سورت آل عمران کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ تحریر شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب سورتوں اور آیات کے فضائل سے ماخوذ ہے۔

سورت آل عمران کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں

سورة آل عمران مدنی ہے، اس کی پہلی 83 آیات وفد نجران کے موقع پر 9 ہجری میں نازل ہوئیں۔

➊ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
اقرؤوا القرآن، فإنه يأتى يوم القيامة شفيعا لأصحابه، اقرؤوا الزهراوين ، البقرة وسورة آل عمران، فإنهما تأتيان يوم القيامة كأنهما غمامتان أو كأنهما غيايتان، أو كأنهما فرقان من طير صواف ، تحاجان عن أصحابهما ، اقرؤوا سورة البقرة، فإن أخذها بركة، وتركها حسرة، ولا تستطيعها البطله.
صحیح مسلم : 804
قرآن پڑھا کریں، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا۔ سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران، دو روشن سورتوں کی تلاوت کیا کریں۔ یہ روز قیامت اس طرح آئیں گی، جیسے دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے قطار میں اڑتے پرندوں کی دو ٹولیاں ہوں، یہ اپنے پڑھنے والوں کی وکالت کریں
گی۔ سورۃ البقرۃ (ضرور) پڑھا کریں، اسے پڑھنا باعث برکت اور چھوڑنا باعث حسرت ہے۔ جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔

➋ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنت جالسا عند النبى صلى الله عليه وسلم فسمعته يقول: تعلموا سورة البقرة؛ فإن أخذها بركة وتركها حسرة، ولا يستطيعها البطله، قال : ثم سكت ساعة، ثم قال : تعلموا سورة البقرة، وآل عمران، فإنهما الزهراوان يظلان صاحبهما يوم القيامة كأنهما غمامتان أو غيايتان أو فرقان من طير صواف، وإن القرآن يلقى صاحبه يوم القيامة حين ينشق عنه قبره كالرجل الشاحب، فيقول له : هل تعرفني؟ فيقول: ما أعرفك فيقول : أنا صاحبك القرآن الذى أطمأتك فى الهواجر وأسهرت ليلك، وإن كل تاجر من وراء تجارته، وإنك اليوم من وراء كل تجارة فيعطى الملك بيمينه، والخلد بشماله، ويوضع على رأسه تاج الوقار، ويكسى والداه حلتين لا يقوم لهما أهل الدنيا فيقولان: بم كسينا هذا؟ فيقال: بأخذ ولدكما القرآن، ثم يقال له: اقرأ واصعد فى درج الجنة وغرفها، فهو فى صعود ما دام يقرأ، هذا كان، أو ترتيلا.
مسند الإمام أحمد: 348/5؛ سنن الدارمي: 3394؛ سنن ابن ماجه: 3781؛ مختصراً، المستدرك للحاكم: 660/1؛ مختصراً، وسنده حسن
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : سورت بقرہ سیکھیں! اسے سیکھنا باعث برکت اور چھوڑنا حسرت کا باعث ہے۔ جادو اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر خاموش رہے، پھر فرمایا : سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھیں ! یہ نور ہیں، قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں پر سایہ فگن ہوں گی، جیسے بادل یا چھتری ہوں یا قطار باندھے پرندوں کی ٹولیاں ہوں۔ روز قیامت قاری کی قبر شق ہوگی، تو قرآن مجید اس سے نحیف و نزار (یا اُداس) آدمی کی شکل میں ملے گا اور پوچھے گا : مجھے پہچانتے ہو؟ قاری جواب دے گا نہیں۔ کہے گا : میں قرآن ہوں۔ میں نے گرمی میں آپ کو پیاسا رکھا، راتوں کو جگایا، ہر تاجر نفع حاصل کرنے کے لیے تجارت کرتا ہے، آج آپ تمام تجارتوں سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ چنانچہ اس کے داہنے ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں بقا کا پروانہ دیا جائے گا۔ عزت و وقار کی تاج پوشی ہوگی اور والدین کو دو ایسے قیمتی حُلّے پہنائے جائیں گے، جن کے سامنے دنیا کی ساری دولت حقیر ہوگی ۔ قاری کے والدین عرض کریں گے : یہ لباس ہمیں کیوں پہنایا گیا ہے؟ بتایا جائے گا : کیوں کہ آپ کے بیٹے نے قرآن سیکھا ہے ۔ پھر قاری سے کہا جائے گا : قرآن مجید پڑھتے جائیں اور جنت کے بلند و بالا درجات پر چڑھتے جائیں۔ چنانچہ وہ جب تک تلاوت کرتا رہے گا، درجات چڑھتا جائے گا، تیز پڑھے یا آہستہ۔
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن على شرط مسلم.
تفسیر ابن كثير : 143/1 بتحقيق عبد الرزاق المهدي
اس روایت کی سند امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر حسن ہے۔
حافظ بوصیری رحمہ اللہ اتحاف الخيرة المهرة : 330/6 اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ المطالب العالية : 3478 نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔

➌ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
دخلت أنا وعبيد بن عمير، على عائشة فقالت لعبيد بن عمير: قد آن لك أن تزورنا، فقال: أقول يا أمه كما قال الأول : زر غبا تزدد حبا، قال : فقالت: دعونا من رطانتكم هذه، قال ابن عمير: أخبرينا بأعجب شيء رأيته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال : فسكتت ثم قالت : لما كان ليلة من الليالي، قال: يا عائشة ذريني أتعبد الليلة لربي قلت: والله إني لأحب قربك، وأحب ما سرك، قالت: فقام فتطهر، ثم قام يصلي، قالت: فلم يزل يبكي حتى بل حجره، قالت: ثم بكى فلم يزل يبكي حتى بل لحيته، قالت: ثم بكى فلم يزل يبكي حتى بل الأرض ، فجاء بلال يؤذنه بالصلاة، فلما رآه يبكي، قال: يا رسول الله، لم تبكي وقد غفر الله لك ما تقدم وما تأخر؟ قال: أفلا أكون عبدا شكورا، لقد نزلت على الليلة آية ، ويل لمن قرأها ولم يتفكر فيها: إن فى خلق السموت والأرض واختلاف اليل والنهار لايت لأولي الألباب.
صحیح ابن حبان : 620 ، أخلاق النبي لأبي الشيخ : 568 ، وسنده حسن
میں اور عبید بن عمیر رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ انھوں نے عبید بن عمیر رحمہ اللہ سے کہا : کیا آپ کو ملاقات کے لیے وقت مل گیا؟ انھوں نے کہا : ماں جی! پرانی کہاوت ہے کہ کبھی کبھی ملاقات محبت میں اضافہ کرتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں : اس کہاوت کو رہنے دیں۔ ابن عمیر رحمہ اللہ نے عرض کیا : ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین خصلت بتائیے ! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لمحہ بھر خاموش رہیں، پھر جواب دیا : ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ ! اجازت دیں، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کا قرب اور خوشی عزیز ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے، وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل روتے رہے، یہاں تک کہ دامن تر ہو گیا۔ داڑھی مبارک بھیگ گئی، آپ اسی طرح زار زار روتے رہے ، یہاں تک کہ زمین گیلی ہوگئی، اسی دوران سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی اطلاع دی۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا، تو عرض کیا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام لغزشیں معاف کر دی ہیں۔ فرمایا : تو کیا میں اس کا شکر گزار نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے، ہلاکت ہے اس کے لیے جو اسے پڑھتا تو ہے، مگر اس میں تدبر نہیں کرتا، وہ آیت ہے: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ آل عمران : 190
آسمانوں زمین کی تخلیق اور رات دن کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے