دو مرد باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو بعد میں آنے والا مرد مقتدی کو پیچھے کر لے
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب صف بندی کے احکام و مسائل سے لیا گیا ہے۔

دو مردوں کی جماعت میں تیسرے مرد کی شمولیت :

دو مرد باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو بعد میں آنے والا مرد مقتدی کو پیچھے کھینچ لے گا یا جگہ کی مناسبت سے امام کو آگے کر دے گا :
سیدنا جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
ثم جئت حتى قمت عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخذ بيدي ، فأدارني حتى أقامني عن يمينه، ثم جاء جبار بن صخر فتوضأ ، ثم جاء فقام عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدينا جميعا، فدفعنا حتى أقامنا خلفه .

’’(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے) میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کر پیچھے سے گھماتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ اس کے بعد جبار بن صخر رضی الله عنه آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو پیچھے کر دیا ۔‘‘

(صحیح مسلم : 3010)

محاذات کا مسئلہ :

مردوں کی صفوں کے بعد عورتوں کی صفیں ہوتی ہیں۔ عورت یا عورتوں کو نماز کے لیے مر دیا مردوں کے برابر کھڑا نہیں ہونا چاہیے، لیکن اگر کسی مجبوری کی بنا پر یا غلطی سے ایسا ہو جائے ، تو نماز باطل نہیں ہوتی، کیوں کہ اس پر کوئی دلیل نہیں۔
بعض مذاہب میں محاذات کی چند صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ جو کہ درج ذیل ہیں :
◈عورت کا امام کے آگے یا برابر ہونا ، اس سے امام اور اس عورت اور تمام مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
◈عورت کا امام اور مقتدی مردوں کی صف کے درمیان میں یا مقتدی مردوں کی صفوں کے درمیان میں کھڑا ہونا ، اس صورت میں ایک عورت اپنے پیچھے والی صرف پہلی صف کے محاذی ایک مرد کی نماز فاسد کرے گی اور دو عورتیں صرف پیچھے والی پہلی صف کے دو محاذی مردوں کی نماز فاسد کریں گی اور تین عورتیں پیچھے والی تمام صفوں کے تین تین محاذی مردوں کی نماز فاسد کریں گی اور تین سے زیادہ عورتیں صف تام کے حکم میں ہونے کی وجہ سے پیچھے والی تمام صفوں کے تمام آدمیوں کی نماز فاسد کریں گی۔
ایک یا دو عورتیں آگے ہونے کی صورت میں اگر ان کے اور مردوں کے درمیان سترہ بقدر ایک ہاتھ حائل ہوگا تو مانع فساد ہو گا۔ اس سے کم مانع فساد نہیں۔ اور تین یا زیادہ عورتیں آگے ہونے کی صورت میں سترہ حائل ہونے کا اعتبار نہیں اور فسادِ نماز کا حکم بدستور برقرار رہے گا۔
◈عورتوں کا مردوں کی صف میں کھڑا ہونا، پس ایک عورت تین آدمیوں کی نماز فاسد کرے گی۔ ایک اپنے دائیں اور ایک ہا ئیں اور ایک پیچھے والی پہلی صف کے اپنی سیدھ والے آدمی کی اور دو عورتیں چار آدمیوں کی یعنی ایک دائیں اور ایک بائیں اور دو پیچھے والی پہلی صف کے اپنی سیدھ والے دو آدمیوں کی نماز فاسد کریں گی۔ اور تین عورتیں ایک ایک دائیں بائیں والے آدمی کی اور پیچھے والی ہر صف کے تین تین محازی آدمیوں کی آخر صفوں تک نماز فاسد کریں گی اور تین سے زیادہ عورتیں دائیں اور بائیں والے ایک ایک آدمی کی اور پیچھے والی تمام صفوں کے تمام آدمیوں کی نماز فاسد کریں گی۔
◈ایک ہی صف میں ایک طرف آدمی ہو اور ایک طرف عورتیں ہوں اور ان کے درمیان میں کوئی حائل نہ ہو ، تو صرف اس ایک آدمی کی نماز فاسد ہوگی، جو عورت کے متصل محازی ہوگا اور باقی آدمیوں کی نماز درست ہو جائے گی، کیوں کہ یہ آدمی باقی آدمیوں اور عورتوں کے درمیان بمنزلہ سترہ ہو جائے گا۔
◈قدر آدم یا زیادہ اونچا چبوترہ یاسائباں یا بالا خانہ وغیرہ ہے اور اس کے اوپر مرد ہیں اور نیچے ان کے محاذی عورتیں ہیں یا اس کے برعکس یعنی عورتیں اوپر ہیں اور نیچے ان کے محاذی مرد ہیں، تو یہ قد آدم اونچائی مانع فساد نماز ہو جائے گی اور مردوں کی نماز فاسد نہ ہوگی۔ قد آدم سے کم اونچائی مانع فساد نہ ہوگی ۔
(فتاوی دار العلوم زکریا از مفتی رضاء الحق : 276/2)

یہ ایسا الجھاؤ ہے، جس کی کوئی توجیہ قرآن وحدیث سے ہو سکتی ہے، نہ عقل سلیم سے۔ بلادلیل نماز کو باطل قرار دینا ،شریعت کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ (۸۵۲ھ ) لکھتے ہیں :
إن المرأة لا تصف مع الرجال، وأصله ما يخشى من الافتتان بها، فلو خالفت أجزأت صلاتها عند الجمهور، وعن الحنفية تفسد صلاة الرجل دون المرأة، وهو عجيب، وفي توجيهه تعسف، حيث قال قائلهم : دليله قول ابن مسعود : أخروهن من حيث أخرهن الله، والأمر للوجوب، وحيث ظرف مكان، ولا مكان يجب تأخرهن فيه إلا مكان الصلاة، فإذا حاذت الرجل؛ فسدت صلاة الرجل، لأنه ترك ما أمر به من تأخيرها، وحكاية هذا تغني عن تكلف جوابه، والله المستعان، فقد ثبت النهي عن الصلاة في التوب المعصوب، وأمر لابسه أن ينزعه، فلو خالف فصلى فيه ولم ينزعه؛ أيم وأجزأته صلاته، فلم لا يقال في الرجل الذي حاذته المرأة ذلك؟

’’عورت مردوں کے ساتھ صف میں کھڑی نہیں ہوگی، کیوں کہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے۔ عورت اس حکم شرعی کی مخالفت کرے (اور مردوں کے برابر کھڑی ہو جائے)، تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس کی نماز ہو جائے گی، احناف کہتے ہیں عورت کی نماز ، تو ہو جائے گی ، البتہ مرد کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ یہ بہت عجیب فتوئی ہے۔ اس کی توجیہ میں بھی بعض لوگوں نے تکلف سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی دلیل ابن مسعود رضی الله عنه یہ فرمان ہے کہ عورتوں کو پیچھے رکھو، جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیچھے رکھا ہے۔ یہ حکم وجوب کے لیے ہے اور ’’حیث‘‘ ظرف مکان ہے۔ نماز کے علاوہ کوئی مقام ایسا نہیں، جہاں عورتوں کو پیچھے رکھنے کا حکم دیا گیا ہو۔ جب عورت مرد کے برابر کھڑی ہو جائے تو مرد کی نماز فاسد ہو جاتی کیوں کہ اس نے عورت کو پیچھے کرنے والے حکم پر عمل نہیں کیا۔ اس فتوے کو نقل کر دینا ہی کافی ہے، چہ جائے کہ اس کا جواب دینے کی زحمت کی جائے۔ ہم ایسی باتوں سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد چاہتے ہیں۔ غصب شدہ کپڑے میں نماز پڑھنا ممنوع ہے اور اسے کپڑے اتار دینے کا حکم ہے، لیکن اگر وہ اس حکم کی مخالفت میں اس کپڑے میں نماز پڑھ لے تو گناہ ہو گا مگر اس کی نماز ہو جائے گی۔ جب یہ ہے تو اس شخص کی نماز کو درست قرار کیوں نہیں دیا جاتا ، جس کے برابر میں ایک عورت خود آکر کھڑی ہو جائے؟

(فتح الباري : 212/2)

جن مذاہب کے مطابق اس صورت میں نماز نہیں ہوتی ، انہوں نے بھی اسے بعض مواقع پر جائز قرار دے رکھا ہے۔ مثلا:
مسجد حرام اور مسجد نبوی میں محاذات (عورتوں کے مردوں کے برابر ہونے) کے باوجود علما اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
ملاعلی قاری (م : 1014 ھ) لکھتے ہیں :
لا دلالة فيه على إبطال الصلاة حال المحاذاة .

’’اس میں محاذات کی صورت میں نماز کے باطل ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔‘‘
(شرح النقاية :204/1)
مفتی رضاء الحق صاحب، دار العلوم زکریا، جنوبی افریقا لکھتے ہیں :

’’مفتی اعظم پاکستان، ہمارے استاذ محترم، حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ بھی حرم میں محاذات کے باوجود نماز کی صحت کا فتوی دیتے تھے۔‘‘

فائدہ :

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنه سے منسوب ہے :
أجروهن حيث أخرهن الله.

(فتاوی دار العلوم زکریا : 281/2)
’’ان عورتوں کو پیچھے رکھو، جیسے اللہ نے انہیں پیچھے رکھا ہے۔‘‘
(مصنف عبد الرزاق : 149/3 ، ح : 5115، صحیح ابن خزيمة : 1700 ، المعجم الكبير للطبراني : 295/9، ح : 9484، 9485، المطالب العالية لابن حجر : 391)

سند سلیمان بن مہران اعمش کے عنعنہ کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اس کا مرفوع ہونا بے اصل ہے:
امام ابن خزیمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
الخبر موقوف غير مسند.

’’یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ۔‘‘

(صحیح ابن خزيمة، تحت الحديث : 1700)

علامہ زیلعی لکھتے ہیں :
حديث غريب مرفوعا .

’’اس حدیث کا مرفوع ہونا تعجب خیز ہے۔‘‘

(نصب الراية : 36/2)

علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں :
لم يثبت رفعه فضلا عن كونه من المشاهير .

’’اس کا مشہور ہونا تو درکنار، مرفوع ہونا بھی ثابت نہیں۔‘‘

(فتح القدير : 360/1)

علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں :
هذا غير سرفوع.

’’یہ حدیث مرفوع نہیں ۔‘‘

(البناية في شرح الهداية : 342/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے