سورج کی واپسی
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کے پلٹ جانے کے متعلق روایات کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ آپ نے فرمایا : علی ! کیا آپ نے نماز پڑھی ہے انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ نے دعا کی : اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری میں مشغول تھے، ان کے لیے سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے، میں نے سورج کو غروب ہوتے بھی دیکھا، پھر سورج کے غروب ہوجانے کے بعد اسے طلوع ہوتے بھی دیکھا۔ “ [السنة لابن أبي عاصم : 1323، مختصرا، مشكل الآثار للطحاوي : 9/2، المعجم الكبيرللطبراني : 152,147/24، تاريخ دمشق لابن عساكر : 314/42]

تبصره :

اس کی سند ’’ضعیف “ ہے، کیونکہ :
ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابوطالب راوی ’’مجہول الحال “ ہے۔
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 3/6] کے کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بذٰلك المشهور فى حاله۔ ’’اس کا حال مجہول ہے۔ “ [البداية والنهاية : 89/6]
◈حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
فيه من لم اعرفهم .
’’اس روایت میں ایسے راوی ہیں، جن کو میں نہیں پہچانتا۔ “ [مجمع الزوائد : 185/9]
لیکن ایک مقام پر امام ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو ثقہ کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 297/8]
یہ تساہل پر مبنی فیصلہ ہے، جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں۔
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس میں دوسری وجہ ضعف یہ بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب جو کہ امام زین العابدین رحمہ اللہ کی ہمشیرہ ہیں وہ ہیں تو ثقہ، لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سنی ہے یا نہیں ؟ [البداية والنهاية : 89/6]
◈ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا سماع إبراهيم من فاطمة، ولا سماع فاطمة من أسمائ، ولا بد فى ثبوت هٰذا الحديث من أن يعلم أن كلا من هٰؤلائ عدل ضابط، وأنه سمع من الآخر، وليس هٰذا معلوما .
’’نہ ابراہیم کا فاطمہ سے اور نہ فاطمہ کا سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت ہے۔ اس حدیث کے ثبوت کے لیے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اس کے تمام راوی عادل و ضابط ہیں یا نہیں، نیز انہوں نے ایک دوسرے سے سنا ہے یا نہیں۔ مگر اس روایت کے راویوں کے متعلق یہ بات معلوم نہیں ہو سکی۔ “ [منهاج السنة النبوية : 189/4]
تنبیہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، بے حقیقت بات ہے۔
——————
روایت نمبر

سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے :
إن النبى صلى الله عليه وسلم صلى الظهر بالصهباء، ثم أرسل عليا عليه السلام فى حاجة فرجع، وقد صلى النبى صلى الله عليه وسلم العصر، فوضع النبى صلى الله عليه وسلم رأسه فى حجر علي، فلم يحركه حتٰي غابت الشمس، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : ’اللهم، إن عبدك عليا احتبس بنفسه علٰي نبيك، فرد عليه شرقها‘، قالت أسماء : فطلعت الشمس حتٰي وقعت على الجبال وعلي الـأرض، ثم قام علي، فتوضأ وصلي العصر، ثم غابت، وذٰلك فى الصهبائ، فى غزوة خيبر .
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صہبا نامی جگہ پر نماز ظہر ادا کی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کسی کام بھیجا۔ جب وہ واپس آئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا فرما چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک ان کی گود میں رکھا۔ انہوں نے حرکت نہ کی، (کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل نہ آ جائے )، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی : اے اللہ ! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے نبی کے لئے روکا ہوا تھا، لہٰذا ان پر سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سورج اوپرآ گیا، یہاں تک کہ اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وضو کیا اور عصر کی نماز پڑھی۔ پھر سورج غروب ہو گیا۔ یہ واقعہ غزوۂ خیبر کے موقع پر صہبا نامی جگہ پر پیش آیا۔ “ [مشكل الآثار للطحاوي : 1068، المعجم الكبير للطبراني : 145,144/24]

تبصره :

اس کی سند بھی ’’ضعیف “ ہے، جیسا کہ :
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کا ضعف و سقم یوں بیان کرتے ہیں :
وهٰذا الإسناد فيه من يجهل حاله، فإن عونا هٰذا وأمه لا يعرف أمرهما بعدالة وضبط، يقبل بسببهما خبرهما، فيما هو دون هٰذا المقام، فكيف يثبت بخبرهما هٰذا الـأمر العظيم الذى لم يروه أحد من أصحاب الصحاح، ولا السنن، ولا المسانيد المشهورة، فالله أعلم، ولا ندري أسمعت أم هٰذا من جدتها أسمائ بنت عميس أو لا .
’’اس سند میں عون اور اس کی والدہ کے حافظے اور عدالت کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ یہی دو امور ہیں جن کی بنا پر ان کی روایت قبول کی جا سکتی تھی اور ان میں وہ قابل قبول مقام تک نہیں پہنچ پائے۔ ان کے بیان کی بنیاد پر ایک ایسا اہم مسئلہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے، جس کو نہ مشہور اصحابِ صحاح و سنن و مسانید میں سے کسی نے بیان نہیں کیا۔ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ ام عون کا سیدہ اسما بنت سے عمیس رضی اللہ عنہا سماع بھی ہے یا نہیں۔ “ [البداية والنهاية : 88/6]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ عون بن محمد کے بارے میں فرماتے ہیں :
ولم أجد من ترجمه . ’’مجھے اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ “ [مجمع الزوائد : 237/3، 50/4]
↰ ایک روایت، جس کی سند میں عون بن محمد اور اس کی ماں ام عون موجود ہیں، کے بارے میں :
◈ ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :
’’اس سند میں ایسے راوی ہیں، جن کے حالات کا واضح ہونا ضروری ہے۔ “ [الجوهر النقي فى الرد على البيهقي : 396/3]
لہٰذا عون بن محمد کی ایک دوسری روایت کی سند کو حافظ منذری [الترغيب والترهيب : 89/3] اور حافظ ابن حجر کا ’’حسن “ کہنا، نیز حافظ عراقی [فيض القدير للمناوي : 327/4] کا ’’جید“ کہنا قطعاً صحیح نہیں۔
◈ اس کی سند میں ام عون بھی ’’مجہولہ “ ہیں۔
◈اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ’’مقبولہ “ کہا ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 8750]
◈حافظ بوصیری [مصباح الزجاجة : 52/2] اور سندھی حنفی [حاشية السندي على ابن ماجة : 1611] نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے۔
◈ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا الحديث منكر، وفيه غير واحد من المجاهيل .
’’یہ حدیث منکر ہے اس میں کئی ایک مجہول راوی ہیں۔ “ [تاريخ دمشق : 314/42]
——————
روایت نمبر

سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب ہے :
إن النبى أوحي إليه، فستره على بثوبه، حتٰي غابت الشمس، فلما سري عن النبي، قال : ’يا علي، صليت العصر ؟‘، قال : لا قال : ’اللهم اردد الشمس علٰي علي‘، قالت : فرجعت الشمس حتٰي رأيتها فى نصف الحجر، أو قالت : نصف حجرتي
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھانپ رکھا تھا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی سے فارغ ہوئے، تو پوچھا : علی ! کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ ! علی کے لئے سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : سورج واپس پلٹا یہاں تک کہ اس کی روشنی میرے حجرے کے صحن کے درمیان میں آن پہنچی۔ “ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 314/42، الموضوعات لابن الجوزي : 356/1، اللآلي المصنوعة للسيوطي : 338/1]

تبصره :

یہ باطل سند ہے، کیونکہ :
➊ اس کاراوی ابوالعباس ابن عقدہ ’’ضعیف “ ہے۔
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف “ کہا ہے۔ [السنن : 264/2]
◈ حمزہ بن یوسف سہمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
سمعت أبا عمر بن حيويه يقول : كان أحمد بن عقدة فى جامع براثا يملي مثالب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو قال : الشيخين، يعني أبا بكر وعمر، فتركت حديثه، ولا أحدث عنه بعد ذٰلك شيئا .
’’میں نے ابوعمر بن حیویہ کو یہ کہتے سنا کہ احمد بن عقدہ براثا کی جامع میں صحابہ کرام یا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عیوب لکھواتا تھا۔ اس پر میں نے اس کی روایت چھوڑ دی۔ اس کے بعد میں اس سے کوئی چیز بیان نہیں کرتا۔ “ [سؤالات السهمي : 166]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان صاحب معرفة وحفظ، ومقدما فى هٰذه الصناعة؛ إلا أني رأيت مشايخ بغداد مسيئين الثنائ عليه .
’’یہ بڑا عالم، حافظ اور اس فن میں مقدم تھا، مگر میں نے بغداد کے مشائخ کو دیکھا کہ وہ اس پرجرح کرتے ہیں۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 206/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان رجل سوء . ’’یہ برا آدمی تھا۔ “ [تاريخ بغداد للخطيب : 22/5، وسنده صحيح]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا :
أيش أكبر ما فى نفسك عليه ؟
’’کیا آپ کے ذہن میں اس کی کوئی اچھائی ہے ؟“
تووہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے، پھر فرمایا :
الـأكثر من المناكير . ’’اس کی اکثر روایات منکر ہیں۔ “ [تاريخ بغداد : 22/5، وسنده صحيح]
◈ ابن عقدہ نے عبدالغفار بن القاسم ابومریم کی تعریف میں مبالغہ کیا، تو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا :
وابن سعيد (ابن عقدة) حيث قال، هٰذا الميل الشديد إنما كان لإفراطه فى التشيع .
’’ابن سعید (ابن عقدہ ) نے یہ انتہا کا میلان اس لیے ظاہر کیا ہے کہ وہ خود غالی شیعہ ہے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 327/5]
◈حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه ضعف . ’’اس میں کمزوری ہے۔ “ [سير أعلام النبلاء : 341/5، 342]
◈ نیز ابن خراش اور ابن عقدہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
وفيهما رفض وبدعة .
’’ان دونوں میں دشمنی صحابہ اور بدعت موجود ہے۔ “ [ميزان الاعتدال : 128/1]
◈ مزید فرماتے ہیں :
شيعي، وضعفه غير واحد .
’’یہ (رافضی ) شیعہ ہے اور اس کو کئی ایک محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ [المغني فى الضعفاء : 55/1]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فابن عقدة متهم، فإنه رافضي خبيث .
’’ابن عقدہ متہم راوی ہے، کیونکہ یہ خبیث رافضی ہے۔ “ [جامع المسانيد والسنن : 524/5]

اگر کوئی کہے کہ ابن عقدہ اس سند میں منفرد نہیں، بلکہ شاذان فضلی کے استاذ ابوالحسن علی بن ابراہیم بن اسماعیل بن کعب دقاق نے اس کی متابعت کی ہے۔ [اللآلي المصنوعة للسيوطي : 338/1]

تو اس سے پوچھا جائے کہ شاذان فضلی کس مصیبت کا نام ہے ؟ اس کے استاذ ابوالحسن علی بن ابراہیم کے بھی حالات زندگی نہیں مل سکے۔
بعض لوگ اسے علی بن اسماعیل بن کعب، جس کا ترجمہ (حالاتِ زندگی ) تاریخ بغداد للخطیب [345/11] میں ہے، سمجھتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔ اگر یہی مراد لیاجائے، تو یہ بھی ’’مجہول “ ہے۔
اسے ازدی نے ثقہ کہا ہے۔ [تاريخ بغداد للخطيب : 258/13، طبعة بشار]
لیکن ابوالفتح محمد بن الحسین ازدی بے چارہ خود ’’ضعیف “ ہے۔ کوئی ’’ضعیف “ کسی کو کیسے ثقہ کہہ سکتا ہے ؟یوں یہ متابعت سرے سے ثابت ہی نہیں ہے۔
شاذان فضلی نامعلوم کی سند میں علی بن جابر اودی بھی ’’مجہول “ ہے۔
➋ اس روایت کا دوسرا راوی عبدالرحمٰن بن شریک ہے۔
◈ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے واهي الحديث (کمزور) کہا ہے۔ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 244/5]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ اسے اپنی کتاب [الثقات : 375/8] میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ربما أخطأ .
کبھی کبھی غلطی کر جاتا ہے۔ “
(لہٰذا امام حاکم [33/2] کا اس کی ایک روایت کو صحيح على شرط مسلم کہنا، حافظ ہیثمی [مجمع الزوائد : 68/8] کا اسے ثقہ قرار دینا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ [تقريب التهذيب : 3893] کا اسے ’’صدوق “ کہنا امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ جیسے جمہور ائمہ کی جرح کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہے۔ اس پر ضعف ہی غالب ہے۔
➌ عبدالرحمٰن یہ روایت اپنے باپ شریک بن عبداللہ القاضی سے بیان کر رہا ہے۔ شریک القاضی راوی جب کوفہ میں عہدۂ قضا پر فائز ہوئے، تو ان کا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ ان کے بیٹے عبدالرحمٰن بن شریک نے یہ روایت اپنے والد سے ان کا حافظہ بگڑنے سے پہلے سنی تھی یا بعد میں۔
فرماتے ہیں : اسی لیے حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا حديث باطل، أما عبد الرحمٰن بن شريك عن أبيه؛ فقال أبو حاتم الرازي : هو واهي الحديث، قلت : و [ أما ] أنا؛ فلا أتهم بهٰذا إلا ابن عقدة، فإنه كان رافضيا، يحدث بمثالب الصحابة .
’’یہ حدیث باطل ہے۔ عبدالرحمٰن بن شریک اپنے باپ سے بیان کرتا
ہے۔ اس کے بارے میں امام ابوحاتم رازی فرماتے ہیں : وہ کمزور روایات
بیان کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں : میرے خیال میں صرف ابن عقدہ ہی اس
روایت کو گھڑنے والا ہے، کیونکہ وہ رافضی ہے اور صحابہ کرام کے عیوب بیان کرتا ہے۔ “ [الموضوعات : 356/1]
——————
روایت نمبر

سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی سے منسوب ہے :
لما كان يوم خيبر شغل على بما كان من قسمة الغنائم، حتٰي غابت الشمس، فسأل النبى عليا؛ ’هل صليت العصر؟‘ قال : لا، فدعا الله، فارتفعت حتٰي توسطت المسجد، فصلٰي علي، فلما صلٰي؛ غابت الشمس، قال : فسمعت لها صريرا كصرير المنشار فى الخشبة .
’’خیبر کے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ مالِ غنیمت کی تقسیم میں مشغول رہے، حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور سورج بلند ہوتا ہوا مسجد کے درمیان میں آ گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، تو سورج کے غروب ہونے کی آواز میں نے سنی جیساکہ کسی لکڑی میں آرا چلایا جاتاہے۔ “ [أخرجه أبو الحسن شاذان الفضلي، [كما فى اللآلي المصنوعة للسيوطي : 340/1] ، وأبو القاسم عبيداللہ بن عبداللہ الحسكاني [كما فى منهاج السنة النبوية لابن تيمية : 191/4] ، البداية والنهاية لابن كثير : 90/6]

تبصره :

یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
➊ صاحب کتاب ابوالحسن شاذان فضلی کے حالات نہیں مل سکے۔
➋ اس کے راوی صباح بن یحییٰ کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيه نظر . ’’یہ مجہول راوی ہے۔ “
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو شيعي، من جملة شيعة الكوفة .
’’یہ کوفہ کے شیعوں میں سے ہے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 84/4]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك، بل متهم . ’’یہ متروک بلکہ متہم بالکذب راوی ہے۔ “ [ميزان الاعتدال : 306/2]
◈ ابن عراق رحمہ اللہ کہتے ہیں :
شيعي، متروك، متهم .
’’یہ شیعہ، متروک اور متہم بالکذب راوی ہے۔ “ [تنزيه الشريعة : 67/1]
اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
➌اس کے استاذ محمد بن صبیح دمشقی کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
➍ عبداللہ بن الحسین بن جعفر
➎ حسین مقتول
➏ فاطمہ بنت علی
➐ ام الحسن بنت علی
ان سب راویوں کا تعارف اور ان کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
——————
روایت نمبر

ایک روایت یوں ہے :
أخرجه أبو القاسم الحسكاني [كما فى منهاج السنة النبوية لابن تيمية : 190/4] عن أبي حفص، ثنا محمد بن عمر القاضي الجعابي، ثنا محمد بن إبراهيم بن جعفر العسكري من أصل كتابه …. .

تبصره :

اس کی سند بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے، کیونکہ :
➊ ام اشعث راویہ ’’مجہولہ “ ہے۔
➋ احمد بن محمد بن یزید بن سلیم کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➍ امام سفیان ثوری کی ’’تدلیس “ ہے۔
◈ اس روایت کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا مما لا يقبل نقله إلا ممن عرف عدالته وضبطه؛ لا من مجهول الحال، فكيف إذا كان مما يعلم أهل الحديث أن الثوري لم يحدث به، ولا حدث به عبد الرزاق؟ وأحاديث الثوري وعبد الرزاق يعرفها أهل العلم بالحديث، ولهم أصحاب يعرفونها، ورواه خلف بن سالم، ولو قدر أنهم رووه؛ فأم أشعث مجهولة، لا يقوم بروايتها شيئ .
’’ایسی روایات صرف ان لوگوں سے روایت کرنا جائز ہے، جن کی عدالت اور حافظہ معروف ہو۔ مجہول الحال راویوں سے ایسے بیانات لینا جائز نہیں۔ پھر یہ ایسی روایت ہے، جس کے بارے میں محدثین جانتے ہیں کہ اس کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے بیان ہی نہیں کیا۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کی تمام روایات کو محدثین جانتے ہیں۔ محدثین کے تمام شاگرد بھی ان روایات سے واقف ہیں، لیکن اس روایت کوصرف خلف بن سالم نے بیان کیا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ محدثین نے اسے بیان کیا ہے، تو بھی اس میں ام اشعث مجہولہ راویہ ہے۔ اس کی کوئی روایت کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ “ [منهاج السنة النبوية فى نقض كلام الشيعة والقدرية : 190/4]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا إسناد غريب جدا، وحديث عبد الرزاق وشيخه الثوري محفوظ عند الـأئمة، لا يكاد يترك منه شيئ من المهمات، فكيف لم يرو عن عبد الرزاق مثل هٰذا الحديث العظيم؛ إلا خلف بن سالم، بما قبله من الرجال الذين لا يعرف حالهم فى الضبط والعدالة كغيرهم؟ ثم إن أم أشعث مجهولة .
’’یہ سند انتہا درجے کی منکر ہے۔ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ اور ان کے استاذ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی احادیث محدثین کے ہاں محفوظ ہیں، کوئی اہم روایت ان سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے اس طرح کی عظیم معجزہ کی حامل حدیث صرف خلف بن سالم ہی بیان کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سالم سے اوپر والے راوی اپنے حافظے اور عدالت کے اعتبار سے دوسرے راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔ تیسرے یہ کہ ام اشعث مجہولہ ہے۔ “ [البداية والنهاية : 89/6]
——————
روایت نمبر

اس روایت کی ایک سند یوں ہے :
عن حسين الـأشقر، عن على بن عاصم، عن عبد الرحمٰن ابن عبد الله بن دينار، عن على بن الحسين، عن فاطمة بنت علي، عن أسماء . [أخرجه القاسم الحسكاني، كما فى منهاج السنة لابن تيمية : 191/4، 192]

تبصره :

یہ باطل سند ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا إسناد لا يثبت . ’’یہ سندصحیح نہیں۔ “ [البداية والنهاية : 89/6]
اس کا راوی حسین بن حسن اشقر جمہور کے نزدیک ’’ضعیف “ ہے۔
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وضعفه الجمهور . ’’جمہور محدثین کرام نے اسے کہا ہے۔ “ [مجمع الزوائد : 102/9]
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه نظر . ’’یہ منکر الحدیث راوی ہے۔ “ [التاريخ الكبير : 385/2]
◈ نیز فرماتے ہیں :
عنده مناكير . ’’اس کے پاس منکر روایات ہیں۔ “ [التاريخ الصغير : 291/2]
◈ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث، وكان صدوقا . ’’اس کی بیان کردہ حدیث منکر ہوتی ہے، اگرچہ وہ خود سچا تھا۔ “ [سؤالات ابن هاني : 2358]
◈ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هو شيخ منكر الحديث. ’’یہ منکر احادیث بیان کرنے والا راوی ہے۔ “ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 50/3]
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بقوي فى الحديث . ’’حدیث بیان کرنے میں بہت کمزور تھا۔ “ [الجرح والتعديل : 49/3]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جماعة من ضعفاء الكوفيين يحيلون بالروايات علٰي حسين الـأشقر، علٰي أن حسينا هٰذا فى حديثه بعض ما فيه .
’’ضعیف کوفی راویوں کی ایک جماعت حسین اشقر کی طرف روایات منسوب کرتی تھی، حالانکہ خود اس حسین کی حدیث میں بھی ضعف موجود ہے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 362/2]
◈ امام دارقطنی [كتاب الضعفاء والمتروكين :195] اور امام نسائی [الضعفاء والمتروكين :195]
نے بھی اسے ’’غیرقوی “ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو شيعي متروك . ’’یہ شیعہ اور متروک راوی ہے۔ “ [تفسير ابن كثير : 570/3]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وحسين متهم . ’’حسین اشقر متہم بالکذب راوی ہے۔ “ [تلخيص كتاب الموضوعات : 151/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف “ قرار دیا ہے۔ [فتح الباري شرح صحيح البخاري : 28/6]
◈ علی بن حسین اگر زین العابدین ہیں، تو عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے ان کا زمانہ نہیں پایا اور اگر کوئی اور ہے، تو اسے ہم نہیں جانتے۔
——————
روایت نمبر

ایک اور سند ملاحظہ ہو :
يرويه عبد الرحمٰن بن عبد الله بن دينار عن عبد الله بن الحسن، عن أمه فاطمة بنت حسين، عن أسماء ……. [أخرجه أبو الحسن شاذان الفضلي، كما فى اللآلي المصنوعة للسيوطي : 339/1]

تبصره :

یہ انتہائی جھوٹی سند ہے، کیونکہ :
➊ صاحب ِ کتاب شاذان فضلی کون ہے ؟کوئی پتہ نہیں۔
➋ امام طبرانی کا استاذ اسماعیل بن الحسن خفاف ’’مجہول “ ہے۔
➌ یحییٰ بن سالم کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➍ صباح مروزی (مزنی ) اگر صباح بن یحییٰ ہے، تو متہم ہے۔ اگر کوئی اور
ہے تو وہ ’’مجہول “ ہے۔
➎ اسماعیل بن اسحاق راشدی کی توثیق درکار ہے۔
➏ فاطمہ بنت حسین کا سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں۔
——————
روایت نمبر

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
لما كنا بخيبر شهد رسول الله فى قتال المشركين، فلما كان من الغد، وكان مع صلاة العصر؛ جئته، ولم أصل صلاة العصر، فوضع رأسه فى حجري، فنام، فاستثقل، فلم يستيقظ حتٰي غربت الشمس، فقلت : يا رسول الله، ما صليت صلاة العصر، كراهية أن أوقظك من نومك، فرفع يده، ثم قال : ’اللهم، إن عبدك تصدق بنفسه علٰي نبيك، فاردد عليه شرقها‘، قال : فرأيتها على الحال فى وقت العصر بيضائ نقية، حتٰي قمت، ثم توضأت، ثم صليت، ثم غابت .
’’جب ہم غزوۂ خیبر میں تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے لڑائی میں شریک ہوئے۔ اگلے دن عصر کے وقت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے ابھی تک عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار نہ ہوئے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی، کیونکہ آپ کو نیند سے بیدار کرنا مجھے اچھا نہیں لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر یہ دعا کی : اللہ ! تیرے بندے نے اپنی جان کو تیرے نبی پر قربان کر رکھا تھا۔ اس پر سورج کو واپس لوٹا دے۔ میں نے دیکھا کہ سورج عصر کے وقت کی طرح بالکل صاف سفید روشن ہو گیا۔ میں اٹھا، وضو کیا اور نماز پڑھی۔ پھر سورج غروب ہو گیا۔ “ [أخرجه أبو الحسن شاذان الفضلي، كما فى اللآلي المصنوعة للسيوطي : 340/1، 341]

تبصره :

یہ سفید جھوٹ ہے، کیونکہ :
➊ شاذان کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ یہ کوئی جھوٹ کا کاریگر لگتا ہے۔
➋ یحییٰ بن عبداللہ بن حسن بن علی کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔
➌ ابواسحاق ابراہیم بن رشید کون ہے ؟ تعارف درکار ہے۔
➍ عبداللہ بن فضل طائی کی توثیق درکار ہے۔
البتہ مالینی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن منذر نے کہا:
كان ثقة؛ إلا أنه كان يغلو فى التشيع .
’’یہ ثقہ راوی تھا، البتہ غالی شیعہ بھی تھا۔ “ [لسان الميزان لابن حجر : 326/3]
عبداللہ بن منذرائمہ جرح و نقد میں سے نہیں۔ لہٰذا ان کی توثیق معتبر نہیں۔
➎ عبیداللہ بن سعید بن کثیر بن عفیر سخت مجروح ہے۔
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكلا الحديثين يرويهما عنه ابنه عبيد الله، ولعل البلائ من عبيد الله .
’’ان دونوں حدیثوں کو سعید سے اس کے بیٹے عبیداللہ نے بیان کیا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ عبیداللہ ہی کی گھڑیتل ہے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 412/3]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن أبيه عن الثقات الـأشيائ المقلوبات، لا يشبه حديثه حديث الثقات .
’’یہ اپنے باپ سے منسوب کر کے ثقہ راویوں کی سند سے مقلوب روایتیں
بیان کرتا ہے۔ اس کی حدیث ثقہ راویوں کی حدیث جیسی نہیں ہوتی۔ “ [المجروحين : 67/2]
◈ حسین بن اسحاق اصبہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
لا يجوز الاحتجاج بخبره إذا انفرد .
’’جب یہ کوئی روایت بیان کرنے میں منفرد ہو، تو اس کی روایت کو دلیل بنانا جائز نہیں ہوتا۔ “ [المجروحين : 67/2]
لہٰذا امام ابوعوانہ رحمہ اللہ کا اپنی کتاب میں اس کا ذکر کرنا مفید نہیں۔
——————
روایت نمبر

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
قال على يوم الشورٰي : أنشدكم بالله، هل فيكم من ردت له الشمس غيري، حين نام رسول الله، وجعل رأسه فى حجري، حتٰي غابت الشمس، فانتبه، فقال : ”يا علي، صليت العصر؟‘، قلت : اللهم لا، فقال : ’اللهم ارددها عليه، فإنه كان فى طاعتك وطاعة رسولك“ .
’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کے دن فرمایا : میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں : کیا میرے علاوہ کوئی ہے، جس کے لئے سورج واپس پلٹ آیا تھا۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر مبارک رکھے سو رہے تھے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، تو فرمایا : علی ! کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی : اے اللہ ! ان کے لئے سورج کو واپس پلٹا دے، کیونکہ یہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے۔ “ [أخرجه شاذان الفضلي، كما فى اللآلي المصنوعة للسيوطي : 341/1]

تبصره :

یہ روایت صریح جھوٹ ہے اور خالص ابلیسی کارروائی ہے، کیونکہ :
➊ شاذان فضلی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
➋ اس کا استاذ ابوالحسن بن صفوہ بھی ’’مجہول “ ہے۔
➌ حسن بن علی بن محمد عدوی، طبری کی بھی توثیق درکار ہے۔
➍ احمدبن علا رازی کا پتہ نہیں چل سکا۔
➎ اسحاق بن ابراہیم تیمی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➏ ابراہیم بن یزید نخعی ’’مدلس “ ہیں۔
➐ علقمہ کا سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے سماع درکار ہے۔
——————
روایت نمبر

جویریہ بنت مسہر سے منسوب ہے :
خرجت مع علي، فقال : يا جويرية، إن النبى كان يوحٰي إليه، ورأسه فى حجري ….. . [أخرجه أبو القاسم الحسكاني، كما فى منهاج السنة لابن تيمية : 194/4]

تبصره :

یہ صریح جھوٹ ہے، جیساکہ :
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا الإسناد أضعف مما تقدم، وفيه من الرجال المجاهيل الذين لا يعرف أحدهم بعدالة ولا ضبط، وانفرادهم بمثل هٰذا الذي، لو كان على قاله، لرواه عنه المعروفون من أصحابه، وبمثل هٰذا الإسناد عن هٰذه المرأة، ولا يعرف حال هٰذه المرأة، ولا حال هولائ الذين رووا عنها، بل ولا تعرف أعيانهم، فضلا عن صفاتهم، لا يثبت فيه شيئ، وفيه ما يناقض الرواية التى هي أرجح منه، مع أن الجميع كذب، فإن المسلمين رووا من فضائل علي، ومعجزات النبى صلى الله عليه وسلم ما هو دون هٰذا، وهٰذا لم يروه [أحد] من أهل العلم بالحديث .
’’یہ روایت گزشتہ روایت سے زیادہ سخت ضعیف ہے۔ اس میں ایسے مجہول راوی ہیں جن میں سے کسی کی عدالت و ضبط معروف نہیں۔ وہ اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا، تو ضرور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشہور رفقا ان سے بیان کرتے۔ اس جیسی روایت کو بیان صرف ایک عورت جویریہ بنت ِ مسہ رنے کیا، جو خود مجہولہ ہے ! پھر اس سے بیان کرنے والے راویوں کے حالات بھی معلوم نہیں، بلکہ ان کی شخصیتوں ہی کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ یہ روایت جھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ان روایات کے بھی مخالف ہے، جو اس کی نسبت راجح ہیں۔ مسلمانوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو بیان کیا ہے، مگر یہ ان سب سے بڑھ کر ہے، پھر بھی کسی محدث نے اسے نقل نہیں کیا۔ “ [منهاج السنة :194/4]

◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا الإسناد مظلم، وأكثر رجاله لا يعرفون، والذي يظهر، ــــ والله أعلم ـــ أنه مركب مصنوع، مما عملته أيدي الروافض، قبحهم الله .
’’یہ سند جھوٹی ہے۔ اس کے اکثر راوی مجہول ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی ہے، جو کہ رافصیوں کی گھڑنت ہے۔ اللہ ان کو تباہ و برباد کرے۔ “ [البداية والنهاية : 92/6]
——————
روایت نمبر

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
نام رسول الله، ورأسه فى حجر علي، ولم يكن صلى العصر حتٰي غربت الشمس، فلما قام النبي؛ دعا له، فردت عليه الشمس حتٰي صلٰي، ثم غابت ثانية .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے سو گئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابھی تک عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، تو ان کے لئے دعا کی۔ سورج ان کے لیے پلٹ آیا، حتی کہ انہوں نے نماز ادا کر لی۔ پھر سورج دوبارہ غروب ہو گیا۔ “ [أخرجه شاذان الفضلي، كما فى اللآلي المصنوعة للسيوطي : 338/1، وأبو القاسم الحسكاني، كما فى منهاج السنة لابن تيمية : 194/4]

تبصره :

یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف “ ہے، کیونکہ :
➊ داؤدبن فراہیج کے بارے میں امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان كبر، وافتقر . ’’یہ زیادہ بوڑھا اور مختلط ہو گیاتھا۔ “ [التاريخ الكبير للبخاري : 230/3، وسنده صحيح]
معلوم نہیں کہ اس نے یہ روایت کب بیان کی ؟
➋ داؤد بن فراہیج سے نیچے ابن مردویہ تک سند بھی غائب ہے۔
اللآلي المصنوعة للسيوطي [309/3] میں مذکور اس کی دوسری باطل سند بھی ہے، کیونکہ :
➊ اس میں داؤد کا متابع عمارہ بن فیروز ’’مجہول “ ہے۔
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا يتابع علٰي حديثه . ’’اس کی حدیث پر متابعت نہیں کی گئی۔ “ [الضعفاء الكبير : 316/3]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايعرف من هو . ’’کوئی پتہ نہیں کہ یہ کون ہے ؟“ [ميزان الاعتدال : 178/3]
➋ یزید بن عبدالملک نوفلی جمہور محدثین کے نزدیک سخت ترین ’’ضعیف “ اور ’’منکرالحدیث “ ہے۔
◈ امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام ابوحاتم رازی، امام ابوزرعہ رازی، امام دارقطنی، امام نسائی، امام ابن عدی اور امام بزار رحمها اللہ نے اسے ’’ضعیف “ اور ’’منکر الحدیث “ کہا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ [تقريب التهذيب : 7751] نے اسے ’’ضعیف “ کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
مجمع علٰي ضعفه . ’’محدثین کرام کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ “ [ميزان الاعتدال : 141/4]
◈حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو متروك، ضعفه جمهور الـأئمة .
’’وہ متروک راوی ہے، جمہور ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ [مجمع الزوائد : 91/4]
➌ یحییٰ بن یزید بن عبدالملک راوی ’’ضعیف “ اور ’’منکر الحدیث “ ہے۔
➍ شاذان فضلی کون ہے ؟ لگتا ہے یہ اسی کی گھڑنتل ہے۔
◈ اس روایت کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا إسناد مظلم، لا يثبت به شيئ عند أهل العلم، بل يعرف كذبه من وجوه … .
’’یہ سند اندھیری ہے۔ اہل علم کے نزدیک اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا، بلکہ کئی طرح سے اس کا جھوٹا ہونا واضح ہوتا ہے۔ “ [منهاج السنة : 193/4]
——————
روایت نمبر

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
دخلت علٰي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا رأسه فى حجر علي، وقد غابت الشمس ….. . [أخرجه أبو القاسم عبيد اللہ الحسكاني، كما فى منهاج السنة لابن تيمية : 193/4]

تبصره :

یہ بھی جھوٹی روایت ہے، جیسا کہ :
◈شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا الإسناد لا يثبت بمثله شيئ، وكثير من رجاله لا يعرفون بعدالة ولا ضبط، ولا حمل للعلم، ولا لهم ذكر فى كتب العلم .
’’اس طرح کی ساری روایات غیر ثابت ہیں۔ ان کے اکثر راوی عدالت، حافظے اور علمی اعتبار سے غیر معروف ہیں۔ ان کا کسی علمی اور جرح و تعدیل کی کتب میں کوئی تذکرہ نہیں۔ “ [منهاج السنة : 193/4]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا إسناد مظلم أيضا، ومتنه منكر، ومخالف لما تقدمه من السياقات، وكل هٰذا يدل علٰي أنه موضوع مصنوع مفتعل، يسرقه هٰؤلائ الرافضة بعضهم من بعض، ولو كان له أصل من رواية أبي سعيد لتلقاه عنه كبار أصحابه .
’’یہ سند بھی اندھیری ہے اور اس کا متن منکر ہے۔ یہ اس واقعے کے گزشتہ سیاق کے بھی مخالف ہے۔ یہ ساری چیزیں اس کے موضوع، من گھڑت اور خودساختہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ روافض نے ایک دوسرے سے اس روایت کا سرقہ کیا ہے۔ اگر یہ واقعی سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ہوتی، تو اسے ان کے کبار اصحاب ضرور ان سے بیان کرتے۔ “ [البداية والنهاية : 92/6]
——————
روایت نمبر

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجر علي، وكان يوحٰي إليه، فلما سري عنه، قال : يا علي، صليت العصر؟ قال : لا، قال : اللهم، إنك تعلم أنه كان فى حاجتك وحاجة رسولك، فرد عليه الشمس‘، فردها، فصلٰي علي، فغابت .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا۔ جب وحی ختم ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا : علی ! کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی : اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے اور تیرے رسول کے کام میں مشغول تھے، ان کے لیے سورج کو لوٹا دے۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو پلٹا دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، تو سورج پھر غروب ہو گیا۔ “ [تلخيص المتشابة للخطيب : 225/1، الذرية الطاهرة للدولابي : 164]

تبصره :

یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
اس کے راوی ابراہیم بن حیان کے بارے میں :
◈ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إبراهيم بن حيان فى عداد المجهولين . ’’ابراہیم بن حیان کا شمار مجہول راویوں میں ہوتا ہے۔ “ [تلخيص المتشابه : 225/1]
——————
روایت نمبر

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر الشمس، فتأخرت ساعة من نهار .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کو حکم دیا، تو وہ تھوڑی دیر کے لئے لیٹ ہو گیا۔ “ [المعجم الأوسط للطبراني : 4039، اللآلي المصنوعة للسيوطي : 312/1]

تبصره :

یہ سند باطل ہے، کیونکہ :
➊ ولید بن عبدالواحد تمیمی راوی کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔
➋ ابوالزبیر ’’مدلس “ ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔

خلاصة التحقيق :
مذکورہ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کے واپس آنے کے بارے میں بیان کی جانے والی ساری کی ساری روایات ’’ضعیف “ اور باطل ہیں۔ کسی میں مجہول، کسی میں ضعیف اور کسی میں متروک راوی پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی۔
اس روایت کے بارے میں جمہور ائمہ محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں :
◈ حافظ ابوبکر محمد بن حاتم بن زنجویہ بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب [إثبات إمامة الصديق] میں فرماتے ہیں :
الحديث ضعيف جدا، لا أصل له، كذا مما كسبت أيدي الروافض .
’’یہ روایت سخت ضعیف اور بے اصل ہے۔ یہ روافض کی کارستانی ہے۔ “ [البداية والنهاية لابن كثير : 87/6]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ امام ابن مدینی رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ روایت بے اصل ہے۔ [البداية والنهاية : 93/6]
◈ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا حديث منكر، وفيه غير واحد من المجاهيل .
’’یہ حدیث منکر ہے، اس میں کئی ایک مجہول راوی ہیں۔ “ [تاريخ دمشق : 314/42]
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فالرواية فيه لينة . ’’اس روایت میں کمزوری ہے۔ “ [الضعفاء الكبير : 328/3]
◈حافظ جورقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا حديث منكر مضطرب . ’’یہ حدیث منکر اور مضطرب ہے۔ “ [الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير : 308/1]
◈ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے ’’موضوع “ (من گھڑت ) قرار دیا ہے۔ [الموضوعات : 356/1]
◈ حافظ محمد بن ناصر بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا الحديث موضوع . ’’یہ حدیث من گھڑت ہے۔ “ [البداية والنهاية لابن كثير : 87/6]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صدق ابن ناصر .
’’ابن ناصر نے بالکل سچ کہا ہے۔ “ [البداية والنهاية لابن كثير : 87/6]
◈ نیز اس کے بارے میں خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لٰكنها ساقطة، ليست بصحيحة .
’’یہ روایت جھوٹی ہے، صحیح نہیں۔ “ [تلخيص الموضوعات : 118]
شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ [منهاج السنة : 185/4، 195]
◈ محمد بن عبید طنافسی اور یعلی بن عبید طنافسی نے بھی اسے من گھڑت ہی قرار دیا ہے۔ [البداية والنهاية لابن كثير : 93/6]
◈ حافظ ابوالحجاج یوسف مزی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’موضوع “ قرار دیا ہے۔ [البداية والنهاية لابن كثير : 93/6]
◈ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسے جھوٹی روایتوں میں ذکر کیا ہے۔ [المنار المنيف : 56/1]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا الحديث ضعيف ومنكر من جميع طرقه، فلا تخلو واحدة منها عن شيعي، ومجهول الحال، وشيعي ومتروك .
’’یہ روایت اپنے جمیع طرق کے ساتھ ضعیف و منکر ہے۔ اس کی کوئی ایک سند بھی شیعہ، مجہول الحال اور شیعہ و متروک راویوں سے خالی نہیں ہے۔ “ [البداية والنهاية : 87/6]
◈ علامہ معلّمی رحمہ اللہ اس روایت پریوں تبصرہ کرتے ہیں :
هٰذه القصة أنكرها أكثر أهل العلم، لأوجه؛ الـأول : أنها لو وقعت؛ لنقلت نقلا يليق بمثلها، الثاني : أن سنة الله عز وجل فى الخوارق أن تكون لمصلحة عظيمة، ولا يظهر هنا مصلحة، فإنه إن فرض أن عليا فاتته صلاة العصر، كما تقول الحكاية، فإن كان ذٰلك لعذر؛ فقد فاتت النبى صلى الله عليه وسلم صلاة العصر يوم الخندق لعذر، وفاتته وأصحابه صلاة الصبح فى سفر، فصلاهما بعد الوقت، وبين أن ما وقع لعذر؛ فليس فيه تفريط، وجائت عدة أحاديث فى أن من كان يحافظ علٰي عبادة، ثم فاتته لعذر؛ يكتب الله عز وجل له أجرها كما كان يؤديها، وإن كان لغير عذر؛ فتلك خطيئة إذا أراد الله تعالٰي مغفرتها؛ لم يتوقف ذٰلك علٰي إطلاع الشمس من مغربها، ولا يظهر لإطلاعها معني، كما أنه لو قتل رجل آخر ظلما، ثم أحيا الله المقتول؛ لم يكن فى ذٰلك ما يكفر ذنب القاتل، الثالث : إن طلوع الشمس من مغربها آية قاهرة، إذا رآها الناس آمنوا جميعا، كما ثبت فى الـأحاديث الصحيحة، وبذٰلك فسر قول الله عز وجل ﴿يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ﴾ [الأنعام 6 : 158] ، فكيف يقع مثل هٰذا فى حياة النبى صلى الله عليه وسلم، ولا ينقل أنه ترتب عليه إيمان رجل واحد .
’’کئی وجوہ کی بنا پر اہل علم نے اس قصے کو منکر قرار دیا ہے ؛ ① اگر ایسا واقعی رونما ہوا ہوتا، تو اسے اہم واقعات کی طرح (کثرت سے ) نقل کیا جاتا۔ ② خارقِ عادت کاموں کے بارے میں اللہ عزوجل کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی عظیم مصلحت کے پیش نظر رونما ہوتے ہیں، لیکن اس واقعہ میں ایسی کوئی مصلحت نظر نہیں آ رہی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ واقعی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نمازِ عصر رَ ہ گئی تھی، تو وہ یا کسی عذر کی وجہ سے رہی ہو گی، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ عصر بھی غزوۂ خندق کے موقع پر رہ گئی تھی۔ اسی طرح صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نمازِ فجر بھی لیٹ ہو گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے نے نماز کا وقت گزر جانے کے بعد نماز ادا کی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے ایسا ہو جائے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ بے شمار احادیث میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ جو شخص پابندی کے ساتھ کسی عبادت کو سرانجام دیتا ہے، اگر کسی عذر کی وجہ سے کبھی وہ عبادت رہ جائے، تو اس کو اسی طرح اجر ملتا ہے، جس طرح ادا کرنے پر ملتا تھا۔ اور اگر یہ مانا جائے کہ (معاذاللہ ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی عذر کے نمازِ عصر کو لیٹ کیا تھا، تو یہ ایک گناہ تھا، جسے اللہ چاہتا تو معاف فرما دیتا اور اس معافی کے لیے سورج کو مغرب سے طلوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، نہ اس کا کوئی فائدہ۔ اگر کوئی آدمی کسی کو ناجائز قتل کر دے، پھر اللہ رب العزت مقتول کو دوبارہ زندہ کر دیں، تو اس سے قاتل کا گناہ کسی صورت معاف نہیں ہو گا۔ یہ صورت بھی ایسی ہی ہے۔ ③ مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا بڑی سخت نشانی ہے اور جب لوگ اس کو دیکھیں گے، تو سب ایمان لے آئیں گے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اللہ رب العزت کے اس فرمان کی تفسیربھی یہی کی گئی ہے : ﴿يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ﴾ [الأنعام 6 : 158] (جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آ پہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا، جو اس سے پہلے مؤمن نہیں ہو گا۔ ) اب کیسے ممکن ہے کہ ایسی نشانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں رونما ہو جائے اور پھر اس کے نتیجے میں کسی ایک بھی شخص کے ایمان لانے کے بارے میں کوئی بات نقل نہیں کی گئی۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم و رحمۃ

    حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے سورج کا غروب سے واپس لوٹنا اور حضرت علی کا نماز عصر کا پڑھنا اور سورج کا پھر سے غروب ہو جانا ان احادیث کی صحت پر محدثین اکرام کی سیر حاصل بحث بلکل درست ہے اور اسلامی طور پر یہ سب روایات نہ قابل قبول ہیں اور سائینسی اعتبار سے بھی یہ واقعہ نا ممکنات میں سے ہے اور تفصیلی سائینسی بحث آپ کے مطالعہ کےلئے تحریر خدمت ہے اور آپکی آرا میرے لئے رہنمائی ہونگی۔

    میں پیشے کے اعتبار سے ایک انجینیئر ہوں اور سائینس کا ادراک بخوبی رکھتا ہوں اور اجرام فلکی کی حرکات پر ناسا کی کتب کا گہرا مطالعہ رکھتا ہوں۔

    میں اپنے علم کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ جس دن سورج، زمین یا چاند نے اپنے مدار میں کوئی تبدیلی کی یا سورج ایک لمحہ کہ لۓ رکا تو فوری قیامت برپا ہو جاۓ گی کیونکہ اجرام فلکی ایک مربوط نظام کے تحت چل رہے ہیں (القرآن) اور اس رکنا یا واپس آنا ممکن نہیں اور خادج الامکان ہے

    لہذا سائینس اس واقعہ کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا

    احقر العباد
    انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
    27 دسمبر 2019

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے