نیت کی خالصی اور ریاکاری: قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع وضاحت
عبادات کی قبولیت کا انحصار نیت کی خالصی پر ہے۔ جو عمل محض دکھاوے کے لیے کیا جائے، وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا، چاہے لوگ اس پر کتنی ہی تعریف کیوں نہ کریں۔ ریاکاری ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو نہ صرف عمل کو ضائع کر دیتی ہے بلکہ انسان کو جہنم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن و سنت کی روشنی میں نیت کی خالصی اور ریاکاری کے انجام پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
1. قرآن مجید کی واضح ہدایت: عبادت صرف اللہ کے لیے ہو
قرآن کا فرمان:
﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ﴾
ترجمہ: "اور اُنہیں حکم ہی یہی دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو خالص کر کے صرف اسی کے لیے۔”
[سورۃ البیّنہ: 5]
یہ آیت اس بات کو بالکل واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادت اسی وقت قبول ہوتی ہے جب وہ خالص نیت سے کی جائے، صرف اس کی رضا کے لیے۔
2. ریاکاری کرنے والے کا انجام (حدیث کی روشنی میں)
حدیث مبارکہ:
قال رسول الله ﷺ: "من سمَّعَ سمَّعَ اللهُ بهِ، ومن يُرائي يُرائي اللهُ بهِ”
"جو لوگوں کو سنانے (دکھانے) کے لیے عمل کرے، اللہ اس کی رسوائی کر دے گا، اور جو ریاکاری کرے، اللہ اس کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کر دے گا۔”
[صحيح البخاري: 6134، صحيح مسلم: 2987]
یہ حدیث بتاتی ہے کہ ریاکار کا عمل نہ صرف مردود ہوتا ہے بلکہ قیامت کے دن اس کے لیے باعثِ شرمندگی اور رسوائی بھی ہوگا۔
3. ریا کاری کو شرک قرار دینا (احادیث سے وضاحت)
حدیث مبارکہ:
قال رسول الله ﷺ: "أخوفُ ما أخافُ عليكم الشركُ الأصغرُ” قالوا: وما الشركُ الأصغرُ يا رسولَ اللهِ؟ قال: الرِّياءُ”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ چھوٹا شرک ہے۔” صحابہؓ نے پوچھا: "چھوٹا شرک کیا ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: "ریاکاری”
[مسند أحمد: 23630، صحيح الترغيب: 32]
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ ریا کاری چھوٹا شرک ہے، جس کا انجام انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔
4. ریاکار کے اعمال قیامت کے دن ضائع ہوں گے
حدیث مبارکہ:
قال رسول الله ﷺ: "إنَّ أوَّلَ الناسِ يُقضى يومَ القيامةِ عليه… رجلٌ تصدَّقَ فيُؤتَى به فيُعرِّفه نِعَمَه فيعرِفها، فيقولُ: فما عمِلتَ فيها؟ فيقولُ: ما ترَكتُ من سبيلٍ تُحبُّ أن يُنفَقَ فيها إلَّا أنفقتُ فيها لكَ، فيقولُ: كذبتَ، ولكنَّك أنفقتَ ليُقالَ: هو جوادٌ، فقد قيلَ، ثمَّ أُمرَ به فسُحِبَ على وجهِه حتَّى أُلقِيَ في النَّارِ…”
"قیامت کے دن سب سے پہلے جن لوگوں کا فیصلہ ہوگا ان میں وہ بھی ہوگا جس نے صدقہ کیا، لیکن دکھاوے کے لیے۔ اللہ کہے گا: ’تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے دیا تاکہ لوگ کہیں کہ ’کتنا سخی ہے‘، اور وہ کہہ دیا گیا، پھر اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔”
[صحيح مسلم: 1905]
یہ حدیث انتہائی عبرتناک ہے کہ کیسے ریاکار کے بظاہر نیک اعمال قیامت کے دن اسے ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں۔
5. نیت کا معیار (اعمال کی بنیاد نیت پر ہے)
حدیث مبارکہ:
قال رسول الله ﷺ: "إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئٍ ما نوى”
"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جو اُس نے نیت کی۔”
[صحيح البخاري: 1، صحيح مسلم: 1907]
یہ حدیث بتاتی ہے کہ نیت ہر عمل کی روح ہے۔ اگر نیت خالص نہ ہو تو وہ عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا، چاہے وہ قربانی ہو یا کوئی اور نیکی۔
6. معاشرتی بگاڑ: ریاکاری کا پھیلاؤ اور اس کی وجوہات
ریاکاری ایک روحانی بیماری ہے جو معاشرے میں مندرجہ ذیل نقصانات کا باعث بنتی ہے:
❀ خلوص کا خاتمہ کرتی ہے
❀ نیکیوں کو ضائع کر دیتی ہے
❀ اللہ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے
❀ اصل عبادت سے لوگوں کو دور کر دیتی ہے
یہ بیماری عام طور پر اس وقت پھیلتی ہے جب:
❀ لوگ دین کو صرف ظاہری نمائش سمجھتے ہیں
❀ علم دین سے دوری بڑھ جاتی ہے
❀ معاشرے میں شہرت اور تعریف کو اصل کامیابی سمجھا جاتا ہے
❀ اللہ کی رضا کا اصل مفہوم گم ہو جاتا ہے
نتیجہ: قربانی اور نیکی کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہونا چاہیے
اگر کوئی شخص قربانی یا کوئی نیکی اس لیے کرتا ہے کہ لوگ "واہ واہ” کریں یا وہ مشہور ہو جائے، تو اس کا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ ایسا شخص شرکِ اصغر میں مبتلا ہو جاتا ہے، جو اسے جہنم تک لے جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ صرف انہی اعمال کو قبول کرتا ہے جو خالص نیت کے ساتھ، صرف اس کی رضا کے لیے کیے جائیں۔