روايت ما بال أقوام طعنوا فى علمي بہ لحاظ سند کیسی ہے؟
شمارہ السنہ جہلم

جواب: اسماعیل بن عبد الرحمن سدی رحمہ للہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عرضت على أمتي فى صورها فى الطين كما عرضت على آدم ، وأعلمت من يؤمن بي ومن يكفر بي ، فبلغ ذالك المنافقين ، فقالوا استهزاء: زعم محمد أنه يعلم من يؤمن به ومن يكفر ممن لم يخلق بعد ، ونحن معه وما يعرفنا ، فبلغ ذالك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقام على المنبر فحمد الله وأثنى عليه ، ثم قال: ما بال أقوام طعنوا فى علمي لا تسألوني عن شيء فيما بينكم وبين الساعة إلا أنبأتكم به
”مجھ پر میری امت اپنے اپنے خمیر کی صورت میں پیش کی گئی ، جیسا کہ سیدنا آدم علیہ السلام پر پیش کی گئی تھی ، مجھے بتا دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا ۔ منافقوں کو پتہ چلا ، تو مذاق اڑاتے ہوتے کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی ہے کہ وہ ان کے بھی ایمان و کفر کے متعلق جانتا ہے ، جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ، جب کہ ہم تو اس کے پاس ہی ہیں ، ہمیں نہیں جانتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی ،تو فورا منبر پر براجمان ہوئے ، اللہ کی حمدوثنا کی اور فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا؟ میرے علم پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ، اب سے قیامت تک کے کسی معاملے کے متعلق پوچھ لیں ، بتاؤں گا ۔ “ [ تفسير البغوى: ٥٤٦/١]
تبصرہ :
جھوٹ ہے ۔
➊ ابو طیب محمد بن عبداللہ بن مبارک شعیری کے حالات زندگی نہیں ملے ۔
➋ سدی تابعی ہیں ، براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: