سوال : نماز میں ہمیں مختلف وسوسے آتے رہتے ہیں ان سے نماز کی صحت پر اثر پڑتا ہے یا نماز باطل ہو جاتی ہے ؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب : نماز کے اندر وسوسے اور خیالات کے آنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
صليت وراء النبى صلى الله عليه وسلم بالمدينة العصر، فسلم ثم قام مسرعا فتخطى رقاب الناس إلى بعض حجر نسائه، ففزع الناس من سرعته فخرج عليهم فراى انهم عجبوا من سرعته، فقال:” ذكرت شيئا من تبر عندنا فكرهت ان يحبسني فامرت بقسمته [ بخاري، كتاب الاذان،باب من صلى بالناس فذكر حاجة فتخطاهم 851 ]
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز ادا کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جلدی سے گھبرا گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ آپ کی جلدی پر تعجب کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے یاد آ گیا تھا کہ ہمارے گھر میں سونے کی ایک ڈلی ہے، میں نے ناپسند کیا کہ وہ مجھے روک رکھے، میں نے اس کی تقسیم کا حکم دیا ہے۔ “
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی حالت میں کسی چیز کی یاد آئے یا کوئی خیال آ جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
اسی طرح سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
قال عثمان بن ابي العاص رضى الله عنه، يا رسول الله، إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا احسسته فتعوذ بالله منه، واتفل على يسارك ثلاثا "، قال: ففعلت ذلك فاذهبه الله عني [مسلم، كتاب السلام، باب التعوذ من شيطان الوسوسة فى الصلاة 5738 ]
” سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! شیطان میرے اور میری نماز اور قرأت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور مجھ پر قرأت خلط ملط کر دیتا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس شیطان کا نام خنزب ہے۔ جب اس کا اکسانا محسوس کرو تو (دورانِ نماز) ”اعوذ باللہ“ پڑھو اور دائیں طرف تین مرتبہ تھوکو۔ “ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مجھ سے دور کر دیا۔ “
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں اپنا لشکر روانہ کرتا ہوں حالانکہ میں نماز میں ہوتا ہوں۔ “ [ نيل الأوطار 383/2 ]
یعنی بعض اوقات نماز کے دوران میرا خیال لشکر کی تیاری کی طرف پلٹ جاتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قال النبى صلى الله عليه وسلم:” إن الله تعالي تجاوز لي عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل او تكلم [بخاري، كتاب العنق : بَابُ الْخَطَإِ وَالنِّسْيَانِ فِي الْعَتَاقَةِ 2528 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے وہ خیالات و وساوس جو ان کے سینوں میں پیدا ہوتے ہیں، معاف کر دیے ہیں، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان خیالات کے ساتھ کلام نہ کر لیں۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شیطان نماز کے اندر وسوسے ڈالتا ہے لہٰذا جب کسی شخص کو نماز میں کوئی خیال آئے یا وسوسہ پیدا ہو تو وہ اعوذ بالله پڑھ کر بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے، اللہ تعالیٰ اس سے یہ وسوسہ دور فرما دیں گے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وسوسہ اور خیال آ جانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ انسان کو حالتِ نماز میں ان خیالات کو دور کر کے اپنی پوری توجہ نماز کی طرف مبذول کر دینی چاہیے تاکہ پورے انہماک اور دھیان سے نماز ادا کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے صحیح طور پر مناجات ہو، البتہ جتنا دھیان نماز میں کم ہوتا ہے، اتنا ثواب کم ہو جاتا ہے جیسا کہ دیگر صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے۔