شادی سے پہلے کی میل ملا قات
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

شادی سے پہلے کی میل ملاقات کے متعلق دین اسلام کی کیا رائے ہے؟

جواب:

سائلہ کے اس قول ’’ شادی سے پہلے“ سے اگر اس کی مراد دخول سے قبل اور عقد نکاح کے بعد کی میل ملاقات ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ عقد نکاح کے ساتھ وہ اس شخص کی بیوی بن چکی ہے، اگرچہ ابھی رخصتی کی رسم ادا نہ ہوئی ہو، اور اگر سائلہ کی مراد وہ میل ملاقات ہے جو عقد نکاح سے قبل منگنی کے بعد یا اس سے پہلے ہو تو یہ ملاقات حرام ہے، جائز نہیں ہے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اجنبی عورت کے ساتھ ہم کلام ہو کر یا نظر بازی کے ساتھ یا اس سے تنہائی اختیار کر کے لطف اندوز ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم، ولا تسافر امرأة إلا مع ذي محر م» [صحيح البخاري رقم الحديث 4935، صحيح مسلم رقم الحديث 1341]
”کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر تنہائی اختیار نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت محرم کے بغیر سفر ہی کرے۔“
حاصل کلام یہ ہے کہ بلاشبہ مرد اور عورت کا یہ میل ملاپ عقد نکاح کے بعد ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر عقد نکاح سے قبل ہو تو جائز نہیں ہے، اگرچہ انہوں نے منگنی کر لی ہو، اور ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا قبول کر لیا ہو، ایسی حالت میں ان کا آپس میں ملنا حرام ہے، کیونکہ جب تک اس مرد کا اس عورت کے ساتھ نکاح نہیں ہو جاتا بلاشبہ وہ عورت اس کے لیے اجنبی ہے۔
(محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے