سنت نبوی کی روشنی میں بال رکھنے کے اصول
ماخوذ: ماہنامہ اہل السنہ

سر کے بال اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہیں، جن میں رعب اور حسن دونوں شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق بال رکھنے سے نہ صرف اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ دین کے قیام اور اسلام کے فروغ کی کوشش بھی ہے۔

مسلمانوں کا موجودہ طرزِ عمل

آج کے دور میں مسلمان کفار کی طرزِ زندگی اور ان کی ثقافت سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جب انہوں نے اپنی عملی خصوصیات کو چھوڑ دیا تو بے بسی کا شکار ہو گئے اور اپنی دینی شناخت اور اسلامی علامات کو کھو بیٹھے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور اللہ سے بغاوت کرنے والوں کے درمیان ظاہری امتیاز ختم ہو گیا۔

مسلمانوں کی اس غفلت اور بدعملی کے باعث فطرت سے محبت کرنے والے لوگوں کو ان میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ کفار کی تقلید میں بعض مسلمانوں نے سنت کے طور پر بال رکھنے سے دوری اختیار کر لی ہے، حالانکہ کفار خود بالوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔

بال رکھنا: مستحب عمل

بال رکھنے کا تعلق عبادات سے نہیں بلکہ یہ ایک معاملہ ہے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپنانا مستحب ہے۔ اس کے باوجود، کفار کی مشابہت میں غیر متناسب اور الٹے سیدھے بال رکھنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض دینی مزاج رکھنے والے لوگ بھی دیندار نوجوانوں کو زبردستی بال کٹوانے کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ مستحب امور میں ترغیب دینا بہتر ہے۔

بالوں کی دیکھ بھال اور اسلامی طرزِ زندگی

بعض لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ بڑے بالوں کی دیکھ بھال مشکل ہوتی ہے اور طالب علموں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ تاہم، یہ ایک غلط فہمی ہے کیونکہ دین آسان ہے اور فطرت کے مطابق ہے۔ دراصل، چھوٹے بالوں کو سنوارنا زیادہ مشکل اور مہنگا ثابت ہوتا ہے اور اس میں وقت کا ضیاع بھی زیادہ ہوتا ہے۔

بچوں کی اسلامی تربیت

مسلمان گھرانوں میں بچپن سے ہی اسلامی آدابِ معاشرت کی تربیت دی جانی چاہیے، تاکہ بڑے ہو کر وہ اسلامی طرزِ زندگی اور اسلامی شعائر کو اپنا سکیں۔ اس طرح وہ پوری دنیا کے سامنے اسلامی تہذیب کا بہترین نمونہ پیش کر سکیں۔

مدارس میں سنت کا معاملہ

معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ سنت نہ صرف متروک ہو چکی تھی بلکہ دینی مدارس سے جبراً ختم کر دی گئی۔ جہاں سنت کا احیا ہونا چاہیے تھا، وہاں سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ طلبہ کو زلفیں رکھنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ اگر کوئی بال رکھ بھی لے تو اسے سزا ملنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر میں بچوں کے بال کاٹ کر ان کی فطرت سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ حالانکہ، مدارس کا فریضہ تھا کہ طلبہ کو محبت کے ساتھ سنت سے روشناس کراتے۔

مدارس کی ذمہ داری

مدارس کے منتظمین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بالوں کو سنوارنا ایک مخصوص عمر کی نفسیات ہے۔ چاہے آپ بال کاٹیں یا نہ کاٹیں، بچہ اپنا شوق پورا کرتا رہے گا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان کی فطرت کو کچلنے کے بجائے، انہیں صحیح سمت میں رہنمائی دی جائے۔ انہیں سنت کے مطابق بال رکھنے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ عوام میں سنت کا عملی نمونہ بن سکیں۔ بال رکھنے سے نہ ایمان کمزور ہوتا ہے اور نہ اسلام میں کوئی نقص آتا ہے۔

بالوں کی برابری کا غلط نظریہ

ہمارے یہاں ایک اور غلط نظریہ پایا جاتا ہے کہ بالوں کو برابر رکھنا چاہیے، چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے۔ اسے اسلامی حکم قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے کوئی ہدایت نہیں دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف تین طرح کے بال رکھنے کا ثبوت ملتا ہے، جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ اگر برابری کا نظریہ اسلام کا حصہ ہوتا، تو اس کی تصریح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور ائمہ سلف نے ضرور کی ہوتی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی اقسام
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تین طرح کے تھے:

  • جُمَّہ: یہ بال کندھوں پر لٹکتے تھے۔
  • لِمَّہ: یہ بال کانوں کی لو سے نیچے بڑھتے ہوئے ہوتے تھے۔
  • وَفْرَہ: یہ بال کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔

لغوی وضاحت

مشہور لغوی ماہر، حافظ نووی رحمہ اللہ (م: 676ھ) لکھتے ہیں:
"اہل لغت کہتے ہیں کہ جُمَّہ بال وَفرہ سے بڑے ہوتے ہیں۔ جُمَّہ کندھوں پر لٹکتے بالوں کو کہتے ہیں۔ وَفرہ وہ بال ہیں جو کانوں کی لو تک پہنچیں اور لِمَّہ وہ بال ہیں جو مونڈھوں تک پہنچیں۔”
(شرح صحیح مسلم: 2/285)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی تفصیلات

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈھوں کو چھوتے تھے۔”
(صحیح مسلم: 2338/95)

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جُمَّہ بال کندھوں کے قریب پہنچتے تھے۔”
(صحیح البخاری: 5901)

سنن نسائی کی روایت میں ہے:
"میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لِمَّہ بال دیکھے، جو کندھوں کے قریب تھے۔”
(سنن نسائی: 5063)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کانوں سے بڑھے ہوئے تھے۔”
(مسند الإمام أحمد: 3/142، وسندہ، صحیحٌ)

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کانوں کی لو تک تھے۔”
(صحیح مسلم: 2337/91)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال وفرہ سے زیادہ اور جُمَّہ سے کم تھے۔”
(سنن أبي داود: 4187، وسندہ، حسنٌ)

تنبیہ 1:

بعض صوفی حضرات اور ملنگ حضرات بہت لمبے بال رکھتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے بال کمر تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ عمل درست نہیں ہے۔ شریعت میں اس طرح کے بالوں کو پسندیدہ نہیں سمجھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ درج ہے:

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو میرے لمبے بال تھے۔ فرمایا: ‘ذُبَابٌ، ذُبَابٌ’ (یعنی مصیبت، مصیبت)۔ میں نے جا کر کچھ بال کاٹ دیے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ‘میری یہ مراد نہیں تھی، بہر حال یہ بہتر ہے۔’
(سنن أبي داود: 4190، سنن النسائي: 5055، سنن ابن ماجہ: 3636، وسندہ، صحیحٌ)

اسی طرح سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ نے سیدنا سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کوئی نصیحت کریں:
"ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘خریم اسدی بھی کیا خوب ہیں، اگر ان کے بال زیادہ لمبے نہ ہوں اور شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔’ یہ بات خریم اسدی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فوراً قینچی لی اور اپنے بال کانوں تک کاٹ دیے، اور اپنی شلوار کو نصف پنڈلی تک کر لیا۔”
(سنن أبي داود: 4089، مسند الإمام أحمد: 4/180، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 4/184، وسندہ، حسنٌ)

امام حاکم نے اس حدیث کو "صحیح الاسناد” قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے بھی اسے "صحیح” کہا ہے۔ حدیث کے راوی ہشام بن سعد جمہور کے نزدیک "موثق، حسن الحدیث” ہیں۔ کندھوں تک بال رکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہٰذا یہاں ناپسندیدہ لمبائی سے مراد کندھوں سے نیچے کے بال ہیں۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کندھوں تک بال رکھنا جائز اور مستحب ہے، لیکن اس سے لمبے بال شریعت میں ناپسندیدہ ہیں۔

تنبیہ 2:

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا، اور ان کے بالوں کی کیفیت یوں بیان کی:
"آپ کے بال کندھوں کے درمیان لٹک رہے تھے۔”
(صحیح البخاري: 3440)

تنبیہ 3:

سیدہ امِ ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت منسوب ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی چار مینڈھیاں تھیں۔”
(سنن أبي داود: 4191، سنن الترمذي: 1781، الشمائل للترمذي: 31، سنن ابن ماجہ: 3631)

تاہم، اس روایت کی سند "ضعیف” ہے۔ ابن ابو نجیح "مدلس” ہیں اور بصیغہئ "عن” روایت کر رہے ہیں۔ معجم کبیر طبرانی (24/429) کی سند میں مسلم بن خالد زنجی کی وجہ سے سند "ضعیف” ہے، جب کہ معجم صغیر طبرانی (2/87) کی سند میں محمد بن ادریس حلبی "مجہول” اور قتادہ "مدلس” ہیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بالوں کی کیفیت

مختلف اوقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کی حالت کو واضح کر دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بال رکھنے کا کوئی طریقہ پسندیدہ نہیں سمجھا گیا۔ صحابہ کرام اور ائمہ دین کے بال سنت کے مطابق تھے، جیسا کہ درج ذیل روایات سے ثابت ہے:

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بال کانوں کی لو تک تھے۔
(صحیح البخاري: 4191)

عبد اللہ بن بسر مازنی رضی اللہ عنہ کے بال کانوں کی لو تک تھے۔
(معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم: 3/1595، وسندہ، حسنٌ)

اسی طرح، سیدنا عبد اللہ بن عباس، سیدنا عبد اللہ بن عمر، سیدنا جابر بن عبداللہ، سیدنا عبد اللہ بن زبیر، اور سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہم سے کندھوں تک بال رکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 8/450، 8/446، وسندہ صحیح)

تابعین و تبع تابعین کا عمل

تابعین میں سے قاسم بن محمد، عبید بن عمیر، ابن الحنفیہ، اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے بھی کندھوں تک بال رکھنے کی روایات ہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 8/447، 8/450، وسندہ صحیح)

تبع تابعی معتمر بن سلیمان رحمہ اللہ کے بال بھی کندھوں تک تھے۔
(العلل لأحمد بن حنبل: 1227، وسندہ، صحیحٌ)

علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (541-620ھ) لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بال رکھنا مستحب ہے۔ لمبے ہوں، تو کندھوں تک، اور چھوٹے ہوں تو کانوں تک۔”
(المغني لابن قدامۃ: 1/66)

خلاصہ:

سر کے بال اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہیں، جن کی دیکھ بھال اور رکھ رکھاؤ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں بالوں کے تین مختلف انداز رکھے: جُمَّہ (کندھوں تک لٹکتے بال)، لِمَّہ (کانوں کی لو سے بڑھتے بال)، اور وَفْرَہ (کانوں کی لو تک کے بال)، جنہیں سلف صالحین نے اپنایا۔ سنت کے مطابق بال رکھنے سے نہ تو ایمان میں کمی آتی ہے اور نہ ہی یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔

تاہم، اسلامی تعلیمات میں بہت لمبے بال رکھنا (کندھوں سے نیچے تک) ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ یہ ناپسندیدگی خاص طور پر ان بالوں کے لیے ہے جو شریعت کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں، جیسے کہ صوفیوں اور ملنگوں کے بہت لمبے بال۔ اسی طرح غیر متناسب اور کفار کی تقلید میں بالوں کو ترتیب دینا بھی غیر موزوں ہے۔

آج کے مسلمانوں کو اسلامی طرزِ زندگی کی طرف واپس آنا چاہیے، جہاں دینی شعائر کی پیروی کو اہمیت دی جائے۔ سنت رسول کی پیروی کرتے ہوئے بالوں کو اسلامی حدود میں رکھنا اور کفار کی مشابہت سے بچنا، دین کی اصل روح کی عکاسی کرتا ہے۔ والدین اور تعلیمی اداروں کا فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت دیں، تاکہ وہ بڑے ہو کر اسلامی طرزِ زندگی کو اپنائیں اور دنیا کے سامنے اسلامی تہذیب کا بہترین نمونہ پیش کر سکیں۔

یوں، سر کے بال رکھنے کے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر مسلمان اللہ کی رضا کے طلبگار بن سکتے ہیں، اور اپنی فطری حسن و جمال کو سنت کی روشنی میں برقرار رکھتے ہوئے اسلامی ثقافت کو فروغ دے سکتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے