سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے
تحریر: ابو حمزہ سلفی

یہ مضمون اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ہے کہ امام اہلحدیث سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” اصل میں جعلی انتساب ہے۔ اس کتاب کا راوی غسان بن عبید الموصلی ہے جس کے بارے میں ائمہ نے سخت جرح کی ہے۔ امام یحییٰ بن معینؒ کے اقوال میں غسان کے بارے تضاد پایا جاتا ہے، کبھی انہوں نے اسے ثقہ کہا اور کبھی ضعیف اور غیر واقف بالحدیث قرار دیا۔ اسی طرح بعض لوگ امام یحییٰ کے ایک قول کو غلط طور پر پیش کر کے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جو جامع سفیان کو ناپسند کرے وہ "احمق” ہے، اور اس میں امام احمد بن حنبلؒ پر بھی معاذ اللہ طعن کیا جاتا ہے۔

اس مضمون میں درج ذیل پہلو واضح کئے جائیں گے:

  • امام یحییٰ بن معینؒ کا وہ قول جو الدوری نے نقل کیا اور اس کا صحیح محلِ فہم۔

  • غسان بن عبید الموصلی کے بارے ابن معینؒ کے متعارض اقوال اور ان پر ائمہ کی تشریحات۔

  • امام احمد بن حنبلؒ کے بیانات جن سے واضح ہوتا ہے کہ جامع سفیان اصل میں سفیان ثوریؒ کی کتاب ہی نہیں تھی، اور وہ اس سے سخت کراہت کرتے تھے۔

  • غسان الموصلی پر ائمہ کی دیگر جروحات تاکہ یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ جائے کہ جامع سفیان ایک غیر معتبر انتساب تھا۔

مدعی اعتراض اور اس کا صحیح محلِ فہم

اعتراض کا متن (تاریخ ابن معین بروایت الدوری، رقم 3109)

الدوری کہتے ہیں:
میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو علم حدیث میں کمزور ہے، بڑھاپے کی وجہ سے روایت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن اس نے اپنے ہاتھوں سے "جامع سفیان” لکھا اور اس میں جو کچھ ہے اس پر عمل کرتا ہے؟
یحییٰ بن معین نے جواب دیا: سفیان ایک بڑے امام تھے، ان کی پیروی کی جا سکتی ہے۔
میں نے پوچھا: اگر کوئی اس کتاب کو ناپسند کرے (اشارہ امام احمد کی طرف تھا)؟
یحییٰ بن معین نے کہا: جامع سفیان کو ناپسند کرنے والا سمجھداری سے کام نہیں لیتا۔

اعتراض پیش کرنے والوں کی وضاحت

اس اثر کو بنیاد بنا کر بعض اہلِ علم یہ نکات بیان کرتے ہیں:

  1. امام یحییٰ بن معین کے نزدیک عام آدمی کو کسی امام کی تالیف پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

  2. امام سفیان ثوری کا مرتبہ ایسا تھا کہ ان کی آراء پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

  3. چونکہ امام احمد بن حنبل "جامع سفیان” کو ناپسند کرتے تھے، اس لیے یہ کلام ان پر بھی بظاہر تنقید شمار ہوتا ہے۔

  4. اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ تقلید کو بعض ائمہ نے عام لوگوں کے لیے جائز قرار دیا ہے۔

صحیح محلِ فہم

  1. یحییٰ بن معین کے الفاظ میں مراد ایک ایسا شخص ہے جو خود اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا اور کسی امام کی کتاب سے مسائل اخذ کرتا ہے۔ یہ دراصل "عامی کا عالم سے رجوع” ہے، نہ کہ فقہی اصطلاح کے مطابق تقلید جسے آنکھیں بند کرکے ایک ہی امام کے اقوال پر جمود اختیار کرنا کہا جاتا ہے۔

  2. جامع سفیان کی اصل روایت کا تعلق غسان بن عبید الموصلی سے ہے، جس پر ائمہ نے شدید جرح کی ہے۔ اس وجہ سے اس کتاب کی نسبت ہی محلِ نظر ہے۔

  3. امام احمد بن حنبل نے سفیان ثوری کی مخالفت نہیں کی بلکہ جامع سفیان کو ان کی کتاب تسلیم نہیں کیا۔ ان کے نزدیک یہ انتساب درست نہ تھا، اسی لیے وہ اس سے اجتناب کرتے تھے۔

  4. لہٰذا یہ بات کہنا درست نہیں کہ امام یحییٰ بن معین نے امام احمد پر کوئی ناپسندیدہ کلام کیا۔ اصل گفتگو کتاب کے انتساب اور اس کے ناقل کے بارے میں تھی، نہ کہ امام احمد کی ذات پر۔

غسان بن عبید الموصلی کے بارے امام یحییٰ بن معین کے اقوال اور ائمہ کی توضیحات

1. یحییٰ بن معین (روایت الدوری)

عربی متن:
«غسان الموصلی الذي يروي جامع سفيان ثقة.»
(تاریخ ابن معین – روایت الدوری، رقم 5289)

ترجمہ: غسان بن عبید الموصلی جو جامع سفیان روایت کرتا ہے، وہ ثقہ ہے۔

وضاحت: یہ قول ابتدائی رائے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ابن معین نے اس کو معتبر شمار کیا۔

2. یحییٰ بن معین (روایت ابن الجنید)

عربی متن:
«قد رأيته … ضعيف الحديث.»
(سؤالات ابن الجنید، ص 221)

ترجمہ: میں نے اسے (غسان الموصلی) دیکھا ہے … وہ حدیث میں ضعیف ہے۔

وضاحت: یہاں ابن معین نے اس کے ضعف کی تصریح کی۔

3. امام عینی حنفی

عربی متن:
«وثقه يحيى في رواية الدُّوري، وقال أيضاً: لم يكن يعرف بالحديث، إلا أنه لم يكن من أهل الكذب، ويروي جامع سفيان.»
(مغاني الأخيار في شرح أسامي)

ترجمہ: یحییٰ بن معین نے الدوری کی روایت میں اسے ثقہ کہا، لیکن یہ بھی کہا کہ وہ علمِ حدیث میں معروف نہیں تھا، البتہ جھوٹا بھی نہیں تھا۔

وضاحت: عینی نے دونوں اقوال کی وضاحت کر کے یہ بتایا کہ ابن معین کی رائے میں تغیر یا نسبتی فرق ہے۔

4. حافظ ذہبی (نقلاً عن ابن حبان)

عربی متن:
«قال ابن حبان: فحش خلافه للاثبات فاستحق الترك. وذكره أيضاً في الثقات فتساقط قولاه.»
(ميزان الاعتدال)

ترجمہ: ابن حبان نے کہا: اس کی ثقات کے مقابلے میں مخالفت بہت زیادہ ہے، اس لیے وہ ترک کے لائق ہے۔ لیکن ابن حبان نے اسے اپنی "الثقات” میں بھی ذکر کیا، اس لیے اس کے دونوں اقوال ساقط الاعتبار ہیں۔

وضاحت: حافظ ذہبی نے ابن حبان کے اقوال میں بھی تضاد دکھایا اور نتیجہ یہ نکالا کہ دونوں رائے ایک دوسرے کو باطل کر دیتی ہیں۔

5. علامہ سخاوی

عربی متن:
«كما يتفق لابن معين وغيره من أئمة النقد، فهذا قد لا يكون تناقضاً، بل نسبياً في أحدهما، أو ناشئاً عن تغير اجتهاد …»
(فتح المغيث بشرح ألفية الحديث)

ترجمہ: جیسا کہ ابن معین اور دیگر ائمہ ناقدین سے کبھی کبھی اقوال میں اختلاف منقول ہوتا ہے، یہ حقیقی تناقض نہیں ہوتا بلکہ کبھی نسبتی ہوتا ہے یا اجتہاد کی تبدیلی کی بنا پر ہوتا ہے۔

وضاحت: سخاوی نے اس قسم کے اختلاف کی توجیہ پیش کی کہ یہ مطلق تضاد نہیں بلکہ اجتہاد کے تغیر کا نتیجہ ہے، اس لیے توقف یا احتیاط بہتر ہے۔

خلاصہ:

  • ابن معین کے غسان الموصلی کے بارے اقوال میں تضاد ہے: کہیں ثقہ کہا، کہیں ضعیف اور کہیں علمِ حدیث سے نابلد۔

  • ائمہ نے واضح کیا کہ یہ اختلاف اجتہاد کے تغیر یا مختلف حالات کا نتیجہ ہے۔

  • نتیجہ یہی ہے کہ اس کی حیثیت مشتبہ ہے اور اس پر اعتماد مشکل ہے، خصوصاً جب اس کی منفرد روایت “جامع سفیان” ہو۔

امام احمد بن حنبل کے جامع سفیان کے بارے اقوال

1. مسائل عبداللہ بن احمد

عربی متن:
«وعاب وضع الكتب وكرهَه كراهية شديدة، وكان أبي يكره جامع سفيان وينكره ويكرهه كراهية شديدة، وقال: من سمع هذا من سفيان؟ ولم أر أبي يصحح لأحد سماعه من سفيان.»
(مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله، رقم 1582)

ترجمہ: امام احمد نے کتابوں کے وضع (یعنی آراء و فتاویٰ کو جمع کرنے) کو سخت ناپسند فرمایا۔ وہ جامع سفیان کو ناپسند اور منکر کہتے تھے، اور فرمایا کرتے: یہ کس نے سنا ہے سفیان سے؟ میں نے اپنے والد کو کبھی کسی کے بارے میں یہ تصدیق کرتے نہیں دیکھا کہ اس نے یہ جامع سفیان سفیان سے سنی ہے۔

وضاحت: امام احمد کا اعتراض امام سفیان ثوری پر نہیں تھا بلکہ اس کتاب کے سفیان کی طرف منسوب ہونے پر تھا۔

2. سؤالات ابو داود

عربی متن:
«سمعت أحمد، وقال له رجل: جامع سفيان نعمل به؟ قال: عليك بالآثار.»
(سؤالات أبي داود لأحمد بن حنبل، رقم 1779)

ترجمہ: میں نے امام احمد کو سنا، ایک شخص نے پوچھا: کیا جامع سفیان پر عمل کریں؟ امام احمد نے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ آثار (احادیث) پر عمل کرو۔

وضاحت: امام احمد نے واضح طور پر اس کتاب کے بجائے سنت و آثار کی اتباع کی ہدایت دی۔

3. العلل ومعرفة الرجال

عربی متن:
«كتبنا عن غسان بن عبيد الموصلي … وسمع من سفيان شيئاً يسيراً، وأنكر أن يكون سمع الجامع من سفيان.»
(العلل ومعرفة الرجال، رقم 3605)

ترجمہ: ہم نے غسان بن عبید الموصلی سے لکھا، اس نے سفیان سے تھوڑی سی احادیث سنی تھیں، لیکن امام احمد نے کہا: اس نے جامع سفیان سفیان سے نہیں سنی۔

وضاحت: جامع سفیان کے سفیان ثوری سے سماع ہی کو امام احمد نے منکر قرار دیا۔

4. دیگر اقوال

امام احمد کے شاگردوں نے بھی ان سے یہ بات نقل کی کہ وہ جامع سفیان کو بدعت شمار کرتے اور اس سے اجتناب کرتے۔

خلاصہ:

  • امام احمد بن حنبل نے بار بار اس بات کی وضاحت کی کہ "جامع سفیان” سفیان ثوری کی کتاب نہیں۔

  • ان کے نزدیک یہ کتاب سفیان سے مروی نہیں تھی بلکہ اس کی نسبت بے اصل تھی۔

  • اس لیے وہ جامع سفیان کو قبول نہیں کرتے اور ہمیشہ آثار (احادیث) کی طرف رجوع کی تاکید کرتے۔

غسان الموصلی پر دیگر ائمہ کی جرح

  • ابن عدی:

    «لغسان بن عبيد غير ما ذكرت من الحديث، والضعف على حديثه بيّن … وهو غير محفوظ.»
    (الكامل في ضعفاء الرجال 1555)
    ترجمہ: غسان بن عبید کی دیگر روایات بھی ہیں لیکن ان کی حدیث میں ضعف بالکل واضح ہے اور وہ غیر محفوظ ہے۔

  • محمد بن عبداللہ بن عمار الموصلی:

    «كان يعالج الكيمياء، وما عرفناه بشيء من الحديث، ولا حدث ههنا بشيء.»
    (تاريخ بغداد)
    ترجمہ: وہ کیمیا گری میں مشغول تھا، ہم نے اسے حدیث کے بارے میں کچھ نہیں جانا اور نہ ہی اسے یہاں (موصل میں) کوئی حدیث بیان کرتے دیکھا۔

  • ہیثمی:

    «وفيه غسان بن عبيد، وهو ضعيف، وقد وثقه ابن حبان.»
    (مجمع الزوائد)
    ترجمہ: اس روایت میں غسان بن عبید ہے، وہ ضعیف ہے، اگرچہ ابن حبان نے اس کو ثقہ کہا ہے۔

  • ابن حجر:

    «وفي مسنده راوٍ ضعيف.» (اشارہ غسان کی طرف)
    (بذل الماعون في فضل الطاعون)
    ترجمہ: اس کی سند میں ایک ضعیف راوی ہے۔

  • ابن الجوزی:

    غسان بن عبید کو الضعفاء والمتروكين میں ذکر کیا۔

  • ابن شاہین:

    «كان يعالج الكيمياء … وما عرفناه بشيء من الحديث.»
    (تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين)
    ترجمہ: وہ کیمیا گری میں مشغول رہتا تھا اور ہم نے اسے حدیث کے حوالے سے نہیں جانا۔

  • ابن ترکمانی:

    غسان کو ضعیف قرار دیا۔ (الجوهر النقي)

مضمون کا خلاصہ

  • "جامع سفیان” نامی کتاب کا واحد راوی غسان بن عبید الموصلی ہے۔

  • امام یحییٰ بن معین کے اقوال میں اس کے بارے تضاد ہے: کبھی ثقہ کہا اور کبھی ضعیف اور غیر معروف بالحدیث۔

  • دیگر ائمہ جیسے ابن عدی، ابن عمار الموصلی، ہیثمی، ابن حجر، ابن الجوزی، ابن شاہین وغیرہ نے متفقہ طور پر اس کی کمزوری اور غیر اعتماد کی وضاحت کی۔

  • امام احمد بن حنبل نے صراحت کی کہ جامع سفیان اصلاً سفیان ثوری کی کتاب ہی نہیں اور اس کے انتساب کو منکر قرار دیا، اور آثار (احادیث) پر عمل کرنے کی تاکید کی۔

نتیجہ

"جامع سفیان” سفیان ثوری کی کتاب ثابت نہیں، بلکہ اس کی بنیاد ایک غیر معتبر راوی غسان الموصلی پر ہے۔ ائمہ محدثین نے اس راوی پر جرح کی اور امام احمد نے اس انتساب کو ہی مسترد کر دیا۔ لہٰذا اس کتاب کو امام سفیان ثوری کی طرف منسوب کرنا درست نہیں اور اس کے ذریعے ائمہ پر اعتراض کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔

اہم حوالوں کے سکین

سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 01 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 02 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 03 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 04 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 05 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 06 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 07 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 08 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 09 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 10 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 11 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 12 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 13 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 14 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 15 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 16 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 17 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 18 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 19 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 20 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 21 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 22 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 23 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 24 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 25 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 26 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 27 سفیان ثوریؒ کی طرف منسوب کتاب "جامع سفیان” جعلی ہے – 28

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے