نہج البلاغہ
ائمہ اسلام نے روافض کے بارے میں واضح کیا ہے کہ ان کے مذہب کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (۷۲۸ ھ ) لکھتے ہیں :
الْقَوْمُ مِنْ أَكْذَبِ النَّاسِ فِي النَّقْلِيَّاتِ، وَمِنْ أَجْهَلِ النَّاسِ فِي الْعَقْلِيَّاتِ، يُصَدِّقُونَ مِنَ الْمَنْقُولُ بِمَا يَعْلَمُ الْعُلَمَاءُ بِالاضْطِرَارِ أَنَّهُ مِنَ الْأَبَاطِيلِ، وَيُكَذِّبُونَ بِالْمَعْلُومِ مِنَ الِاضْطِرَارِ الْمُتَوَاتِرِ أَعْظَمَ تَوَاتُرٍ فِي الْأُمَّةِ جِيلًا بَعْدَ جِيلٍ، وَلَا يُمَيِّزُونَ فِي نَقَلَةِ الْعِلْمِ، وَرُوَاةِ الْأَحَادِيثِ، وَالْأَخْبَارِ بَيْنَ الْمَعْرُوفِ بِالْكَذِبِ، أَوِ الْغَلَطِ، أَوِ الْجَهْلِ بِمَا يُنْقَلُ، وَبَيْنَ الْعَدْلِ الْحَافِظِ الضَّابِطِ الْمَعْرُوفِ بِالْعِلْمِ بِالْآثَارِ.
’’روافض نقلیات میں سب سے بڑے جھوٹے ہیں اور عقلیات میں سب سے بڑھ کر جاہل ہیں۔ ایسی باتوں کی تصدیق کر دیتے ہیں، جنہیں اہل علم صریح باطل سمجھتے ہیں اور نسلا بعد نسل متواتر اور قطعی باتوں کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ علم کے ناقلین ، احادیث اور اخبار میں معروف کذاب، سی ءالحفظ اور اپنے روایت سے جاہل رواۃ کے مابین اور عادل، حافظ، ضابطہ اور معروف محدثین کے مابین تمیز نہیں کرتے ۔“
(منهاج السنة : 8/1)
روافض نے ائمہ محدثین کے مقابلہ میں سندیں گھڑی ہیں ، اسی طرح جھوٹے اقوال ائمہ اہل بیت کی طرف منسوب کر رکھے ہیں ۔
جھوٹ بولنے سے ان کو اک ذرا باک نہیں، حدیثیں گھڑتے ہیں، خصوصاً سیدنا علیؓ بہت ساری حدیثیں وضع کی ہیں، بلکہ ایک جھوٹی کتاب نہج البلاغہ سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کر رکھی ہے۔ اس کتاب کو گھڑنے والا علی بن حسین بن موسیٰ ، المعروف مرتضی شریف (۴۳۶ھ ) کذاب اور خبیث رافضی ہے۔
نہج البلاغہ کے متعلق ائمہ سنت کی رائے :
➊ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں : (۷۲۸ ھ )
لَيْسَ أَحَدٌ مِّنَ الْإِمَامِيَّةِ يَنْقُلُ هَذَا النَّصَّ بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ، فَضْلًا عَنْ أَنْ يَكُونَ مُتَوَاتِرًا .
’’امامیہ میں سے کسی نے بھی اس نص کو متصل سند سے نقل نہیں کیا ، چہ جائیکہ یہ متواتر ہو۔“
(منهاج السنة : 251/8)
مورخ اسلام، حافظ ذہبیؒ ( ۷۴۸ھ) لکھتے ہیں :
قَدِ اخْتُلِفَ فِي كِتَابِ نَهْجِ الْبَلَاغَةِ الْمَكْذُوبِ عَلَى عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، هَلْ هُوَ وَضْعُهُ، أَوْ وَضْعُ أَخِيهِ الرَّضِيُّ .
سیدنا علیؓ کی طرف منسوب جھوٹی کتاب ” نہج البلاغہ‘‘ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ مرتضیٰ شریف کی گھڑ نتل ہے یا اس کے بھائی رضی کی ۔“
نیز لکھتے ہیں :
(تاريخ الإسلام : 557/9)
هُوَ الْمُتَّهَمُ بِوَضْعِ كِتَابِ نَهْجِ الْبَلَاغَةِ ، … مَنْ طَالَعَ كِتَابَهُ نَهْجَ الْبَلَاغَةِ جَزَمَ بِأَنَّهُ مَكْذُوبٌ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفِيهِ السَّبُّ الصَّرَاحُ وَالْحَطَّ عَلَى السَّيِّدَيْنِ : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَفِيهِ مِنَ التَّنَاقُضِ وَالْأَشْيَاءِ الرَّكِيكَةِ وَالْعِبَارَاتِ الَّتِي مَنْ لَهُ مَعْرِفَةٌ بِنَفْسِ الْقُرْشِيِّينَ الصَّحَابَةِ وَبِنَفْسِ غَيْرِهِمْ مِمَّنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْمُتَأَخِرِينَ جَزَمَ بِأَنَّ الْكِتَابَ أَكْثَرُهُ بَاطِلٌ .
’’مرتضیٰ شریف پر کتاب ”نہج البلاغہ‘‘ گھڑنے کا الزام ہے۔ جو اس کتاب کا مطالعہ کر لے، وہ پورے وثوق سے کہہ دے گا کہ یہ امیر المومنین سیدنا علیؓ کی طرف جھوٹ منسوب ہے۔ اس کتاب میں سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمرؓ پر واضح سب و شتم اور رد موجود ہے۔ اس میں تناقض، کمزور باتیں اور ایسی عبارات موجود ہیں کہ جس شخص کو قریشی صحابہ اور بعد والے صحابہ میں فرق معلوم ہوگا، وہ جان جائے گا کہ اس کتاب کا بیشتر حصہ باطل ہے۔“
نیز فرماتے ہیں :
(میزان الاعتدال : 124/3)
فِي تَصَانِيفِه سَبُّ الصَّحَابَةِ وَتَكْفِيرُهُمْ .
’’اس کی تصانیف میں صحابہ پر طعن و تشنیع اور ان کی تکفیر پائی جاتی ہے ۔“
(تاريخ الإسلام : 557/9 ، سير أعلام النبلاء : 590/17)
مشہور مؤرخ ابن خلکان (۶۸۱ ھ ) لکھتے ہیں :
قَدِ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي كِتَابِ نَهْجِ الْبَلَاغَةِ، الْمَجْمُوعِ مِنْ كَلَامِ الْإِمَامِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، هَلْ هُوَ جَمْعُهُ أَمْ جَمْعُ أَخِيهِ الرَّضِيِّ وَقَدْ قِيلَ : إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَلَامِ عَلِيٍّ، وَإِنَّمَا الَّذِي جَمَعَهُ وَنَسَبَهُ إِلَيْهِ هُوَ الَّذِي وَضَعَهُ .
کتاب ”نہج البلاغہ‘‘ جو کہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے کلام کا مجموعہ ہے، کے متعلق لوگوں کا اختلاف ہے کہ یہ مرتضیٰ شریف کی تالیف ہے یا اس کے بھائی رضی کی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سیدناؓ کا کلام نہیں ہے۔ بلکہ جس نے اس کتاب کو جمع کیا اور اسے سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کیا ، اسی نے ہی اس کتاب کو گھڑا ہے۔“
(وفيات الأعيان : 313/3)
مصنف نہج البلاغہ کی موت :
ابوالقاسم، عبدالواحد بن علی بن برہان (۶ ۴۵ ھ ) بیان کرتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَى الشَّرِيفِ الْمُرْتَضَى أَبِي الْقَاسِمِ الْعَلَوِيِّ فِي مَرَضِهِ وَإِذَا قَدْ حَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَلَيَا فَعَدَلَا وَاسْتَرْحَمَا فَرُحِمَا أَمَّا أَنَا أَقُولُ : ارْتَدَّا بَعْدَ مَا أَسْلَمَا، فَقُمْتُ فَمَا بَلَغَتْ عُتْبَةَ الْبَابِ حَتَّى سَمِعْتُ الزَّعْقَةَ عَلَيْهِ .
’’میں مرتضیٰ ابوالقاسم علوی کے پاس اس کی مرض موت میں گیا، اس نے دیوار کی جانب اپنا چہرہ کیا ہوا تھا اور کہ رہا تھا:
ابو بکر و عمر نے اپنی خلافت میں عدل کیا، دونوں نے (اللہ سے ) رحم کی درخواست کی، ان پر رحم ہوا، لیکن میں کہتا ہوں کہ وہ دونوں مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو گئے تھے ۔ میں (عبد الواحد ) وہاں سے اٹھ گیا اور ابھی دروازے کی دہلیز پر ہی پہنچا تھا کہ مجھے اس پر چیخ و پکار سنائی دیا ( یعنی جب وہ مر گیا ) ۔‘‘
(المنتظم لابن الجوزي : 300/15 ، وسنده حسن)