سوال :
آپ کا مضمون ”شادی کے کھانے کی شرعی حیثیت“ غزوہ میں نظروں سے گزرا، آپ نے ولیمہ پر دلیل بحث کی ہے، مگر اصل مسئلہ شادی ہال میں لڑکی والوں کی طرف سے دی جانے والی دعوت ہے، جس پر آج کل اخبارات میں بھی بحث جاری ہے۔ براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں اس پر بھی تفصیلی روشنی فرمائیں، تا کہ لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں؟
جواب :
اگر آپ اس مضمون کو غور سے پڑھتے تو اس سوال کا جواب آپ کو اس مضمون میں مل جاتا۔ قرآن وسنت کی رو سے شادی کے موقع پر جو دعوت ثابت ہے وہ ولیمہ ہے، جس کے میں نے کئی ایک دلائل ذکر کیے اور محمد ثانی نے جو دعوت کی اقسام بیان کی ہیں ان کا بھی اجمال سے تذکرہ کیا ہے۔ جس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ لڑکی والوں کے گھر لڑکے والے جو بارات لے کر جاتے ہیں اور لڑکی والے اپنے دوست احباب کو بلا لیتے ہیں اور پھر ان سب کے لیے ضیافت کا بندوبست کیا جاتا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں۔ بارات کے بارے میں راقم نے غزوہ میں پہلے بحث کر دی ہے کہ موجودہ بارات کا تصور اسلام میں نہیں ہے اور ہمیں خیر القرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شادی کے موقع پر جو دعوت ہوتی ہے وہ ولیمہ ہی ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے موقع پر بھی ہوا اور صحابہ کرام رحمہم اللہ کو بھی آپ نے ولیمہ کرنے کے لیے کہا۔ لہٰذا شادی پر یہی دعوت ہونی چاہیے، خواہ شادی ہال میں ہو یا کسی حویلی اور گھر میں، یہی شرعاً ثابت ہے۔