ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ کے قریب ہی سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب ؓ موجود تھے۔ آپ ایک دفعہ انہیں دیکھتے اور دوسری دفعہ لوگوں کو فرماتے:إن ابنی ھٰذا سید، و لعل اللہ أن یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمینمیرا یہ بیٹا (نواسا) سید (سردار ) ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائے۔(صحیح البخاری : ۲۷۰۴)
سیدنا براءبن عازب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا، نبی ﷺ نے (سیدنا ) حسن بن علیؓ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور آپ فرما رہے تھے: (اللھم إنی أحبہ فأحبہ)اے اللہ!میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت کر۔(صحیح البخاری: ۳۷۴۹و صحیح مسلم: ۵۸؍۲۴۲۲)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں دن کے کسی حصے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلا۔ آپ (سیدہ ) فاطمہ ؓ کے خیمے کے پاس آئے اور فرمایا: چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے؟ آپ حسن ؓ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں وہ (حسن ؓ) دوڑتے ہوئے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں گلے لگا لیا (معانقہ کیا) اور فرمایا: ‘‘ اللھم إنی أحبہ فأحبہ و أحب من یحبہ’’
اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرے اُس سے محبت کر۔(صحیح بخاری: ۲۱۲۲و صحیح مسلم: ۵۷؍۲۴۲۱)
مشہور جلیل القدر صحابی سیدنا انس بن مالک ؓ نے فرمایا: حسن بن علی ؓ سے زیادہ کوئی بھی رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نہیں تھا۔ (صحیح بخاری: ۳۷۵۲)
نبی کریم ﷺ اسامہ بن زید اور حسن ؓ کو پکڑتے (اور اپنی رانوں پر بٹھاتے ) آپ فرماتے: اے اللہ!ان دونوں سے محبت کر، کیونکہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری ۳۷۳۵)
سیدنا ابو بکر الصدیق ؓ سیدنا حسن ؓ سے محبت کرتے تھے۔ عقبہ بن الحارث ؓ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ ابو بکر ؓ نے (پیار سے ) حسن ؓ کو اُٹھا رکھا تھا اور آپ فرما رہے تھے: یہ نبی ﷺ کے مشابہ ہے ۔ (صحیح البخاری:۳۷۵) سیدنا ابو بکر الصدیق ؓ نے فرمایا: محمد ﷺ کے اہل بیت (سے محبت) میں آپ کی محبت تلاش کرو۔ (صحیح بخاری:۳۷۵۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔(سنن الترمذی : ۳۷۸۱ و سندہ حسن، مسند احمد ۳؍۳ح۱۰۹۹۹و سندہ صحیح)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ان دونوں (حسن و حسین ؓ) سے محبت کی تو یقیناً اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا تو یقیناً اس نے مجھ سے بغض کیا۔ (مسند احمد ۲؍۴۴۰ح۹۶۷۳ و سندہ حسن لذاتہ، و صححہ الحاکم ۳؍۱۶۶ح ۴۷۷۷ووافقہ الذہبی)
سیدنا مقدام بن معدی کرب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن ؓ کو گود میں بٹھایا اور فرمایا:(ھذا منی) یہ مجھ سے ہے۔ (سنن ابی داود : ۴۱۳۱ وسندہ حسن، روایۃ بقیۃ بن الولید عن بحیر بن سعد محمولۃ علی السماع ولو عنعن لأنہ کان یروی من کتابہ ، انظر الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ۱۱۷؍۴ ص ۶۹ و التعلیقۃ علی العلل لابن عبدالہادی ص ۱۲۴ ح ۳۵؍۱۲۳)
سیدنا حسن ؓ کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ‘‘ سیدنا حسین ؓ سے محبت ’’ میں گزر چکا ہے۔ والحمدللہ
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘فو اللہ!فو اللہ!بعد أن ولی لم یھرق فی خلافتہ مل ء محجمۃ من دم’’پس اللہ کی قسم ، اللہ کی قسم، جب حسن ؓ بر سر اقتدار ہوئے تو آپ کے عہدِ خلافت میں سینگی لگوانے جتنا یعنی بہت تھوڑا سا خون بھی نہیں بہایا گیا ۔ (مسند احمد ۵؍۴۴ ح ۲۰۴۴۷وسندہ حسن)
آپ امتِ مسلمہ میں اختلافات کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ آپ نے سیدنا امیر معاویہ ؓ سے صلح کر کے خلافت اُن کے حوالے کر دی تھی۔
سیدنا حسن بن علی ؓ نے مدائن میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:‘‘ ألا إن أمر اللہ واقع إذ لا لہ دافع و إن کرہ الناس ، إنی ما أحببت أن ألی من أمۃ محمد مثقال حبۃ من خر دل یھراق فیہ محجمۃ من دم، قد علمت ماینفعنی مما یضرنی فألحقو ابطیتکم’’سن لو کہ اللہ کا فیصلہ واقع ہونے والا ہے، اُسے کوئی بھی ہٹا نہیں سکتا اگرچہ لوگ اسے ناپسند کریں۔ مجھے امت محمدیہ پر رائی کےدانے کے برابر ایسی حکومت پسند نہیں ہے جس میں تھوڑا سا بھی خون بہایا جائے۔ مجھے اپنا نفع و نقصان معلوم ہے، تم اپنے راستوں پر گامزن ہو جاؤ یعنی اپنی اپنی فکر کرو۔ (تاریخ دمشق لابن عسا کر ۱۴؍۸۹ و سندہ صحیح)
سیدنا حسن ؓ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انہوں نے بہت سی عورتوں سے شادی کی اور وہ کثرت سے طلاق دیا کرتے تھے، مگر اس مفہوم کی روایات میں تحقیقی لحاظ سے نظر ہے۔
سیدنا حسن ؓ پچاس ہجری کے قریب فوت ہوئے۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ‘‘ الإمام السید، ریحانۃ رسول اللہ ﷺ وسبطہ و سید شباب أھل الجنۃ أبو محمد القرشی الھاشمی المدنی الشھید’’ امام سید، رسول اللہ ﷺ کے پھول اور نواسے ، جنتی نوجوانوں کے سردار، ابو محمد القرشی الہاشمی المدنی الشہید۔ (سیر اعلام النبلاء ۳؍۳۴۵، ۳۴۶)
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: ‘‘ سبط رسول اللہ ﷺ و ریحانتہ و قد صحبہ و حفظ عنہ ، مات شھیداً بالسم سنۃ تسع و أربعین وھو ابن سبع و أربعین، وقیل: بل مات سنۃ خمسین و قیل بعدھا ’’
رسول اللہ ﷺ کے نواسے اور پھول ہیں۔ وہ آپ کے صحابی ہیں اور آپ کی حدیثیں یاد کی ہیں۔ وہ ۴۹ھ میں ۴۷ سال کی عمر میں زہر کے ساتھ شہید کئے گئے۔ کہا جاتا ہے : بلکہ آپ پچاس ہجری یا اس کے بعد فوت ہوئے۔(تقریب التہذیب : ۱۲۶۰)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘حدثنا و کیع: حدثنا یونس بن أبي إسحاق عن برید بن أبي مریم السلو لي عن أبی الحوراء عن الحسن بن علي قال: علمني رسول اللہ ﷺ کلماتٍ أقولھن في قنوت الوتر:سیدنا حسن بن علی ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے قنوت ِ وتر میں پڑھنے کے لئے یہ کلمات سکھائے:‘‘’’اے اللہ مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (شامل کر دے) جنہیں تو نے ہدایت دی ہے، اور عافیت میں رکھ ان لوگوں میں جنہیں تو نے عافیت میں رکھا ہے اور مجھ سے دوستی کر ان میں جنہیں تو نے دوست بنایا ہے، اور جو مجھے دیا ہے اس میں برکت ڈال، اور تونے (تقدیر کا) جو فیصلہ کیا ہے مجھے اس کے شر سے بچا، بے شک تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا، جسے تو دوست رکھے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا، اے ہمارے رب تو برکتوں والا اور بلند ہے۔ (مسند احمد ۱؍۱۹۹ح ۱۷۱۸ و سندہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ : ۱۰۹۵ وابن الجارود:۲۷۲)
سیدنا حسن ؓ کے بارے میں تفصیلی و تحقیقی مضمون ہی میں روایات مناقب و فضائل کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال اسی مختصر المختصر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
اے اللہ !ہمارے دلوں کو سیدنا حسن ؓ ، تمام صحابہ و ثقہ تابعین تبع تابعین اور سلف صالحین کی محبت سے بھر دے۔ آمین
سیدنا حسن بن علی اور تمام صحابہ کرام سے محبت جز و ایمان ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین