سیدنا آدمؑ کے خط کا قصہ

تحریر : ابوالقاسم نوید شوکت

سلیمان الاشج جو کعب الاحبار کے ساتھی تھے انھوں نے کہا:
ذوالقرنین ایک نیک بادشاہ تھا اور وہ زمین پر گھومتا رہتا تھا، ایک دن وہ چکر لگارہا تھا کہ جبل ہند پر رک گیا تو خضر نے اسے کہا، جبکہ وہ اس کے بڑے جھنڈے والے تھے: تجھے کیا ہے اے بادشاہ! تو گھبرا کر ٹھہر گیا ہے؟ اس نے کہا: میں کیوں نہ گھبراؤں اور ٹھہروں ! یہ بندوں کے قدموں اور ہاتھوں کے نشان ہیں اور یہ درخت ہیں کہ میں نے اپنے گھومنے کے دوران میں ان سے زیادہ لمبے درخت نہیں دیکھے کہ جن سے سرخ پانی بہتا ہو، ان کا کوئی اور ہی معاملہ ہے۔اس (سلیمان) نے کہا: خضر نے ہر کتاب پڑھی ہوئی تھی ، چنانچہ اس نے بادشاہ سے کہا: کیا تو بڑے درخت کے ساتھ لٹکا ہو اور قہ دیکھتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اس (خضر ) نے کہا: وہ تجھے اس مکان کے بارے میں خبر دے گا۔ اس (سلیمان) نے کہا: اس نے خط دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا:
’’بسم الله الرحمن الرحيم من آدم أبى البشر عليه السلام إلى ذريته أو صيكم ذريتي بنى و بناتي بتقوى الله و أحذركم كيد عدوي و عدوكم إبليس اللعين‘‘
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ابو البشر آدمؑ کی طرف سے اس کی اولاد کی طرف ،اے میری اولاد ! میرے بیٹو اور بیٹیو! میں تمھیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اپنے اور تمھارے دشمن ابلیس لعین کی چالوں سے ڈراتا ہوں جس کا کلام نرم اور خوبصورت ہے، اس کی خواہشات نے مجھے فردوس اعلیٰ سے زمین کی طرف اتارا۔ پس مجھے میری اس جگہ ڈال دیا گیا، پھر دوسال تک میری طرف التفات نہیں کیا گیا، میری اس ایک خطا کے سبب جسے میں نے کیا اور یہ میرے نشان ہیں اور یہ درخت میرے آنسوؤں سے اُگے ہیں اور اسی جگہ میری توبه اتاری (قبول کی) گئی ، لہذا تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اس سے پہلے کہ تم پچھتاؤ اور آگے بڑھو قبل اس سے کہ تم آگے کیے جاؤ اور سبقت لے جاؤ اس سے پہلے کہ تم پر سبقت لی جائے۔‘‘
انھوں (سلیمان) نے کہا: پس ذوالقرنین اترے اور سیدنا آدمؑ کے بیٹھنے کی جگہ کو چھوا جس کی مسافت ایک سو اسی میل تھی اور انھوں نے ان درختوں کو شمار کیا جو سید نا آدمؑ کے آنسوؤں سے اُگے تھے تو ان کی تعداد سات سو تھی ۔ انھوں نے کہا: جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو درخت سوکھ گئے اور ان سے سرخ پانی بہنے لگا تو ذوالقرنین نے خضرؑ سے کہا کہ ہمیں واپس لوٹا دے۔ اللہ کی قسم ! میں کبھی کبھی اس کے بعد دنیا کی طلب نہیں کروں گا۔

یہ واقعہ درج ذیل سند کے ساتھ امام ابن عساکر نے نقل کیا ہے:

المقرئ نا أبو عبد الله أحمد بن محمد بن يوسف البزار، نا أبو محمد جعفر بن نصير الخلدى أخبرنا إبراهيم بن أحمد الخواص قال: قال سليمان الأشج صاحب كعب الأحبار كان ذو القرنين
(تاريخ دمشق 356/17)

➋حافظ ابن حجر نے کہا:
و يروي عن سليمان الأشج صاحب كعب الأحبار عن كعب الأحبار أن الخضر كان …… إلخ
(الاصابة 238/3)

➌امام الحنائی نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن علي بن عبد القادر بن بزيغ بن الحسن بن بزيغ الطرسوسي قراءة عليه قال و حدثنا أبو حفص الصائغ عمر بن أحمد قال: ثنا أبو ذر قال قرأنا على أحمد بن سلمة الرازي حدثكم أبو عبد الله محمد بن عمر بن يزيد الرفاعي قال: ثنا عبدالكريم بن هارون الجرجاني قال: حدثني أبي هارون عن أبيه عن سليمان الأشج و كان صاحب كعب الأحبار قال: …… إلخ
(فوائد الحنائي 1372/2)

یہ واقعہ امام الحنائی کی سند سے امام ابن عسا کر نے بھی نقل کیا ہے۔ (418/7)

پہلی سند

تاریخ دمشق والی دو وجہ سے ضعیف ہے:

➊ابراہیم بن احمد الخواص مجہول ہے، اس کا ترجمہ تاریخ بغداد (463/6) المنتظم لا بن جوزی (26/13) میں بغیر کسی جرح و تعدیل کے موجود ہے۔

➋دوسرا راوی سلیمان الاشج مجہول ہے اس کے حالات مجھے کہیں نہیں ملے ۔ واللہ اعلم

دوسری سند

جو حافظ ابن حجر نے نقل کی وہ بھی سلیمان الاشج کی وجہ سے ضعیف ہے۔
تنبیہ تاریخ دمشق میں یہ واقعہ سلیمان الاشج کا ہے، جبکہ حافظ ابن حجرؒ نے سلیمان الاشج عن کعب الاحبار نقل کیا ہے، نیز تاریخ دمشق میں یہ واقعہ طویل ہے جبکہ الاصابہ میں مختصر ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلیمان الاشج عن کعب الاحبار ہے۔ واللہ اعلم

تیسری سند

فوائد الحنائی والی کا پہلا راوی ابوالحسن علی بن عبد القادر بن بزلیغ بن الحسن ابن بزيغ الطرسوسی مجہول ہے اس کے حالات مجھے نہیں ملے ۔
دوسرا راوی ابو حفص الصائغ عمر بن احمد بھی مجہول ہے اس کے حالات بھی نہیں ملے۔
تیسرا راوی ابوذر بھی مجہول ہے۔
چوتھا راوی احمد بن سلمہ الرازی بھی مجہول ہے اس کے حالات بھی نہیں ملے ۔
پانچواں راوی ابو عبدالله محمد بن عمر بن یزید الرفاعی کے حالات بھی نہیں ملے۔
چھٹاراوی عبد الکریم بن ہارون الجرجانی ہے، اس کے متعلق درج ذیل اقوال ہیں:
➊امام ابن ابی حاتم نے کہا:
’’سألت أبي عنه فقال: كتبت عنه ولا أخبر أمره ومقدار ما كتبت عنه صحاح .“
ابن ابی حاتم نے کہا: میں نے اپنے والد سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: میں نے اس سے لکھا ہے، لیکن میں اس کے معاملے سے متعلق خبر نہیں رکھتا اور جو کچھ میں نے اس سے لکھا وہ صحیح ہے۔
(الجرح والتعدیل328 62/6)

➋حافظ ذہبی نے اس کو میزان الاعتدال میں ذکر کر کے از دی کی جرح نقل کی ہے۔
(5184 ت 540/3)

➌ابن جوزی نے بھی اسے الضعفاء میں ذکر کر کے ازدی کی جرح نقل کی ہے۔
(1980 ت117/2)

➍حافظ ابن حجر نے اسے لسان المیزان میں ذکر کر کے ازدی کی جرح نقل کی۔
(2/4 ت 148)

تنبیه : ازدی خود ضعیف ہے، لہذا اس کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں۔ پس یہ راوی بھی مجہول ہی ہے۔ واللہ اعلم
مذکورہ بحث سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ روایت ثابت نہیں ہے۔
وما علينا إلا البلاغ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: