دورنگی
تحریر : حافظ ندیم ظہیر

ہمارا معاشرہ روز بروز زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ پر فتن اور پرخطر ہے۔ ہر کوئی دو کشتیوں کا سوار نظر آتا ہے اور دل میں یہ آرزو سمائے ہوئے ہے کہ میرا ایمان بھی برقرار رہے اور اعتدال پسند، روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرے [Society] میں میری عزت [Respect] بھی بحال رہے۔ اگر میں روشن خیالی کی رو میں بہہ کر اپنی ذاتی زندگی میں کوئی تبدیلی لاؤں مثلاً ڈاڑھی شیو کروں، شلوار، پاجامے سے لڑکیوں کی طرح اپنے ٹخنے ڈھانپ لوں یا گھریلو زندگی میں تبدیلی [Change] آ جائے جیسے کیبل، نیٹ، ڈش انٹینا، وی سی آر وگیرہ کا بے دریغ استعمال اور بیوی، بہن، بیٹی کو بے پردہ بازار یا مخلوط پارکوں میں سیر و تفریح کی غرض سے لے جانا، گھر میں غیر محرم حضرات کا بلا جھجک آنا جانا (کیونکہ ان کے نزدیک روشن خیالی کا تقاضا ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ قدم بقدم چلیں !) تو کوئی اسلام پسند مجھے یہ نہ کہہ دے کہ یہ خلافت شریعت ہے اور اگر میں کبھی کبھار نماز یا جمعہ پڑھ لوں تو کوئی اعتدال پسند مجھے مُلا، انتہا پسند ”مسیتڑ“ نہ کہہ دے بس اس کے درمیان زندگی کی گاری چلتی رہے۔ یہ مختصر سا خاکہ ایسے حضرات کا ہے جو دنیا، معاشرہ، برادری و قبیلہ کے تقاضے تو یاد رکھتے ہیں لیکن قرآن و حدیث کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً
’’ اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔“ [ 2-البقرة:208]
”آدھا تیتر آدھا بٹیر“ والی زندگی اللہ تعالیٰ کو قطعاً پسند نہیں یا پھر شریعت کی جو بات طبیعت و معاشرہ کے موافق ہو اس پر عمل کرنا اور جو اس کے برعکس ہو تو اسے ترک کر دینا یہ بھی عند اللہ مذموم کام ہے۔

✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ [ 2-البقرة:85]
”کیا تم کتاب کے بعض احکام مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ بھلا جو لوگ ایسے کام کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں اور قیامت کے دن وہ سخت عذاب کی طرف دھکیل دیئے جائیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں۔“ [البقره : 85]

❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سب سے برا وہ شخص ہے جس کے دو چہرے ہوتے ہیں، وہ لوگوں میں سے کسی کے سامنے ایک چہرے سے اور کسی اور کے سامنے دوسرے چہرے سے جاتا ہے۔ [ مسلم : 2526بعد ح 2604و ترقيم دارالسلام : 6630، و مؤطا امام مالك : 2؍991ح 1930]

دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا
[وما علینا إلا البلاغ]

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے