سجود السہو سلام پھیرنے سے پہلے یا بعد؟ ایک تحقیقی جائزہ
تحریر: عمران ایوب لاہوری

(سجود السہو ) سلام پھیرنے سے پہلے یا بعد میں دو سجدے ہیں

لغوی وضاحت:
لفظ ”سهو“ مصدر ہے۔ باب سَهَا يَسُهُو (نصر) سے اور اس کا معنی ”بھول جانا“ ، کسی چیز سے ”غافل ہو جانا“ ، یا ”دل کا دوسری طرف متوجہ ہو جانا“ مستعمل ہے ۔
[القاموس المحيط: ص/ 1168 ، المنجد: ص/ 400]
(ابن حجرؒ) سہو کسی چیز سے غفلت اور دل کے کسی اور طرف متوجہ ہو جانے کو کہتے ہیں اور بعض لوگوں نے سہو اور نسیان میں فرق کیا ہے جو کہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
[فتح الباري: 11/3]
(علامہ عینیؒ) ان دونوں میں دقیق فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ سہو میں انسان کا بالکل شعور ختم ہو جاتا ہے اور نسیان میں کچھ شعور باقی بھی ہوتا ہے۔
[عمدة القارى: 332/6]
اصطلاحی تعریف: سجود السہوان دو سجدوں کو کہتے ہیں جو نماز میں بھول کر کمی بیشی کر دینے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔
مشروعیت: چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان وہ بھی بعض اوقات دوران نماز بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمايا:
إنما أنا بشر أنسى كما تنسون فإن نسيت فذكروني ”بے شک میں ایک انسان ہوں ، میں بھی بھول جاتا ہوں جیسا کہ تم بھولتے ہو اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو ۔“
[بخاري: 401 ، مسلم: 572]
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہو جانے والے نقص کی تعمیل کے لیے ان سجدوں کو مشروع کیا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل کے ذریعے امت تک پہنچایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لكل سهو سجدتان
”ہر سہو کے لیے دو سجدے ہیں ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 47/2 ، ابن ماجة: 1219 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ما جاء فيمن سجدهما بعد الإمام]
علاوہ ازیں جس روایت میں یہ لفظ ہیں:
إنما أنسى أو أنسى لاسن
”بے شک میں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بھول جاتا ہوں یا بھلا دیا جاتا ہوں ۔“ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
[الضعيفة: 101 ، شرح الزرقاني على الموطا: 205/1]
سہو کے سجدوں کا حکم:
اس مسئلے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(احناف) یہ سجدے واجب ہیں۔
(شافعیہ ، مالکیہ ، حنابلہ) مسنون و مستحب ہیں ۔
[المغني: 430/2 ، فتح القدير: 355/1 ، بدائع الصنائع: 163/1 ، اللباب: 95/1 ، الشرح الصغير: 377/1]
(ابن حزمؒ ) دوران نماز ہر کمی بیشی میں یہ سجدے واجب ہیں۔
[المحلى بالآثار: 77/3]
واجب کہنے والوں نے اُن احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سجدوں کا حکم مروی ہے مثلاً:
إذا شك وليسجد سجدتين
”جب کسی کو شک ہو جائے اسے چاہیے کہ دو سجدے کرے ۔“
[بخاري: 401]
إذا زاد الرجل أو نقص فليسجد سجدتين
”جب آدمی (نماز میں ) کوئی زیادتی یا کمی کر دے تو اسے چاہیے کہ دو سجدے کر لے ۔“
[مسلم: 895 ، كتاب المساجد و مواضع الصلاة: باب السهو فى الصلاة والسجود له]
سلام سے پہلے یا بعد میں دونوں طرح اس لیے جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح ثابت ہے البتہ اس میں افضل و اولٰی یہی ہے کہ (سہو کے ) سجدوں کے جو اسباب سلام سے پہلے (کسی فعل ) کے ساتھ مقید ہوں ان میں سلام سے پہلے سجدے کیے جائیں اور جو سلام کے بعد کے ساتھ مقید ہوں ان میں اس کے بعد سجدے کیے جائیں اور جن اسباب کی ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی قید نہ ہو ان میں قطع نظر زیادتی اور نقصان کے فرق سے انسان کو سلام سے پہلے اور بعد میں سجدے کرنے کا اختیار ہے۔
[نيل الأوطار: 352/2]
جن احادیث میں سلام سے پہلے سجدوں کا ذکر ہے وہ درج ذیل ہیں:
➊ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا شك أحدكم فى صلاته فلم يدركم صلى ثلاثا م أربعا فليطرح الشك وليين على ما استيقن ثم ليسجد سجدتين قبل أن يسلم فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته وإن كان صلى تماما كانتا ترغيما للشيطان
”تم میں سے جب کسی کو شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں ادا کی ہیں تین یا چار؟ تو ایسی صورت میں شک کو نظر انداز کر کے جس پر یقین ہو اس پر نماز کی بنیاد رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے پس اگر تو اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دو سجدے اسے چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو کر (طاق رکعات کو جفت یعنی ) چھ بنا دیں گے اور اگر وہ پہلے ہی پوری نماز پڑھ چکا ہو تو یہ دو سجدے شیطان کے لیے باعث ذلت و رسوائی ہوں گے ۔“
[مسلم: 571 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب السهو فى الصلاة والسجود له ، أبو داود: 1024 ، ابن ماجة: 1210 ، أحمد: 83/3 ، دار قطني: 371/1 ، بيهقي: 331/2 ، ابن أبى شيبة: 175/1]
➋ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا شك أحـدكـم فـي صـلاتــه فلم يدر واحدة صلى أم ثنتين فليجعلها واحدة وإذا لم يدر ثنتين صلى أم ثلاثا فليجعلها ثنتين وإذا لم يدر أثلاثا صلى أم أربعا فليجعلها ثلاثا ثم ليسجد إذا فرغ من صلاته وهو جالس قبل أن يسلم سجدتين
”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے علم نہ ہو کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو تو وہ اپنی نماز کو ایک رکعت ہی بنا لے اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعتیں نماز پڑھی ہے یا تین تو وہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ اسے تین رکعت بنا لے۔ پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے ہوئے ہی (سہو کے ) دو سجدے کر لے ۔“
[حسن: الصحيحة: 341/3 ، 1356 ، ترمذي: 398 ، أحمد: 190/1 ، ابن ماجة: 1209 ، حاكم: 324/1]
➌ حضرت عبد اللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر (درمیانے تشہد کے لیے) بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے ، لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلام کا انتظار کرنے لگے:
كبر قبل التسليم فسجد سجدتين و هو جالس ثم سلم
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے تکبیر کہی اور بیٹھے ہوئے ہی دو سجدے کیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا ۔“
[بخارى: 1224 ، كتاب السهو: باب ما جاء فى السهو إذا قام من ركعتي الفريضة ، مسلم: 570 ، أبو داود: 1034 ، ترمذي: 389 ، نسائي: 19/3 ، ابن ماجة: 1206 ، مؤطا: 96/1 ، ابن أبى شيبة: 179/1 ، دارمي: 353/1 ، بيهقي: 134/2]
جن احادیث میں سلام کے بعد سجدوں کا ذکر ہے وہ درج ذیل ہیں:
➊ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر پڑھائی اور تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے (اس حدیث میں ہے کہ ) :
فصلى ركعة ثم سلم ثم سجد سجدتين ثم سلم
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھی پھر سلام پھیر دیا پھر دو سجدے کیسے اور پھر سلام پھیر دیا ۔“
[مسلم: 574 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب السهو فى الصلاة والسجود له ، أبو داود: 1018 ، نسائي: 26/3]
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کہا کہ کیا نماز میں زیادتی کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ، لیکن بات کیا ہے۔“ تو لوگوں نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں:
فسجد سجدتين بعد ما سلم
”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کر لیے ۔“
[بخاري: 1226 ، كتاب السهو: باب إذا صلى خمسا ، مسلم: 91 ، ترمذي: 392 ، أبو داود: 1019 ، نسائي: 31/3 ، ابن ماجة: 1205 ، بيهقي: 341/2]
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وإذا شك أحدكم فى صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم ليسجد سجدتين
”اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو وہ درستگی کی کوشش کرتے ہوئے نماز مکمل کر لے پھر سلام پھیر دے اور پھر (آخر میں ) دو سجدے کرے ۔“
[بخاري: 401 ، كتاب الصلاة: باب التوجه نحو القبلة حيث كان ، مسلم: 572]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ذوالیدین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد سجدے کیے جیسا کہ اس میں یہ لفظ ہیں کہ :
فصلي ماترك ثم سلم ثم كبر وسجد
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متروکہ نماز پڑھی، پھر سلام پھیر دیا، پھر تکبیر کہی اور سجدے کیے ۔“
[بخارى: 482 ، كتاب الصلاة: باب تشبيك الأصابع فى المسجد وغيره ، مسلم: 573 ، مؤطا: 93/1 ، أبو داود: 1008 ، ترمذي: 399 ، نسائي: 22/3 ، ابن ماجة: 1214 ، دارمي: 351/1 ، أحمد: 234/2]
➎ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لكل سهو سجدتان بعد ما يسلم
”ہر سہو کے لیے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 917 ، أبو داود: 1038]
اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(احناف) ہر قسم کا سجدہ سہو سلام کے بعد کیا جائے گا۔ امام نخعیؒ ، امام ثوریؒ ، امام حسنؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔
(شافعیؒ) تمام سجدے سلام سے پہلے کیے جائیں گے۔ امام مکحولؒ ، امام زہریؒ ، امام اوزاعیؒ اور امام لیثؒ وغیرہ بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
(مالکؒ) نماز میں زیادتی کی صورت میں سلام کے بعد اور کمی کی صورت میں سلام سے پہلے سجدے کیے جائیں۔ امام ابو ثورؒ ، امام مزنیؒ اور ایک قول کے مطابق امام شافعیؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
(احمدؒ) سجدہ سہو کے متعلق تمام احادیث میں جو کچھ وارد ہے اسی پر عمل کیا جائے اور جس صورت کے متعلق کوئی حدیث نہیں اس میں سلام سے پہلے سجدے کیے جائیں ۔
(اہل ظاہر، ابن حزمؒ ) دو صورتوں کے علاوہ تمام صورتوں میں سلام کے بعد یہ سجدے کیے جائیں گے:
➊ جب انسان دو رکعتوں کے بعد تشہد کے لیے بیٹھنے کے بغیر کھڑا ہو جائے۔
➋ جب انسان کو شک ہو جائے کہ اس نے تین رکعتیں ادا کی ہیں یا چار۔
بعض حضرات کے نزدیک بھولنے والے کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو سلام پھیرنے سے پہلے سجدے کرے اور چاہے تو بعد میں کرے۔
[نيل الأوطار: 350/2 ، بدائع الصنائع: 172/1 ، رد المحتار: 540/2 ، الهداية: 74/1 ، المغنى: 415/2 ، الأم: 246/1 ، الكافي لابن عبدالبر: ص/ 56 – 57 ، بداية المجتهد: 150/1 ، ابن أبى شيبة: 386/1 عبد الرزاق: 300/2 ، شرح مسلم للنووى: 69/3]
(ابن حجرؒ) انہوں نے امام احمدؒ کے قول کو تمام مذاہب میں سے زیادہ مبنی بر انصاف قرار دیا ہے ۔
[فتح البارى: 114/3]
(نوویؒ) امام مالک کا مذہب سب سے زیادہ قوی ہے ، اس کے بعد مذہب شافعی ہے ۔
[شرح مسلم: 70/3]
(راجح) پہلے اور بعد میں دونوں طرح جائز ہے البتہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ احادیث میں جو طریقہ جس سہو کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس پر عمل کیا جائے ۔
(شوکانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[نيل الأوطار: 352/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 423/2]
(صدیق حسن خانؒ) سلام سے پہلے اور بعد میں دونوں طرح جائز ہے۔
[الروضة الندية: 327/1]

تکبیر تحریمہ ، تشہد اور سلام کے ساتھ

جیسا کہ حدیث ذوالیدین میں ہے کہ :
ثم كبر وسجد ثم سلم
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور سجدے کیے پھر سلام پھیر دیا۔“
[بخاري: 482 ، كتاب الصلاة: باب تشبيك الأصابع فى المسجد و غيره ، مسلم: 573]
علاوہ ازیں یاد رہے کہ کسی صحیح روایت میں تشہد کا ذکر نہیں ہے اور جن روایات میں یہ ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ۔ جیسا کہ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى بهم فسها فسجد سجدتين ثم تشهد ثم سلم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے لٰہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کیے ، پھر تشہد پڑھا ، اور پھر سلام پھیر دیا ۔“
[شاذ: ضعيف أبو داود: 227 ، كتاب الصلاة: باب سجدتي السهو فيهما تشهد وتسليم ، ضعيف ترمذى: 62 ، إرواء الغليل: 403 ، أبو داود: 1039 ، ترمذي: 393 ، بيهقى: 354/2 ، ابن خزيمة: 1062 ، ابن حبان: 536 ، شيخ محمد صجی حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على الروضة: 331/1]
➋ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم تشهد بعد أن رفع رأسه من سجدتي السهو
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دو سجدوں سے سر اٹھانے کے بعد تشہد پڑھا۔“
[ضعيف: التعليق على الروضة الندية للحلاق: 331/1 ، بيهقي: 355/2]
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم تشهدت أيضا ثم تسلم
”پھر تم اس طرح تشہد پڑھو اور پھر سلام پھیرو ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 220 ، كتاب الصلاة: باب من قال يتم على أكثر ظنه ، ضعيف الجامع: 684 ۔ أحمد: 428/1 ، أبو داود: 1028 ، نسائي: 210/1 ، حافظ ابن حجرؒ نے اسے ضعيف كها هے۔ فتح الباري: 430/3]
➍ معجم طبرانی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تشهدي وانصر فى ثم اسجدي ثم تشهدي
”تو تشہد پڑھ اور سلام پھیر دے پھر سہو کے سجدے کر پھر تشہد پڑھ ۔“
[ضعيف: اس كي سند ميں موسي بن مطير عن ابيه ضعيف هے ۔ نيل الأوطار: 365/2]
(نوویؒ) ہمارے مذہب میں صحیح بات یہی ہے کہ ایسا شخص صرف سلام پھیرے گا ، تشہد نہیں پڑھے گا۔
[شرح مسلم: 71/3]
(ابن حزمؒ ) سہو کے دونوں سجدوں میں سے ہر ایک کے لیے تکبیر کہنا اور ان کے بعد تشہد پڑھنا پھر سلام پھیر دینا افضل ہے لیکن اگر ان افعال کے علاوہ صرف دو سجدوں پر ہی اکتفاء کر لے تو کفایت کر جائے گا۔
[المحلى بالآثار: 82/3]

کسی مسنون فعل کو (بھول کر ) چھوڑنے کی وجہ سے (سجدہ سہو ) مشروع کیا گیا ہے

➊ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لكل سهو سجدتان
”ہر سہو کے لیے دو سجدے ہیں ۔“
[حسن: إروا الغليل: 4712 ، صحيح أبو داود: 917 ، ابن ماجة: 1219 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ما جاء فيمن سجدها بعد السلام ، أبو داود: 1038 ، احمد: 280/5]
مسنون فعل کے علاوہ کسی فرض کو چھوڑ دینے میں یہ سجدہ بالا ولی ضروری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔
➊ حضرت ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانہ تشہد چھوڑ دیا تو آخر میں دو سجدے کر لیے۔
[بخاري: 1224 ، كتاب الجمعة: باب ما جاء فى السهو مسلم: 570]
➋ حدیث ذوالیدین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھنا بھول گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ادا کرنے کے بعد سجدے کیے ۔
[بخاري: 1229 ، كتاب الجمعة: باب من يكبر فى سجدتي السهو]
➌ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کی ایک رکعت بھول کر چھوڑ دی۔ پھر وہ رکعت پڑھی اور سجدے کیے۔
[مسلم: 574 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب السهو فى الصلاة]
➍ چونکہ یہ سجدے شیطان کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
كانتا ترغيما للشيطان
اس لیے اگر ہر مسنون فعل چھوڑ دینے پر بھی یہ سجدے کر لیے جائیں تو بہتر ہے۔
[مسلم: 571 ، أيضا]

بھول کر زیادتی کی وجہ سے خواہ ایک رکعت ہی زیادہ پڑھ لی جائے

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ :
صلى الظهر خمسا
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر کی (بھول کر) پانچ رکعتیں پڑھ لیں۔“
لیکن جب اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کر لیے۔
[بخارى: 1226 ، كتاب الجمعة: باب إذا صلى خمسا ، مسلم: 91]
(جمہور) جس شخص نے بھول کر پانچ رکعتیں ادا کر لیں اور چوتھی میں نہ بیٹھا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی ۔
(ابو حنیفہؒ، سفیان ثوریؒ) اگر چوتھی رکعت میں نہ بیٹھا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی اور مزید امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ اگر چوتی رکعت میں بیٹھ گیا پھر پانچویں پڑھی تو ایک اور رکعت اس کے ساتھ ملا لے یہ دو رکعتیں اس کے لیے نفل بن جائیں گی ۔
[المجموع: 74/4 ، المبسوط: 727/1 ، المغني: 428/2 ، شرح فتح القدير: 447/1 ، الكافي لابن عبدالبر: ص: 57 ، الاستذكار: 363/4]

رکعتوں کی تعداد میں شک کی وجہ سے

جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ :
إذا شك أحدكم فليطرح الشك وليين على ما استيقن ثم ليسجد سجدتين
”جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو وہ شک کو نظر انداز کر کے جس پر یقین ہو اس پر نماز کی بنیاد رکھے پھر سجدے کر لے ۔“
[مسلم: 571 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب السهو فى الصلاة أبو داود: 1024]
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) جب نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک پڑ جائے تو اسے کم تعداد پر ہی نماز کی بنیاد رکھنی چاہیے کیونکہ اس میں یقین کا امکان ہے۔
(ابو حنیفہؒ) ایسے شخص کو انتہائی سوچ بچار کرنی چاہیے اگر گمان غالب کسی طرف ہو تو اس پر عمل کرے ورنہ اگر دونوں اطراف مساوی ہوں تو کم پر بنیاد رکھے۔
[الأم: 244/1 ، بدائع الصنائع: 168/1 ، المغنى: 407/2 ، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف: 511/2 ، رد المختار: 563/2 ، الكافى لابن عبدالبر: ص/56]
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إذا شك أحدكم فقام فى الركعتين فاستتم قائما فليمض ولا يعود وليسجد سجدتين فإن لم يستتم قائما فليجلس ولا سهو عليه
”جب تم میں سے کسی کو شک ہو جائے اور وہ دو رکعتوں میں سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو (اور اسے یاد آ جائے ) تو وہ بیٹھ جائے اس صورت میں اس پر سہو کے سجدے نہیں ہیں۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 909 ، الصحيحة: 321 ، أحمد: 253/4 ، أبو داود: 1036 ، ابن ماجة: 1208 ، بعض حضرات نے اس حديث كو جابر جعفيؒ راوي كي وجه سے ضعيف قرار ديا هے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اسے ضعيف كها هے۔ بلوغ المرام: 267 ، شيخ حازم على قاضيؒ نے بهي اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 477/1]

جب امام سجدہ سہو کرے تو مقتدی بھی اسی کی پیروی کرے

➊ حدیث نبوی ہے کہ :
إنما جعل الإمام ليؤتم به
”امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔“
[بخاري: 722 ، مسلم: 414 ، أبو داود: 603 ، ابن ماجة: 846 ، نسائي: 196/2 ، أحمد: 314/2]
➋ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے سجدے کیے تو :
وسجدهما الناس معه
”آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی یہ سجدے کیے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 320 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى سجدتي السهو قبل التسليم ، ترمذي: 391 ، بخاري: 829 ، مسلم: 570 ، أبو داود: 1034 ، نسائي: 34/3 ، ابن ماجة: 1206 – 1207 ، مؤطا: 96/1]
(شوکانیؒ ) (اس سے معلوم ہوا کہ ) مقتدی بھی امام کے ساتھ سہو کے سجدے کرے گا۔
[نيل الأوطار: 362/2]
(ابن حزمؒ ) امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا مقتدیوں پر فرض ہے الا کہ کسی کی کوئی رکعت رہ گئی ہو۔
[المحلى بالآثار: 80/3]
◈ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الإمام يكفي من ورائه فإن سها الإمام فعليه سجدتا السهو وعلى من وراءه أن يسجدوا معه وإن سها أحد ممن خلفه فليس عليه أن يسجد والإمام يكفيه
”بلاشبہ امام مقتدیوں سے کفایت کر جاتا ہے وہ اس طرح کہ اگر امام بھول جائے تو اس پر سہو کے دو سجدے کرنا لازم ہے اور اس کے مقتدیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اس کے ساتھ سجدے کریں اور اگر مقتدیوں میں سے کوئی بھول جائے تو اس پر سجدے کرنا لازم نہیں ہے، امام اسے کفایت کر جائے گا۔“ وہ ضعیف و نا قابل حجت ہے۔
[ضعيف: بيهقي: 352/2 ، دارقطني: 376/1 ، اس كي سند ميں خارجه بن مصعب اور حكم بن عبيد الله ضعيف هيں اور ابو الحسين المدائني مجهول هے۔ نيل الأوطار: 363/2]
یہی وجہ ہے کہ جب امام کے پیچھے کوئی مقتدی بھول جائے تو اس کے سجدہ سہو میں اختلاف ہے۔
(شافعیه ، حنفیه) مقتدی امام کے سہو کے لیے تو سجدہ کرے گا لیکن اپنے سہو کے لیے سجدہ نہیں کرے گا۔
(ابن حزمؒ ) جب سہو مقتدی سے ہو اور امام سے نہ ہو تو مقتدی پر سجدہ سہو کرنا فرض ہے جیسا کہ اگر وہ تنہا ہوتا ، یا امام ہوتا، اسے سجدہ سہو کرنا پڑتا اس کی دلیل جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے کہ جس شخص سے نماز میں کوئی بھول چوک ہو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سجدہ سہو کرنے کا حکم دیا ہے:
فمن زاد أو نقص فليسجد سجدتين
اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام یا مقتدی کی کوئی تخصیص نہیں کی لٰہذا تخصیص جائز نہیں ہوگی۔
[المحلى بالآثار: 181/3]
(شوکانیؒ) دلائل کے عموم کی وجہ سے مقتدی پر (اپنے سہو کے لیے ) سجدے کرنا واجب ہے۔
[السيل الجرار: 285/1]
(راجح) امام ابن حزمؒ کا موقف ہی حدیث کے زیادہ قریب ہے۔

اگر سہو زیادہ ہو جائیں تو کیا سجدے بھی زیادہ ہوں گے

سہو زیادہ ہونے پر سجدے زیادہ نہیں ہوں گے کیونکہ اگرچہ ہر نمازی سے اس کا امکان تو موجود ہے لیکن نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت ہے اور نہ ہی کسی ایک صحابی سے منقول ہے کہ انہوں نے سہو کے تکرار کی وجہ سے بار بار سجدے کیے ہوں جیسا کہ:
امام شوکانیؒ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔
[السيل الجرار: 285/1]

سجدہ سہو کے اذکار

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدہ سہو کے دوران کوئی خاص دعا و ذکر ثابت نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1