سورت بقرہ کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ تحریر شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب سورتوں اور آیات کے فضائل سے ماخوذ ہے۔

سورت بقرہ کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں

سورت بقرہ مدنی ہے، اس کے پچیس ہزار پانچ سو (25500) حروف، چھ ہزار ایک سو اکیس (6121) کلمات اور دو سو چھیاسی (286) آیات ہیں، اس میں بنی اسرائیل کے گائے ذبح کرنے کا واقعہ ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام بھی بقرہ (گائے) رکھ دیا گیا ہے، قرآن کی سب سے لمبی آیت، آیت الکرسی اسی میں ہے، اس آیت میں 33 بار حرف میم آیا ہے، سورت بقرہ ان چھ سورتوں میں سے ایک ہے، جن کا آغاز الم سے ہوتا ہے، اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ بقرہ مدینہ میں سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت ہے۔

➊ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تجعلوا بيوتكم مقابر، فإن الشيطان ينفر من البيت الذى تقرأ فيه سورة البقرة .
صحیح مسلم : 780
گھروں کو قبرستان نہ بنائیں، جس گھر میں سورت بقرہ تلاوت کی جاتی ہے، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے۔

➋ سنن ترمذی 2877 ، وسندہ حسن وقال : حسن صحیح میں الفاظ ہیں:
کہ گھوڑا یحیی کو نقصان نہ پہنچائے ، اس ڈر سے میں نے تلاوت روک دی، تو گھوڑا بھی رک گیا۔ میں نے تلاوت دوبارہ شروع کی، تو گھوڑا پھر بدکنے لگا، مجھے یحیی کا ڈر ہوا میں نے تلاوت روک دی۔ میں نے دوبارہ سے تلاوت شروع کی ، تو گھوڑا پھر سے بدکنے لگا، میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو چراغ جیسا روشنی کا ایک ہالہ آسمان سے زمین کی طرف آرہا تھا۔ میں پریشان ہو گیا اور ہالہ غائب ہو گیا۔ صبح ہوئی ، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں بتایا، فرمایا : ابو یحیی! آپ پڑھتے رہتے ، عرض کیا : اللہ کے رسول! میں پڑھتا تو رہتا، مگر میرا گھوڑا بدکنے لگا تھا اور ڈر تھا کہ وہ میرے بیٹے یحیی کو نقصان نہ پہنچا دے، فرمایا : ابن حضیر ! پڑھتے رہتے ، عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں پڑھتا رہا، تو میں نے اپنا سر اٹھایا، چراغ جیسا روشنی کا ہالہ آسمان سے زمین کی طرف آتا نظر آیا، تو میں پریشان ہو گیا، فرمایا : وہ فرشتے تھے، جو آپ کی آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے۔ آپ صبح تک پڑھتے رہتے، تو انھیں لوگ بھی دیکھ لیتے ۔
صحیح البخاري : 5018 ، صحيح مسلم : 796

➌ سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
اقرؤوا القرآن فإنه يأتى يوم القيامة شفيعا لأصحابه، اقرؤوا الزهراوين ، البقرة وسورة آل عمران، فإنهما تأتيان يوم القيامة كأنهما غمامتان، أو كأنهما غيايتان، أو كأنهما فرقان من طير صواف، تحاجان عن أصحابهما، اقرؤوا سورة البقرة، فإن أخذها بركة، وتركها حسرة، ولا تستطيعها البطله .
صحیح مسلم : 804
قرآن پڑھا کریں، قرآن روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا، (خصوصاً) دو روشن سورتوں کی تلاوت کیا کریں، سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران۔ یہ سورتیں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی، جیسے دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے قطار میں اڑتے پرندوں کی دوٹولیاں ہوں، اپنے پڑھنے والوں کی وکالت کریں گی۔ سورۃ البقرۃ (ضرور) پڑھا کریں، اسے پڑھنا باعث برکت اور چھوڑ نا باعث حسرت ہے، جادو گر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

➍ سیدنا نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
يؤتى بالقرآن يوم القيامة وأهله الذين كانوا يعملون به سورة البقرة، وآل عمران، وضرب لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أمثال ما نسيتهن بعد، قال : كأنهما غمامتان، أو ظلتان سوداوان بينهما شرق ، أو كأنهما حزقان من طير صواف تحاجان عن صاحبهما .
صحیح مسلم : 805
روز قیامت قرآن اور اہل قرآن کو لایا جائے گا، سورت بقرہ اور سورت آل عمران سب سے آگے ہوں گی، جیسے یہ سیاہ بادل ہیں یا دوسائیان اور ان کے درمیان روشنی ہے، یا پرندوں کے دو غول ہیں۔ اہل قرآن کے حق میں جھگڑا کر رہی ہوں گی ۔

➎ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كنت جالسا عند النبى صلى الله عليه وسلم فسمعته يقول: تعلموا سورة البقرة، فإن أخذها بركة وتركها حسرة، ولا يستطيعها البطلة. قال: ثم سكت ساعة، ثم قال : تعلموا سورة البقرة، وآل عمران؛ فإنهما الزهراوان يظلان صاحبهما يوم القيامة كأنهما غمامتان أو غيايتان أو فرقان من طير صواف، وإن القرآن يلقى صاحبه يوم القيامة حين ينشق عنه قبره كالرجل الشاحب، فيقول له: هل تعرفني؟ فيقول: ما أعرفك فيقول: أنا صاحبك القرآن الذى أظمأتك فى الهواجر وأسهرت ليلك، وإن كل تاجر من وراء تجارته، وإنك اليوم من وراء كل تجارة فيعطى الملك بيمينه، والخلد بشماله، ويوضع على رأسه تاج الوقار، ويكسى والداه حلتين لا يقوم لهما أهل الدنيا فيقولان: بم كسينا هذا؟ فيقال: بأخذ ولدكما القرآن. ثم يقال له: اقرأ واصعد فى درج الجنة وغرفها، فهو فى صعود ما دام يقرأ، هذا كان، أو ترتيلا.
مسند الإمام أحمد : 348/5، سنن الدارمي : 3394، سنن ابن ماجه : 3781 مختصراً، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 560/1 مختصراً، وسنده حسن
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا، آپ نے فرمایا : سورت بقرہ سیکھیں! اسے سیکھنا باعث برکت اور چھوڑنا باعث حسرت ہے۔ جادوگر کا جادو اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر خاموش رہے، پھر فرمایا: سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھیں! یہ نور ہیں، روز قیامت اپنے پڑھنے والوں پر بادل یا چھتری کی طرح سایہ فگن ہوں گی، یا پھر قطار باندھے پرندوں کی ٹولیوں کی طرح۔ قیامت کے دن قاری قرآن کی قبر شق ہوگی، تو قرآن اس سے نحیف و نزار (یا اداس) آدمی کی شکل میں ملے گا اور پوچھے گا : مجھے پہچانتے ہو؟، قاری جواب دے گا: نہیں۔ قرآن کہے گا : میں قرآن ہوں۔ میں نے گرمی میں تجھے پیاسا رکھا، راتوں کو جگایا، ہر تاجر نفع حاصل کرنے کے لیے تجارت کرتا ہے، آج آپ تمام تجارتوں سے بے نیاز ہو گئے، چنانچہ قاری کے دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں ہمیشگی کا پروانہ دیا جائے گا، عزت و وقار کی تاج پوشی ہوگی اور اس کے والدین کو دو قیمتی لباس پہنائے جائیں گے، جن کے سامنے متاع دنیا حقیر ہو گی۔ قاری کے والدین عرض کریں گے : یہ لباس ہمیں کیوں پہنایا گیا ہے؟ بتایا جائے گا : آپ کے بیٹے نے قرآن سیکھا ہے اس لیے۔ پھر قاری سے کہا جائے گا : قرآن پڑھتے جائیں اور جنت کے بلند و بالا درجات پر چڑھتے جائیں، چنانچہ جب تک تلاوت کرتا رہے گا، درجات چڑھتا جائے گا، وہ چاہے تیز پڑھے یا آہستہ۔
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن على شرط مسلم.
اس کی سند امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر حسن ہے۔
تفسير ابن كثير 143/1 ، بتحقيق عبد الرزاق المهدي
حافظ بوصیری رحمہ اللہ اتحاف الخيرة المهرة: 330/6 اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ المطالب العالية : 3478 نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔

➏ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن لكل شيء سناما، وإن سنام القرآن سورة البقرة وإن لكل شيء لبابا، وإن لباب القرآن المفصل.
سنن الدارمي : 3420 ، وسنده حسن
ہر چیز کی چوٹی ہوتی ہے اور قرآن مجید کی چوٹی (فضیلت اور عظمت کے اعتبار سے) سورت بقرہ ہے۔ ہر چیز کا خلاصہ ہوتا ہے اور قرآن کا خلاصہ مفصل سورتیں ہیں۔

➐ نیز فرماتے ہیں:
إن لكل شيء سناما وسنام القرآن سورة البقرة، وإن الشيطان إذا سمع سورة البقرة تقرأ خرج من البيت الذى يقرأ فيه سورة البقرة.
المستدرك للحاكم :561/1؛ وسنده حسن
ہر چیز کی چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی (فضیلت و عظمت کے اعتبار سے) سورت بقرہ ہے۔ شیطان جب کسی گھر میں سورت بقرہ کی تلاوت سنتا ہے، تو وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ اسے امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح الاسناد اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔

آیت الکرسی

آیت الکرسی قرآن مجید کی افضل ترین آیت ہے، پچاس کلمات، ایک سو اسی (180) حروف اور دس (10) جملوں پر ہے۔ ابتدا لفظ اللہ سے کی گئی ہے اور اس میں توحید کے گیارہ (11) دلائل، پانچ (5) اسمائے حسنیٰ اور چھبیس (26) صفات باری تعالیٰ کا ثبوت ہے، اللہ کی کرسی کا ذکر ہے، اسی لیے آیت الکرسی کہلاتی ہے۔

➊ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنه كان على تمر الصدقة فوجد أثر كف كأنه قد أخذ منه فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: تريد أن تأخذه؟ قل: سبحان من سخرك لمحمد صلى الله عليه وسلم قال أبو هريرة: فقلت: فإذا جني قائم بين يدي، فأخذته لاذهب به إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: إنما أخذته لأهل بيت فقراء من الجن ولن أعود قال : فعاد فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: تريد أن تأخذه؟ فقلت: نعم، فقال: قل سبحان من سخرك لمحمد صلى الله عليه وسلم فقلت: فإذا أنا به فأردت أن أذهب به إلى النبى صلى الله عليه وسلم فعاهدني أن لا يعود فتركته، ثم عاد فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: تريد أن تأخذه؟ فقلت: نعم، فقال: قل سبحان من سخرك لمحمد صلى الله عليه وسلم فقلت: فإذا أنا به فقلت: عاهدتني فكذبت وعدت، لأذهبن بك إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: خل عني أعلمك كلمات إذا قلتهن لم يقربك ذكر ولا أنثى من الجن قلت: وما هؤلاء الكلمات؟ قال: آية الكرسي اقرأها عند كل صباح ومساء قال أبو هريرة: فخليت عنه فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال لي: أوما علمت أنه كذلك.
فضائل القرآن للنسائي : 42 ، إسناده حسن
وہ صدقے کی کھجوروں پر نگران تھے، انھوں نے کھجوروں کے ڈھیر پر ہاتھ کے نشان دیکھے گویا کسی نے وہاں سے کچھ اٹھایا ہو۔ اس واقعہ کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: چور کو پکڑنے کے لیے یہ وظیفہ پڑھیں۔ سبحان من سخرك لمحمد صلى الله عليه وسلم پاک ہے وہ ذات جس نے تجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسخر کیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے یہ وظیفہ پڑھا، تو ایک جن نظر آیا۔ میں نے کہا : تجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کرتا ہوں، کہنے لگا، میں غریب ہوں، گھر والوں کے لیے کچھ لیا ہے، معافی چاہتا ہوں آئندہ نہیں آؤں گا، لیکن وہ دوبارہ آگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو آپ نے وہی دعا جتلائی، میں نے پڑھی، جن پھر سامنے آگیا، اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ تھا، مگر اس نے آئندہ نہ آنے کا وعدہ کیا۔ میں نے پھر چھوڑ دیا۔ وہ دوبارہ آگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : اسے پکڑنے کے لیے وہی دعا پڑھیں۔ دوبارہ وہ دعا پڑھی، تو جن دوبارہ قابو آگیا، میں نے کہا : تو نے وعدہ خلافی کی ہے، اب تو ضرور تجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس لے جاوں گا۔ کہنے لگا : مجھے چھوڑ دیجئے ، آپ کو چند کلمات سکھاتا ہوں، جب آپ انھیں پڑھیں گے تو کوئی مذکر یا مونث جن آپ کے قریب نہیں پھٹکے گا، پوچھا : کون سے کلمات؟ کہا : ہر صبح وشام آیت الکرسی پڑھا کریں۔ میں نے اسے رہا کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قصہ سنایا۔ فرمایا: کیا آپ جانتے نہیں؟ یقینا بات ایسے ہی ہے۔

➋ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا أبا المنذر، أتدري أى آية من كتاب الله معك أعظم؟ قال: قلت: الله ورسوله أعلم، قال: يا أبا المنذر أتدري أى آية من كتاب الله معك أعظم؟ قال: قلت : اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ البقرة:255 قال: فضرب فى صدري، وقال: والله ليهنك العلم أبا المنذر.
صحيح مسلم : 810
ابو منذر! کیا آپ جانتے ہیں کہ کتاب اللہ کی کس آیت کی فضیلت سب سے زیادہ ہے؟ عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا : ابو منذر! جانتے ہیں کہ کتاب اللہ کی کسی آیت کی فضیلت سب سے زیادہ ہے؟ عرض کیا: آیت الکرسی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا (حوصلہ افزائی مقصود تھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! ابومنذر! آپ کو علم مبارک ہو۔

➌ مسند عبد بن حمید 178 ، وسندہ صحیح میں الفاظ ہیں:
والذي نفس محمد بيده إن لهذه الآية للسانا وشفتين تقدس الملك عند ساق العرش.
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! آیت الکرسی کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے، جو عرش الہی کے پائے کے پاس اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کریں گی۔

➍ سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ آية الكرسي دبر كل صلاة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة، إلا الموت .
السنن الكبرى للنسائي: 9928؛ عمل اليوم والليلة للنسائي: 100، المعجم الكبير للطبراني: 134/8 كتاب الصلاة لابن حبان كما في اتحاف المهرة لابن حجر: 259/8 ؛ ح : 8480، وسنده حسن
ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے والے کو جنت جانے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی ، سوائے موت کے۔
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ اور حافظ منذری رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ 307/1 حافظ سیوطی رحمہ اللہ التعقبات على الموضوعات: 8نے امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ وائلی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے۔ کما في التذكرة للقرطبي: 24 حافظ ضیاء مقدسی رحمہ اللہ نتائج الافكار: 278/2-279، حافظ ابن القطان رحمہ اللہ، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ النکت علی ابن الصلاح 479/2 نے صحیح کہا ہے۔

➎ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ آية الكرسي فى دبر الصلاة المكتوبة كان فى ذمة الله إلى الصلاة الأخرى.
المعجم الكبير : 2733 كتاب الدعاء، كلاهما للطبراني : 674، وسنده حسن

فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے والا اگلی نماز تک اللہ کی حفاظت میں ہے۔
اس کے راوی کثیر بن یحیی کو حافظ ازدی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔ وہ خود ضعیف ہیں، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے کثیر بن یحیی کو ثقہ کہا ہے۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
محله الصدق :
صدوق ہے۔ امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے۔ غالباً وہ اس سے روایت لیتے تھے، جو ان کے والد احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ ہو۔
حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
الترغيب والترهيب : 2274
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے۔
مجمع الزوائد : 102/10

➏ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ما من سماء ولا أرض ولا سهل ولا جبل أعظم من آية الكرسي.
الأسماء والصفات للبيهقي : 833، وسنده حسن
آسمان و زمین، میدان وصحرا اور پہاڑ آیت الکرسی سے بڑے نہیں ہیں۔

سورت بقرہ کی آخری دو آیات

➊ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ بالآيتين من آخر سورة البقرة فى ليلة كفتاه .
صحيح البخاري :4008، صحیح مسلم : 807
جو ہر رات سورت بقرہ کی آخری دو آیات پڑھے، وہ اسے کافی ہو جائیں گی۔

کافی ہونے کا مطلب ہے :

◈ شیطان کی شر انگیزیوں سے حفاظت ہوگی۔
◈ ناگہانی مصائب اور آفات سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔
◈ نماز تہجد سے کفایت کریں گی۔
! ہم اس بھلائی سے کس درجہ محروم ہیں، کبھی سوچا آپ نے؟

➋ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده جبريل عليه السلام إذ سمع نقيضا فوقه، فرفع جبريل بصره إلى السماء فقال : هذا الباب قد فتح من السماء ما فتح قط قال : فنزل ملك فأتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال : أبشر بنورين أوتيتهما لم يوتهما نبي قبلك : فاتحة الكتاب، وخواتيم سورة البقرة، لن تقرأ حرفا منه إلا أعطيته.
صحیح مسلم : 806
جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آسمانوں سے چرچراہٹ سنائی دی، جبریل علیہ السلام نے کہا : یہ آسمان کا دروازہ ہے، جو صرف آج کھولا گیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس سے ایک فرشتہ اترا ہے اور یہ فرشتہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور عرض کیا : آپ کو دو نوروں کی بشارت دیتا ہوں، جو آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں، آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ وہ سورت فاتحہ اور سورت بقرہ کی آخری دو آیات ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کوئی بھی حرف پڑھیں گے، تو نور پائیں گے۔

➌ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فضلنا على الناس بثلاث جعلت الأرض كلها لنا مسجدا، وجعلت تربتها لنا طهورا، وجعلت صفوفنا كصفوف الملائكة ، وأوتيت هؤلاء الآيات آخر سورة البقرة من كنز تحت العرش لم يعط منه أحد قبلي، ولا يعطى منه أحد بعدي .
صحیح مسلم : 522
تین چیزیں دوسری امتوں پر ہماری فضیلت ہیں، ساری روئے زمین ہمارے لیے مسجد بنادی گئی ہے۔ مٹی ہمارے لیے طہارت کا ذریعہ ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی ہیں، عرش کے نیچلے خزانے سے سورت بقرہ کی آخری آیات دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی ۔

➍ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
خواتيم سورة البقرة أنزلت من كنز تحت العرش .
فضائل القرآن للنسائي : 48، وسنده صحيح
سورت بقرہ کی آخری آیات عرش کے نیچے والے خزانے سے نازل کی گئی ہیں۔

➎ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے موقع پر تین چیزیں دی گئیں :
أعطي الصلوات الخمس، وأعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لمن لم يشرك بالله من أمته شيئا، المقحمات .
صحیح مسلم : 173
پانچ نمازیں ، سورت بقرہ کی آخری آیات اور شرک کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے تمام گناہوں کی معافی ۔

➏ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السموات والأرض بألفي عام أنزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة، ولا يقرآن فى دار ثلاث ليال فيقربها شيطان .
مسند الإمام أحمد : 274/4؛ سنن الترمذي : 2882؛ وقال : حسن غريب سنن الدارمي : 449/2؛ المستدرك للحاكم : 260/24562/1؛ وسنده صحيح
زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے اللہ نے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب سے دو آیات نازل فرمائیں، جن کے ساتھ سورت بقرہ کا اختتام فرمایا۔ یہ آیتیں تین دن تک جس جگہ پڑھی جائیں، شیطان اس کے قریب تک نہیں پھٹکتا ۔
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ 782 اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

➐ ابو اسود ظالم بن عمرو دؤلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قلت لمعاذ بن جبل: أخبرني عن قصة الشيطان حين أخذته قال: جعلني رسول الله صلى الله عليه وسلم على صدقة المسلمين فجعلت التمر فى غرفة قال: فوجدت فيه نقصانا فأخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك فقال: هذا الشيطان يأخذه قال : فدخلت الغرفة وأغلقت الباب على فجائت ظلمة عظيمة فغشيت الباب ثم تصور فى صورة ثم تصور فى صورة أخرى فدخل من شق الباب فشددت إزاري على فجعل يأكل من التمر فوثبت إليه فضبطته فالتقت يداي عليه فقلت: يا عدو الله قال : خل عني فإني كبير ذو عيال كثير وأنا من جن نصيبين وكانت لنا هذه القرية قبل أن يبعث صاحبكم فلما بعث أخرجنا منها خل عني فلن أعود إليك فخليت عنه فجاء جبريل عليه السلام فأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بما كان فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ونادى مناديه أين معاذ بن جبل؟ فقمت إليه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما فعل أسيرك فأخبرته فقال : أما إنه سيعود فعد قال: فدخلت الغرفة وأغلقت على الباب فجاء فدخل من شق الباب فجعل يأكل من التمر فصنعت به كما صنعت فى المرة الأولى فقال : خل عني فإني لن أعود إليك فقلت: يا عدو الله ألم تقل : إنك لن تعود قال: فإني لن أعود وآيه ذلك أنه لا يقرأ أحد منكم خاتمة البقرة فيدخل أحد منا فى بيته تلك الليلة .
المواتف لإبن أبي الدنيا : 175 ، دلائل النبوة لأبي نعيم : 547؛ المعجم الكبير للطبراني : 162/20، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 563/1، دلائل النبوة للبيهقي : 109/7-110، وسنده حسن
میں نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا : وہ قصہ کیا ہے، جب آپ نے شیطان پکڑا تھا ؟ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیت المال کا نگران بنایا۔ بیت المال کے کمرے میں کھجوریں تھیں، وہ مجھے کم ہوتی محسوس ہوئیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کی، آپ نے فرمایا : یہ کھجوریں شیطان لے جاتا ہے۔ ایک دن میں کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا، اندھیرا اتنا شدید تھا کہ دروازہ بھی نظر نہیں آرہا تھا، شیطان نے اندر گھسنے کے لیے ایک صورت اختیار کی، پھر دوسری صورت اختیار کی اور دروازے کے شگاف کے راستے اندر داخل ہو گیا۔ میں نے بھی لنگوٹ کس لیا۔ اس نے کھجوریں اٹھانا شروع کیں، تو جھپٹ کر اسے دبوچ لیا۔ میں نے کہا: ارے اللہ کے دشمن ! کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا: مجھے جانے دو۔ میں بوڑھا اور کثیر الاولاد ہوں۔ نصیبیں (بستی کا نام) کے جنوں سے تعلق رکھتا ہوں۔ تمھارے صاحب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہم بھی اسی بستی کے رہائشی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، تو ہمیں یہاں سے نکال دیا گیا۔ آج مجھے رہا کر دیں، دوبارہ نہیں آؤں گا، میں نے رہا کر دیا۔ یہ سارا قصہ جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد اعلان کیا کہ معاذ حاضر ہوں، میں آپ کی طرف چل دیا۔ فرمایا : آپ کے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے قصہ عرض کر دیا۔ فرمایا : جلد ہی وہ دوبارہ آئے گا، آپ بھی جائیں۔ میں نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا، شیطان آیا، دروازے کے شگاف سے اندر گھسا اور کھجوریں کھانا شروع کر دیا۔ میں نے اس کے ساتھ پہلے والا معاملہ کیا، کہنے لگا، مجھے چھوڑ دیں، آئندہ نہیں آؤں گا، میں نے کہا : اللہ کے دشمن ! تو نے آئندہ نہ آنے کا وعدہ کیا تھا۔ کہا : میں آئندہ نہیں آؤں گا، جو رات آپ سورت بقرہ کی آخری آیات پڑھتے ہیں اس رات ہم آپ کے گھروں میں نہیں گھس سکتے۔
اس حدیث کی سند کو امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

➑ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إنه كان له جرين فيه تمر، وكان يتعاهده فيجده ينقص، فحرسه ذات ليلة، فإذا هو بدابة كهيئة الغلام المحتلم، قال: فسلمت فرد السلام، فقلت : ما أنت، جن أم إنس؟ فقال: جن، فقلت: ناولني يدك، فإذا يد كلب وشعر كلب، فقلت: هكذا خلق الجن، فقال : لقد علمت الجن أنه ما فيهم من هو أشد مني، فقلت: ما يحملك على ما صنعت؟ قال : بلغني أنك رجل تحب الصدقة، فأحببت أن أصيب من طعامك، قلت: فما الذى يحرزنا منكم؟ فقال: هذه الآية آية الكرسي، قال: فتركته، وغدوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق الخبيث .
صحيح ابن حبان : 784، وسنده حسن
میں کھجوروں کے گودام پر نگران تھا، مجھے کھجوریں کم ہوتی محسوس ہوئیں۔ ایک رات جب میں پہرہ پر تھا، تو اچانک ایک جانور نمودار ہوا، جس کی شکل نوجوان لڑکے جیسی تھی۔ میں نے سلام کہا، اس نے جواب دیا، پوچھا : جن ہو یا انسان؟ کہا : جن۔ میں نے کہا : ہاتھ پکڑاؤ، اس کے ہاتھ اور بال کتے جیسے تھے، میں نے کہا : جنوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی پیدا کیا ہے؟ کہنے لگا: جنوں کو علم ہے کہ مجھ سے زیادہ قوی اور کوئی نہیں۔ میں نے کہا : یہ کام کیوں کرتے ہو؟ کہا : مجھے خبر ملی ہے کہ آپ صدقہ پسند کرتے ہیں، سو دل چاہا کہ آپ کا کھانا میں بھی کھا لوں، میں نے کہا : تم سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ کہا : آیت الکرسی سے۔ میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو فرمایا: خبیث نے سچ بولا ہے۔

ہمارے ہاں بعض گھروں میں جنات کا عمل دخل رہتا ہے، مثلا آگ لگ جانا، لائٹ کا آن آف ہونا، بدبو کا احساس، مختلف آوازیں سنائی دینا، خون کے چھینٹے، گوشت کے لوتھڑے اور اس قبیل کے دیگر واقعات، یہ سب شیاطین کی چالیں ہیں اور کامیاب اس لیے ہوتی ہیں کہ گھروں میں ذکر الہی کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔
تلاوت قرآن، سورت بقرہ کی آخری دو آیات اور آیت الکرسی کا گزران نہیں۔ لوگ ان سے چھٹکارہ پانے کے لیے جادو گروں، شعبدہ بازوں اور شرکیہ جھاڑ پھونک کرنے والوں کا رخ کرتے ہیں اور یہ انسان نما بھیڑیے، مال اور عزت تو لوٹتے ہی ہیں، ساتھ میں ایمان کے بھی حصے بخرے کر دیتے ہیں۔ رحمان کے لشکر سے نکال کر شیطان کے خیموں میں پہنچا دیتے ہیں اور شیطان انھیں ہمیشہ کے لیے اپنے دام تزویر میں پھانس لیتا ہے۔ پھر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ شیطان جنوں سے چھٹکارا ملے، ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ سدا کا روگ لگ جاتا ہے، لہذا ان لٹیروں سے بچ جائیں اور گھروں میں سنتوں کو رواج دیں۔ گھر میں داخل ہوں۔ تو بسم الله پڑهيں

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے