شادی کا ولیمہ : مشروعیت، احکام اور آداب
تحریر: عمران ایوب لاہوری

شادی کا ولیمہ : مشروعیت، احکام اور آداب
ولیمہ سے مراد ہے ”شادی کی خوشی کا کھانا“ اس کی جمع وَلَائِم ہے ۔ باب اَولَمَ يُولِمُ (إفعال) وليمہ كرنا – الْوَلْمَةُ ”کسی چیز کا اجتماع ۔“
[المنجد: ص/ 986 ، لسان العرب: 399/15]
(جوہریؒ ، ابن اثیرؒ) ولیمہ خاص شادی کے کھانے کو کہتے ہیں ۔
(از ہریؒ ) یہ ولم سے مشتق ہے جس کا معنی جمع ہونا ہے (یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے) کیونکہ میاں بیوی جمع ہو جاتے ہیں ۔
[نيل الأوطار: 259/4]
➊ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے:
الوليمة حق
”ولیمہ کرنا حق ہے ۔“
اس کے تحت حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نقل فرمائی ہے جس میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو حکم ارشاد فرمایا:
أو لم ولو بشاة
”ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کا ہی ہو ۔“
[بخارى: 5153 ، كتاب النكاح: باب الصفرة للمتزوج ، مسلم: 1427 ، ابو داود: 2019 ، ترمذي: 1933 ، نسائي: 137/6 ، ابن ماجة: 1907 ، احمد: 190/3 ، موطا: 545/2 ، ابن حبان: 4060]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
ما أولم النبى صلى الله عليه وسلم على شيئ من نسائه ما أولم على زينب: أولم بشاة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کا اتنا ولیمہ نہیں کیا جتنا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا کیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کے ساتھ ولیمہ کیا تھا ۔“
[بخارى: 5168 ، كتاب النكاح: باب الوليمة ولو بشاة ، مسلم: 1428 ، احمد: 227/3 ، ابو داود: 3743 ، عبد بن حميد: 1368]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم أولـم عـلـى صـفـيـة بـتـمـر وسـويـق
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیه رضی اللہ عنہا کا ولیمہ کھجور اور ستو کے ساتھ کیا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3185 ، كتاب الأطعمة: باب فى استحباب الوليمة للنكاح ، ابو داود: 3743 ، احمد: 110/3 ، ترمذي: 1095 ، ابن ماجة: 1909 ، حميدي: 1184 ، ابو يعلى: 3559 ، ابن جارور: 727 ، ابن حبان: 4061 ، بيهقى: 260/7]
➍ ایک روایت میں ہے کہ :
أولم النبى صلى الله عليه وسلم على بعض نسائه بمدين من شعير
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کا ولیمہ دو مد جو کے ساتھ کیا ۔“
[بخاري: 5172 ، كتاب النكاح: باب من أولم بأقل من شاة]
(جمہور ، مالکؒ) ولیمہ کرنا مستحب ہے ۔
(شافعیؒ ، احمدؒ ، اہل ظاہر ) ولیمہ کرنا واجب ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 6619/9 ، المغنى: 192/10 ، نيل الأوطار: 260/4]
(راجح) حدیث کا ظاہری حکم وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
[نيل الأوطار: 259/4 ، الروضة الندية: 479/2]
اس کی دعوت قبول کرنا واجب ہے
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا دعى أحـدكــم إلـى الوليمة فلياتها
”جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرے ۔“
[بخاري: 5173 ، كتاب النكاح: باب حق إجابة الوليمة والدعوة ، مؤطا: 546/2 ، مسلم: 1429 ، ابو داود: 3736 ، ترمذي: 1098]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها
”جب تمہیں اس دعوت کی طرف بلایا جائے تو اسے قبول کرو ۔“
[بخاري: 5179 ، كتاب النكاح: باب إجابة الداعي فى العرس و غيره ، مسلم: 1429]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها الأغنياء ويترك الفقراء ومن لم يجب الدعوة فقد عصى الله ورسوله
”ولیمہ کا وہ کھانا سب سے بدترین ہے جس میں اغنیاء کو تو دعوت دی جائے لیکن فقراء کو نہ بلایا جائے اور جس نے دعوت قبول نہ کی تو یقیناً اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔“
[بخاري: 5177 ، كتاب النكاح: باب من ترك الدعوة فقد عصى الله ورسوله ، مسلم: 1432 ، موطا: 546/2 ، ابو داود: 3742 ، ابن ماجة: 1913 ، دارمي: 105/2 ، سعيد بن منصور: 524]
(قاضی عیاضؒ ، نوویؒ) ولیمے کی دعوت قبول کرنے کے وجوب پر اتفاق ہے ۔
[شرح مسلم: 234/9]
(ابن حجرؒ) اس قول میں نظر ہے تاہم علما کے اقوال میں سے عمدہ و مشہور یہی ہے کہ (ولیمہ کی دعوت قبول کرنا ) واجب ہے ۔
[فتح البارى: 302/10]
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیہ ، حنابلہ ) ولیمہ کی دعوت قبول کرنا فرض عین ہے ۔
(بعض حنابلہ ، بعض شافعیہ) ولیمہ کی دعوت قبول کرنا فرض کفایہ ہے اور ایک روایت کے مطابق ان سے استحباب بھی منقول ہے ۔
(راجح) بغیر کسی شرعی عذر کے دعوت ولیمہ قبول کرنا واجب ہے ۔
[فتح البارى: 303/10]
(شوکانیؒ ) ظاہر وجوب ہی ہے ۔
[نيل الأوطار: 264/4]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) ظاہر وہی ہے جو امام شوکانیؒ نے فرمایا ۔
[تحفة الأحوذى: 231/4]
اگر کوئی کھانا نہ کھانا چا ہے
دعوت قبول کرنا ضروری ہے ، کھانا تناول کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر کوئی کھانا چھوڑنا چاہے تو اس کے لیے یہ جائز ہے۔ جیسا که حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا دعى أحـدكــم إلـى طعام فليحب فإن شاء طعم وإن شاء ترك
”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ ضرور اسے قبول کرے پھر اگر چاہے تو کھا لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے ۔“
[مسلم: 1430 ، كتاب النكاح: باب الأمر بإجابة الداعى إلى دعوة ، ابو داود: 2460 ، احمد: 507/2 ، ترمذي: 780 ، ابن أبى شيبة: 64/3 ، حميدى: 1012 ، ابن حبان: 5306 ، نسائي فى السنن الكبرى: 350/10]
اگر روزے دار ہو تو کہہ دے میں روزے دار ہوں
ایک روایت میں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إذا دعى أحدكم إلى الطعام وهو صائم فليقل إني صائم
”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے اور وہ روزے دار ہو تو کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں ۔“
ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں:
فإن كان صائما فليصل
”اگر وہ شخص (جسے دعوت دی جا رہی ہے ) روزے دار ہو تو (داعی کے لیے ) دعا کر دے ۔“
[مسلم: 1431 ، كتاب النكاح: باب الأمر بإجابة الداعي إلى دعوة ، ابو داود: 2460 ، احمد: 507/2 ، ترمذي: 780 ، ابن أبى شيبة: 64/3]
اگر دعوت دینے والے زیادہ ہوں تو پہلے آنے والے کو پھر جس کا دروازہ قریب کو اسے مقدم کیا جائے
➊ حضرت حمید بن عبد الرحمٰن حمیدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إذا اجتمع الداعيان فأجب أقربهما بابا فإن أقربهما بابا أقربهما حوارا وإن سبق أحدهما فأجب الذى سبق
”جب دو دعوت دینے والے اکٹھے ہو جائیں تو اس کی دعوت قبول کرو جس کا دروازہ زیادہ قریب ہے کیونکہ ان دونوں میں سے جس کا دروازہ زیادہ قریب ہے وہ پڑوس میں زیادہ قریب ہے اور اگر ان دونوں میں سے کوئی پہل کر جائے تو پہلے دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 802 ، كتاب الأطعمة: باب إذا اجتمع داعيان أيهما أحق ، إرواء الغليل: 1951 ، ابو داود: 3756 ، أحمد: 408/5]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: میں اپنے دو پڑوسیوں میں سے کس کی طرف ہدیہ بھیجوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إلى أقربهما منك بابا
”اس کی طرف ہدیہ بھیجو جس کا دروازہ زیادہ قریب ہے ۔“
[بخارى: 6020 ، كتاب الأدب: باب حق الجوار فى قرب الأبوابہ ، احمد: 175/6 – 187]
(ابن حجرؒ) انہوں نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہلی حدیث کے لیے دلیل بنایا ہے ۔
[نيل الأوطار: 265/4]
اگر وہ دعوت ولیمہ کسی معصیت کے کام پر مشتمل ہو تو اس میں حاضر ہونا جائز نہیں
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی:
فـجـاء فرأى فى البيت تصاوير فرجع
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور گھر میں کچھ تصویریں دیکھ لیں تو آپ واپس لوٹ گئے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2708 ، كتاب الأطعمة: باب إذا رأى الضيف منكرا رجع ، ابن ماجة: 3359 ، نسائي: 213/8]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يقعد على مائدة يدار عليها الخمر
”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جس پر شراب پیش کی جاتی ہو ۔“
[احمد: 339/3 ، نسائى فى السنن الكبرى: 171/3 ، حاكم: 288/4]
اگر برائی ختم کرنے کی طاقت ہو تو پھر اس نیت سے حاضر ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
”تم میں سے جو بھی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے اور یہ سب سے کمزور ایمان کی علامت ہے ۔“
[مسلم: 49 ، كتاب الأيمان: باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان ، ابو داود: 1140 ، ترمذي: 2172 ، نسائي: 111/8 ، ابن ماجة: 1270 ، احمد: 20/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے