ریاست اور مذہب کا تاریخی اور قانونی تجزیہ
تحریر: حافظ زبیر

تاریخی تناظر

قدیم ترین تہذیبوں میں مذہب اور ریاست کا گہرا تعلق رہا ہے۔ سمیری تہذیب (5500-4000 قبل مسیح) میں یہ تعلق واضح نظر آتا ہے۔ یہ روایت تمام قدیم تہذیبوں میں جاری رہی، یہاں تک کہ یونانیوں نے 500-300 قبل مسیح میں پہلی بار مذہب کو ریاست سے الگ کیا۔ اگرچہ تاریخی حقائق بذات خود دلیل نہیں ہوتے، لیکن وہ فریق مخالف کی حیرت کو کم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مزید یہ کہ تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسان کے اجتماعی شعور میں مذہب ہمیشہ ایک فطری تقاضا رہا ہے۔

عمرانی تناظر

معاشرتی ڈھانچے میں مذہب ایک بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے۔ سماجی ربط اور ہم آہنگی کے بغیر معاشرہ محض ایک ہجوم بن جاتا ہے۔ مذہب سماجی ربط قائم کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے، اور معاشرتی نظام کے بغیر ریاست کا تصور ممکن نہیں۔ فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست ایک مربوط سماجی نظام کے اجزاء ہیں۔

قانونی تناظر

کسی نظریہ یا آئیڈیالوجی کے بغیر ریاستی قانون پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ممکن نہیں۔ قانون تبھی مؤثر ہوگا جب وہ کسی نظریاتی بنیاد پر نافذ کیا جائے اور عوام اس نظریے کو قبول کریں۔ یہی نظریاتی بنیاد درحقیقت مذہب ہے۔ مذہب کے بغیر قانون نہ نافذ ہوسکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

نفسانی تناظر

انسانی شعور کی انفعالی قوت کی تسکین صرف مذہب کے ذریعے ممکن ہے۔ شعور کے لیے ایک خارجی اور مطمئن کرنے والے مصدر کی ضرورت ہے، جو مذہب فراہم کرتا ہے۔

عقلی تناظر

ریاست کے شہری اس کے اجزاء ہیں، اور ان اجزاء کا ایک مذہب سے وابستہ ہونا منطقی طور پر ضروری ہے۔ اگر شہری مذہب رکھتے ہوں لیکن ریاست نہ رکھے، تو یہ تضاد کا باعث بنتا ہے۔

جمالیاتی تناظر

ایک مثالی ریاست کے لیے جس عدل و انصاف کی ضرورت ہے، وہ انسان کے اندرونی نظام سے نہیں بلکہ کسی خارجی ذریعے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ عدل و خیر مذہب فراہم کرتا ہے۔

مذہبی تناظر

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیاوی اور اخروی فلاح کے لیے دینِ اسلام کی صورت میں ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کیا۔ یہ ضابطہ حیات دنیاوی مصالح کو عام انسانوں کے لیے اور اخروی نجات کو اہلِ ایمان کے لیے مہیا کرتا ہے۔ دین اسلام کے ذریعے اللہ نے انسان کے دین، جان، عقل، مال اور عزت کی حفاظت کا انتظام کیا ہے۔ خالق کا کردار محض نظریہ ساز (Theorizer) کا نہیں بلکہ وہ اپنے مخلوق کے لیے ایک فعال قاضی بھی ہے۔ دین کی تھیوری کو "شریعت” اور اس کے عملی نفاذ کے طریقے کو "منہاج” کہا گیا ہے۔

مخاطبین کی اقسام

  • مسلمان: ان کے لیے وحی علم کی بنیاد ہے۔ عقل کا کردار وحی کی تشریح اور وضاحت تک محدود ہے، جبکہ ایمان لانے کا اصل ذریعہ وحی ہی ہے۔
  • کفار: ان کے لیے دو دلائل استعمال کیے جاتے ہیں:
    • اخلاق کی قوت (جب مسلمان کمزور ہوں)
    • طاقت کی دلیل (جب مسلمان طاقتور ہوں)

مسلمانوں کی حکومت اسلامی کیوں ہو؟

سید مودودی کے بقول، یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف انفرادی زندگی تک محدود ہے، عقلی طور پر ناقابل قبول ہے۔ اگر اللہ انسان کا خالق، مالک اور حاکم ہے، تو یہ ممکن نہیں کہ اس کی عملداری صرف انفرادی زندگی تک محدود ہو، اور اجتماعی زندگی اس سے آزاد ہو جائے۔ اجتماعی زندگی میں خدا کی رہنمائی سے انکار ایک بغاوت کے مترادف ہے۔

مودودی لکھتے ہیں:

"یہ تصور کہ افراد تو خدا کے بندے ہوں لیکن جب وہ مل کر معاشرہ بنائیں تو خدا کے بندے نہ رہیں، سراسر غیر معقول اور پاگل پن ہے۔ اگر زندگی کے کسی بھی اجتماعی شعبے میں ہمیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت نہیں، تو پھر خدا کو ماننے کی بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔”
(مغربی تہذیب کے فاسد اصول، سید مودودی)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے