رزق حلال سے متعلق صحیح احادیث

تحریر کا پی ڈی ایف لنک

رزق حلال

رب العالمین نے اپنے پیارے رسولوں سے ہم کلام ہوکر فرمایا:
اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک اعمال کرو۔ (المؤمنون:۵۱)

اس آیت کریمہ کی تشریح میں حافظ ابن کثیر الدمشقی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
اللہ تعالیٰ اپنے (خاص) بندوں : رسولوں علیہم الصلوۃ السلام کو حکم دیتا ہے کہ حلال کھائیں اور نیک اعمال کرتے رہیں لہذا معلوم ہوا کہ رزق حلال عمل صالح پر مددگار ہے۔ انبیاء کرام علیہم نے اس ارشاد پر اکمل ترین طریقے سے عمل کیا اور قول عمل ، دلالت اور خیر خواہی کی ہر بھلائی کو اکٹھا کر لیا۔ اللہ انھیں سب بندوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ (تفسیر القرآن العظیم ج ۱۰ ص ۱۲۶)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے لوگو! اللہ پاک ہے اور صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے، بے شک اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اُس نے رسولوں کو حکم دیا۔

اللہ نے فرمایا:
اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک اعمال کرو، بے شک تم جو کچھ کرتے ہو، میں اُسے خوب جانتا ہوں۔ (المؤمنون: ۵۱)

اور اللہ نے فرمایا:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ﴾
اے ایمان لانے والو! میں نے تمھیں جو رزق دیا ہے، اس میں سے پاک چیزیں کھاؤ۔ (البقرہ:۱۷۲)

پھر آپ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، بکھرے میلے بالوں والا ، اس پر گرد و غبار ہے۔ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب ! اور اس کا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے، لباس حرام ہے اور حرام پر وہ پلا ہوا ہے (اس کی غذا حرام ہے ) تو اس کی دعا کس طرح قبول ہوگی؟
(صحیح مسلم: ۱۰۱۵ متر قیم دارالسلام: ۲۳۴۶)

معلوم ہوا کہ اللہ کے دربار میں حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ جو لوگ ڈاکے ڈالتے ہیں ، چوریاں اور فراڈ کرتے ہیں ، رشوت کھاتے ہیں، امانت میں خیانت کرتے ہیں، پرایا مال مثلاً قرض واپس نہیں کرتے اور دوسروں کا مال و دولت ہڑپ کرنے کے لئے ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں، وہ کس حالت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہوں گے؟ کیا کوئی ایسی طاقت ہے جو انھیں اللہ کی عدالت اور آخرت کی رسوائی سے بچالے گی ؟! اہل سنت کے مشہور ثقہ امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے آیت مذکورہ بالا کی تشریح میں فرمایا: یعنی حلال کھاؤ جسے اللہ نے تمھارے لئے پاک قرار دیا اور حرام نہ کھاؤ۔
(تفسیر ابن جر میرج ۱۸ص ۲۲)

صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور موطا امام مالک سے پرانی اور حدیث کی قدیم ترین مطبوعہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ (وكان لا يأكل إلا من عمل يديه) اور ( داودؑ) صرف اپنے ہاتھ کی کمائی میں سے ہی کھاتے تھے۔ (صحیفہ ہمام بن منبه : ۴۷، نیز دیکھئے صیح بخاری ۲۰۷۳)

سید نا عثمان بن عفانؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
اور چھوٹے(نابالغ غلام ) کو کمائی لانے پر مجبور نہ کرو، کیونکہ جب اسے کچھ نہیں ملے گا تو وہ چوری کرے گا اور تم بھی معاف کرو جس طرح اللہ نے تمھیں معاف کر رکھا ہے اور ایسا طعام کھاؤ جو حلال ہو۔
(موطا امام مالک ج ۲ ص ۹۸۱ ح ۱۹۰۴، وسنده صحیح)

ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
يأتي على الناس زمان لا يبالي المرء ما أخذ منه ، أمن الحلال أم من الحرام ؟
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو پروا نہیں ہوگی ، اُس کے پاس جو کچھ آ رہا ہے، وہ حلال میں سے ہے یا حرام میں سے؟
(صحیح بخاری: ۲۰۵۹)

یعنی سب کچھ ہڑپ کرتا جائے گا اور اس کے دل میں کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔

بہت سے ایسے بد نصیب لوگ ہیں جو مناسب اور گزارے کا مال و دولت ہونے کے باوجود دوسرے لوگوں کے ہاتھوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور جھوٹ سچ ملاکر مبالغہ کرتے ہوئے اپنی مجبوریاں بیان کر کے زکوۃ اور صدقات وغیرہ وصول کرتے جاتے ہیں۔
حالانکہ یہ لوگ سرے سے اس کے مستحق ہی نہیں ہوتے ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی آدمی جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنی پیٹھ پر لے آئے، یہ اُس کے لئے بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی سے سوال کرے پھر وہ اُسے
کچھ دے دے یا نہ دے۔ (صحیح بخاری :۲۰۷۴۰ صحیح مسلم :۱۰۴۲)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہترین کھانا کبھی نہیں کھایا۔ دیکھئے (صحیح بخاری ۲۰۷۲)

سیدنا فضالہ بن عبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خوش خبری ہے اُس شخص کے لئے جسے اسلام کی ہدایت نصیب کی گئی ، ضرورت کے مطابق رزق دیا گیا اور اس نے اس پر قناعت کی یعنی صبر کیا۔
(سنن ترندی: ۲۳۴۹ وسند و حسن و صحه الترندی وابن حبان : ۴۱ ۲۵ والحاکم علی شرط مسلم ۳۴٫۱ و وافقه الذہبی)

حافظ ابن حبانؒ نے فرمایا :
قناعت دل میں ہوتی ہے لہذا جس کا دل غنی ہے تو اس کے ہاتھ غنی بن جاتے ہیں، اور جس کا دل محتاج ہے تو اُس کی (ظاہری) بے نیازی اُسے فائدہ نہیں دیتی۔ جو شخص قناعت کو اختیار کرتا ہے تو وہ کسی چیز کی پروا نہیں کرتا اور امن و اطمینان سے زندگی بسر کرتا ہے۔ الخ ( روضتہ العتقلا مس ۱۵۱)

ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ (سورة الطلاق:۳)

یاد رہے کہ جس چیز کے بارے میں شبہ ہو جائے کہ یہ حلال ہے یا حرام ؟ تو اُس سے بھی بچنا چاہئے ۔ (صحیح بخاری ۵۲)(صحیح مسلم ۱۵۹۹)

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہر انسان کو ایمان کی نعمت نصیب فرمائے اور ہمارے ایمان میں اضافہ ہی اضافہ فرمائے ، رزق حلال عطا فرمائے اور حرام سے بچائے۔ ہر اُس چیز سے ہمیں دور رکھے جو کتاب وسنت کے خلاف ہو یا شک وشبہ والی ہو۔اے اللہ! ہمیں قناعت اور توکل نصیب فرما اور ہماری ساری خطائیں معاف فرما دے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل