مردے سنتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں مسلمانوں کے ہاں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ یہی اختلاف عقیدے کے لحاظ سے مسلمانوں کی تقسیم کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔ یہ مسئلہ ”سماع موتیٰ“ کے نام سے معروف ہے۔ ہم فہم سلف کی روشنی میں قرآن و سنت سے اس مسئلے کا حل پیش کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے تلاش حق کی غرض سے ہماری ان معروضات کو ملاحظہ فرمائیں اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت تعصب کو آڑے نہ آنے دیں۔ ہمیں امید واثق، بلکہ یقین ہے کہ وہ ضرور حق کی منزل کو پا لیں گے، کیونکہ قرآن و سنت کو اگر صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے طریقے اور منہج کے مطابق سمجھا جائے تو حق تک پہنچنا سو فی صد یقینی ہو جاتا ہے۔
بطور تمہید یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ شریعت اسلامیہ کے کچھ کلی قواعد و قوانین میں چند ایک استثناءات رکھ دی گئی ہیں۔ ان استثناءات کی وجہ سے کلی قوانین کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نصوص شرعیہ سے ثابت شدہ استثناءات کو خارج کرنے کے بعد باقی قاعدہ پھر کلی ہی رہتا ہے، مثلاً :
➊ تمام انسانوں کا ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونا کلی قاعدہ ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى [49-الحجرات:13]
”اے لوگو ! بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔“
? جبکہ آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے۔
اب کوئی ان دو خاص واقعات کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان ماں اور باپ دونوں یا کسی ایک کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے، البتہ یہ کہہ جا سکتا ہے کہ خاص دو انسان دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور دوسرا باپ کے بغیر پیدا ہوا۔
➋ مردار کا حرام ہونا ایک قاعدہ کلیہ ہے۔ فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [5-المائدة:3]
? جبکہ اس سے جراد (ٹڈی نام کا ایک پرندہ) اور حوت (مچھلی) کا گوشت مستثنیٰ ہے۔ [ السنن الكبري للبيهقي : 384/1، و سندهٔ صحيح]
? ان دو قسم کے مرداروں کے حلال ہونے سے ہر مردار کے حلال ہونے کا استدلال جائز نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”مردار حلال ہے، لیکن صرف مچھلی اور ٹڈی کا“۔ مردار کے حرام ہونے والا قانون اپنی جگہ مستقل اور کلی ہی ہے۔
➌ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مردوں پر ریشم پہننا حرام کر دیا گیا ہے۔ فرمان نبوی ہے :
الحرير والذهب حرام على ذكور أمتي، حل لإناثهم
”ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں، جبکہ عورتوں کے لیے حلال ہیں۔“ [ شرح مشكل الآثار للطحاوي : 308/12، ح : 4821، و سندهٔ حسن]
جبکہ تین، چار انگلیوں کے برابر استعمال کر لینا جائز ہے۔ [ صحيح مسلم : 2069]
? شریعت کا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے، لیکن ایک خاص مقدار جائز کر دی گئی ہے۔ کوئی اس رخصت کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ”مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے لیکن ایک خاص مقدار میں۔“
یہ سب مثالیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کلی قاعدے میں بسا اوقات شریعت کچھ استثناءات رکھ دیتی ہے، لیکن اس سے قانون شریعت کی کلی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔ بالکل یہی حال مسئلہ سماع موتی کا ہے۔ مردے نہیں سنتے، البتہ قرآن و سنت کے بیان کرده خاص اوقات و حالات میں ان کا کوئی خاص بات سن لینا ثابت ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ مردے سنتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا سے کہ ”مردے سنتے ہیں، لیکن ان حالات و واقعات میں جن کی صراحت نصوص شرعیہ نے کر دی ہے۔“
لہٰذا مطلق طور پر مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھنا قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت نے مردوں کے سننے کے مطلق نفی کی ہے۔ یہی کلی قانون ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
دليل نمبر ①
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ [6-الأنعام:36]
”جواب تو وہی دیتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے روز) زندہ کرے گا، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے“
◈ سنسی مفسر ابوجعفر، ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224-310 ھ) فرماتے ہیں:
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ، يقول : الكفار يبعثهم الله مع الموتى، فجعلهم تعالى ذكره في عداد المؤتى الذين لا يسمعون صوتا، ولا يعقلون دعاء، ولا يفقهون قولا.
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ”اور مردوں کو تو اللہ تعالی (روز قیامت) زندہ کرے گا۔“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفار کو اللہ تعالیٰ مردوں کے ساتھ ہی زندہ کرے گا، یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں (زندہ ہوتے ہوئے بھی) ان مردوں میں شامل کر دیا جو نہ کسی آواز کو سن سکتے ہیں، نہ کسی پکار کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ کسی بات کا انہیں شعور ہوتا ہے۔“ [ جامع البيان عن تأويل آي القرآن المعروف بتفسير الطبري : 855/4]
دلیل نمبر ②
﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ [27-النمل:80]
”(اے نبی !) یقیناً آپ نہ کسی مردے کو سنا سکتے ہیں، نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جب وہ اعراض کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔“
◈ جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب (1244-1323ھ) لکھتے ہیں:
واستدل المنكرون (لسماع الموتى)، ومنهم عائشة وابن عباس، ومنهم الإمام (أبو حنيفة)، بقوله تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ، فإنه لما شبه الكفار بالأموات في عدم سماع،
علم أن الأموات لا يسمعون والا لم یصح التشبیهٔ
”جو لوگ مردوں کے سننے کے انکاری ہیں، ان میں سیدہ عائشہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ ان کا استدلال اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہے: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ”(اے نبی !) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نہ سن سکنے میں مردوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مردے نہیں سنتے، ورنہ تشبیہ ہی درست نہیں رہتی۔۔۔“ [الكوكب الدري، ص: 319، ط الحجرية، 197/2، ط الجديدة]
? اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گویا یہ کفار مرد ے ہیں کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اس طرح یہ بھی حق بات نہیں سنتے۔
دلیل نمبر ③ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
◈ مسعود بن عمر تفتازانی ماتریدی (م:792 ھ) لکھتے ہیں:
واما قوله تعالى : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ، فتمثل بحال الكفرة بحال المؤتى، ولا نزاع فى أن الميت لا يسمع.
”اپنے اس فرمان گرامی ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے“ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حالت کو مردوں کی حالت سے تشبیہ دی ہے اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔“ [شرح المقاصد فى علم الكلام : 116/5]
◈ شارح ہدایہ، علامہ ابن ہمام حنفی (م:861ھ) ان دونوں آیات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فإنهما يفيدان تحقيق عدم سماعهم، فإنه تعالى شبه الكفار بالمؤتى لإفادة تعذر سماعهم، وهو فرع عدم سماع الموتى.
”ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سن نہیں سکتے۔ کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدم سماع موتیٰ کی فرع ہے۔“ [فتح القدير:104/2]
فائدہ: بعض لوگ فوت شدگان کو فریاد رسی کے لئے پکارتے ہیں اور غیب سے ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ باطل عقیدہ ہے۔ مردے تو قریب سے بھی سن نہیں سکتے، ہزاروں میل دور سے کیسے سنیں گے؟ قرآن مجید اس کا رد یوں فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ ٭ إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ (35-فاطر:14، 13)
”اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو، وہ کھجور کی گھٹلی کے پردے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے۔ قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے براءت کا اعلان کر دیں گے۔ تمہیں (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“
نیز فرمان باری تعالی ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ [46-الأحقاف:5]
”اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی داد رسی نہیں کر سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔“
? معلوم ہوا کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے۔ اس کلی قائدہ کا انکاری اہل حق نہیں، بلکہ گمراہ شخص ہے۔
اس کلی قاعدے سے شریعت نے خود ہی چند استثناءت رکھ دی ہیں۔ ان میں کچھ استثناءت یہ ہیں:
استثناء نمبر ①
مردے کا جوتوں کی آواز سننا :
① سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
العبد إذا وضع في قبره , وتولي , وذهب اصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فاقعداه , فيقولان له
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اقربا اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں، حتی کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں۔۔۔؟“ [ صحيح البخاري : 78/1، ح: 1338، صحيح مسلم :379/2، ح : 7216]
❀ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
إن الميت إذا وضع في قبره إنه ليسمع خفق نعالهم إذا انصرفوا
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی واپسی کے وقت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔۔۔“ [ صحيح مسلم : ح : 7217]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الميت اذا وضع في قبره انه لسمع خفق نعالهم حين يولون عنه
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو لوگوں کے واپسی کے وقت وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہی ہوتی ہے۔“
[ مسند الإمام أحمد : 348/2، شرح معاني الأثار للطحاوي : 510/1، المعجم الأوسط للطبراني :2651، المستدرك على الصحيحين للحاكم :380/1-381، و سندهٔ حسن]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ (3113) نے اس حدیث کو’’صحیح“ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [ مجمع الزوائد: 51/3-52]
? یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو حين يولون عنهٔ (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور إِذا انصرفوا ، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
◈ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال
”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز ستنی ہے۔“ [ شرح أبى داؤد :188/6]
? پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی ليسمع وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔
? اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو :
◈ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
والذي نفسي بيده ! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔“ [ شرح معاني الاثار للطحاوي :510/1، وسنده حسن]
◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ )اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.
”اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔“ [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة : 1147]
◈ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.
”مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔“ [ القول المفيد على كتاب التوحيد : 289/1]
استثناء نمبر ②
جنگ بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننا:
● بدر میں قتل ہونے والے چوبیس مشرکوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ تین دن کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام پکار پکار کر فرمایا:
يا فلان بن فلان، ويا فلان بن فلان ايسركم انكم اطعتم الله ورسوله، فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ’’اے فلاں کے بیٹے فلاں اور اے فلاں کے بیٹے فلاں ! کیا تمہیں اب اچھا لگتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم نے اپنے ساتھ کیے گئے اپنے رب کے وعدے کو سچا دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچا ہوتا دیکھ لیا ؟‘‘
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: يا رسول الله ما تكلم من اجساد لا ارواح لها ”اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں؟“
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفس محمد بيده، ما انتم باسمع لما اقول منهم ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں، اس کو تم ان کفار سے زیادہ نہیں سن رہے۔“ [صحيح البخاري :566/2، ح : 3976، صحيح مسلم: 387/2، ح: 2874]
● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی واقعہ یوں بیان کر تے ہیں:
اطلع النبي صلى الله عليه وسلم على اهل القليب، فقال: وجدتم ما وعد ربكم حقا، فقيل له: تدعو امواتا، فقال: ما انتم باسمع منهم ولكن لا يجيبون
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں والے کفار کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ آپ سے عرض کی گئی : کیا آپ مردوں کو پکار رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہاری طرح سن رہے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ صحيح البخاري : 183/1، ح : 1370]
? اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے، جیسا کہ صحیح بخاری [ 567/2، :3981-3980] میں ہے:
انهم الان يسمعون ما اقول
”وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔‘‘
? اس سے معلوم ہوا کہ مرد ے نہیں سنتے۔ صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔ اسی لیے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں، یہ تو سنتے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدم سماع موتیٰ کے اس قانون شریعت سے خاص کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا : الآن یعنی اس وقت وہ میری بات سن رہے ہیں۔ اس میں استمرار کے ساتھ سننے کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ استمرار کی نفی ہو گئی ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) علامہ مازری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال (أبو عبدالله محمد بن على – 453-536هـ -) المازري : قال بعض الناس : الميت يسمع عملا بظاهر هذا الحديث، ثم أنكرهٔ المازري، وادعى أن هذا خاض فى هؤلاء.
”علامہ (ابوعبد اللہ محمد بن علی) مازری (453۔ 536 ھ) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ مازری نے اس کا ردّ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔“ [ شرح صحيح مسلم : 387/2 ]
◈ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
ونحوه قوله صلي الله عليه وسلم لعمر حينما ساله عن منادته لاهل قليب بدر ما انتم باسمع لما اقول منهم هو خاص ايضا باهل القليب
”نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بھی اہل بدر کے ساتھ خاص ہے۔“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة : 286/3، ح : 1148]
فائدہ : مشہور تابعی امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (61۔ 118 ھ ) فرماتے ہیں :
أحياهم الله حتي أسمعهم قوله، توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما .
”اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تاکہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔“ [ مسند الإمام أحمد : 459/19، ح : 12417، صحيح البخاري : 3976 ]
◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف بن عبد اللہ، ابن بطال (م : 449 ھ) فرماتے ہیں :
وعلى تأويل قتادة فقهاء الأئمة وجماعة أهل السنة.
”امام قتادہ کے بیان کردہ مفہوم پر ہی فقہاء ائمہ اور جماعت اہل سنت قائم ہیں۔“ [ شرح صحيح البخاري : 358/3 ]
? معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مردوں کے سننے کا قائل نہیں۔ اگر قرآن و حدیث میں سماع موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل ہوتے۔ اس لیے تو ہم اصل ضابطہ عدم سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے، ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
عقائد و اعمال میں استثناء کا باب کھلا ہے۔ یہ کہنا کہ ”نفی سماع، پھر استثناء، کیا فرق نکلے گا، نتیجہ تو بہرکیف سماع موتیٰ ہی نکلتا ہے۔۔۔“ نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔
◈ شار ح بخاری، علامہ، ابومحمد، عبدالواحد، ابن تین مغربی (م : 611 ھ) فرماتے ہیں :
ان الموتي لا يسمعون بلا شك . ”یقینا مردے نہیں سنتے۔ ” [ فتح الباري لابن حجر : 235/3]
◈ شارح بخاری، مہلب بن احمد بن اسید تمیمی (م : 435 ھ) فرماتے ہیں :
لا يسمعون، كما قال تعالى : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ [27-النمل:80] ، ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
”مردے نہیں سنتے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ (اے نبی !) ”یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ نیز فرمایا : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”(اے نبی !) آپ قبروں میں موجود لوگوں کو سنا نہیں سکتے۔“ [ شرح صحيح البخاري لابن بطال : 320/3]
? ثابت ہوا کہ قرآن و سنت میں مردوں کے سننے کا کوئی ثبوت نہیں، اسی لئے سلف صالحین میں سے کوئی بھی سماع موتیٰ کا قائل نہیں تھا۔ دین وہی ہے جو سلف صالحین نے سمجھا اور جس پر انہوں نے عمل کیا۔ باقی سب بدعات و خرافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور ساری زندگی سلف صالحین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین !
جو لوگ سماع موتیٰ کے قائل ہیں، وہ دلائل کی دنیا میں نادار اور فقیر ہیں۔ ان کے پاس دلائل نہیں، شبہات ہیں، جن کی بنیاد پر وہ مردوں کے سننے کے قائل ہیں۔ آئیے قرآن و سنت اور آثار سلف کی روشنی میں ان شبہات کا ازالہ کرتے ہیں :
شبہ نمبر ①
تفسیر ابن کثیر کی ایک الحاقی عبارت
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔“ [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]
? تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
◈ ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں :
وأرى من الواجب على من یتصدى لتحقيق تفسير ابن كثير تحقيقا علميا دقيقا، سيما من المآخذ، أن لا يعتمد على نسخة واحدة، بل عليه أن يجمع كل النسخ المخطوطة والمطبوعة، ويوازن بينها مع إثبات الزيادة والنقص، والتحريف والتصحيف.
’’ جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے، خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے، تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے، بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے، پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔“ [ابن کثیر و منهجه فی التفسیر، ص : 128]
? پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے، اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھا ہے۔ مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں : زيادة منْ ت، أ یعنی یہ عبارت نسخہ المحمدیۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکور ہے۔ اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا) نامعلوم ہے۔ نیز یہ عبارت نسخہ ولي الله بن جار اللہ میں موجود ہے۔ اس کا ناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے، اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریۃ اور نسخہ دارالكتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں ہے۔ یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔
شبہ نمبر ②
قبرستان میں سلام کہنے والی دلیل :
بعض لوگوں نے سلام والی حدیث سے سماعِ موتی کا مسئلہ ثابت کیا ہے۔ ان کے ہاتھ ’’ ضعیف“ روایات لگ گئی ہیں۔ انہی کی بنیاد پر یہ کچھ ثابت کیا گیا ہے۔ جبکہ کسی صحیح حدیث میں مردوں کے سلام سننے کا ذکر تک نہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب (1248-1297ھ) کہتے ہیں :
’’ اپنے خیالِ نارسا کے موافق سمع اصوات، حد اسماع سے تو پرے ہے۔ پر اسمتاعِ اصوات ممکن ہے۔ یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو انك لا تسمع الموتي فرمایا اور نبی علیہ السلام نے باوجود اس کے، سلام اہل قبور مسنون کر دیا۔ اگر اسمتاع ممکن نہیں تو یہ بے ہودہ حرکت، یعنی سلام اہل قبور، ملحدوں کی زبان درازی کے لیے کافی ہے۔“ [جمال قاسمی : ص 9]
? یہ کوئی علمی بات ہے ؟ جب دلائل نہ ہوں تو اسی طرح کے ’’تیر تکے“ لگائے جاتے ہیں اور وحی کے مقابلے میں عقلی گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔ یہ بات ہر ادنیٰ شعور رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ سلام دعا ہے۔ اور جب میت کو سلام کہا جاتا ہے تو صرف بطور دعا کہا جاتا ہے، ان کو سنانا مقصود نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ :
اني اعلم انك حجر، لا تضر ولا تنفع
’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔۔۔“ [ صحيح البخاري : 1597، صحيح مسلم : 1270]
? یہاں بھی حجر اسود کو سنانا مقصود نہیں تھا، بلکہ لوگوں کو بتانا مقصود تھا کہ میں حجر اسود کو صرف سنت نبوی کی پیروی میں چومتا ہوں۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو سنانے کے لیے یہ بات کہی تھی۔ معلوم ہوا کہ بسااوقات خطاب سنانے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ کیا کوئی عقلی میدان میں طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حجر اسود، جو کہ جماد اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہے، کو خطاب کرنا (معاذاللہ ! ) ایک بے ہودہ حرکت تھی ؟
◈ عالم عرب کے مشہور عالم، شیخ محمد بن صالح عثیمیں رحمہ اللہ (م :1421 ھ) فرماتے ہیں :
فإنه لا يلزم من السلام عليهم أن يسمعوا، ولهذا كان المسلمون يسلمون على النبى فى حياته فى التشهد، وهو لا يسمعهم قطعا.
’’ مردوں کو سلام کہنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اسے سنتے ہیں۔ مسلمان (خصوصاً صحابہ کرام ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تشہد پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قطعاً نہیں سنتے تھے۔“ [ القول المفيد على كتاب التوحيد : 288/1]
? شیخ رحمہ اللہ نے بالکل درست فرمایا ہے۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام کا تشہد میں پڑھا گیا سلام السلام عليك ايها النبي (اے نبی ! آپ پر سلام ہو) سنتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب صحابہ کی ہر وقت خبر رہنی چاہیے تھی، کیونکہ سارے صحابہ کرام پانچ وقت کے نمازی تھے۔ جبکہ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کرام کے بارے میں دریافت کرنا پڑا کہ وہ کہاں ہیں اور کیسے ہیں ؟
مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک عورت (یا مرد) جو مسجد کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی، فوت ہو گئی۔ صحابہ کرام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اسے دفنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مسجد میں نہ آنے پر اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ وہ تو کئی دن پہلے فوت ہو چکی ہے۔ [ انظر صحيح البخاري : 460، صحيح مسلم : 956، وغيرهما من الكتب الحديثية]
? اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کا نماز میں پڑھا گیا سلام سنتے تھے تو اس عورت کے فوت ہونے کے بعد جو پہلی نماز کا وقت آیا تھا، اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو جانی چاہیے تھی کہ مسجد میں صفائی کرنے والی عورت نے نہ نماز پڑھی ہے، نہ سلام کہا ہے۔ ایسا کچھ نہ ہونا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کا کئی دن بعد صحابہ کرام سے علم ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر سلام کا سنا جانا ضروری نہیں۔
? یہی معاملہ مردوں کو سلام کہنے کا ہے۔ ان کو بھی صرف دعا دینا مقصود ہوتا ہے، نہ کہ سنانا۔ کسی صحیح حدیث سے مردوں کا سلام سننا ثابت نہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ اگر مردے سنتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟ کسی نے آج تک مردوں کی طرف سے جواب تو نہیں سنا، نہ کسی سماعِ موتیٰ کے قائل نے مردوں کے جواب دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ جب بعض الناس کے نزدیک مردے سنتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں تو خود سلام کیوں نہیں کہہ دیتے ؟
معلوم ہوا کہ قبرستان میں کہا جانے والا سلام، سلامِ خطاب نہیں، سلام دعا ہے اور دعا کا سنانا مقصود نہیں ہوتا۔
◈ شارحِ بخاری، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرماتے ہیں :
واستدل جماعة منهم عبد الحق على حصول الاستماع من الميت بمشروعية السلام على المؤتى، فقالوا: لو لم يسمعوا السلام لكان خطابهم به عبثا، وهو بحث ضعيف، لانه يحتمل خلاف ذلك، فقد ثبت فى التشهد مخاطبة النبى صلى الله عليه وسلم، فهو لا يسمع جميع ذلك قطعا، فخطاب المؤتى بالسلام فى قول الذى يدخل المقبرة : السلام عليكم اهل القبور من المومنين، لا يستلزم انهم يسمعون ذلك، بل هو بمعنى الدعاء، فالتقدير : اللهم اجعل (السلام عليكم) كما تقدر فى قولنا : الصلاة والسلام عليك يا رسول الله، فإن المغنى : اللهم اجعل الصلاة والسلام على رسول الله، فقد ثبت فى الحديث الضحيح فى أن العبد إذا قال : السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أصاب كل عبد صالح، فهو خبر بمعني الطلب، فالتقدير: اللهم سلم عليهم، والله اعلم
’’ ایک جماعت، جن میں عبدالحق (اشبیلی) بھی شامل ہیں، نے مردوں کو سلام کہنے کی مشروعیت سے سماع موتیٰ پر استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مردے سلام نہیں سنتے تو ان کو مخاطب کرنا فضول ہے۔۔۔ لیکن یہ کمزور موقف ہے، کیونکہ مردوں کو سلام کہنے میں اس (خطاب )کے برعکس اور احتمال بھی ہے۔ وہ یہ کہ تشہد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے سلام کہنا ثابت ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں سب لوگوں کی طرف سے کہے گئے سلام قطعاً نہیں سنتے۔ اسی طرح قبرستان میں داخل ہونے والے شخص کا مؤمن مردوں کو سلام کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ ! ان پر سلامتی نازل فرما، جیسا کہ الصلاة والسلام عليك يا رسول الله! کا مطلب ہے کہ ”اے اللہ ! تو اپنے رسول پر رحمت اور سلامتی نازل فرما“۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ جب بندہ تشہد میں کہتا ہے کہ السلام علينا وعلي عباد الله الصالحين ”ہم پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی“ تو ہر نیک شخص تک یہ دعا پہنچ جاتی ہے۔ یوں یہ خبر بمعنی انشاء ہوئی۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ اے اللہ ! تو تمام نیک لوگوں پر سلامتی نازل فرما۔ والله اعلم ! [ الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع لابن حجر، ص: 86]
شبہ نمبر ③
ایک بے سند روایت :
تبصرہ: اس کی مکمل سند نہیں مل سکی۔
بے سند روایات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ جو ناقص سند موجود ہے، اس میں بھی عبید بن ابومرزوق ’’ مجہول الحال“ ہے۔
سوائے امام ابن حبان کے [الثقات :157/7] کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
امام بخاری [التاريخ الكبير : 5/6 رقم 1496] ، امام ابو حاتم الرازی [ الجرح والتعديل : 13/6] اور دیگر نے اسے ’’ مرسل“ کہا ہے۔ محدثین کے نزدیک ’’ مرسل“ روایت ’’ ضعیف“ ہوتی ہے۔
شبہ نمبر ④
جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله ! إن أبى كان يصل الرحم، وكان وكان، فأين هو، قال: ”في النار“، قال: فكانهٔ وجد من ذلك، فقال : يا رسول الله ! فأين أبوك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”حيثما مررت بقبر مشرك، فبشرهٔ بالنار“، قال : فأسلم الأعرابي بعد، وقال : لقد كلفني رسول الله صلى الله عليه وسلم تعبا، ما مررت بقبر كافر الا بشرته بالنار.
’’ ایک دیہاتی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : اللہ کے رسول ! میرا والد صلہ رحمی اور بہت سے نیک کام کرتا تھا۔ وہ کہاں ہے ؟ فرمایا : جہنم میں۔ اسے یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! آپ کے والد کہاں ہیں ؟ فرمایا : جب بھی تو کسی مشرک کی قبر کے پاس سے گزرے تو اسے جہنم کی بشارت دے۔ وہ دیہاتی بعد میں مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول نے مجھے مشقت والے کام میں مصروف کیا ہے۔ میں جب بھی کسی کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں تو اسے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔“ [سنن ابن ماجه : 1573]
تبصرہ: اس کی سند ’’ ضعیف“ ہے۔
امام زہری ’’ مدلس“ ہیں اور بصیغہ ’’ عن“ روایت کر رہے ہیں۔ کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں ملی۔
البتہ اسی معنی کی ایک روایت صحیح مسلم (203) میں بھی موجود ہے، لیکن اس روایت میں دیہاتی کو ہرمشرک کی قبر سے گزرتے ہوئے اسے جہنم کی بشارت دینے کا حکم مذکور نہیں۔
شبہ نمبر ⑤
السلام عليكم يا أهل القبور !! أخبار ما عندنا أن نسائكم قد تزوجن، ودوركم قد سكنت، وأموالكل قد فرقت، فاجابه هاتف : يا عمر بن الخطاب ! أخبار ما عندنا أن ما قدمناه، فقد وجدناه، وما أنفقناه، فقد ربحناه، وما خلفناه، فقد خسرناه.
’’ قبروں والو ! تم پر سلامتی ہو۔ ہمارے پاس جو خبریں ہیں، وہ یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے آگے نکاح کر لیے ہیں، تمہارے گھروں میں غیروں نے سکونت اختیار کر لی ہے اور تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ ایک غیبی آواز نے جواب دیا : ہمارے پاس یہ خبر ہے کہ جو مال ہم نے آگے بھیجا تھا، وہ ہمیں مل گیا، جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا تھا، وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوا اور جو ہم پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں، وہ نقصان دہ ثابت ہوا۔“ [ الهواتف لابن أبى الدنيا: 100]
تبصرہ: اس کی سند سخت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① مطہر بن نعمان راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
② محمد بن جبیر کا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايصح سماعه عن عمر بن الخطاب، فإن الدارقطني [العلل :174/1] نص على أن حديثه عن عثمان مرسل
’’ اس کا سماع سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ امام دارقطنی نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث مرسل ہوتی ہے۔“ [ تهذيب التهذيب : 92/9 ]
جب محمد بن جبیر کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کیسے ممکن ہے ؟
ہم حیران ہیں کہ بعض لوگ ایسا خام مال اپنی کتابوں میں کیوں لوڈ کرتے ہیں ؟
شبہ نمبر ⑥
أشرف النبى صلى اللہ عليه وسلم على أهل القليب 0 فقال : ”يا أهل القليب ! هل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟“، فقالوا: يا رسول الله ! وهل يسمعون ؟ قال: ”يسمعون كما تسمعون، ولكن لا يجيبون“ .
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں میں پڑے مقتولیں کفار کی طرف جھانکا اور فرمایا : اے کنویں والو ! کیا تم نے اپنے ربّ کے وعدے کو سچا پایا ؟ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! کیا یہ سنتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ بالکل تمہاری طرح سن رہے ہیں، لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ المعجم الكبير للطبراني : 165/7، اح : 6715، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 444/3، ح:3665 ]
تبصرہ: اس کی سند سخت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① امام طبرانی کا استاذ عبدالوارث بن ابراہیم، ابوعبیدہ عسکری ’’ مجہول الحال“ ہے۔
اس کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم اعرفه [ مجمع الزوائد : 212/5 ]
② یونس بن موسیٰ شامی راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
③ حسین بن حماد کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
④ عبیداللہ بن غسیل راوی کون ہے، تعارف کرایا جائے۔
? اس سند میں نامعلوم افراد نے قبضہ جما رکھا ہے۔ لہٰذا یہ ناقابل اعتبار ہے۔
شبہ نمبر ⑦
وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على أهل القليب، فقال: يا أهل القليب ! هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا؟، فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا، قالوا: يا رسول الله ! هل يسمعون ؟ قال : ما أنتم باسمع لما اقول، منهم ولكنهم اليوم لا يجيبون
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کفار کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے کنویں والو ! کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچ پایا ؟ میں نے اپنے رب کے وعدے کو بالکل سچا پایا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ سن رہے ہیں ؟ فرمایا تم میری باتوں کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ لیکن آج یہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔“ [السنة لابن أبى عاصم : 884، وفي نسخة أخرى :، 910، المعجم الكبير للطبراني : 10320 : 160/10]
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس میں :
① اشعث بن سوار راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ تقریب التہذیب : 524 ]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه أحمد وجماعة. ”اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ائمہ کرام کے ایک گروہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [ مجمع الزوائد : 240/2 ]
◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
فالاكثر على انه غير مرضي ولا مختار
”اکثر محدثین کرام اسے ناقابل اعتبار اور ناپسندیدہ ہی سمجھتے ہیں۔“ [ البدر المنير : 731/5 ]
② اس میں ابواسحاق سبیعی کی ”تدلیس“ اور اختلاط بھی ہے۔
من حديث أبى العباس الاصم (84) کی سند میں ابان بن ابوعیاش راوی ”متروک“ ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
فانهٔ ضعيف باتفاق . ”یہ راوی باتفاق محدثین ضعیف ہے۔“ [ فتح الباري : 239/9 ]
◈ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ السنة لابن أبى عاصم کے حاشیہ میں فرماتے ہیں :
لكن ليس فيها أن المؤتى عامة يسمعون، وإنما فيها أن أهل القليب سمعوا قوله صلى الله عليه وسلم إياهم، فهي قضية خاصة، لا عموم لھا . . . .، ويؤيده قول قتادة المتقدم : أحياھم الله له، فالقضية خاصة، فلا يجوز أن يلحق بها غيرها، فيقال : إن المؤتى كلهم يسمعون، كما يقول كثير من الناس اليوم !
”لیکن اس حدیث سے تمام مردوں کا (ہر بات کو) سننا ثابت نہیں ہوتا۔ اس میں تو صرف یہ مذکور ہے کہ کنویں والے مقتولین نے وہ بات سنی تھی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمائی تھی۔ یہ ایک خاص واقعہ ہے جو عموم کا متحمل نہیں۔۔۔ اس بات کی تائید امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سننے کے لئے زندہ کر دیا تھا۔۔۔ یوں یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اسے عمومی رنگ دے کر یہ کہنا جائز نہیں کہ تمام مردے سنتے ہیں، جیسا کہ موجود دور میں اکثر لوگوں کا عقیدہ ہے۔“ [ ظلال الجنة فى تخريج السنة : 428/2 ]
شبہ نمبر ⑧
دخلنا مقابر المدينة مع على بن أبى طالب، فنادي يا أهل القبور ! السلام عليكم ورحمة الله، تخبرونا باخباركم، ام تريدون ان نخبركم ؟ قال : فسمعت صوتا ؛ وعليك السلام ورحمة الله وبركاته، يا أمير المؤمنين ! خبرنا عما كان بعدنا، فقال على رضى الله عنه : أما ازواجكم، فقد تزوجن، و اما اموالكم، فقد اقتسمت، و الاولاد قد حشروا فى زمرة اليتامى، والبناء الذى شيدتم فقد سكنها اعدائكم فهده اخباركم عندنا، فما اخبارنا عندكم؟ فما عندكم؟ فاجابه ميت: قد تخرقت الأكفان، وانتثرت الشعور، وتقطعت الجلود، وسالت الأحداق على الخدود، وسالت المناخر بالقيح والصديد، وما قدمناه وجدناه، وما خلفناه خسرناه، ونخن مرتهنون بالأعمال.
”ہم سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان میں داخل ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا: قبروں والو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ تم ہمیں اپنے احوال سناؤ گے یا ہم سے سننا چاہتے ہو۔ میں (سعید بن مسیب) نے یہ آواز سنی : امیر المؤمنین ! وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔ آپ ہمارے بعد ہونے والے واقعات ہمیں بتائیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہاری بیویوں نے آگے شادیاں کر لی ہیں، تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں، تمہاری اولادیں یتیوں میں شمار ہونے لگی ہیں اور جو مکان تم نے بنائے تھے، ان میں تمہارے دشمنوں نے رہائش اختیار کر لی ہے۔ ہمارے پاس تمہاری یہی خبریں تھیں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارے پاس کیا خبریں ہیں ؟ ایک میت نے جواب دیا : ہمارے کفن بوسیدہ ہو گئے ہیں، بال بکھر گئے ہیں، جلدیں پھٹ گئی ہیں، رونے کی وجہ سے آنکھوں کی سیاہی رخساروں پر بہہ چکی ہے، ناک سے کچ لہو اور پیپ کے فوارے نکل رہے ہیں۔ جو چیز یں ہم نے آگے ( اللہ کی راہ میں) بھیج دی تھیں، وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوئیں اور جن کو ہم (وارثوں کے لیے ) پیچھے چھوڑ آئے تھے، وہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ ہم اپنے اعمال کے بدلے میں گروی رکھے ہوئے ہیں۔“ [ تاريخ دمشق لابن عساكر : 395/27 ]
تبصرہ : یہ سند باطل ہے، کیونکہ :
➊ عبداللہ بن حسن بن عبدالرحمن، ابوالقاسم بزاز کی توثیق نہیں مل سکی۔
➋ اس سند میں کئی اور راوی بھی ’’ مجہول“ ہیں، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في إسناده قبل ابي زيد النحوي من يجهل .
”اس روایت کی سند میں ابوزید نحوی سے پہلے مجہول راوی موجود ہیں۔“ [ تاريخ دمشق لابن عساكر : 395/27 ]
◈ حافظ سیوطی اس روایت کے بارے کہتے ہیں :
بسند فيه من يجهل
”یہ ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں مجہول راوی موجود ہیں۔“ [ الخصائص الكبرى : 113/2 ]
➌ سفیان بن عیینہ ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں۔
لہذا یہ روایت قابل حجت نہیں ہو سکتی۔
شبہ نمبر ⑨
تبصرہ :
? اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ :
اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (م : 168ھ) کہتے ہیں :
سمعت من يذكر انهٔ كان فى زمن عمر . . .
”میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد فاروقی میں۔۔۔“
یوں یہ سند سخت ”معضل“ ہے۔ نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایات سنی تھی ؟
سمعت بعض أصحاب عبد الله (ابن المبارك ) . . .
”میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔“ [ مقدمة صحيح مسلم : 19 ]
? تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
سمعت بعض أصحاب عبد الله، هذا مجهول، ولا يصح الاحتجاج به .
”امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔ یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [ شرح صحيح مسلم : 19 ]
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔
شبہ نمبر ⑩
سعید بن عبداللہ اودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب وہ جان کنی کی حالت میں تھے۔ وہ فرمانے لگے : جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرنا، جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مردوں کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے ایک شخص اس کی قبر کے سرہانے کی جانب کھڑا ہو کر کہے : اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! جب وہ یہ کہے گا تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا، مردہ یہ بات سنے گا، لیکن جواب نہیں دے گا۔ پھر وہ کہے : اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! وہ کہے گا : اللہ تجھ پر رحم کرے ! ہماری رہنمائی کر، لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر، جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بند ے اور رسول ہیں۔ تو اللہ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ منکر اور نکیر میں سے ایک، دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے : چلو، جس آدمی کو اس کا جواب بتا دیا گیا ہو، اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے۔ چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اگر وہ (تلقین کرنے والا ! ) اس (مرنے والے ) کی ماں کو نہ جانتا ہو تو ( کیا کرے ) ؟ فرمایا : وہ اسے حواء علیہا السلام کی طرف منسوب کر کے کہے، اے حواء کے فلاں بیٹے !“ [ المعجم الكبير للطبراني : 250/8، ح : 7979، الدعاء للطبراني : 298/3، ح : 1214 وصايا العلماء عند حضور الموت لابن زبر، ص : 46-47، الشافي لعبد العزيز، نقلا عن التلخيص الحبير لابن حجر : 136/2، اتباع الأموات للامام إبراهيم الحربي، نقلا عن المقاصد الحسنة للسخاوي : 265، الأحكام للضياء المقدسي، نقلا عن المقاصد الحسنة : 265 ]
تبصرہ : یہ سند بوجوہ سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اسماعیل بن عیاش کی اہل حجاز سے بیان کردہ روایت ”ضعیف“ ہوتی ہے۔
مذکورہ روایت بھی اہل حجاز سے ہے، لہذا ”ضعیف“ ہے۔
◈ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) فرماتے ہیں :
وإسماعيل بن عياش (عندهم) أيضا غير مقبول الحديث، إذا حدث عن غير أهل بلده، فإذا حدث عن الشاميين، فحديثة مستقيم، وإذا حدث عن المدنيين وغيرهم، ما عدا الشاميين، ففي حديثه خطا كثير واضطراب، ولا أعلم بينهم خلافا أنه ليس بشيء فيما روى عن غير أهل بلدہ.
”اسماعیل بن عیاش جب اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی اور سے بیان کرے، تو محدثین کے ہاں اس کی حدیث بھی قبول نہیں ہوتی۔ جب وہ شامی لوگوں سے بیان کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے۔ جب شامیوں کے علاوہ مدنیوں اور دیگر علاقے والوں سے بیان کرے تو اس کی روایت میں بہت زیادہ غلطی اور اضطراب ہوتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق محدثین کرام کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب اسماعیل بن عیاش اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی سے بیان کرے تو اس کی حدیث قابل التفات نہیں ہوتی۔“ [ التمهيد لما فى المؤطأ من المعاني والاسانيد : 429/6 ]
◈ امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ (م : 277 ھ) فرماتے ہیں :
وتكلم قوم فى إسماعيل، وإسماعيل ثقة، عدل، أعلم الناس بحديث الشام، ولا يدفعه دافع، وأكثر ما تكلموا، قالوا : يغرب عن ثقات المدنيين والمكيين .
”کچھ اہل علم نے اسماعیل بن عیاش پر جرح کی ہے۔ اسماعیل ثقہ اور عدل ہیں، شام کی حدیث کو سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ کوئی بھی ان کو رد نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ اور مکہ کے رہنے والے ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتے ہیں۔“ [ المعرفة والتاريخ : 424/2 ]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صدوق فى روايته عن أهل بلدہ، مخلط فى غيرهم.
”جب اپنے اہل علاقہ سے بیان کرے تو صدوق ہوتا ہے اور جب کسی اور سے بیان کرے تو حافظے کی خرابی کا شکار ہوتا ہے۔“ [ تقريب التهذيب : 473 ]
یہ روایت کی حجازیوں سے ہے۔ لہذا ضعیف ہے۔ یہ جرح مفسر ہے۔
➋ اس روایت کا ایک راوی عبداللہ بن محمد قرشی غیر معروف ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عبد الله، لا يدرى من هو.
”یہ عبد اللہ نامی راوی، معلوم نہیں ہو سکا کہ کون ہے ؟“ [ ميزان الاعتدال : 244/3، ت : عمران بن هارون ]
➌ یحیی بن ابوکثیر ’’ مدلس“ ہیں۔
اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا یہ ناقابل قبول روایت ہے۔
➍ اس کے ایک راوی سعید بن عبداللہ اودی کی توثیق نہیں مل سکی۔ اسی لیے :
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي إسناده جماعة، لم أعرفهم.
”اس (طبرانی) کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں، جنہیں میں پہچان نہیں سکا۔“ [ مجمع الزوائد : 45/3 ]
? لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ :
اسناده صالح، وقد قواه الضياء فى احكامه.
”اس کی سند حسن ہے۔ امام ضیاء مقدسی نے اسے اپنی کتاب احکام میں اسے مضبوط قرار دیا ہے۔“ [ التلخيصں الحبير : 135/2-136، ح : 796 ]
جبکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک مقام پر اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
هذا حديث غريب، و سند الحديث من الطريقين ضعيف جدا.
”یہ حدیث غریب ہے اور اس کی دونوں سندیں ضعیف ہیں۔“ [ الفتوحات الربانية : 196/4 ]
? اسی لیے حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی بعض تصانیف میں ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ المقاصد الحسنة، ص : 265 ]
? اس حدیث کے بارے میں دیگر اہل علم کی آراء بھی ملاحظہ فرمائیں :
① حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے شیخ حافظ عراقی رحمہ اللہ (725-806 ھ ) فرماتے ہیں :
الطبراني هكذا باسناد ضعيف .
”اس روایت کو امام طبرانی نے اسی طرح ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔“ [ تخريج أحاديث الإحياء : 420/4 ]
② حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
اسنادۂ ضعیف. ”اس کی سند ضعیف ہے۔“ [ المجموع شرح المهذب : 257/5 ]
③ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (557- 663 ھ) فرماتے ہیں :
ليس اسنادۂ بالقائم .
”اس کی سند قابل حجت نہیں۔“ [ فتاوى ابن الصلاح : 261/1، الأذكار للنووي، ص : 138 ]
④ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (557-751 ھ ) فرماتے ہیں :
ضعيف باتفاق أهل العلم بالحديث.
”محدثین کرام کا اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [ تحفة المودود، ص : 149 ]
◈ نیز فرماتے ہیں :
لا تقوم به حجة . ”اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔“ [ تهذيب السنن : 250/7 ]
⑤ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (735-807 ھ ) فرماتے ہیں :
وفي إسناده جماعة، لم أعرفهم.
”اس کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جنہیں میں پہچان نہیں پایا۔“ [ مجمع الزوائد : 45/3 ]
⑥ حافظ سیوطی رحمہ اللہ (869-911ھ) کہتے ہیں :
التلقين لم يثبت فى حديث صحيح ولا حسن، بل حديثة ضعيف باتفاق المحدثين.
’’ (قبر پر ) تلقین کرنا کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ اس بارے میں مروی حدیث باتفاق محدثین ضعیف ہے۔“ [ الحاوي للفتاوي : 191/2 ]
◈ نیز کہتے ہیں :
في معجم الطبراني بسند ضعيف
”یہ راویت ضعیف سند کے ساتھ معجم طبرانی میں موجود ہے۔“ [ الدرر المنتثرة فى الأحاديث المشتهرة : 469 ]
? لہذا علامہ عینی حنفی [ لبناية فى شرح الهداية : 177/3 ] کا اس کی سند کو ”صحیح“ کہنا بےمعنی اور ناقابل التفات ہے۔
? نیز حافظ ابن ملقن کا اس کے بارے میں یہ کہنا بھی قطعاً صحیح نہیں کہ :
إسناده، لا أعلم به باسا. ”اس کی سند میں مجھے کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔“ [البدر المنير : 334/5]
کیونکہ ایک مقام پر وہ خود اسماعیل بن عیاش کے بارے میں لکھتے ہیں :
وهو عن غير الشاميين ليس بشيء عند الجمهور.
جمہور محدثین کرام کے نزدیک اس کی غیر شامیوں سے روایت ناقابل التفات ہے۔“ [البدر المنير : 543/4]
اور اس سند میں اسماعیل بن عیاش غیر شامیوں سے روایت کر رہا ہے۔
? ثابت ہوا کہ ائمہ حدیث اور علمائے سنت کے نزدیک یہ روایت ”ضعیف“ ہے۔
◈ علامہ صنعانی رحمہ اللہ (1099-1162ھ) فرماتے ہیں :
ويتحصل من كلام ائمة التحقيق أنهٔ حديث ضعيف.
”محققین ائمہ دین کے کلام سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔“ [سبل السلام : 157/2]
تنبیہ : اس روایت کو ”ضعیف“ قرار دینے کے بعد :
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) لکھتے ہیں :
وقد اتفق علماء المحدثين و غيرهم على السماحة فى أحاديث الفضائل، و الترغيب والترهيب.
”محدثین کرام اور دیگر اہل علم کا فضائل اور ترغيب و ترہیب پر مبنی احادیث کے بارے میں نرمی برتنے پر اتفاق ہے۔“ [المجموع شرح المهذب : 257/5-258]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ کے رد و جواب میں مشہور اہل حدیث عالم، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420 ھ) فرماتے ہیں :
ولا يرد هنا ما اشتهر من القول بالعمل بالحديث الضعيف في فضائل الاعمال، فإن هذا محله فيما ثبتت مشروعيته بالكتاب أو السنة الصحيحة، وأما ما ليس كذالك، فلا يجوز العمل به بالحديث الضعيف لانہ تشريع، ولا يجوز ذلك بالحديث الضعيف، لأنه يفيد إلا الظن لمرجوح اتفاقا، فكيف يجوز العمل بمثله .
”فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں جو بات مشہور ہے، اس کا اطلاق یہاں نہیں ہو سکتا۔ اس کا اطلاق تو ان اعمال پر ہوتا ہے جن کی مشروعیت قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جو عمل کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو، اس کے بارے میں ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں، کیونکہ یہ (ثواب کے لئے عمل کرنا) شریعت ہے اور شریعت ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ ضعیف حدیث بالاتفاق مرجوح ظن کا فائدہ دیتی ہے۔ ایسی کمزور دلیل پر عمل کرنا کیونکر جائز ہوا؟“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمة : 65/2]
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يقل أحد من الأئمة : إنه يجوز أن يجعل الشرع واجبا أو مستحبا بحديث ضعيف، ومن قال هذا فقذ خالف الإجماع.
”ائمہ دین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا: کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب کہنا جائز ہے۔ جو شخص ایسا دعویٰ کرتا ہے، وہ اجماع امت کا مخالف ہے۔“ [مجموع الفتاوي : 251/1]
? بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس ”ضعیف“ حدیث کے کئی شواہد بھی ہیں۔ ہم وہ شواہد بھی قارئین کرام کی نظر کر رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
”سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہو جاؤں اور تم مجھے دفن کر چکو تو ایک انسان میرے سر کے پاس کھڑے ہو کر کہے : اے صدی بن عجلان! (سیدنا ابوامامہ کا نام) اس عقیدے کو یاد کر جس پر تو زندگی میں قائم تھا یعنی توحید الہٰی و رسالت محمدی کا اقرار۔“ [الدر المنثور للسيوطي : 39/5]
تبصرہ :
یہ اثر بےسند ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ دین کی بنیاد سند پر ہے۔
علي بن حجر : حدثنا حماد بن عمرو عن عبد الله بن محمد، عن يحيي بن ابي كثير، عن سعيد الاودي قال : . . . . [المنتقىٰ من مسموعات مرو للضياء المقدسى : 21، ذكر الموت لابن شاهين، نقلاً عن المقاصد الحسنة للسخاوي : 265]
تبصرہ :
یہ سفید جھوٹ ہے۔ اس سند کو گھڑنے والا حماد بن عرو نصیبی ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ممن يكذب، يضع الحديث. ”یہ کذاب اور حدیث گھڑنے والا راوی ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 10/3، وسنده حسن]
◈ امام ابن شاہین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم يكن بثقة، قد رايته. ”یہ ثقہ نہیں تھا، میں نے اسے دیکھا ہوا ہے۔“ [تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين : 129]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يضع وضعا على الثقات . ”یہ روایات خود گھڑ کر ثقہ راویوں کے ذمے تھوپ دیتا تھا؟“ [كتاب المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين : 252/1]
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث، ضعفه على بن حجر
”یہ منکر الحدیث راوی ہے۔ اسے علی بن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [التاريخ الأوسط : 291/2، الرقم : 2646، التاريخ الكبير : 28/3]
◈ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن جماعة من الثقات أحاديث موضوعة ساقطة.
”یہ کئی ثقہ راویوں سے منسوب کر کے من گھڑت اور سخت ضعیف روایات بیان کرتا ہے۔“ [المدخل إلى الصحيح، ص : 129، الرقم : 39]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قد عده السلف فيمن يضع الحديث .
”اسے سلف صالحین نے حدیث گھڑنے والوں میں شمار کیا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 240/4، ت : عبدالله بن ضرار]
? معلوم ہوا کہ یہ راوی باتفاق محدثین کذاب اور وضاع ہے۔ لہذا یہ سند جھوٹی ہے۔
◈ امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ (204-261 ھ) فرماتے ہیں :
فأما ما كان منها عن قوم، هم عند أهل الحديث متهمون، أو عند الاكثر منهم، فلسنا نتشاغل بتخريج حديثهم
جن راویوں پر تمام محدثین کرام کے ہاں یا اکثر کے ہاں حدیث گھڑنے کا الزام ہو، ہم ان کی حدیث بیان کرنے میں مشغول نہیں ہوتے۔“ [مقدمة صحيح مسلم]
? اس روایت میں عبداللہ بن محمد قرشی راوی غیر معروف راوی ہے، نیز یحییٰ بن ابوکثیر ”مدلس“ ہے، سماع کی تصریح نہیں کی۔ پھر سعید ازدی یا سعید اودی بھی ”مجہول“ ہے۔
اس کی سند بھی موضوع (من گھڑت) ہے۔
◈ محدث البانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
هذا حديث ضعيف جدًا، لم اعرف احدا منهم غير عتبة بن السكن، قال الدارقطني [السنن : 184/2، 250/3] : متروك الحديث، و قال البيهقي : واو، منسوب إلى الوضع
”یہ حدیث ضعیف ہے۔ میں عتبہ بن سکن کے علاوہ اس کے راویوں میں سے کسی کو بھی نہیں پہچان پایا اور عتبہ کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ ضعیف راوی ہے اور اس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمة : 599]
? عتبہ بن سکن سخت مجروح راوی ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يخطي ويخالف . ”یہ غلطیاں کرتا ہے اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔“ [الثقات : 508/8]
◈ حافظ ابن الجوزی کہتے ہیں :
قال الدارقطني : منكر الحديث، متروك الحديث
”امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث اور متروک قرار دیا ہے۔“ [الضعفاء والمتروكون: 2255]
◈ حافظ بزار فرماتے ہیں :
قد روي عن الاؤزاعي أحاديث لم يتابع عليها .
”اس سے امام اوزاعی کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کی ہیں۔“ [مسند البزار : 4166]
◈ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
وهو متروك. ”یہ متروک راوی ہے۔“ [مجمع الزوائد : 202/3، ح : 5230]
? اس سند کے دیگر راویوں کی توثیق بھی نہیں ملی۔ لہذا یہ سند بالکل باطل ہے۔
ایک تابعی ضمرہ بن حبیب کہتے ہیں کہ جب میت پر قبر کو برابر کر دیا جاتا اور لوگ واپس چلے جاتے تو وہ اس کی قبر کے پاس یہ کہنا مستحب سمجھتے تھے : اے فلاں ! تو لا إله إلا الله کہہ (تین مرتبہ)، اے فلاں ! تو کہہ کہ میرا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“ [سنن سعيد بن منصور، نقلاً عن بلوغ المرام من جمع أدلة الأحكام لابن حجر : 471]
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس میں ”اشیاخ من اہل حمص“ مجہول و نامعلوم ہیں، لہذا یہ ناقابل حجت اور ناقابل عمل ہے۔
إذا دفنتموني ورششتم على قبري، فقوموا على قبري، واستقبلوا القبلة، وادعوا لي .
”جب تم مجھے دفن کر دو اور میری قبر پر پانی چھڑک دو تو میری قبر پر کھڑے ہو کر قبلے کی طرف رخ کرو اور میرے لئے دعا کرو۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 215/3، ح : 3171]
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
عطية الدعاء، ولم أعرفه. ”عطیہ دعا کو میں نہیں پہچانتا۔“ [مجمع الزوائد : 44/3]
? دوسری بات یہ ہے کہ اس کا مروجہ تلقین سے کیا تعلق ہے ؟ قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا تو جائز ہے۔ حیرانی والی بات تو یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حدیث ابوامامہ کا شاہد بنایا ہے۔
حضرت ابن عمر فى جنازة، فلما وضعها إلى اللحد، قال : بسم الله، وعلي ملة رسول الله
”میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا۔ جب انہوں نے میت کو لحد میں رکھا گیا تو فرمایا : اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر۔“ [سنن ابن ماجه : 1553، ا لمعجم الكبير للطبراني 4 1309، السنن الكبري للبيهقي : 55/4]
تبصرہ : یہ سخت ترین ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ :
① اس کا راوی حماد بن عبدالرحمن کلبی ”ضعیف“ ہے۔ [تقريب التهذيب : 1502]
◈ حافظ بوصیری (م : 840 ھ) کہتے ہیں :
هذا إسناد فيه حماد بن عبد الرحمن، هو متفق على تضعيفه .
”اس سند میں حماد بن عبدالرحمن راوی موجود ہے جس کو ضعیف قرار دینے پر تمام محدثین متفیق ہیں۔“ [مصباح الزجاجة فى زوائد ابن ماجه : 505/1]
② ادریس بن صبیح اودی راوی ”مجہول“ ہے۔
◈ امام ابوحاتم الرازی نے اسے ”مجہول“ قرار دیا ہے۔ [الجرح و التعديل لابن أبى حاتم : 264/2]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :
يغرب ويخطيء على قلته.
”بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود اس کی روایات میں نکارت اور غلطیاں موجود ہیں۔“ [الثقات : 78/6]
◈ امام ابن عدی نے اسے ادریس بن یزید اودی قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقول ابن عدي أصوب.
”امام ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہی زیادہ صائب ہے۔“ [ تهذيب التهذيب : 171/1، وفي نسخة : 195/1]
? یہ بات بے دلیل ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔
اس ضعیف روایت کا مروجہ بدعتی تلقین سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ معلوم ہوا شواہد کی رٹ لگانے والوں کا دامن بالکل خالی ہے۔
فائدہ نمبر ① حلبی، علامہ سبکی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حديث تلقين النبى صلى الله عليه وسلم لابنه، ليس له أصل، أى صحيح أو حسن.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے کو تلقین کرنے والی روایت کی کوئی صحیح یا حسن سند موجود نہیں۔“ [السيرة الحلبية : 437/3]
فائده نمبر ② حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) لکھتے ہیں :
فهذا الحديث، وإن لم يثبت، فاتصال العمل به فى سائر الأمصار والأعصار من غير إنكاره كاف فى العمل به.
”یہ حدیث اگرچہ صحیح ثابت نہیں، لیکن تمام علاقوں میں ہر زمانے میں اس پر بغیر انکار کے عمل ہوتا رہا ہے۔ یہی بات اس پر عمل کے جائز ہونے کے لئے کافی ہے۔“ [الروح، ص : 16]
◈ کتاب الروح کے متعلق محدث العصر، علامہ، ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فاني فى شك كبير من صحة نسبة (الروح) إليه، أو لعله ألفه فى أول طلبه للعلم، والله أعلم.
”میں کتاب الروح کی علامہ ابن القیم کی طرف نسبت کے حوالے سے کافی شک و شبہ میں مبتلا ہوں۔ (یا تو یہ ان کی تصنیف ہی نہیں) یا پھر انہوں نے اپنے طلب علم کے اوائل میں اسے تالیف کیا تھا۔ واللہ اعلم ! “ [تحقيق الأيات البينات فى عدم سماع الأموت : 39]
? ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت الحاقی ہو، یعنی کسی ناسخ کی غلطی سے درج ہو گئی ہو، کیونکہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ خود سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ولم يكن يجلس يقرا عند القبر، ولا يلقن الميت، كما يفعله الناس اليوم.
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قرأت کرنے نہیں بیٹھے تھے، نہ ہی (قبر پر) میت کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں۔“ [زاد المعاد فى هدي خير العباد : 522/1]
? اگر کسی ضعیف روایت کے حکم پر بعض لوگ عمل کریں تو وہ صحیح نہیں ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے عمل سے سند کا صحیح ہونا محدثین کرام کا مذہب نہیں۔ اگر کسی روایت کے حکم پر یعنی اس سے ماخوذ مسئلہ پر اجماع امت ثابت ہو جائے، تب بھی وہ سند ”ضعیف“ ہی رہے گی، البتہ وہ مسئلہ اجماع امت کی وجہ سے شرعی درجہ حاصل کر لے گا۔ حدیث ابوامامہ رضی اللہ عنہ پر اگر بعض لوگوں نے عمل کیا ہے تو ان کے عمل سے اسے کچھ تقویت نہیں ملے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اہل علم نے اسے ”ضعیف و غیر ثابت“ قرار دیا ہے۔ اور تلقین کو بدعت قرار دیا ہے۔
① علامہ عز بن عبدالسلام رحمہ اللہ (577-660 ھ) فرماتے ہیں :
لم يصح فى التلقين شيء وهو بدعة، وقوله صلى الله عليه وسلم : لقنوا مؤتاكم : لا إله إلا الله، محمول على من دنا موته ويئس من حياته.
”مردے کو تلقین کرنے کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ یہ بدعت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اپنے مرنے والوں کو لا إله إلا الله کی تلقین کرو، اس شخص کے بارے میں ہے جس کی موت کا وقت قریب ہو اور اس کی زندگی کی امید نہ رہے۔“ [فتاوي العز بن عبدالسلام، ص : 427]
② علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (541-620 ھ) لکھتے ہیں :
فأما التلقين بعد الدفن، فلم أجد فيه عن أحمد شيئا، ولا أعلم فيه للأئمة قولا، سموي ما رواه الأثرم، قال : فلت لأبي عبد الله : فهذا الذى يصنعون إذا دفن الميت، يقف الرجل، ويقول : يا فلان بن فلانة ! اذكر ما فارقت عليه، شهادة أن لا إله إلا الله ؟ فقال : ما رأيت أحدا فعل هذا إلا أهل الشام، حين مات أبو المغيرة جاء إنسان، فقال ذاك، قال : وكان أبو المغيرة يروي فيه عن ابي بكر بن ابي مريم، عن اشياخهم انهم كانوا يفعلونه.
”میت کو دفن کرنے کے بعد اسے تلقین کرنے کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مجھے کوئی بات معلوم نہیں ہو سکی۔ اس بارے میں ائمہ دین میں سے کسی اور امام کا بھی کوئی قول مجھے نہیں ملا۔ البتہ علامہ اثرم کا بیان ہے کہ میں نے ابوعبداللہ (امام احمد رحمہ اللہ) سے پوچھا: یہ جو لوگ میت کو دفن کرنے کے بعد کرتے ہیں کہ ایک آدمی قبر پر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا سے : اے فالاں عورت کے فلاں بیٹے ! جس عقیدہ توحيد پر تو نے دنیا کو چھوڑا تھا، اس کو یاد کر۔ امام صاحب نے فرمایا : میں نے شام والوں کے علاوہ کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا۔ جب ابومغیرہ فوت ہوئے تو ایک شخص آیا اور اس نے ایسا کیا۔ ابومغیرہ اس بارے میں ابوبکر بن ابومریم سے ایک روایت بیان کرتے تھے، ابوبکر بن ابومریم اپنے ایک (نامعلوم) شیوخ کا یہ عمل نقل کرتے تھے۔۔۔“ [المغني : 377/2]
③ شیخ مرداوی (م : 885 ھ) کہتے ہیں :
والنفس تميل إلى عدمه …
”میرا قلبی میلان تلقین کے جائز نہ ہونے کی طرف ہے۔“ [الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف : 549/2]
④ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) لکھتے ہیں :
ولم يكن يجلس يقرا عند القبر، ولا يلقن الميت، كما يفعله الناس اليوم.
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قرأت کرنے نہیں بیٹھتے تھے، نہ ہی (قبر پر) میت کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں۔“ [زاد المعاد فى هدي خير العباد : 522/1]
⑤ حافظ سیوطی (869-911ھ) لکھتے ہیں :
ذهب جمهور الأئمة إلى أن التلقين بدعة.
”جمہور ائمہ کرام کا مذہب یہ ہے کہ (قبر پر) تلقین بدعت ہے۔“ [الحاوي للفتاوي : 191/2]
⑥ حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے :
وأما التلقين بعد المؤت، فلا يلقن عندنا فى ظاهر الرواية، كذا فى العيني شرح الهداية، ومعراج الدراية.
”ظاہر روایت کے مطابق ہمارے (احناف کے) نزدیک موت کے بعد تلقین نہیں کرنی چا ہیے۔ علامہ عینی کی شرح ہدایہ اور معراج الدرایہ میں بھی لکھا ہے۔ “ [الفتاوي الهندية المعروف به فتاوي عالمگيري : 157/1]
⑦ شیخ زادہ حنفی (م : 1078 ھ) لکھتے ہیں :
وقال أكثر الأئمة و المشايخ : لا يجوز.
”اکثر ائمہ اور مشایخ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں۔ “ [مجمع الأنهر فى شرح ملتقى الأبحر : 179/1، وفي نسخة : 264/1]
⑧ علامہ صنعانی رحمہ اللہ (1099-1182ھ) فرماتے ہیں :
ويتحصل من كلام أئمة التحقيق أنه حديث ضعيف، والعمل به بدعة، ولا يغتر بكثرة من يفعله.
”محققین ائمہ کے کلام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنا بدعت ہے۔ بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے عمل سے دھوکا نہیں کھا کر اسے جائز نہیں سمجھنا چاہیے۔ “ [سبل السلام : 161/2]
⑨ محمد بن عبداللہ تمر تاشی حنفی لکھتے ہیں :
ولا يلقن بعد تلحيده۔
”میت کی تدفین کے بعد تلقین نہ کی جائے۔ “ [تنوير الأبصار، ص : 619]
⑩ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م : 1329ھ) فرماتے ہیں :
والتلقين بعد الدفن، قد جرم كثير أنه حادث.
”بہت سے اہل علم نے تصریح کی ہے کہ دفن کرنے کے بعد میت کو تلقین کرنا بدعت ہے۔ “ [عون المعبود فى شرح أبى داود : 269/8]
تلك عشرة كاملة یہ پورے دس حوالے ہیں
لطیفہ :
وإنما لا ينهى عن التلقين بعد الدفن، لأنه لا ضرر فيه، بل فيه نفع .
”دفن کے بعد تلقین سے منع اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس میں کوئی نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہے۔ “ [رد المختار : 797/1]
قارئین کرام ! آپ نے اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرما لیے ہیں۔ غور کیجیے کہ شامی حنفی صاحب ایک بدعت کے بارے میں یہ فرما رہے ہیں کہ اس سے منع نہیں کیا گیا۔ بھلا جو عمل شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو اور علمائے دین اسے بدعت قرار دیتے ہوں، اس کو جائز قرار دینے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس سے منع نہیں کیا گیا ؟ کیا نماز جنازہ کی ایک سے زائد رکعات سے منع کیا گیا ہے ؟ پھر اس پر بھی کیا دلیل ہے کہ بدعی تلقین میت کو نفع دیتی ہے ؟
دفن کے بعد میت کے حق میں ثابت قدمی کی دعا کرنا سنت ہے۔ اس کے برخلاف بعض لوگوں نے تلقین گھٹر لی ہے۔
”بعد دفن کے تلقین کرنا جائز ہے یا نہ ؟ اگر جائز ہے تو کس طرح ؟“
جواب : ”تلقین بعد الدفن کو فقہاء نے جائز رکھا ہے۔ “ [فتاوي دار العلوم ويوبد : 392/5]
یہ کون سے فقہاء ہیں ؟ اور ان فقہاء کو کس نے اختیار دیا ہے کہ جو عمل بغیر دلیل کے ہو اور ائمہ دین اسے بدعت کہتے ہوں، وہ اسے جواز کا درجہ دے دیں ؟
”البتہ دفن کے بعد تلقین کرنا عند القبر (قبر کے پاس) ہے۔ مگر وہ تو والدعاه عندها قائما (قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنے) کی مد میں ہے، جو سنت سے ثابت ہے۔ “ [ راه سنت ص : 228]
یاد رہے کہ دفن کے بعد میت کو تلقین کرنے والے بدعی عمل میں دیوبندی اور بریلوی دونوں متفق ہیں۔ دیوبندی حضرات نے قبر پر تلقین کو دعا پر قیاس کیا ہے۔ اور بریلویوں نے قبر پر اذان کو اس تلقین پر قیاس کر لیا۔ حالانکہ عرفاً وشرعاً نہ تلقین دعا ہے اور نہ اذان تلقین ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ قبر پر اذان ثابت ہے، نہ ہی دفن کے بعد قبر پر تلقین ثابت ہے۔ لہذا ایک بے اصل چیز کو دوسری بے اصل چیز پر قیاس کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔
الحاصل :
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ البتہ دیگر کئی کلی قواعد و قوانین کی طرح اس قاعدے میں بھی کچھ استثناءات موجود ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہوتی ہیں، مثلاً مردے دفن کے بعد واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتے ہیں، نیز بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا تھا۔
کچھ لوگوں کو انہی استثناءات نے اس شہبے میں مبتلا کر دیا ہے کہ مردے سنتے ہیں، حالانکہ دلائل شرعیہ کی وجہ سے صرف یہی استثناءات اس کلی قاعدے سے خارج ہوں گی، عدم سماع موتیٰ والا پورا قانون شریعت تبدیل نہیں ہو گا۔ جو لوگ ان استثناءات کی بنا پر اس کلی قاعدے کا انکار کر جاتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ اگر ان کے طرز عمل کو اپنا کر کوئی شخص دیگر کلی قواعد کا انکار کر دے، مثلاً آدم علیہ السلام کی بن ماں اور بن باپ پیدائش اور عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کے پیدائش والی آیات کو لے کر انسانوں کے ماں اور باپ دونوں سے پیدا ہونے کے کلی قانون کا انکار کر دے یا مردہ حالت میں مچھلی کی حلت والی نص شرعی کو لے کر مردار کی حرمت والے کلی قاعدے کا انکار کر بیٹھے یا مردوں کے لیے چند انگلیوں کے برابر ریشم کی حلت والی حدیث کو بنیاد بنا پر مردوں کے لیے ریشم کی حرمت کلی قاعدے کا انکار کر دے۔۔۔ تو کیا یہ طرز عمل درست ہو گا ؟
قرآن و سنت اور فہم سلف کی روشنی میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مردے نہیں سنتے، البتہ وہ حالات و واقعات اس سے خارج ہیں، جن کی شریت نے خود وضاحت کر دی ہے۔ یا مردے سنتے ہیں، لیکن خاص ان حالات و واقعات میں جن کی نصوص شرعیہ میں تعیین و تخصیص ہو چکی ہے۔ جو شخص کسی حال میں کسی مردے کے کسی بات کو سننے کا دعویٰ کرے، اس کے پاس اس بارے میں ضرور کوئی خاص نص شرعی ہونی چاہیے، ورنہ اس کا دعویٰ باطل اور مردود ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ سے کھلواڑ اور مذاق متصور ہو گا۔ اگر کوئی شخص اپنے دعوے پر کوئی خاص نص شرعی پیش کر دے تو کسی مسلمان کو اس خاص صورت میں مردے یا مردوں کے سننے کا انکار کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی، البتہ اس خاص صورت کے علاوہ عام حالات میں مردوں کا نہ سن سکنا، پھر بھی اپنی جگہ پر مسلمہ قانون شریعت رہے گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ! آمین