ننگے سر نماز
سنت کی تعریف:
جھنگوی صاحب نے ننگے سر نماز ادا کرنے کی ممانعت پر دلیل دینے کی بجائے سب سے پہلے سنت کی تعریف پر گفتگو کی ہے‘ معلوم نہیں کہ زیر بحث مسئلہ سے سنت کی تعریف کا کیا تعلق ہے۔ بہر حال فرماتے ہیں کہ جو کام نبی پاک علیہ السلام نے ہمیشہ کیا ہو وہ سنت ہو ا کرتی ہے جو کام کر کے چھوڑ دیا ہو یا کبھی کیا ہو بعد میں نہ کیا ہو سنت نہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص9)
الجواب:
اولاً: بلا شبہ حنفیہ کا یہی موقف ہے کہ سنت وہی ہے جس پر ہمیشگی ثابت ہو۔ اور اس ہمیشگی میں بھی ان کا یہ موقف ہے کہ وہ فعل بطور عبادت ہو ۔ چنانچہ مولانا ظفر احمد تھانوی فرماتے ہیں کہ
(( لكن المواظبة لا تفيد السنية الا اذا كانت على سبيل العبادة وأما اذا كانت على سبيل العادة فتفيد الاستحباب والندب لا السنية كلبس الثوب والاكل باليمين ومواظبة النبي عل على التيامن كانت من قبيل الثاني فلا تفيد السنية كذا في شرح الوقاية ))
یعنی ہمیشگی بھی کسی فعل کے سنت ہونے کی دلیل نہیں ، جب تک اس فعل کو علی سبیل العبادت نہ کیا گیا ہو۔ اگر کوئی فعل بطور عادت ہمیشہ حضور علیہ السلام نے کیا ہو تو وہ مستحب و مندوب تو ہے لیکن سنت نہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ہمیشہ لباس پہنا‘ ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھایا اور وضو کو ہمیشہ دائیں طرف سے شروع کیا تو یہ تمام کام مستحب تو ہیں لیکن سنت نہیں ہیں۔
(اعلاء السنن ص 118 ج 1 باب استحباب التیامن في الوضوء)
یہ عبارت‘ شرح وقایہ ص 64 ج 1‘ میں موجود ہے۔
جس سے ثابت ہوا کہ جھنگوی ٹولہ کے نزدیک جو کام آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ہمیشہ کیا ہے وہ بھی سنت نہیں‘‘ بلکہ ان کے نزدیک کسی فعل کے مسنون ہونے کے لئے پہلے فقہاء کے دستخط ہونے ضروری ہیں‘ وہ جسے سنت قرار دیں وہ سنت اور وہ جس کو سنت سے خارج قرار دیں وہ خارج‘ اناللہ وانا الیہ راجعون ‘ مثلاً فقہاء احناف کے نزدیک تراویح اور اذان دونوں ہی سنت ہیں۔ حالانکہ تراویح کو نبی ﷺ نے ہمیشہ نہیں پڑھا جبکہ اذان تو زندگی بھر ایک بار بھی نہیں کہی‘ اس کے بر عکس تہجد اور چاشت کی نماز کونبی ﷺ کی نے ہمیشہ پڑھا ہے، حالانکہ احناف کے نزدیک اُمت کے لیے یہ سُنت نہیں بلکہ نفل ہیں۔دیکھۓ تحفتہ الاخیارص۲۲و۲۳ مسند ح مجموعہ رسا ئل اللکنوی 4/262
ثانیاً۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا‘ دائیں طرف سے وضو کی ابتدا کرنا‘ بطور عادت تھا‘ بطور عبادت نہ تھا‘ یہ سب جھوٹے بہانے اور سنت کو قبول نہ کرنے کے ڈھنگ ہیں۔
ثالثاً: علمائے دیوبند کے نزدیک نماز کی سنتیں (24) چو بیسں ہیں‘ نماز مسنون ص 310 اور علمائے بریلویہ کے نزدیک (26) چھبیس ہیں، نماز کی سب سے بڑی کتاب ص 475 لہٰذا جھنگوی کے نزدیک جو مؤقف درست ہے اس کے ہر ایک عدد پر ایک صحیح مرفوع متصل حدیث ثابت کرے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے انہیں ہمیشہ آخری نماز تک کیا ہے کبھی بھی ترک نہیں کیا اور ان افعال کو بطور عبادت کرتے تھے ناکہ بطور عادت‘ اگر جھنگوی ان چو بیسں نماز کی سنتوں پر ایسی حدیث ثابت کر دے تو ہم مان جائیں گے کہ سنت وہی ہوتی ہے جیسا کہ جھنگوی نے اس کی تعریف کی ہے کہ جسے آنحضرت ہمیشہ کرتے تھے‘ مگر قارئین کرام یاد رکھئے پوری دنیا کے مرجئی اکٹھے ہو کر سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود اس کا ثبوت نہیں دے سکتے۔
را بعاً:- جو فعل جس حالت و کیفیت میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے خواہ وہ زندگی میں ایک بار کیا یا زیادہ بار‘ وہ فعل سنت خیر الانام ہے‘ بشر طیکہ وہ منسوخ نہ ہو ہم حسب ذیل سنن کی نشان دہی کرتے ہیں جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے صرف ایک ہی بار کیا ہے مگر پوری امت مرحومہ کے نزدیک وہ افعال سنت ہیں۔
(1) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہجرت ایک بار ہی کی ہے۔
(2) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے ہاتھوں سے مسجد کی تعمیر صرف ایک بار کی ہے۔
(3) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے تبلیغ کے لئے دور کا سفر صرف ایک بار طائف کا کیا ہے۔
(4) رسول اللہ ﷺ نے کعبہ کے اندر صرف ایک بار ہی نماز پڑھی ہے۔
(5) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے صرف ایک بار ہی تبلیغ کے لئے وفد بھیجا ہے، جس کے نتیجہ میں بئر معونہ کا المناک سانحہ پیش آیا تھا۔
(6) رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک بار ہی معراج کی رات انبیاء کو امامت کرائی ہے‘ تو کیا جب حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہو گا اور امام مھدی ان کی امامت کروائیں گے‘( صحیح مسلم ص 87 ج 1 ) تو امام مھدی کا یہ فعل غیر مسنون ہو گا؟۔
(7) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے صرف ایک بار خندق کھودی تھی، تو کیا اب جہاد میں مورچے بنا نا غیر مسنون ہے۔
(8) بقول مولانا عثمانی سورج گرہن کا واقعہ صرف ایک بار ہی پیش آیا اور نماز کسوف شمس بھی ایک بار ادا کی گئی‘ درس ترمذی ص 351تا 352 ج2
(9) رسول اللہ ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر صرف ایک بار گئے ہیں، تو کیا اب والدین کی قبروں پر جانا غیر مشروع ہے۔
(10) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حج صرف ایک بار ہی کیا ہے تو کیا حج کو اسی طریقہ سے ادا کرنا غیر مسنون ہے۔
تلک عشرة کاملتہ
ہم نے سرسری طور پر اس فہرست کو مرتب کیا ہے‘ اگر ہم ان مسائل پر تحقیق کریں اور ان کی بلاؤں اور مصیبتوں کو جمع کریں تو‘ تحفہ اہل حدیث‘ سے دو گنا زیادہ کتابچہ تحریر کر سکتے ہیں، الغرض جھنگوی مذکو رہ مسائل کے بارے صراحت کرے کہ آیا یہ مسنون ہیں یا حرام و نا جائز اور بدعت ہیں‘ پھر اس کے ساتھ ساتھ جھنگوی اس چیز کو بھی ثابت کرے اور اس پر قرآن یا حدیث مرفوع متصل پیش کرے کہ جو کام اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ایک بار کیا ہے اس کی پیروی غیر ضروری اور سبیل المومنین سے ہٹ کر ہے‘ اور یہ کہ اطاعت رسول ﷺ اور اسوہ حبیب کبریٰ علیہ السلام کی آیات میں تخصیص ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اتباع و پیروی صرف ان افعال میں ہے جن کو آپ علیہ السلام نے دوام والتزام اور ترک کے بغیر کیا ہے۔
قارئین کرام یادرکھیے پوری دنیا کے مرجئیہ علامہ فہامہ اکھٹے ہو کر سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود اس پر کوئی واضح اور صریح دلیل پیش نہیں کر سکتے۔
میرے عزیز بھائیو! اگر جھنگوی ٹولہ کی بات کو تسلیم کر لیا جائے تو نبوت سے ایمان اُٹھ جائے گا۔ ہر خود غرض اور بدعتی اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال کو یہ کہہ کر رد کر دے گا کہ یہ صرف ایک آدھ بار کا واقعہ ہے۔ لہذا سنت اور قابل عمل نہیں۔
جھنگوی کا اعتراض:
پھر تو آپ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو سنت کہتے ہوں گے۔ کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب فرمایا تھا۔
بخاری ص 336, 36, 35 اور بخاری میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی حدیث ایک جگہ بھی نہیں آتی مزے کی بات یہ ہے کہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی حدیث مسلم شریف میں بھی نہیں اور کھڑے ہو کر کرنے کی حدیث ہے۔ مسلم ص 113 ج 1 حضور علیہ السلام نے بچی اٹھا کر نماز پڑھی ہے۔ (بخاری ص 74 ج 1 و مسلم ص 205 ج1)
آپ علیہ السلام نے نماز کے دوران کنڈی کھولی ہے (ابو داؤد ) ان سب کاموں کو آپ سنت سمجھتے ہیں ان سنن پر آپ نے کتنی مرتبہ عمل کیا ہے ؟ دیکھو بھائی یہ کام آپ نے کیے بھی ہیں پھر بھی سنت نہیں ہیں‘ یہی ہم کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کا ہر فعل سنت نہیں ہے مثلاً وضو میں کلی کی ہے‘ اور وضو کے بعد بیوی کا بوسہ بھی لیا ہے اسے سنت نہیں کہتے‘ فعل دونوں اللہ کے نبی ﷺ کے ہیں ایک سنت‘ دوسرا نہیں۔ اسی طرح نماز میں ثناء پڑھنا سنت ہے لیکن بچی کو اٹھانا سنت نہیں ہے‘ جبکہ آپ نے دونوں کام کیے ہیں۔ اس بات کو آپ بھی مانتے ہیں اگر دونوں سنت ہیں جس طرح آپ پہلے کہہ رہے تھے تو جتنے اہل حدیث بغیر بچی اٹھائے مسجد میں آتے ہیں‘ سب تارکین سنت میں شامل ہیں اور جو بیوی کا بوسہ لے کر نہیں آتے وہ بھی تارکین سنت میں سے ہوئے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 10)
محمدی:
اولاً: یا تو آپ کا حافظہ کمزور ہے یا جان بوجھ کر غلط بیانی کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے پہلے تو سنت کی یہ تعریف بیان کی کہ سنت وہ ہے جس کو آپ نے ہمیشہ کیا ہو‘ ایک آدھ بار کیے ہوئے فعل کو سنت کا نام نہیں دے سکتے‘ مگر آپ کی پیش کردہ امثلہ میں سے دو پر تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا زندگی بھر عمل رہا ایک تو بچی کو اٹھا کر نماز ادا کرنے کا کیونکہ اس میں کان کا لفظ ہے جو دوام کو چاہتا ہے دوسرا بیوی کا بوسہ لینا۔ کیا آپ کسی واضح اور صریح دلیل سے یہ بات ثابت کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے صرف ایک ہی بار بیوی کو بوسہ دیا تھا اگر نہیں یقینا نہیں تو آپ کی بیان کی ہوئی تعریف کی رو سے بھی بیوی کا بوسہ لینا سنت ثابت ہوا۔ باقی آپ کا یہ کہنا کہ اصل حدیث آخر وضو کے بعد بیوی کا بوسہ کیوں نہیں لیتے ؟ میں پوچھتا ہوں کہ وضو کے بعد بیوی کا بوسہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے دوام کے ساتھ بغیر ترک کے لیا ہے یا کبھی اتفاقاً ایسا ہوا ہے؟
دوام سے تو آپ کو انکار ہے ہاں البتہ اتفاقی آپ کہہ رہے ہیں تو پھر آپ کو اس پر اعتراض آخر کیا ہے ؟ کیا آپ نے کبھی آج تک بیوی کا بوسہ وضو کی حالت میں نہیں لیا اگر آپ یہ کہیں کہ وضو سے فوراًبعد کبھی نہیں کیا تو راقم عرض کرتا ہے کہ حدیث میں کس لفظ کا یہ معنی ہے کہ وضو کے فورابعد آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے بیوی کو بوسہ دیا تھا۔
ثانیا: بخاری وغیرہ میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی حدیث کا ہم تفصیل سے جواب عرض کر چکے ہیں اور بفضلہ تعالی ہم نے اس کا ثبوت بخاری سے ہی دے دیا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا گو فعل نبوی صلى الله عليه وسلم ہے مگر مسنون نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حنفیہ کے قول واقوال کا جب اہل حدیث کی طرف سے بے سند ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو انہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے اور اس تکلیف کا انہوں نے سد باب یہ کیا ہے کہ سنت کو مذاق کر کے اپنے کلیجہ کو ٹھنڈا کر لیا جائے ان قبیح کاموں سے دل ماؤف کو تسکین دیتے ہیں۔
قارئین کرام یہ ہمارے ساتھ مذاق نہیں بلکہ فعل رسول ﷺ کے ساتھ مذاق ہے اور انشاء اللہ اس کے بارے ان سے قیامت کے روز سوال ہو گا۔
عزیز بھائیو! اس حدیث کی شرح میں محدثین کرام اور فقہائے احناف نے متعدد تو جیہات کی ہیں۔ آپ بھی سن لیجئے۔ مولانا محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں: لیکن یہ تمام تو جیہات ضعیف اور بعید ہیں۔ صرف دو تو جیہات بہتر ہیں‘ ایک یہ کہ آپ کے گھٹنے میں اس وقت تکلیف تھی ، جس کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا اس کی تائید حاکم اور بیھقی کی ایک روایت سے ہوتی ہے۔ یہ روایت اگر چہ سنداً ضعیف ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ آپ نے بیان جواز کے لئے قاعماً ( کھڑے) پیشاب کیا ہو۔ (درس ترمذی ص 201 ج1)
اس عبارت میں انہوں نے ان دو کو بہتر قرار دے کر دوسری تو جیہات کو رد کر دیا ہے۔ پھر پہلی توجیہ کی روایت کو خود ضعیف قرار دے کر اسے معلول کہہ دیا ہے‘ باقی رہی دوسری تو اس کی کوئی دلیل ہی نہیں لہذا راقم الحروف علی وجہ البصیرت کہتا ہے کہ کھڑے ہو کر عذر کی وجہ سے پیشاب کرنا ہلا کراہت جائز ہے۔ کیونکہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف مولانا عثمانی نے درس ترمذی میں کیا ہے۔ اگر جھنگوی صاحب یہ عذر بد تر کریں کہ حدیث میں عذر کا لفظ دکھائیں تو ہم اس مقلد اعمٰی کو کہتے ہی ہیں کہ اسی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب روڑی پر کیا۔ (بخاری رقم الحدیث (244 و 255) الغرض عذر کے لئے روڑی ہونا قوی قرینہ ہے کیونکہ روڑی پر گندگی ہوتی ہے۔
ثالثاً :- بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنے کے بارے عرض ہے کہ صاحب در المختار نے اس کو مکر وہ کہا تھا اس پر تعاقب کرتے ہوئے ابن عابدین فرماتے ہیں کہ ’’یہ مکروہ کیسے ہوا جب بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنے کی حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ اس کا جواب عجیب و غریب دیا گیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور یہ دعویٰ مردود ہے کیونکہ جس حدیث سےنسخ کا دعویٰ کیا جارہا ہے وہ تو ہجرت سے پہلے کی ہے اور بچی اٹھا کر نماز ادا کرنے کی حدیث ہجرت کے بعد کی ہے اور البدائع میں ہے کہ یہ مکروہ نہیں کیونکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے پاس اس سلسلہ میں کوئی اور راستہ نہ تھا، امامہ رضی اللہ عنہا کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا یا یہ فعل آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے بیان جواز کی تشریح کے لئے کیا تھا اور اسی طرح کا فعل ہمارے زمانے میں بھی مکروہ نہیں اگر کوئی ہم میں سے اس کا محتاج ہو‘ اور بغیر حاجت کے مکروہ ہے اور اس پر مفصل بحث ابن امیر الحاج نے حلیہ میں کی ہے پھر کہا ہے کہ یہ فعل نبوی بیان جواز کی تشریح کے لیے تھا اور یہی درست اور اعتدال پسندی (افراط و تفریط سے محفوظ ) ہے جیسا کہ نووی نے کہا ہے۔ (فتاوی شامی ص 653 ج 1 )
الغرض آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا یہ فعل ایک ضرورت کے تحت تھا اور ضرورت کے تحت آج بھی سنت ہے۔ آپ کے مقلد بھائی مولوی غلام رسول سعیدی حنفی بریلوی شارح صحیح مسلم فرماتے ہی کہ: جن حالات میں نبی علیہ السلام سے یہ فعل منقول ہے انہیں حالات کی روشنی میں یہ فعل سنت ہے۔ (شرح صحیح مسلم ۲/۱۱۴)
باقی رہا آپ کا یہ کہنا کہ اہل حدیث بچوں کو مسجد میں ساتھ نہیں لاتے‘ بھائی ہم تو لاتے ہیں اور بوقت ضرورت ان کو گود وغیرہ میں بھی لے لیتے ہیں مگر ذرا اپنے گھر کی خبر تو لیجئے آپ کی معتمد علیہ کتاب در مختار میں لکھا ہے کہ :
((لا يفسد ماء البئر ولا الثوب بانتفاضه ولا بعضه ما لم ير ريقه ولا صلاة حاملة ولو كبيرا ))
(اگر کتا) کنوئیں میں گر گیا تو اس کا پانی نجس نہیں ہو گا اور نہ ہی کپڑے کی طہارت زائل ہو گی‘ اس کی چھینٹوں سے جب تک اس کا لعاب نہ لگے اور اس (کتے کو ) اٹھا کر نماز پڑھنے سے نماز فاسد نہ ہو گی۔ (کتا) خواہ بڑا ہی ہو۔
(در مختار مع ردالمختار ص 208 ج1)
ابن ھمام ھدایہ کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ :
((لو صلى حامل فارة حية جازت )) (فتح القدير ص 74 ج 1)
یعنی اگر زندہ چوہے کو اٹھا کر نماز ادا کی جائے تو جائز ہے۔
ہم تو مسجد میں آتے ہوئے اسوہ رسول کی پیروی میں اپنے ساتھ بچوں کو لاتے ہیں تو کیا تم جب مسجد میں آتے ہو تو اپنے اس فقہی مسئلے کو اپنانے کیلئے انگریز کی سنت پر عمل کرتے ہوئے چوہوں اور کتوں کو ساتھ لاتے ہو؟
نظر اپنی اپنی‘ پسند اپنی اپنی
نصیب اپنا اپنا‘ پسند اپنی اپنی
رہا نماز کی حالت میں کنڈی کھولنے کا جواب تو عرض ہے کہ اس حدیث میں ہی حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (( ان الباب فی القبلة )) یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرے کا دروازہ قبلہ کی جانب تھا۔ ابو داود مع عون ص 346 ج 1 اور نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ (( یصلی تطوعا )) یعنی آپ نفل نماز ادا فرمار ہے تھے۔ نسائی ۱۴۱ / ا باب المشی امام القبلتہ ۔۔۔ ان حالات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے دستک دی تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے کنڈی کھول دی واضح رہے کہ حضرت عائشہ کا حجرہ تنگ تھا۔ مولانا عثمانی فرماتے ہیں کہ : حضرت عائشہ کا حجرہ بھی چھوٹا سا تھا اور اس میں پے در پے مشی ( چلنا) بظاہر ممکن ہی نہ تھا۔ اس لئے ظاہر یہی ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ایک ڈیڑھ قدم چل کر دروازہ کھول دیا ہو گا اور پھر اپنے مقام پر آگئے ہوں گے اور اتنی مشی (چلنا ) منافی صلوۃ نہیں۔
(درس ترمذی ص 388 ج 2)
حجرے کے تنگ ہونے کی دلیل بخاری کی اس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نماز تہجد ادا فرماتے تو میں ان کے آگے بستر پر آرام کر رہی ہوتی جب وہ سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو دباتے تو میں انہیں سمیٹ لیتی۔
( بخاری الحدیث 514)
ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت حجرے کے تنگ ہونے کی وجہ سے ہی پیش آتی تھی۔ الغرض اگر آج بھی کوئی تنگ مکان میں نماز نفل ادا کر رہا ہو اور اس کی بیوی وغیرہ دستک دے تو ایک آدھا قدم قبلہ کی جانب چل کر کنڈی کھول دینا مسنون ہے۔ مگر فقاہت کے ان ٹھیکے داروں کو یہ سیدھی سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی اور اسے تر چھی آنکھ سے دیکھتے ہوئے اہل حدیث پر معترض ہیں۔
ننگے سر نماز ادا کرنے کا ثبوت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز وہ ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے۔ جبکہ دوسر ا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں‘ جبکہ دوسرا کپڑا آپ کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تمہارے جیسے جاہل و احمق مجھے دیکھ لیں۔ (( رایت النبیﷺ یصلی کذا )) میں نے نبیﷺ کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
(بخاری رقم الحدیث 370 کتاب الصلوۃ باب الصلوة بغیر رداء)
حضرت عمر بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ((انه رای النبی ﷺ يصلى في ثوب واحد في بيت ام سلمة قد القى طرفيه على عاتقيه ) یعنی انہوں نے نبی صلى الله عليه وسلم کو دیکھ وہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے گھر ایک کپڑے میں نماز ادا فرمارہے تھے اور کپڑے کے دونوں کناروں کو آپ نے کندھوں پر ڈال رکھا تھا۔
( بخاری باب الصلوة في الثوب الواحد …..)
صحیح مسلم ص 198 ج 1 میں متوشعا کے الفاظ بھی ہیں جن کا مقصود یہ ہے کہ کندھوں پر چادر کے مخالف کنارے ڈال رکھے تھے۔
حنفی: بھائی!
اس حدیث سے سرنگا ثابت کرنا سینہ زوری ہے‘ ننگے سر کا لفظ دکھاؤ ضروری نہیں ایک کپڑا ہو تو سر ضرور نگا ہو جائے۔ ایک بڑی چادر کے اندر آدمی اچھی طرح لپٹ جائے تو سر بھی ڈھک جاتا ہے اور بدن بھی۔ (ص39)
محمدی:
میں نہ مانوں کا تو علاج ہمارے پاس نہیں ہے۔ بھائی اس حدیث سے سر کا ننگا ہونا تو واضح ہے، مگر آپ انکاری ہیں پھر دلیل یہ دیتے ہو کہ بڑی چادر . الخ۔ حدیث میں جس طرح ایک چادر کا ذکر ہے اسی طرح اس کو لپیٹنے کی کیفیت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ اس کے کناروں کو مخالف سمت سے کندھوں پر ڈال رکھا تھا۔ پھر بخاری باب عقد الازار علی القضاء میں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔
((قد عقده من قبل قفاه وثيابه موضوعة على المشجب ))
یعنی تہ بند کو گدی پر باندھ رکھا تھا۔
اب اس کیفیت اور وضع سے کپڑے کو بدن پر ڈالیں پھر سر پر ڈال کر دکھائیں ؟ یہی وجہ ہے کہ آپ کا ضمیر بھی مذکورہ تحریر لکھتے وقت ملامت کر رہا تھا جس کا واضح ثبوت آپ کے الفاظ‘ ضروری نہیں‘ کے ہیں۔ ان الفاظ میں آپ کو سرننگا ہونے کے احتمال کا اقرار ہے۔۔
حنفی: بھائی !
اگر اور کپڑے نہ ہوں تو ایک کپڑے میں نماز ادا کر سکتے ہیں‘ یہ کام حضور علیہ السلام نے بیان جواز کے لیے کیا تھا۔
محمدی:
پہلے تو آپ کو انکار تھا اب بیان جواز کا عذر کرتے ہو۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے جس عمل کو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اپنے فعل سے جائز قرار دیں تم کون ہو ؟ اس کے رد میں کتاب لکھنے والے اور تمہارے فقہاء اس کو مکروہ کہنے والے ؟ جیسا کہ مستملی ص 348 میں ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
حنفی: بھائی!
پہلے آپ مان چکے ہیں کہ ایک آدھ دفعہ کیا ہوا کام سنت نہیں ہو تا- سنت دوامی ہوتی ہے نہ کہ ہنگامی اگر ایک کپڑے میں نماز سنت ہے تو آپ کی مساجد میں یہ سنت ذبح ہو رہی ہے۔ آج ہی آپ اعلان فرمائیے کہ چھ چھ کپڑے پہن کے نماز جو بھی پڑھتا ہے وہ بدعتی ہے۔ کیونکہ آپ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی ہے۔
محمدی
میرا حافظہ تو ماشاء اللہ ٹھیک ہے مگر آپ کو جھوٹ بولنے کی کثرت سے عادت ہے میں نے کب آپ سے کہا تھا کہ ایک بار کیا ہوا فعل سنت نہیں ہوتا۔ رہا آپ کا اسے ہنگامی کہہ کر دل کے بوجھ کو ہلکا کرنا تو یہ بھی فضول ہے حدیث میں کس لفظ کا معنی ہنگامی ہے؟
رہا آپ کا یہ کہنا کہ ہماری مساجد میں اس سنت کو ذبح کیا جا رہا ہے، تو اس پر ہم لعنت اللہ علی الکاذبین کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ اس نادان دل میں کون یہ بات ڈالے کہ اس حدیث میں شرائط لباس میں سے سب سے کم کا بیان ہے ناکہ زیادہ کا‘ اس بات کو ملحوظ رکھیے اور ہماری بات کو بخوبی سن لیجئے کہ ایک کپڑے میں نماز کو نا جائز کہنے والا بدعتی ہے۔ بھائی ! آپ کے فقہاء نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے اس مکروہ پر آپ کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود ہے؟
حنفی:
نبی کریم ﷺ تو ننگے سر آدمی کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے (مشکوۃ) جب مسح فرماتے ہیں تو ایک ہاتھ سے عمامہ مبارک کو معمولی او پر اٹھاتے ہیں اور ایک ہاتھ سے مسح فرماتے ہیں۔ اتنی دیر تک بھی ننگے سر رہنا پسند نہیں فرماتے کہ عمامہ کو اتار کر نیچے رکھ دیں اور مسح فرمالیں اور امتی ہمیشہ ننگے سر نماز پڑھے۔ اکثر گلیوں بازاروں میں ننگے سر پھریں اور کہلا ئیں اہل حدیث۔ اپنے علاوہ باقی سب کو مرتد فاسق کہیں (لعنت اللہ علی الکاذ بین ) اس کو حضور علیہ السلام کسی طرح پسند فرمائیں گے۔
رسول الله ﷺ پر افتراء
محمدی:
اولاً:- مشکوٰۃ کو ہم نے دیکھ لیا ہے اس میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے۔ جو آپ نے ذکر کی ہے دوسری حدیث جو آپ نے ذکر کی ہے اس کے متعلق عرض ہے کہ اس کا حوالہ دو کیونکہ ہمیں ایسی کوئی حدیث نہیں ملی۔ میر ا غالب گمان یہ ہے کہ یہ بھی آپ نے جھوٹ بولا ہے۔ الغرض آپ نے یہ کذبات بول کر اکاذیب آل دیو بند میں مزید دو افتراء علی الرسول ﷺ کا اضافہ کیا ہے تو یاد کر لو قبر میں آپ نے اکیلے ہی جانا ہے۔
ثانياً: مشكوٰة كتاب اللباس میں ترمذی اور ابو داؤد کے حوالے سے ایک روایت ہے کہ
((مر رجل وعليه ثوبان إحمران فسلم على النبي فلم يرد عليه ))
یعنی ایک آدمی گزرا اور اس کے اوپر دوسرخ رنگ کے کپڑے تھے اس نے آنحضرت ﷺ کو سلام کیا تو آپ علیہ السلام نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا۔
( مشکوۃ ص 1247 ج 2 الحديث 4353)
دیکھئے اس حدیث میں ترک سلام سرخ لباس پہننے کی وجہ سے بیان کیا گیا ہے۔ مگر مؤلف تحفہ اہل حدیث کو جھوٹ کی اتنی کثرت سے عادت پڑ چکی ہے کہ اس نے اس روایت میں بھی تقلیدی آری چلا کر متن روایت میں ردو بدل کر دیا ہے۔ ہیں تو ماشاء اللہ عالم دین مگر دل گمراہی سے لبریز ہے‘ نام اسلام کا لیتا ہے مگر جھوٹ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر باندھتے ہوئے بھی اس کا ضمیر اسے ملامت نہیں کرتا۔ الغرض یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف کذب منسوب کیا گیا ہے اللہ اس سے تجھے تو بہ کی توفیق دے۔
ثالثاً: اس حدیث کو علامہ البانی رحمتہ اللہ علیہ نے تحقیق مشکوٰۃ ص 1247ج2 میں ضعیف کہا ہے اور حافظ ابن حجر نے اس کی فتح الباری میں تضعیف کی ہے ۔
(کذا فی تنقیح الرواة ص 230 ج 3)
وجہ ضعف یہ ہے کہ اس کی سند میں ابو یحییٰ القتات راوی ہے۔ (ابوداؤد ص 207 ج2) اور یہ لین الحدیث ہے۔ ( تقریب ص 432)
کیا ننگے سر نماز نہیں ہوتی؟
فقہاء حنفیہ نے ننگے سر نماز کو مکر وہ بھی لکھا ہے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی صراحت کی ہے کہ اگر کوئی شخص عاجزی سے ننگے سر نماز ادا کرتا ہے تو اس کی نماز ہو جاتی ہے۔ علامہ حلبی شرح منیہ میں فرماتے ہیں کہ
(ولا باس به اذا فعله تذللا و خشوعا)
اگر عاجزی اور خشوع کی وجہ سے ہو تو پھر ( ہو جاتی ہے ) مکروہ نہیں۔
(مستملی ص 349 و شرح نقایہ ص 95 ج 1 و نماز مسنون ص 504)
یہی بات صاحب در مختار نے کہی ہے اور اس کی شرح میں ابن عابدین فرماتے ہیں وهو حسن یعنی یہ بات خوب اچھی ہے۔
(فتاوی شامی ص 641 ج1)
اسی پر کنز الدقائق کے شارح علامہ ابن نجیم حنفی نے اعتماد کیا ہے۔
(البحر الرائق ص 25 ج 2)
علمائے اہل حدیث کی تحقیق
اہل حدیث علماء کی تحقیق کے عنوان سے ہم نے الگ اور جدا مضمون اس لئے لکھنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ ہمارے معاصر نے ‘فتاویٰ علمائے حدیث- ص 286 تا 291 ج 4‘ سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے ایک فتویٰ کو نقل کیا ہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ مولانا رحمہ اللہ کی یہی تحقیق تھی کہ ننگے سر نماز بطور عادت یا فیشن ادانہ کرنی چاہئے‘ مگر انہوں نے اس مفصل فتویٰ کی ابتدا میں ہی اعتراف کیا ہے کہ سر چونکہ بالا تفاق اعضاء ستر میں نہیں اس لئے اگر کسی وقت ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز بالاتفاق جائز ہو گی۔
(فتاوی علماء حدیث ص 486 ج 4)
کیا ہمارے دوست کو ان کی اس تحقیق سے اتفاق ہے ؟ اگر نہیں یقیناً نہیں کیونکہ حنفیہ اس کو مکروہ کہتے ہیں ، جس کی اجازت فقط مجبوری کی وجہ سے دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ خود مؤلف‘ تحفہ اہل حدیث نے لکھا ہے کہ : آپ کے سوال کی شق اول کا جواب دیتے ہیں کہ نماز ہو جاتی ہے یا نہیں۔ عرض یہ ہے اگر کوئی آدمی بامر مجبوری ننگے سر نماز پڑھتا ہے یعنی اس کے پاس کپڑا نہ ہو یا سر میں کوئی تکلیف ہو تو نماز ہو جائے گی۔
( تحفہ اہل حدیث ص 14)
اب دیکھیے مولانا سلفی مرحوم تو مطلق جواز کا فتوی‘ دیتے ہیں کسی مجبوری کی قید نہیں لگاتے جب کہ مؤلف تحفہ اہل حدیث مجبوری کی قید لگاتے ہیں‘ حالانکہ مجبوری کی وجہ سے تو بیٹھ کر نماز بھی جائز ہے‘ بلکہ لیٹ کر پڑھنے کی بھی اجازت ہے‘ بلا وضو تمیم کر کے انسان نماز ادا کر سکتا ہے۔ الغرض عام حالات اور مجبوری کے فتویٰ میں زمین و آسمان کا فرق ہے لیکن ہمارے مہربان مولانا سلفی مرحوم کا فتویٰ اپنی تائید میں پیش کر رہے ہیں۔ افسوس پندرھویں صدی میں ایسے فاضل بھی مصنف بن بیٹھے ہیں‘ جو مطلق اور مقید کے فرق کو نہیں جانتے اور مقابلہ کے لیے للکار رہے ہیں اہل حدیث کو‘ واضح رہے کہ ہم متعدد اہل علم کے ننگے سر نماز کے جواز پر فتاویٰ پیش کر سکتے ہیں مگر یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے اور نہ ہی فریق ثانی پر حجت ہو سکتے ہیں۔ ہاں جس فتوی‘ کو انہوں نے نقل کیا ہے ان کا تصدیق شدہ ہونے کی وجہ سے ان پر حجت ضرور ہے۔ امید ہے کہ مکروہ سے رجوع کر کے جواز کا فتویٰ دے دیں گے۔
ایک سوال اہل تقلید سے
فقہاء احناف نے ننگے سر نماز کو مکروہ لکھا ہے جیسا کہ تفصیل عرض کر دی گئی ہے اصول فقہ میں مرقوم ہے کہ مکروہ وہ چیز ہوتی ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو یعنی حدیث صحیح مرفوع متصل سے اس کا ثبوت ہو مگر کتاب اللہ میں اس کی ممانعت نہ ہو۔
اس اصول کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ننگے سر نماز ادا کرنے کی ممانعت پر کوئی آیت قرآنی تو موجود نہیں البتہ حدیث موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ حدیث کسی صحابی سے مروی ہے اور حدیث کی کس کتاب میں اس کا وجود ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ننگے سر نماز ادا کرنے سے منع فرمایا ہے ؟ یقین جانیے کہ پوری دنیا کے دیوبندی علماء مل کر سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود ہمیں کوئی ایسی صحیح مرفوع متصل حدیث نہیں دکھا سکتے اگر یہ دکھا دیں تو راقم اللہ تعالی کو گواہ بنا کر کہتا ہے بغیر کسی حیل و حجت سے ہم اس کو اپنا لائحہ عمل بنائیں گے اور ننگے سر نماز ادا کرنے سے منع کریں گے۔ انشاء الله
آخر خاموشی کیوں ہے؟
کتنی سیدھی سی بات ہے کہ ننگے سر نماز ادا کرنے کو آپ حضرات مکروہ کہتے ہیں اور مجبوری کی صورت کے علاوہ اس کے جواز کے قائل ہی نہیں۔ جیسا کہ مؤلف تحفہ اہل حدیث بھی اس پر کوئی صحیح مرفوع حدیث پیش نہیں کر سکا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آپ حضرات وہ حدیث کیوں پیش نہیں کرتے جس کا صاف مطلب یہ ہو کہ آپ کے پاس کوئی دلیل موجود ہی نہیں۔ ہاں مؤلف تحفہ اہل حدیث نے یہ کر دیا کہ اپنی طرف سے ایک حدیث بنا کر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کر دی۔ آپ کا یہ بد ترین فعل ہی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اس پر کوئی دلیل نہیں رکھتے۔ ورنہ تم کو حدیث گھڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
مؤلف تحفہ اہل حدیث کی قرآن میں معنوی تحریف
فرماتے ہیں کہ اگر سستی سے سر ننگا ر کھتا ہے تو اس میں یہودیوں سے مشابہت ہے۔ قرآن میں آتا ہے یہود کے بارے میں کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے
((اذا قاموا الى الصلوة قامو ا كسالى)) ( تختہ اہل حدیث ص 14)
الجواب:-
اولاً:- بات کو آگے لے جانے سے قبل آئیے پہلے الفاظ قرآن اور ان کا ترجمہ ملاحظہ کریں ۔ ارشاد ربانی ہے کہ
(ان المنافقين يخدعون الله وهو عادههم واذا قاموا الى الصلوة قاموا كسالى برآء ون الناس ولا يذكرون الله الا قليلا)
(سورہ النساء آیت 142)
مولانا محمود حسن دیوبندی ان الفاظ ربانی کا معنی کرتے ہیں۔
البتہ منافق دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور وہی ان کو د غادے گا اور جب کھڑے ہوں نماز کو تو کھڑے ہوں ہارے جی سے لوگوں کو دکھانے کو اور یاد نہ کریں اللہ کو مگر تھوڑا سا
قارئین کرام آپ اس ترجمہ سے ہی بخوبی جان گئے ہو نگے کہ یہاں پر منافقین کا ذکر ہو رہا ہے مگر ہمارے جھنگوی صاحب قرآنی علوم سے اس قدر جاہل ہیں کہ وہ اسے یہود کے بارے میں باور کرارہے ہیں۔ گویا منافقین کے لفظ کو یہود سے بدلنا ان کا اللہ تعالی پر افتراء اور قرآن کی معنوی تحریف ہے؟
ثانیا:- امام راغب نے مفردات میں کسل کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کاہلی اور بو جھل ہونا ایسے معاملہ میں جس میں سستی مناسب نہیں۔
(المفردات ص 431)
اس معنی کو ملحوظ رکھا جائے تو الفاظ قرآنی کا یہ مفہوم بنتا ہے کہ منافقین جو نماز پڑھنے کے لیے آتے ہیں تو ان کی غرض صرف دھوکہ دینا ہے تا کہ عوام الناس انہیں مسلمان خیال کریں کہ یہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں حالانکہ ان کی نماز بوجھ کے طور پر چند رکعات کا ادا کر لینا ہی ہے۔ جس میں بے رغبتی اور بے دلی کی وجہ سے وہ اللہ کا ذکر بہت تھوڑا کرتے ہیں۔ بتائیے اس کیفیت کو ننگے سر نماز ادا کرنے سے کوئی تعلق ہے؟
کجا طبیعت کا بھاری پن کی وجہ سے ذکر کم کرنا جس کا تعلق قلب اور زبان سے ہے‘ کجا ننگے سر نماز ادا کرنا جس کا تعلق انسانی بدن سے ہے نہ کہ زبان سے مگر یہ سیدھی سی بات جھنگوی صاحب کے غیر فقہی دماغ میں کون اتارے۔
ثا لثاً:- بالغرض اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہاں ننگے سر نماز ادا کرنے کی ممانعت کا ذکر ہے اور یہ فعل یہود کا ہے تو بتائیے جن فقہائے احناف نے عاجزی سے ننگے سر نماز ادا کرنے کا فتویٰ دیا ہے ان کا یہود کے ساتھ کیا رشتہ تھا؟
کیا ننگے سر عبادت کرنا عیسائیت کا شعار ہے ؟
فرماتے ہیں عیسائیوں سے مشابہت لازم آتی ہے۔ عیسائیوں کو عبادت کرتے ہوئے آپ نے دیکھا ہو گا سارے ننگے سر عبادت کرتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث 13)
الجواب:-
اولاً:- ہماری تو عیسائیت کے ساتھ کوئی یاری نہیں‘ یاری والوں کو معلوم ہوگا۔ کہ وہ عبادت کس طرح کرتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں گرجا گھر ہے مگر کبھی ان کی عبادت دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا‘ ہاں کبھی بڑے دن پر وہ عبادت کرتے ہیں تو آواز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو موسیقی کے ساتھ کرتے ہیں۔ جیسے بعض بقلم خود مسلمان رقص و سرود کی محفل کے ساتھ عبادت کرتے ہیں۔ جو لوگ بر صغیر میں موسیقی کے ساتھ عبادت کرتے ہیں ( قوالی وغیرہ) ان کا رشتہ حنفیت کے ساتھ ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ثقہ بند حنفی کہتے ہیں اور آپ حضرات کو حنفیت کے خلاف سازش سے تعبیر کرتے ہیں الغرض اپنی آنکھ کا شہیتر تو نظر نہیں آرہا مگر غیر کی آنکھ میں تنکا بھی آپ کو کھٹکتا ہے۔
ثانیا: بعض جزوی مشابہت سے تشبہ بالکفار لازم نہیں آتا۔ جیسے لفظ عبادت کے اشتراک سے تشبہ کا کوئی بھی قائل نہیں۔
ثالثاً: فریق ثانی پر لازم ہے وہ دلائل و براہین سے ثابت کرے کہ ننگے سر عبادت کرنا کفار کا شعار ہے۔
رابعاً:- اس کی بھی وضاحت کر دیجئے کہ جن فقہاء نے ننگے سر نماز کو جائز کہا ہے وہ تشبہ بالکفار کے زمرہ میں آتے ہیں کہ نہیں؟