ریاست دین اور خلافت غامدی اور اصلاحی فکر کا تقابل
تحریر سید متین احمد

پس منظر: مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی فکری بنیادیں

مولانا حمید الدین فراہی اور ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی کی قرآنی فکر میں "تصورِ خلافت” پر خاص زور دیا گیا ہے۔ ان دونوں نے خلافت کو اسلامی ریاست کا مرکزی اصول قرار دیا، جسے قرآن اور سنت سے اخذ کیا گیا۔ مولانا اصلاحی نے اپنی تفسیر ”تدبرِ قرآن“ میں بھی اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تاہم، جاوید احمد غامدی صاحب، جو مولانا اصلاحی کے شاگرد ہیں، اپنے "جوابی بیانیے” میں اس تصور کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں اور کئی نکات پر اپنے استاذ سے اختلاف رکھتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی کا "جوابی بیانیہ”

جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے "جوابی بیانیے” میں اس تصور کی نفی کی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب ہو سکتا ہے یا اسے آئینی طور پر قرآن و سنت کی پابند بنایا جائے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ریاست کے لیے دینی وابستگی ضروری نہیں، اور قوانین کو اسلامی قرار دینے کے لیے کسی قراردادِ مقاصد یا آئینی اقدامات کی ضرورت نہیں۔

غامدی صاحب کا استدلال:

غامدی صاحب کے مطابق، نیشن اسٹیٹ کے موجودہ نظام میں قوانین کے ماخذ کو عوامی خواہشات کے تابع رکھا جانا چاہیے، اور ریاست کو ایک غیر مذہبی (سیکولر) کردار اپنانا چاہیے تاکہ قانون سازی زمینی حقائق کے مطابق ہو۔

تنقید:

غامدی صاحب کی یہ رائے اسلامی سیاسی فکر اور تاریخی اسلامی روایات سے مختلف ہے۔ مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے نزدیک خلافت نہ صرف ایک دینی اصطلاح ہے بلکہ اسلامی ریاست کا بنیادی اصول بھی ہے، جو اللہ کے احکام کو قانون سازی کا ماخذ قرار دیتا ہے۔

مولانا اصلاحی کی فکر: اسلامی ریاست اور قانون سازی

مولانا اصلاحی نے اپنی کتابوں ”اسلامی ریاست“، ”اسلامی قانون کی تدوین“ اور دیگر تحریروں میں اسلامی ریاست کے تصور کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:

خلافت اور ریاست کا فرق:

  • مولانا اصلاحی کے نزدیک "خلافت” ایک اسلامی ریاست کے لیے مخصوص اصطلاح ہے، جب کہ "ریاست” یا "حکومت” عمومی اصطلاحات ہیں۔ خلافت، اللہ کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے، جہاں قانون سازی صرف اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کے تحت ممکن ہے۔ (اسلامی ریاست، ص 16)

جمہوری اصول:

اسلامی خلافت میں جمہور کی نمائندگی کو تسلیم کیا جاتا ہے، اور شورائی نظام اس کی بنیاد ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی کی فکر میں جمہوریت اور اسلامی اصولوں کے درمیان تضاد نہیں۔

خدا کی حاکمیت:

اللہ کی حاکمیت ایک اختیاری نظام ہے، جو انسانوں کو دین پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ لیکن اگر ریاست اس حاکمیت کو نظر انداز کرتی ہے، تو یہ اللہ کے قانون کے خلاف ایک باغیانہ رویہ ہے۔ (اسلامی ریاست، ص 24)

قانون سازی کی حدود:

مولانا اصلاحی کے نزدیک، قانون سازی میں اصل اتھارٹی اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات ہیں۔ ریاست کو ایسا کوئی قانون بنانے کا اختیار نہیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔

جاوید احمد غامدی کے مؤقف کا تجزیہ

غامدی صاحب نے اپنے "جوابی بیانیے” میں پاکستان کے تناظر میں یہ نکتہ پیش کیا کہ ریاست کو کسی مذہبی آئینی پابندی کا پابند بنانا غیر ضروری ہے۔ ان کے خیال میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک نیشن اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں، لہذا قوانین کو اس کے مطابق بنایا جائے۔

زمینی حقائق اور نظریاتی تضاد:

غامدی صاحب نے قانون سازی کے معاملے میں عملی طور پر نیشن اسٹیٹ کے اصول اپنائے، لیکن ریاستی حکمرانوں کو دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا پابند کیا، جو کہ ایک نظریاتی تضاد کی صورت ہے۔

Perfectionist Fallacy:

غامدی صاحب کے نقطہ نظر میں "Perfectionist Fallacy” موجود ہے، یعنی نظریاتی طور پر وہ حکمرانوں سے دین کی مکمل پیروی کی توقع رکھتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ نیشن اسٹیٹ کے غیر مذہبی اصول کو اپناتے ہیں۔

مولانا اصلاحی کی سیاسی فکر اور ان کے اعتراضات

غامدی صاحب کے اس مؤقف کے برخلاف، مولانا اصلاحی کی فکر اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسلامی ریاست کو اللہ کے احکام کے تابع ہونا چاہیے۔ ان کی رائے میں، اگر ریاست کے قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق نہ بنایا جائے، تو اس کا نتیجہ لادینیت اور مغربی سیکولر قوانین کی بالادستی کی صورت میں نکلے گا۔

خلافت کے تصور پر اعتراضات اور ان کا جواب

  • کئی جدید حلقے خلافت یا اسلامی ریاست کے تصور کو "سیاسی اسلام” سے تعبیر کرتے ہیں، جو اخوان المسلمون یا جماعتِ اسلامی کے افکار سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔
  • تاہم، مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی فکر، ان جماعتوں کے سیاسی اثرات سے آزاد ہے۔

فراہی و اصلاحی فکر کا ماخذ:

مولانا اصلاحی کی فکر، قرآنی اصولوں اور اسلامی روایت پر مبنی ہے، جو اخوان یا جماعتِ اسلامی کے سیاسی نظریات سے مختلف ہے۔

اسلامی ریاست کی ضرورت:

مولانا اصلاحی کے نزدیک اسلامی ریاست ایک دینی فریضہ ہے، جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی دین کی بالادستی کو یقینی بناتی ہے۔

مولانا اصلاحی کی فکر کے نکات

  • خلافت اور امارت کے مفہوم الگ الگ ہیں، اور خلافت اسلامی ریاست کی بنیاد ہے۔ (اسلامی ریاست، ص 16)
  • اسلامی ریاست کا ڈھانچہ اصولوں پر مبنی ہے، اور اس میں جمہوریت کی نفی نہیں ہوتی۔ (اسلامی ریاست، ص 30)
  • قانون سازی میں اللہ اور رسول ﷺ کی ہدایات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ (اسلامی ریاست، ص 24)
  • اسلامی ریاست قوم، نسل یا وطن کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ (اسلامی ریاست، ص 19)

نتیجہ: غامدی فکر اور اصلاحی فکر کا خلاصہ

جاوید احمد غامدی صاحب کا مؤقف عملی طور پر نیشن اسٹیٹ کے اصولوں کو اپنانے کی حمایت کرتا ہے، جب کہ مولانا اصلاحی اسلامی ریاست کو دینی اصولوں کا پابند قرار دیتے ہیں۔ اس اختلاف نے ریاست، دین اور قانون کے اسلامی تصور پر ایک اہم فکری بحث کو جنم دیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے