بعض دوسرے کھیلوں کا حکم
سوال: دومینو (یہ ایک طرح کی گیم ہے جس میں لکڑی یا پلاسٹک کے چوکور ٹکڑے استعمال ہوتے ہیں جن کی ایک سائیڈ خالی ہوتی ہے اور دوسری سائیڈ پر مختلف سیاہ نقطے ہوتے ہیں) شطرنج، گولیاں (بنٹے) نرونج، ڈھول (لڈو) موتی جوڑنا، جوکر کارڈ کا کیا حکم ہے؟
جواب: جن کھیلوں کا ذکر ہوا ہے انہیں کھیلنا حرام ہے۔ اگر یہ شرط لگا کر اور کوئی معاوضہ طے کر کے کھیلی جائیں تو کبیرہ گناہوں اور قمار بازی میں شار ہوں گی۔ امام ابو عمر بن عبد البر کا قول ہے:
”علما کا اجماع اور اتفاق ہے کہ کسی معاوضے کی بنیاد پر شطرنج کھیلنا جوا ہے جو جائز نہیں۔“
اسی طرح اگر مذکورہ کھیلوں کے کھیلنے کے نتیجے میں کسی واجب کا ترک ہو جائے تو یہ حرام ہوں گی، جیسے نماز میں وقت سے تاخیر، والدین، بیوی اور دیگر افراد خانہ کے حقوق کا ضیاع یا یہ کھیل بغض و عداوت، لڑائی، جھگڑے اور گالی گلوچ جیسے حرام کام میں مبتلا کرنے کا سبب بن جائیں، خواہ شرط کے بغیر ہی ہوں تب بھی حرام ہوں گے، لیکن اگر کھیل کو ان تمام کاموں سے دور رکھا جائے پھر بھی صحیح قول کے مطابق یہ حرام ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو شطرنج کھیل رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ کیا بت ہیں جن پر تم جمے ہوئے ہو؟ اس طرح انہوں نے ان کو بتوں پر مجاور بننے والوں کے ساتھ تشبیہ دی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی اسے کھیلنے سے منع کرنا منقول ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد اور ان تمام کے اصحاب بھی اس کی حرمت کے قائل ہیں کیونکہ شطرنج اور اس جیسے کھیل بعد میں ایسے کھیلوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جنھیں معاوضے اور (شرط) کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، خواہ فی الحال یہ معاوضے سے خالی ہی ہوں۔ علاوہ ازیں غالباً یہ کھیل فرائض سے غافل کر دیتے ہیں، لڑائی جھگڑے، گالی گلوچ کا سبب بنتے ہیں، بغض و عداوت جنم دیتے ہیں اور نماز اور ذکر الہی سے روک دیتے ہیں۔ اگر انسان کسی قائدانہ منصب کا حامل ہو، جیسے: کوئی داعی دین، جماعت حسبہ کارکن، امام یا خطیب مسجد یا ان سے کسی اعلی یا ادنی منصب پر فائز شخص تو اس کے لیے برائی سے اجتناب کرنا اور واجبات کا اہتمام کرنا زیادہ لازمی ہے، کیونکہ ایسا آدمی دوسروں کے لیے نمونہ ہوتا ہے اور قابل اتباع۔
[اللجنة الدائمة: 4010]