سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم اور این جی اوز کا کردار
تحریر: ڈاکٹر زاہد مغل

سرمایہ دارانہ نظام اور این جی اوز کا کردار

موجودہ دور میں کام کرنے والے بے شمار پروفیشنل خیراتی ادارے اور این جی اوز دراصل لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کا نتیجہ ہیں۔ یہ ادارے اس نظام کے تحت بننے والے غیر محفوظ اور بے یارومددگار افراد کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مارکیٹ کا نظام افراد کو اغراض پر مبنی تعلقات میں باندھتا ہے، اور یہاں ہر انسان کو اکیلا (انفرادی حیثیت میں) زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے مطابق انسان کی کامیابی اور بقا اس کی ذاتی کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے، یعنی جو لوگ معاشی طور پر فعال نہیں ہوتے، وہ معاشرتی نظام کا حصہ نہیں بن پاتے۔

سرمایہ دارانہ معاشروں میں غیر فعال طبقات

یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں بوڑھے، بیمار، معذور، یتیم اور بیوہ جیسے افراد کو مارکیٹ سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کے لیے دو ہی آپشنز موجود ہیں: اولاً، سرمایہ دارانہ ریاست اور دوئم، این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے۔

سرمایہ دارانہ ریاست کے مسائل

سرمایہ دارانہ ریاست کے پاس معاشرے کے غیر فعال افراد کی دیکھ بھال کے لیے وسائل ناکافی ہوتے ہیں، خاص طور پر تھرڈ ورلڈ ممالک میں۔ ان ممالک میں معیشت کی حالت اتنی خراب ہوتی ہے کہ ٹیکس کے ذریعے کافی رقم اکٹھی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ دوسری طرف، عالمی سرمایہ دارانہ نظام ریاستوں کے پھیلاؤ پر بھی حد بندیاں لگاتا ہے تاکہ آزاد معیشت (فری مارکیٹ) کو نقصان نہ پہنچے۔ اس طرح یہ نظام خود اپنے ہی اندر ایک تضاد رکھتا ہے: ایک طرف معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو بے یارومددگار کرتا ہے، تو دوسری طرف ان کے مداوے کے دروازے بھی بند کرتا ہے۔

این جی اوز اور خیراتی اداروں کا کردار

سرمایہ دارانہ نظام کی اسی ناکامی کے نتیجے میں این جی اوز اور خیراتی ادارے وجود میں آتے ہیں، جو ان غیر محفوظ طبقات کی دیکھ بھال کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ ہر غیر محفوظ طبقے کے لیے ایک مخصوص خیراتی ادارہ وجود میں آتا ہے، جیسے کہ اولڈ ہاؤس، ڈے کیئر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، معذوروں کے مراکز وغیرہ۔ یہ ادارے ایک طرف تو مارکیٹ کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور دوسری طرف معاشرتی ذہنیت کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ان کے حقوق کا خیال رکھ رہا ہے۔

روایتی معاشرتی نظم اور سرمایہ دارانہ نظام

اگر ہم روایتی معاشرتی نظم کا تقابل سرمایہ دارانہ نظام سے کریں، تو ہمیں واضح فرق نظر آتا ہے۔ روایتی خاندانی اور قبائلی نظام میں افراد کو اپنی بقا کے لیے ان اداروں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، کیونکہ وہاں خاندان اور برادری ہی ہر فرد کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ بیمار کی عیادت، معذوروں کی دیکھ بھال، اور یہاں تک کہ مردے کی تدفین بھی خاندانی سطح پر کی جاتی تھی۔ محبت اور صلہ رحمی کے جذبات کے تحت یہ سب کام کیے جاتے تھے، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز کو ایک پروفیشنل ادارے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔

جدید ذہن کا المیہ

جدید ذہن کا المیہ یہ ہے کہ وہ دینی متبادل کو رد کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کر چکا ہے۔ جب دین کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو یہ ذہن پہلے سے تیار شدہ متبادل مانگتا ہے، جبکہ خود سرمایہ دارانہ نظام بغیر کسی پختہ متبادل کے دنیا پر مسلط کر دیا گیا۔ اس جدید ذہن کی منافقت یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مسائل کو قبول کر لیتا ہے، مگر دین کی دعوت کو اس وقت تک نہیں مانتا جب تک اس کے سامنے مکمل پختہ متبادل پیش نہ کیا جائے۔

خلاصہ

➊ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

➋ سرمایہ دارانہ ریاست کے پاس ان غیر محفوظ طبقات کے مسائل حل کرنے کے وسائل موجود نہیں ہوتے۔

➌ روایتی معاشرتی نظم میں افراد کا خیال محبت اور صلہ رحمی کے تحت رکھا جاتا تھا، جبکہ موجودہ نظام میں ہر چیز پروفیشنل اداروں کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔

➍ جدید ذہن دینی متبادل کو رد کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کر چکا ہے، جو کہ ایک بڑا المیہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے