یہی عمل کرتا آرہا ہے۔
اور اسی طرح ہی جو شخص ہر ہفتہ میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتا آیا ہے وہ پندرہ شعبان کو پیر یا جمعرات کا دن آجانے کی شکل میں روزہ رکھ سکتا ہے، اسے کوئی ممانعت نہیں، اور پیر یا جمعرات کا دن رمضان سے ایک یا دو دن قبل آجائے تو بھی اسے حسب معمول اس کا روزہ رکھ لینے کی اجازت ہے، ورنہ پندرہ سے لے کر آخر شعبان تک غیر عادی اور عام آدمی کو روزہ رکھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اور وہ حدیث حوالہ جات و ترجمہ سمیت متعلقہ مقام پر ذکر کی جاچکی ہے۔
من گھڑت روایت :
خاص پندرہ شعبان کا روزہ رکھنے کے لیے بھی بعض روایات بیان کی جاتی ہیں جن سے استدلال کیا جاتا ہے کہ پندرہ شعبان کا روزہ ثابت ہے جبکہ ایک روایت اس قدر ضعیف و کمزور ہے کہ اس سے استدلال کرنا ہی جائز نہیں، یہی وجہ ہے کہ محدث برصغیر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم أجد فى صوم يوم ليلة النصف من شعبان حديثا صحيحا مرفوعا
(تحفة الأحوذي : 444/3)
نصف شعبان کے دن کے روزے کے بارے میں کوئی ایک بھی صحیح سند والی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے والی مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فأما صوم يوم النصف مفردا فلا أصل له بل إفراده مكروه
(اقتضاء الصراط المستقيم ص : 628)
صرف اکیلے پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا لا اصل ہے، بلکہ یہ مکروہ ہے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ و امام شوکانی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو موضوع ومن گھڑت قرار دیا ہے۔(اللآلي المصنوعه للسيوطي 60/2 ، الفوائد المجموعة للشوکانی : 51-50)
پھلی روایت :۔
اور جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ، اور ابن ماجہ میں ہے۔ اس میں ہے :
إذا كان النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى السماء الدنيا فيقول ألا من مستغفر فأغفر له ألا من مسترزق فأرزقه ألا من مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا حتى يطلع الفجر
(ابن ماجه : 1388)
جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن کو روزہ رکھو، بے شک اللہ تعالی اس رات غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر اتر آتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں ؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے رزق سے نوازوں؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اسے عافیت بخش دوں؟ کیا کوئی فلاں فلاں حاجت والا ہے کہ اس کی حاجت پوری کردوں؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جائے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف ہی نہیں بلکہ من گھڑت کہا ہے۔ (ضعيف الجامع : 752 ، تحقيق المشكوة 410/1 ، ضعیف ابن ماجه : 294)
اس حدیث کو حافظ منذری رحمہ اللہ نے ”الترغیب و الترهيب“ میں رُوِيَ کے صیغہ تمریض و تضعیف سے ذکر کیا ہے۔
”مصباح الزجاجه في زوائد ابن ماجہ“ میں علامہ بوصیری رحمہ اللہ نے کہا ہے :
إسناده ضعيف لضعف ابن أبى سبرة واسمه أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبى سبرة
اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی میں سے ایک راوی ابن ابی سبرہ ضعیف ہے جس کا پورا نام ابوبکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابي سبرة ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ روایات وضع کیا کرتا تھا یعنی من گھڑت باتوں کو حدیث کے نام سے بیان کیا کرتا تھا۔ (تعليق محمد فواد عبد الباقي علٰى ابن ماجه 444/1)
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے ”تحفة الاحوذی“ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :
اس کی سند میں ایک راوی ابو بکر بن عبد الله بن محمد بن ابی سبرة قرشی عامری مدنی ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام عبد اللہ ہے اور محمد بھی کہا گیا ہے اور کبھی وہ اپنے دادا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے. اور ”تقریب التهذیب“ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : رموه بالوضع اس پر محدثین نے من گھڑت روایات بیان کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اور مولانا سید امیر علی رحمہ اللہ نے ”تعقيب التقریب“ میں اس کے ضعیف ہونے پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔ (التقريب ص: 575 و التحفة 442/3)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ”میزان الاعتدال“ میں ذکر کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر کبار محدثین نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ کے فرزندان گرامی عبد اللہ اور صالح نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ یہ روایات گھڑا کرتا تھا ، اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔(حوالہ تحفة الاحوذی 442/3)
دوسری روایت :۔
ایک دوسری روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہے جس میں ہے :
فإن أصبح فى ذلك اليوم صائما كان كصيام ستين سنة ماضية وستين سنة مقبلة
جو آدمی اس دن پندرہ شعبان کا روزہ رکھے گا، اسے ساٹھ گزشتہ سالوں اور ساٹھ آئندہ سالوں کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
یہ روایت امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے جعلی ومن گھڑت حدیثوں پر مشتمل اپنی کتاب ”الموضوعات“ یعنی جعلی حدیثوں میں ذکر کی ہے ، اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
موضوع وإسناده مظلم
(التحفه 444/3 ، بحوالہ تذکار صحابیات، طالب الہاشمی ص : 127)
یہ موضوع ومن گھڑت روایت ہے اور اس کی سند تاریک و سیاہ ہے۔
لہذا یہ پندرہ شعبان کا روزہ شروع میں ذکر کیے گئے اسباب کی بناء پر رکھا جائے تو جائز و روا ہے، اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہو اور محض مذکورہ روایات کو بنیاد بنا کر اس دن کا روزہ رکھا جائے تو ناجائز و ناروا ہے، کیونکہ یہ من گھڑت اور ضعیف روایات قابل استدلال نہیں ہیں۔
چھٹا طريقه : نصف شعبان کی رات کو قیام :۔
باقی رہا اس رات کو منانے کا چھٹا طریقہ یعنی رات کو قیام کرنا ، ذکر واذکار میں شغول ہونا اور ایک مخصوص نماز ادا کرنا تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ رات بہر حال عام راتوں کی نسبت قدرے فضیلت والی ہے، جس کا اندازہ متعلقہ روایات کے مجموعی مفاد سے لگایا جا سکتا ہے، ان احادیث سے اس رات کی فضیلت کا تو اندازہ ہو جاتا ہے مگر ان میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جس سے اس طرف اشارہ ملتا ہو کہ اس رات میں تہوار منایا جائے ، شب بیداری کا اہتمام کیا جائے اور مخصوص شکل وصورت اور کمیت و کیفیت کی نمازیں ادا کی جائیں جیسا کہ آج کل رواج ہے۔
نصف شعبان کی رات والی مخصوص نمازیں :۔
صلوة الخير یا صلوة الألفيه
ماہ شعبان کی درمیانی یا پندرھویں رات کو ہی ایک مخصوص نماز پڑھی جاتی ہے، جسے صلوۃ الخیر اور صلوۃ الألفیہ بھی کہا جاتا ہے۔ (الابداع للشیخ على المحفعظ ص : 289 ، اقتضاء الصراط المستقيم لابن تیمیه 628/2)
اس کے بارے میں کثیر محدثین و مجتہدین علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ اپنی ایک دوسری کتاب ”المجموع شرح المهذب“ میں فرماتے ہیں :
صلوۃ الرغائب کے نام سے معروف نماز جو ماہ رجب کی پہلی جمعرات کی رات کو مغرب اور عشاء کے مابین پڑھی جاتی ہے، جس کی بارہ رکعتیں ہوتی ہیں۔ اور پندرہ شعبان کی رات کو ایک نماز سو رکعتوں پر مشتمل پڑھی جاتی ہے، یہ دونوں نمازیں بد ترین بدعت ہیں ، اور کتاب ”قوت القلوب“ اور ”احیاء علوم الدین“ میں ان نمازوں کے مذکور ہونے سے دھوکہ نہ کھایا جائے ، اور ان نمازوں کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت سے بھی دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔
کیونکہ یہ سب باطل ہیں ، اور اہل علم میں سے ایک صاحب پر ان نمازوں کی حقیقت و شرعی حیثیت مشتبہ ہوگئی ، اور انھوں نے چند اوراق پر مشتمل ایک رسالہ بھی لکھ مارا جس میں ان نمازوں کا استحباب ذکر کر دیا ، اس رسالہ سے بھی دھوکہ نہ کھایا جائے کیونکہ وہ زلات العلماء کے قبیل سے ہے اُس میں انھوں نے مغالطہ سے کام لیا ہے اور شیخ الاسلام ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعیل المقدسی رحمہ اللہ نے ان کی رد میں ایک نفیس کتاب لکھی ہے جس میں بڑے عمدہ طریقے میں ان کا بطلان ثابت کیا ہے۔(الابداع للشيخ على محفوظ ص : 288)
امام ابو بکر طرطوشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الحوادث و البدع“ میں امام ابو محمد عبد الرحمن مقدسی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
بیت المقدس میں یہ نماز ”صلوۃ الرغائب“ نہیں پڑھی جاتی تھی جو کہ رجب میں پڑھی جاتی ہے، اور نہ پندرہ شعبان کی رات والی نماز کا رواج تھا۔
وأول ما حدثت عندنا صلاة شعبان فى سنة ثمان وأربعين وأربع مائة
اور یہ شعبان والی نماز تو 448 ھ میں ایجاد کی گئی۔
اور آگے بیت المقدس میں اس نماز کے آغاز کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
نابلس سے ایک شخص ابن ابی حمراء بیت المقدس میں آیا جو بڑا خوش الحان قاری تھا، اس نے مسجد اقصیٰ میں یہ نماز پڑھانا شروع کی، پہلے پہل اس کے ساتھ صرف ایک ہی آدمی تھا، پھر دوسرا تیسرا چوتھا مل گیا اور نماز مکمل کرنے تک ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ مل گئی ، اور وہی شخص آئندہ سال بھی آیا تو اس کے ساتھ ایک خلق کثیر نے نماز پڑھی اور اس کا چرچا مسجدوں اور گھروں میں عام ہو گیا ، اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک اسے پابندی سے ادا کیا جارہا ہے جیسے کہ وہ کوئی مسنون عمل ہو۔
امام طرطوشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام مقدسی رحمہ اللہ سے پوچھا :
کیا آپ نے لوگوں کو یہ نماز با جماعت ادا کرتے خود دیکھا ہے؟ تو انھوں نے کہا : ہاں ، اور اس پر اللہ سے مغفرت کی بھی دعاء فرمائی اور استغفر الله کہا۔(الابداع للشيخ على محفوظ ص : 288)
ان کا یہ استغفار غالبا اس بناء پر ہوگا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک بدعت کو مروج دیکھا مگر اسے روک نہ سکا۔
بدعات کا محاسبہ کرنے والے علماء امت میں سے امام شہاب الدین المعروف ابو شامہ رحمہ اللہ نے ماہ رجب والی ”صلوۃ الرغائب“ اور اس شعبان والی نماز جسے انھوں نے ”الصلوۃ الالفیہ“ کہا ہے، ان دونوں کی پر زور تردید کی ہے، اور ثابت کیا ہے کہ یہ بدعت ہیں ، اور ان کے بارے میں پائی جانے والی اور بیان کی جانے والی روایات ضعیف اور موضوع ومن گھڑت ہیں۔ (الباعث على انكار البدع والحوادث لابي شامه ص: 33تا39)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
جامع مسجد ، محلوں ، راستوں اور بازاروں کی دیگر مساجد میں یہ جو ”الصلوۃ الألفیہ“ کے لیے اکٹھا ہوا جاتا ہے، یہ محدث و بدعت ہے اور یہ اجتماع جو ایک مقررہ وقت مقررہ رکعات اور مقررہ قراءت والی نفلی نماز کے لیے ہے ، یہ غیر مشروع اور بدعت ہے۔ اور اس کا پتہ دینے والی روایت اہل علم حدیث کے اتفاق کے ساتھ من گھڑت ہے۔ (الاقتضاء 628/2 ، 635)
ابن الجزری رحمہ اللہ نے ”الحصن الحصین“ میں مذکورہ روایت کی سند کو موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔(بحوالہ الابداع ص : 288)
وجه تسميۃ الصلوۃ الالفيۃ :۔
الصلوۃ الالفيۃ یا ہزاری نماز کا نام رکھے جانے کی وجہ در اصل یہ ہے کہ اس کی سو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور ہر رکعت میں دس مرتبہ : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (سورۃ الاخلاص : 1) پڑھی جاتی ہے ، اس طرح ایک نماز میں ہزار مرتبہ سورہ اخلاص کے پڑھے جانے کی وجہ سے اسے ہزاری نماز کا نام دیا گیا ہے۔(الباعث على انكار البدع والحوادث ص : 32)
بدعات کے موضوع پر غالبا سب سے پہلے لکھی جانے والی کتاب ”البدع و النهي عنها“ میں اُس کے مؤلف امام محمد بن وضاح القرطبی رحمہ اللہ جو کہ تیسری صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں ، اس پندرہ شعبان کی رات کے بارے میں اپنی سند کے ساتھ دو روایتیں لاتے ہیں، جن میں سے پہلی میں وہ عبد الرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ہمارے مشائخ وفقہاء نصف شعبان کی رات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیا کرتے تھے اور نہ ایسی باتوں یا نمازوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
اور دوسری روایت میں ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں بتایا گیا کہ زیاد النمیری کہتا ہے کہ نصف شعبان کی رات کا ثواب رمضان کی لیلۃ القدر جتنا ہے، تو ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ نے کہا :
لو سمعت منه وبيدي عصا لضربته بها وكان زياد قاضيا
(البدع و النهى عنها ص : 46)
اگر میں اُس سے یہ بات سنتا اور اُس وقت میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو میں اسے اس سے مارتا ، جبکہ یہ زیاد اس وقت قاضی کے عہدے پر فائز تھا۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ نے ”تخریج احیاء علوم الدین“ میں پندرہ شعبان کی رات والی اس نماز کے بارے میں وارد کی جانے والی روایت کے بارے میں لکھا ہے :
حديث صلاة ليلة النصف حديث باطل
(المغنى عن حمل الاسفهاء في الاسفار على هامش الاجياء 182/1 ، والتحذير من البدع لابن باز ص : 18)
نصف شعبان کی رات والی نماز کی حدیث باطل ، (یعنی خود گھڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی) ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے من گھڑت حدیثوں کو اپنی ایک کتاب میں جمع کیا ہے، اُس میں مذکورہ سو رکعت والی نماز پر مشتمل روایت کو انھوں نے جعلی و خود ساختہ قرار دیا۔ اور اس کی متعدد اسناد ذکر کر کے اُن کے راویوں کے مجہول ہونے کی بناء پر انہیں من گھڑت کہا ہے۔ (الفوائد المجموعة في الاحاديث الموضوعة ص:51-50)
امام سیوطی رحمہ اللہ نے من گھڑت روایات کے مجموعے پر مشتمل اپنی کتاب میں نصف شعبان کی رات میں پڑھی جانے والی سو رکعتوں والی مسند الفردوس دیلمی کی روایت کو موضوع کہا ہے اور ذکر کیا ہے کہ اس کی سند کے تمام راوی مجہول ہیں ، اور اس کے ساتھ ہی بارہ رکعتوں اور چودہ رکعتوں والی نمازوں پر مشتمل روایات کو بھی موضوع و من گھڑت قرار دیا ہے۔(اللالي المصنوعة في الاحاديث الموضوعة 58/2-59 و التحذير من البدع لابن باز ص: 14)
امام ابن رجب رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ تابعین میں سے بعض اہل شام مثلاً خالد بن معدان، مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہم اس رات کی عبادت و تعظیم کیا کرتے تھے ، اور اہل بصرہ کے بعض عابد و زاہد قسم کے لوگ بھی اُن کے موافق ہو گئے ، مگر اکثر علمائے حجاز مثلاً عطاء ابن ابی ملیکہ اور عبد الرحمن بن زید بن اسلم کے بقول فقہاء اہل مدینہ اور اصحاب امام مالک رحمہم اللہ نے اس کا انکار کیا ہے اور اسے بدعت قرار دیا ہے۔(لطائف المعارف ص : 142)
مذکورہ تابعین خالد و لقمان اس رات باجماعت نفل پڑھا کرتے تھے، عمدہ لباس پہنتے ، خوشبو لگاتے اور سرمہ بھی لگاتے تھے، اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے، جبکہ امام وعالم اور فقیہ شام امام اوزاعی رحمہ اللہ مساجد میں باجماعت نفل پڑھنے ، دعائیں کرنے اور قصے پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے ، اور اگر کوئی شخص انفرادی طور پر کچھ نفل و نوافل پڑھ لے تو اسے مکروہ نہیں کہتے تھے ، اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اسی کو (اقرب) قرار دیا ہے۔ (التحذير من البدع ص : 14)
یہ تو بعض تابعین و علماء کا اختیار ہے مگر جو کام خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت نہ ہو، اس میں جواز یا استحباب کہاں سے آئے گا ؟ اور موقع آنے اور کوئی امر مانع بھی نہ ہونے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایسے نہ کرنے سے کسی فعل کی غیر مشروعیت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔
المختصر شعبان کی پندرھویں رات میں پڑھی جانے والی مخصوص عدد کی رکعات اور مخصوص عدد کی سورۃ الاخلاص والی نمازیں کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، نہ با جماعت نہ بلا جماعت ، نہ سرا نہ جہراً ، اور اس رات بعض مخصوص دعائیں يا ذا المن اور الهى بالتجلي الأعظم مانگی جاتی ہیں جو کہ خود ساختہ ہیں۔ (الابداع ص : 290، حاشیه مختصر ابن کثیر : 19/4)
اب مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس رات کو کسی خاص طریقے سے منانے کا ثبوت نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں لیکن آتش بازی و چراغاں جیسے لہو ولعب حلوے مانڈے کے شغل ، دن کے روزے اور رات کی خود ساختہ اور مخصوص کیفیت و کمیت کی جعلی نمازوں سے قطع نظر، انفرادی طور پر کوئی ذکر و دعاء اور مطلق نفلی عبادت کر لیتا ہے تو اسے مطعون اور برا بھلا نہ کہا جائے لیکن اگر وہ ان رسوم کی پابندی کرتے ہوئے ایسا کرے تو پھر یہ بہر حال درست نہ ہوگا، کیونکہ کسی رات کا فضیلت والا ہونا اُس کے احتفال و جشن اور مخصوص عبادتوں کو مستلزم بھی نہیں ہے۔
احادیث نصف شعبان شب براءت :۔
ہم نے پندرہ شعبان کے بارے میں تفصیلات ذکر کر دی ہیں کہ کیا ہونا چاہیئے ؟ مگر کیا ہو رہا ہے؟ اب ان ایام سے تعلق رکھنے والی صرف ایک چیز رہ گئی ہے اور وہ ہے : نصف شعبان کے بارے میں پائی جانے والی بعض دیگر احادیث یا روایات شب براءت اور ان کی تحقیق ، چنانچہ ہم یہاں تفصیلات سے قطع نظر آپ کے سامنے ماہ شعبان سے متعلق صرف دس احادیث کی استنادی حیثیت مختصر انداز سے پیش کر رہے ہیں تاکہ ماہ شعبان کے بارے میں یہ موضوع آپ کے سامنے کسی حد تک مکمل شکل میں آجائے۔
پہلی حدیث :۔
اُن احادیث میں سے پہلی حدیث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے السنۃ ابن ابی عاصم صحیح ابن حبان ، شعب الایمان بیہقی، تاریخ ابن عساکر اور معجم کبیر و اوسط طبرانی میں مرفوعا مروی ہے۔ جس میں ہے :
يطلع الله تبارك وتعالى على خلقه ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن
(صحيح الترغيب : 1016 موارد الظمان : 1980 ، الصحيحة : 1144)
اللہ تبارک و تعالی پندرہ شعبان کی رات اپنی مخلوق کی طرف دیکھتا ہے اور مشرک و کینہ پَرور کے سوا سب کو بخش دیتا ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد میں طبرانی کی روایات کے بارے میں کہا ہے کہ ان دونوں کی اسناد کے راوی ثقہ ہیں۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے حدیث معاذ ہی کی سند میں انقطاع واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مکحول، مالک بن یخامر سے ملے ہی نہیں تو اس سے بیان کیسے کر رہے ہیں؟
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس کی سند حسن تھی ، کیونکہ اس کے تمام راوی بقول امام منذری رحمہ اللہ ثقہ ہیں۔(السنہ لابن ابی عاصم 512 ، صحیح ابن حبان 1980 ، شعب الایمان : 2/288/2)
دوسری حدیث :۔
اسے حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابن ابی عاصم ، لالکائی اور طبرانی نے بیان کیا ہے ، اس کی سند میں ایک راوی احوص بن حکیم ہیں جنہیں مجمع الزوائد میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے ، اور امام منذری رحمہ اللہ نے اسے الترغیب و الترهيب میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت طبرانی اور بیہقی میں مکحول کے واسطہ سے ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت مکحول اور ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے مابین مرسل ہے اور مرسل روایت کے حجت ہونے یا نہ ہونے میں بھی اختلاف ہے۔
تیسری حدیث :۔
یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ اس روایت کی سند کو متابعات اور شواہد کے طور پر لینے کے لیے لا باس به قرار دیا گیا ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جبکہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لہیعہ ہے جو کہ ”لین الحدیث“ ہے اور باقی راوی موثوق ہیں جبکہ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے ابن لہیعہ کو ضعیف کہا ہے، اور امام منذری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”لین و نرم“ قرار دیا ہے. اور متابعات وشواہد کے پیش نظر اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے حسن درجہ کی روایت قرار دیا ہے، اس روایت میں مشرک کے ساتھ کینہ پرور نہیں بلکہ قاتل کا لفظ وارد ہوا ہے۔(تاریخ ابن عساکر 2/302/15 ، مجمع الروائد :65/8 ، مسند امام احمد : 6642)
چوتھی حدیث :۔
یہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے ابن ماجه السنه لابن ابی عاصم ولالکائی میں مذکور ہے، اور اس کی سند میں بھی ابن لہیعہ ضعیف ، ولید بن مسلم مدلس اور عبدالرحمن ابن زید بن اسلم مجہول الحال ہے، لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ (سنن ابن ماجہ 445/1 حدیث 1390)
پانچویں حدیث :۔
یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے، اس کا ایک راوی ہشام بن عبد الرحمن ہے جس کے بارے میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اسے میں نہیں جانتا ہوں کہ کون اور کس درجہ کا ہے؟ جبکہ باقی سب راوی ثقہ ہیں۔ (مسند بزار ص : 235)
چھٹی حدیث :۔
یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مسند بزار ، التوحيد لابن خزيمة ، السنة لابن أبي عاصم ولالكائي ، اخبار اصبهان ابو نعیم اور بیہقی میں مروی ہے۔ جسے امام منذری رحمہ اللہ نے ”الترغیب“ میں نقل کر کے لکھا ہے : لا بأس به کہ اس کی سند میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے نقل کر کے اس کی سند میں مذکور ایک راوی عبد الملک بن عبد الملک کے بارے میں کہا ہے کہ ابن ابی حاتم نے اس روایت کو اپنی کتاب ”الجرح والتعدیل“ میں ذکر کیا ہے مگر اس راوی کو ضعیف نہیں کہا ، جبکہ باقی راوی ثقہ ہیں لیکن امام بخاری نے عبد الملک کی اس روایت کو محل نظر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ میزان الاعتدال ذہبی میں مذکور ہے۔
ساتویں حدیث :۔
یہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے امام بزار نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ (زوائد مسند بزار ص : 245)
اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک تو ابن لہیعہ ہے جو کہ لين بلکہ ضعیف ہے ، اور دوسرا راوی عبد الرحمن بن انعم ہے اور اسے بھی علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کے بقول جمہور آئمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے اور صرف احمد بن صالح نے اس کی توثیق کی ہے ، ان دو کے علاوہ باقی سب راوی ثقہ ہیں، اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے بقول یہ روایت اور ایسی ہی کئی دیگر روایات لالکائی نے اپنی کتاب ”السنة“ میں کبار تابعین مثلاً عطاء بن یسار ، کلبی اور فضل بن فضالہ رحمہم اللہ سے موقوفاً عليهم نقل کی ہیں جو کہ مختلف الاسانید ہیں ، اور ایسے مفہوم کی روایات چاہے موقوف ہی کیوں نہ ہوں، یہ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہیں کیونکہ ایسی باتیں محض ذاتی رائے کی بناء پر نہیں کہی جاسکتیں۔
آٹھویں حدیث :۔
یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ترمذی ، ابن ماجه اور مسند احمد میں مرفوعاً مروی ہے۔ جس میں ہے :
إن الله تعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم بني كلب
(مسند احمد : 238/6 ، ضعیف الجامع الصغير 1761 ، ضعيف الترمذي : 119 ، الصحيحة 138/3)
بے شک اللہ تعالی نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گنہگاروں کو معاف کرتا ہے۔
قبیلہ بنی کلب کا نام اس لیے لیا گیا ہے کہ عربوں میں سب سے زیادہ بکریوں والا یہی قبیلہ تھا۔
اور شارح ترمذی نے لکھا ہے :
ابہری نے الازھار سے نقل کیا ہے کہ یہاں بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گناہوں کی بخشش و معافی مراد ہے، نہ کہ اتنے گنہگاروں کی بخشش ، بہر حال گنہگاروں کی بخشش مراد ہو یا گناہوں کی اللہ کے خزانوں میں کسی کے لیے بھی کمی نہیں ہے۔ اسی حدیث کے شروع میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر سے غائب پایا ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے نکلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ بقیع میں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات سے ڈر گئی ہو کہ میں تم پر ظلم کروں گا ؟ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
میں تو یہی سمجھ رہی تھی کہ آپ شاید کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ الفاظ بھی فرمائے لیکن اس روایت کے بعد خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو سنا ہے کہ وہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں ، اور آگے اس کی سند میں پائے جانے والے دو جگہ کے انقطاع کو بیان کیا ہے کہ حجاج اور یحیی، پھر یحیی اور عروہ کے مابین انقطاع ہے کہ یعنی نے عروہ سے نہیں سنا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ حجاج نے یحیی سے نہیں سنا ، جبکہ اس روایت کی سند کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو بھی محدثین نے مدلس قرار دیا ہے ، اور مدلس کی صرف وہ روایت قابل قبول ہوتی ہے جس میں وہ یہ کہے کہ میں نے یہ بات فلاں سے سنی یا اس نے مجھ سے بیان کی ہے ، جبکہ اس روایت میں ایسا نہیں بلکہ حجاج نے عنعنه سے کام لیا ہے جس سے ان کے سماع کی صراحت نہیں ہوتی۔ (الصحيحه للالباني 138/3)
اور امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث کو ضعیف قرار دینا یقیناً ان ہی اسباب کی بناء پر ہوگا۔
نویں حدیث :۔
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنن ابن ماجہ میں مروی ہے، جس میں پندرہ شعبان کے دن کے روزہ اور رات کے قیام کا ذکر ہے جس کے ضعیف ہونے کی تفصیل ہم نے پندرہ شعبان کے روزے کی عدم مشروعیت کے ضمن میں بیان کر دی ہے۔
دسویں حدیث :۔
یہ حضرت عثمان بن محمد بن مغیرہ بن اخنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اسے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اس میں سال بھر کی پیدائش و اموات اور نکاح کا ذکر ہے اور یہ بھی مرسل وضعیف ہے۔
ویسے بھی اس میں پندرہ شعبان کی رات نہیں بلکہ مطلق شعبان کے مہینہ کا ذکر ہے جو کہ دیگر تمام روایات کے خلاف ہے۔
الغرض امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات کی فضیلت متعدد روایات میں آئی ہے، جنہیں اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے لیکن بعض کو ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے، اور ان میں سے سب سے امثل و بہترین حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تعدد احادیث کی بناء پر اور امام احمد رحمہ اللہ کی نصوص کے پیش نظر اس رات کی فضیلت مانی ہے۔
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے متعدد احادیث کے پیش نظر کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے۔
اور دور حاضر کے معروف محدث شیخ البانی رحمہ اللہ نے متعدد طرق نقل کیئے ہیں اور ان کے مجموع سے حاصل ہونے والی قوت کی بناء پر مذکورہ حدیث نمبر ایک کو صحیح قرار دیا ہے۔
یہ اس رات کی کچھ فضیلت کے ثابت ہونے کی دلیل ہے لہذا سابقہ ساری تفصیل کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے، اگر کوئی شخص اس رات میں مطلق عبادت نوافل و تلاوت کر لیتا ہے، تو کوئی حرج نہیں ، جبکہ متعین اور مقررہ اشکال کی کوئی عبادت ثابت نہیں ہے ، ویسے بھی کسی رات کا فضیلت والا ہونا کسی خاص عبادت کو مستلزم نہیں ہوا کرتا۔