رہن سے فائدہ اٹھانے کا شرعی حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

زمین کے مقابلے میں رہن سے فائدہ اٹھانا
جس نے کسی کو کوئی قرض دیا تو اس کے لیے قرض لینے والے پر یہ شرط عائد کرنا جائز نہیں کہ وہ قرض کے مقابلے میں نفع لے گا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہر وہ قرض جو فائدہ لائے، سود ہوتا ہے۔“ [ضعيف۔ ضعيف الجامع، رقم الحديث 4244]

علماء کرام کا اس پر اجماع ہے۔ سوال میں جو یہ ذکر کیا گیا ہے کہ قرض دینے والا مقروض سے زمین بطور گروی رکھ لیتا ہے اور جب تک وہ قرض ادا نہیں کرتا وہ اس سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے، یہ بھی اس قسم میں داخل ہے، اسی طرح اگر اس کے ذمے اس کا قرض ہوتا تو قرض دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مقروض کو مہلت دینے کے بدلے زمین کا غلہ لے یا اس سے فائدہ اٹھائے کیونکہ رہن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ قرض یا ادھار لینے کو دستاویزاتی شکل دی جائے اور قرض ملنے کی یقین دہانی ہو جائے نہ کہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرض کے بدلے میں یا قرض ادا کرنے میں سستی کے مقابلے میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔
[اللجنة الدائمة: 17393]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1