محبتِ رسول ﷺ ایمان کا حصہ ہے اور یہ ہمارے دلوں کی جان ہے۔ لیکن جب یہی محبت غلو اور حد سے بڑھ جائے تو یہ شرک اور اللہ کی صفات میں مخلوق کو شریک بنانے تک جا پہنچتی ہے۔ افسوس کہ آج کئی نعتیہ اشعار اور عوامی کلام ایسے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کو وہ اختیارات اور صفات دے دیے جاتے ہیں جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔ اس مضمون میں چند مشہور اشعار اور ان پر قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت پیش کی جارہی ہے۔
✦ غلو پر مبنی اشعار اور ان کا رد
➊ شعر:
"شاہِ مدینہ! یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی”
📌 یہ جملہ گویا تمام انبیاء علیہم السلام کو بھی محتاج اور مشرک بنا دیتا ہے۔ جبکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صاف انکار فرمایا ہے:
﴿وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ﴾ (الزخرف: 45)
ترجمہ: "اور ان رسولوں سے پوچھ لو جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے رحمٰن کے سوا کوئی اور معبود مقرر کیے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے؟”
➋ شعر:
"جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے، آباد عالم تیرے کرم سے”
📌 یہ الفاظ اللہ کے خالق و رازق ہونے کے مقام کو ہٹا کر نبی ﷺ کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ﴾ (الزمر: 62)
ترجمہ: "اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔”
مزید فرمایا:
﴿وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيْلٍ﴾ (الزمر: 41)
ترجمہ: "اور آپ ﷺ ان پر کوئی نگہبان نہیں ہیں۔”
➌ شعر:
"تیرے لئے ہی دنیا بنی ہے، نیلے فلک کی چادر تنی ہے”
📌 یہ بھی اللہ کی تخلیق کو نبی ﷺ کے نام سے منسوب کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں تخلیق کا اصل مقصد واضح فرمایا:
﴿الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک: 2)
ترجمہ: "وہی (اللہ) ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔”
اور فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
ترجمہ: "میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔”
📌 رہی یہ من گھڑت روایت "لولاك لما خلقت الأفلاك” (اے نبی ﷺ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات پیدا نہ کرتا) تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے "السلسلۃ الضعیفۃ (280)” میں موضوع قرار دیا ہے۔
➍ شعر:
"مذہب ہے تیرا سب کی بھلائی، مسلک ہے تیرا مشکل کشائی”
📌 مشکل کشائی اور حاجت روائی صرف اللہ کی صفات ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی بھی مشکل حل نہیں کرسکتا۔
اللہ کا فرمان ہے:
﴿وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ﴾ (یونس: 107)
ترجمہ: "اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں۔”
اور فرمایا:
﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ﴾ (النمل: 62)
ترجمہ: "کون ہے جو لاچار کی دعا کو قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے، اور تکلیف کو دور کرتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟”
➎ شعر:
"ہے نور تیرا شمس و قمر میں، تیرے لبوں کی لالی گہر میں”
📌 سورج اور چاند اللہ کی نشانی ہیں، کسی انسان کے دم سے نہیں چلتے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (النور: 35)
ترجمہ: "اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"سورج اور چاند اللہ کی دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت یا زندگی پر گرہن زدہ نہیں ہوتے۔”
[صحیح بخاری 1060، صحیح مسلم 2116]
✦ انبیاء کرام کی بعد از وفات بے خبری
قرآن و حدیث کے مطابق وفات کے بعد انبیاء کرام علیہم السلام اپنی امت کی کیفیت نہیں جانتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ﴾ (المائدۃ: 117)
ترجمہ: "جب تک میں ان میں رہا ان پر گواہ رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا۔”
اسی طرح نبی کریم ﷺ کے متعلق بھی حدیث میں آیا کہ حوض کوثر پر بعض لوگ روکے جائیں گے تو آپ ﷺ سے کہا جائے گا:
"لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ”
(آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالیں)۔
[صحیح بخاری 4625، صحیح مسلم 7201]
✦ خلاصہ و نتیجہ
① اشعار میں نبی ﷺ کو مشکل کشا، حاجت روا، خالقِ کائنات یا دیگر انبیاء کا "در کا سوالی” کہنا شرک ہے۔
② قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ تمام صفات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں۔
③ من گھڑت احادیث اور غلو پر مبنی اشعار توحید کے منافی ہیں اور ان سے اجتناب فرض ہے۔
④ صحیح محبتِ رسول ﷺ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت کی جائے اور آپ ﷺ کو اللہ کا بندہ اور رسول مانا جائے۔