سوال : بھاری بھر کم حق مہر اور شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ خاص طور پر ہنی مون کے متعلق کہ جس پر بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں، کیا شریعت اسے برقرار رکھتی ہے ؟
جواب : حق مہر اور شادی بیاہ کی تقریبات میں اسراف و تبذیر خلاف شرع ہے۔ اس لئے کہ کم خرچ شادی انتہائی بابرکت ہوتی ہے، اور خرچ جتنا کم ہو گا برکت اتنی زیادہ ہو گی ایسے معاملات کا تعلق عام طور پر عورتوں سے ہوتا ہے کیونکہ وہی مردوں کو زیاوہ اور بھاری مہر پر اکساتی ہیں، اگر کہیں سے کم مہر کی پیش کش ہو تو اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیتی ہیں کہ ہماری بیٹی کے لئے مہر تو اتنا اور اتنا ہونا چاہئیے۔ اسی طرح تقریبات پر اٹھنے والےکثیر اخراجات ہیں کہ شریعت ان سے بھی روکتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشار کے تحت آتے ہیں :
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ 6-الأنعام:141]
”فضول خرچی مت کرو یقیناً اللہ تعالیٰ فضول خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “
اور ایسی فضول خرچیوں پر بھی عام طور پر عورتیں ہی مردوں کو اکساتی ہیں اور کرتی ہیں کہ دیکھو جی ! فلاں کے پروگرام میں یہ کچھ ہوا، فلاں نے یہ کیا۔ ایسے معاملات میں یہ امرملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے کہ وہ شرعی انداز میں ہو، حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فضول خرچی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے، کیونکہ فضول خرچی منع ہے۔
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ 6-الأنعام:141]
”فضول خرچی مت کرو یقیناً اللہ تعالیٰ فضول خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “
باقی رہا ہنی مون کا معاملہ، تو یہ انتہائی بدترین اور قابل نفرت اور برا عمل ہے۔ یہ محض غیر مسلموں کی تقلید اور اموال کثیرہ کا ضیاع ہے، جبکہ دینی امور کا ضیاع اس کے علاوہ ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے غیر اسلامی ممالک میں منایا جائے، اس صورت میں نوبیاہتا جوڑے ایسی تباہ کن عادات و تقالید لے کر لوٹتے ہیں۔ جو خود ان کے لئے اور مسلم معاشرے کے لئے باعث خوف ہیں ہاں ! اگر کوئی انسان اپنی بیوی کے ساتھ مسجد نبوی کی زیارت یا عمرے کی ادائیگی کے لئے سفر کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔( بلکہ بہت بہتر ہے )۔