36- ذی روح اشیا کی تصویروں کی خرید و فروخت
ذی روح اشیا کی خرید و فروخت حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع حرام قرار دی ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2236 صحيح مسلم 1581/71]
یہ تصویریں ان کے اہل خانہ اور ماننے والوں میں غلو پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ نیز یہ ان (تصویروں والوں) کی محبت میں غلو کا سبب بھی بن سکتی ہے، جس طرح حضرت نوح علیہ کی قوم میں یہ پیدا ہو گیا تھا۔
صحیح بخاری میں اس آیت:
«وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا» [نوح: 23]
”اور انہوں نے کہا تم ہگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ود کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔“
کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
”یہ قوم نوح کے نیک لوگوں کے نام ہیں، جب یہ ہلاک ہو گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ان جگہوں پر، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے، ان کے بت نصب کر دیں اور انہیں ان کا نام دے دیں، انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی پوجا نہیں کی جاتی تھی، جب یہ لوگ ہلاک ہو گئے اور علم مٹ گیا تو ان کی پوجا شروع ہو گئی۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 4920]
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری نصوص ہیں جو تصویر کی حرمت اور ذی روح اشیا کی تصویریں استعمال کرنے کی ممانعت میں وارد ہوئی ہیں۔
یہ تو ان کے متعلق تھا جو ذی روح اشیا کی شکل پر ہیں، رہیں وہ چیزیں جن پر ذی روح اشیاء کی تصویریں ہوں، جیسے: سونے، چاندی کے سکے، کاغذ کی کرنسی، کوئی کپڑا، کوئی آلہ وغیرہ، اگر تو یہ اشیا لوگوں کے ہاں اس طرح متداول ہوں کہ انہیں دیواروں پر آویزاں کیا جائے، جس میں ان کی تحقیر پہلو نہ نکلے تو ان کا لین دین حرام ہے کیونکہ تصویر کی حرمت اور ذی روح اشیا کے استعمال کی ممانعت میں یہ بھی شامل ہیں، اگر کسی چیز پر تصویر ہو اور اس کی تحقیر کی جاتی ہوں، جس طرح کوئی ایسا آلہ جس سے کوئی چیز کاٹی جائے، کوئی چٹائی جیسے پاؤں تلے روندا جاتا ہے، یا کوئی سرہانہ جس پر سر رکھ کر آرام کیا جاتا ہے تو یہ جائز ہے، کیونکہ صحیحین میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک پردہ لگایا جس میں تصویریں تھیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار دیا۔ [صحيح مسلم 2107/95]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اس کے دو ٹکڑے کر کے دوسرہانے بنا دیے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے، مسند احمد میں ہے:
«قطعته مرفقتين، فلقد رأيته متكئا على إحداهما، وفيها صورة» [مسند أحمد 247/6]
”میں نے اس کو کاٹ کر دو تکیے بنا دیے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے ایک پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا ہے جبکہ اس پر تصویرتھی۔“
اس بات کا علم ہو جانے کے بعد کہ ذی روح اشیا کی تصویر حرام ہے۔ گزشتہ دلائل کے پیش نظر انہیں کام کے سلسلے میں بنانا جائز ہے نہ کپڑوں وغیرہ ہی پر لگانا درست ہے۔ [اللجنة الدائمة: 1974]
ذی روح اشیا کی خرید و فروخت حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع حرام قرار دی ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2236 صحيح مسلم 1581/71]
یہ تصویریں ان کے اہل خانہ اور ماننے والوں میں غلو پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ نیز یہ ان (تصویروں والوں) کی محبت میں غلو کا سبب بھی بن سکتی ہے، جس طرح حضرت نوح علیہ کی قوم میں یہ پیدا ہو گیا تھا۔
صحیح بخاری میں اس آیت:
«وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا» [نوح: 23]
”اور انہوں نے کہا تم ہگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ود کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔“
کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
”یہ قوم نوح کے نیک لوگوں کے نام ہیں، جب یہ ہلاک ہو گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ان جگہوں پر، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے، ان کے بت نصب کر دیں اور انہیں ان کا نام دے دیں، انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی پوجا نہیں کی جاتی تھی، جب یہ لوگ ہلاک ہو گئے اور علم مٹ گیا تو ان کی پوجا شروع ہو گئی۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 4920]
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری نصوص ہیں جو تصویر کی حرمت اور ذی روح اشیا کی تصویریں استعمال کرنے کی ممانعت میں وارد ہوئی ہیں۔
یہ تو ان کے متعلق تھا جو ذی روح اشیا کی شکل پر ہیں، رہیں وہ چیزیں جن پر ذی روح اشیاء کی تصویریں ہوں، جیسے: سونے، چاندی کے سکے، کاغذ کی کرنسی، کوئی کپڑا، کوئی آلہ وغیرہ، اگر تو یہ اشیا لوگوں کے ہاں اس طرح متداول ہوں کہ انہیں دیواروں پر آویزاں کیا جائے، جس میں ان کی تحقیر پہلو نہ نکلے تو ان کا لین دین حرام ہے کیونکہ تصویر کی حرمت اور ذی روح اشیا کے استعمال کی ممانعت میں یہ بھی شامل ہیں، اگر کسی چیز پر تصویر ہو اور اس کی تحقیر کی جاتی ہوں، جس طرح کوئی ایسا آلہ جس سے کوئی چیز کاٹی جائے، کوئی چٹائی جیسے پاؤں تلے روندا جاتا ہے، یا کوئی سرہانہ جس پر سر رکھ کر آرام کیا جاتا ہے تو یہ جائز ہے، کیونکہ صحیحین میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک پردہ لگایا جس میں تصویریں تھیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار دیا۔ [صحيح مسلم 2107/95]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اس کے دو ٹکڑے کر کے دوسرہانے بنا دیے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے، مسند احمد میں ہے:
«قطعته مرفقتين، فلقد رأيته متكئا على إحداهما، وفيها صورة» [مسند أحمد 247/6]
”میں نے اس کو کاٹ کر دو تکیے بنا دیے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے ایک پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا ہے جبکہ اس پر تصویرتھی۔“
اس بات کا علم ہو جانے کے بعد کہ ذی روح اشیا کی تصویر حرام ہے۔ گزشتہ دلائل کے پیش نظر انہیں کام کے سلسلے میں بنانا جائز ہے نہ کپڑوں وغیرہ ہی پر لگانا درست ہے۔ [اللجنة الدائمة: 1974]