سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ یا گھٹنے؟ ایک تحقیقی مقالہ
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ یا گھٹنے؟

نماز میں سجدہ کے لیے جھکتے وقت پہلے گھٹنے بھی رکھے جا سکتے ہیں اور ہاتھ بھی، اس میں توسع ہے، دونوں طرح جائز ہے۔ اس بارے میں کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں ، البتہ سلف کے آثار ملتے ہیں۔

❀ خالد حذاء ؒ بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ أَبَا قِلَابَةَ، إِذَا سَجَدَ بدأَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ، وَإِذَا قَامَ اعْتَمَدَ عَلَى يَدَيْهِ .
’’میں نے ابو قلا بہ ؒ کو دیکھا، جب سجدہ میں جاتے ، تو پہلے گھٹنے لگاتے ، جب سجدہ سے ( دوسری رکعت کے لیے ) کھڑے ہوتے ، تو دونوں ہاتھ سے ٹیک لگاتے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة : 2708، و 27، وسنده صحيح)

❀ خالد حذاء ؒ بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ الْحَسَنَ يَخِرُّ فَيَبْدَأُ بيَدَيْهِ، وَيَعْتَمِدُ إِذَا قَامَ .
’’میں نے حسن بصریؒ کو دیکھا ، وہ سجدہ میں پہلے ہاتھ لگاتے تھے اور جب ( دوسرے رکعت کے لیے ) اٹھتے تو (ہاتھوں سے ) ٹیک لگاتے ۔“
(مصنف ابن أبي شيبة : 2708، وسنده صحيح)

❀ امام دارمیؒ (۲۵۵ھ) فرماتے ہیں:
كله طيب .
’’دونوں عمل ہی درست ہیں‘‘
(سنن الدارمي، تحت الرقم : 1360)

❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ (۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں:
أَمَّا الصَّلَاةُ بِكِلَيْهِمَا فَجَائِزَةٌ بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ، إِنْ شَاءَ الْمُصَلِّي يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِنْ شَاءَ وَضَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رُكْبَتَيْهِ، وَصَلَاتُهُ صَحِيحَةٌ فِي الْحَالَتَيْنِ، بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ.
’’دونوں طرح نماز جائز ہے، اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ نمازی چاہے پہلے گھٹنے رکھ دے یا پہلے ہاتھ رکھ دے، دونوں حالتوں میں اس کی نماز صحیح ہے، اس پر علما کا اتفاق ہے۔‘‘
(الفتاوى الكبرى : 187/2)

پہلے ہاتھ لگانا:

سجدہ کو جاتے ہوئے پہلے ہاتھ لگانا نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ، اس بارے میں مروی روایات کلام سے خالی نہیں ۔

❀ سید نا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكَ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ، وَلْبَضَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ.
’’جب آپ سجدہ کریں، تو اونٹ کی طرح مت بیٹھیں، بلکہ پہلے ہاتھ رکھیں، پھر گھٹنے ‘‘۔
(مسند الإمام أحمد : 381/2، سنن أبي داود : 840، سنن النسائي : 1092)
سند ضعیف ہے۔
محمد بن عبد اللہ بن حسن کا ابوالزناد سے سماع معلوم نہیں۔

❀ امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
لَا يُتابَعُ عَلَيْهِ وَلَا أَدْرِي سَمِعَ مِنْ أَبِي الزِّنَادِ أَمْ لَا .
اس روایت میں محمد بن عبد اللہ بن حسن کی متابعت نہیں کی گئی ، میں نہیں جانتا کہ اس نے ابوالزناد سے سماع کیا ہے یا نہیں ؟
(التاريخ الكبير : 139/1)

❀ امام حمزه بن محمد بن علی بن عباس کنانی ؒ (۳۵۷ھ) فرماتے ہیں:
هُوَ مُنْكَر
’’یہ روایت منکر ہے۔“
(فتح الباري لابن رجب : 218/7)

❀ علامہ ابن العربیؒ نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(عارضة الأحوذي : 61/2)

❀ سید نا عبد اللہ بن عمرؓ کے بارے میں ہے:
إِنَّهُ كَانَ يَضَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ وَقَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ .
’’آپؓ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھتے تھے، نیز فرماتے : نبی کریم ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔“
(صحیح ابن خزيمة : 627، سنن الدار قطني : 1303 ، المستدرك للحاكم : 226/١ واللفظ له)
سند ضعیف ہے۔
عبد العزیز بن محمد دراوردی کی عبید اللہ بن عمر عمری سے روایت میں کلام ہے، کیونکہ دراوردی کو اکثر عبید اللہ بن عمر سے روایت میں قلب ہو جا تا تھا اور وہ عبد اللہ بن عمرعمری کی روایت کو عبید اللہ بن عمر سے نقل کر دیتا تھا۔ عبد اللہ بن عمر عمری ضعیف ہے.
لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔

❀ امام احمد بن جنبلؒ فرماتے ہیں:
مَا حَدَّثَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَهُوَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ .
دراوردی نے جو روایات عبید اللہ بن عمر سے نقل کی ہیں،(ان میں اکثر و بیشتر) در اصل عبد اللہ بن عمر عمری سے ہیں۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 395/5، وسنده صحيح)

❀ امام ابوداود ؒ فرماتے ہیں:
رَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ .
’’عبد العزیز بن محمد دراوردی نے عبید اللہ بن عمر سے منکر روایات بیان کی ہیں۔“

❀ امام نسائی ؒ فرماتے ہیں:
حَدِيثُهُ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْن عُمَرَ مُنْكَر .
(تحفة الأشراف للمزي : 156/6)
’’دراوردی کی عبید اللہ بن عمر سے حدیث منکر ہوتی ہے۔“
(تهذيب الكمال للمزي : 194/18)

پہلے گھٹنے لگا نا :

سجدہ کو جاتے ہوئے گھٹنے لگانے کے حوالہ سے نبی کریم ﷺ سے کچھ ثابت نہیں ۔
اس بارے میں جتنی مرفوع یا موقوف روایات پیش کی جاتی ہیں، سب ضعیف و غیر ثابت ہیں ، روایات کی تفصیل ملاحظہ ہو؛

❀ سید نا وائل بن حجرؓ سے مروی ہے:
رَأَيْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ .
’’میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا، آپ ﷺ جب سجدہ کو جاتے ، تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنے لگاتے تھے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے ، تو گھٹنوں سے پہلے ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘
(سنن أبي داود : 838، سنن النسائي : : 1090، سنن الترمذي : 268، سنن ابن ماجه :٨٨٣)
سند ضعیف ہے۔
قاضی شریک بن عبد اللہ ضعیف و مدلس ہے۔

❀ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
لَمْ يَحْتَجَّ بِهِ أَكْثَرُ أَهْل العِلمِ بِالْحَدِيثِ .
’’اکثر محد ثین اس سے حجت نہیں پکڑتے۔“
(السنن الكبرى : 271/10)
حافظ نووی ؒ فرماتے ہیں:
قَدْ ضَعْفَهُ كَثِيرُونَ أَوِ الْأَكْثَرُونَ.
’’اسے کثیر یا اکثر محد ثین ضعیف قرار دیتے ہیں ۔‘‘
(الإيجاز، ص 378)

❀ علامہ عینی حنفی ؒ فرماتے ہیں:
قَدْ ضَعَّفَهُ الْأَكْثَرُونَ .
’’اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“
(شرح أبي داود : 260/1)

❀ امام بیہقی ؒ نے اس کی سند کو’’ ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(السنن الكبرى : 100/2)

❀ سید نا وائل بن حجر ؓ سے مروی ہے:
صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ وَكَانَ أَوَّلَ مَا وَصَلَ إِلَى الْأَرْضِ رُكْبَتَاهُ.
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کی ، آپ ﷺ نے سجدہ کیا ، تو آپ ﷺ کے جسم مبارک میں سب سے پہلے گھٹنے زمین پر لگے ۔ “
(السنن الكبرى للبيهقي : 99/2)
سند ضعیف ہے۔
➊محمد بن حجر حضرمی ضعیف ہے۔
➋اس نے اپنے چچا سعید بن عبد الجبار سے منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ روایت بھی سعید بن عبدالجبار سے ہے، لہذا روایت منکر ہے۔

❀ امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں:
يَرْوِي عَنْ عَمِهِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ بِنُسْخَةٍ مُنْكَرَةٍ … لَا يَجُوزُ الاحْتِجَاجُ بِه .
’’محمد بن حجر حضرمی نے اپنے چچا سعید بن عبد الجبار عن ابیہ عبد الجبار کی سند سے سید نا وائل بن حجر ؓ سے ایک منکر روایات پر مشتمل نسخہ نقل کیا ہے۔ اس کی حدیث سے حجت پکڑنا جائز نہیں۔‘‘
(كتاب المجروحين : 273/2)
➌سعید بن عبد الجبار ضعیف ہے۔
➍عبدالجبار بن وائل کی والدہ مجہولہ ہے۔

❀ علامہ ابن ترکمانی حنفیؒ فرماتے ہیں:
أُمَّ عَبْدِ الْجَبَّارِ هِيَ أَمْ يَحْىٰ لَمْ أَعْرِفْ حَالَهَا وَلَا اسْمَهَا .
’’عبد الجبار کی ماں اُم یحیٰی ہے، میں ام یحیٰی کے حالات نہیں جان نہیں پایا ، نہ مجھے اس کا نام معلوم ہوا ہے ۔‘‘
(الجوهر النفي : 30/2)

❀ سید نا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْتَدِى بِرُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَلَا يَبْرُكَ بُرُوكَ الفَحْل .
’’جب آپ میں سے کوئی سجدہ کرے تو وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے لگائے اور اونٹ کی طرح مت بیٹھے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شيبة :262/1 ، شرح معاني الآثار للطحاوي :255/1).
جھوٹی روایت ہے۔
[۱]عبد اللہ بن سعید مقبری ضعیف و متروک ہے۔

❀ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ .
’’اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔‘‘
(التلخيص الحبير : 69/1)

❀ نیز فرماتے ہیں:
إِسْنَادَهُ ضَعِيفٌ .
’’اس روایت کی سند ضعیف ہے۔“
(فتح الباري : 291/2)

❀ سید نا انس بن مالکؓ سے مروی ہے:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …. انْحَطَّ بِالتَّكْبِيرِ فَسَبَقَتْ رُكْبَتَاهُ يَدَيْهِ .
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو ( نماز پڑھتے) دیکھا۔ آپ ﷺ(سجدہ کے لیے) اللہ اکبر کہہ کر جھکے، تو آپ ﷺ کے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے (زمین پر) لگے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 345/1، المستدرك للحاكم : 266/1، البيهقي : 99/2)
سند سخت ضعیف ہے۔
➊علاء بن اسماعیل عطار مجہول ہے۔
➋حفص بن غیاث کا عنعنہ ہے۔

❀ اور امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں:
هذَا حَدِيثٌ مُنكَر .
’’یہ منکر حدیث ہے۔“
(علل الحديث لابن أبي حاتم : 539)

❀ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے:
كُنَّا نَضَعُ الْيَدَيْنِ قَبْلَ الرُّكْبَتَيْنِ، فَأُمِرْنَا بِالرُّكْبَتَيْنِ قَبْلَ الْيَدَيْنِ .
’’ہم ( سجدہ کو جاتے ہوئے ) گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھتے تھے، تو ہمیں ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنے کا حکم دیا گیا۔‘‘
(صحيح ابن خزيمة : 628)
باطل روایت ہے۔
➊ابراہیم بن اسماعیل بن یحیٰی ضعیف ہے۔
➋اسماعیل بن یحیٰی بن سلمہ متروک ہے۔
➌یحٰٰیٰی بن سلمہ بن کہیل متروک ہے۔

❀ سید نا عمر بن خطابؓ کے بارے میں ہے:
إِنَّهُ خَرَّ بَعْدَ رُكُوعِهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَمَا يَخِرُّ الْبَعِيرُ وَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ .
” آپؓ رکوع کے بعد ( سجدہ کو جاتے ہوئے ) گھٹنے کے بل اس طرح گرے، جیسے اونٹ گرتا ہے ۔ آپؓ نے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھے۔“
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 256/1)
سند ضعیف ہے۔
ابراہیم بن یزید نخعی کا عنعنہ ہے۔

❀ سید نا عبد اللہ بن عمرؓ کے بارے میں ہے:
إِنَّهُ كَانَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ إِذَا سَجَدَ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَفَعَ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ .
’’آپ ؓ جب سجدہ کرتے ، تو گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے تھے، جب سجدہ سے اٹھتے ، تو گھٹنوں سے پہلے ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شيبة : 262/1)
سند ضعیف ہے۔
محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی ضعیف ہے۔

❀ اس کی دوسری سند بھی ہے۔
(سنن أبي داود : 839)
سند ضعیف ہے۔
عبدالجبار بن وائل کا اپنے والد وائل بن حجرؓ سے سماع نہیں ۔

❀امام ابن سعد ؒ فرماتے ہیں:
يَتَكَلَّمُونَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ أَبِيهِ وَيَقُولُونَ لَمْ يَلْقَهُ .
’’محدثین عبدالجبار کی اپنے والد سید نا وائل بن حجرؓ سے روایت میں کلام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا اپنے والد سے لقا نہیں ۔‘‘
(طبقات ابن سعد : 310/6)

❀ حافظ نوویؒ فرماتے ہیں:
إِنَّ أَئِمَّةَ الْحَدِيثِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّ عَبْدَ الْجَبَّارِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ شَيْئًا .
’’ائمہ حدیث کا اتفاق ہے کہ عبدالجبار نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔“
(المجموع : 104/3)

❀ نیز حافظ نوویؒ نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ بھی کہا ہے۔
(المجموع : 446/3)
اس کی تیسری سند بھی ہے۔
(سنن أبي داود : 839، مراسيل أبي داود : 42)
سند ضعیف ہے۔
➊کلیب بن شهاب تابعی براه راست نبی کریم ﷺ سے بیان کر رہے ہیں، لہذا یہ مرسل ہے اور مرسل روایت ضعیف ہی کی ایک قسم ہے۔
➋شقیق ابولیث مجہول ہے۔

❀ الامام طحاوی حنفیؓ فرماتے ہیں:
شقِيقٌ أَبُو لَيْثٍ هَذَا فَلَا يُعْرَفُ .
’’شقیق ابولیث غیر معروف ہے۔‘‘
(شرح معاني الآثار : 255/1)

❀ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں ہے:
إِنَّ رَكْبَتَيْهِ، كَانَتَا تَقَعَانِ إِلَى الْأَرْضِ قَبْلَ يَدَيْهِ .
’’ آپؓ کے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر لگتے تھے۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 256/1)
سند ضعیف ہے۔
➊حجاج بن ارطاۃ ضعیف و مدلس ہے۔
➋ابراہیم نخعی کا عنعنہ ہے۔
➌ابراہیم نخعی کا سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ سے سماع نہیں ۔

❀ ابو اسحاق سبیعیؒ سے مروی ہے:
كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ إِذَا انْحَطُوا لِلسُّجُودِ وَقَعَتْ رُكَبُهُمْ قَبْلَ أَيْدِيهِمْ .
’’سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ کے شاگرد جب سجدہ کے لیے جھکتے، تو ان کے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر لگتے تھے ۔“
(مصنف ابن أبي شيبة :283/1)
سند ضعیف ہے۔
➊ابو معاویہ ضریر کا عنعنہ ہے۔
➋حجاج بن ارطاۃ ضعیف و مدلس ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: