دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں دنیا اور آخرت کا موازنہ
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

یہ مضمون دراصل دنیا اور آخرت کے باہمی تقابل پر مبنی ہے، جس میں قرآنِ مجید کی آیاتِ مبارکہ اور رسول اکرم ﷺ کی صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دنیا اپنی تمام تر زیب و زینت، چمک دمک اور عارضی خوشحالی کے باوجود آخرت کے مقابلے میں نہایت حقیر، فانی اور بے حیثیت ہے، جبکہ آخرت دائمی، باقی رہنے والی اور حقیقی کامیابی کا مقام ہے۔
اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا کی عارضی حقیقت کو پہچانے، اس کے فریب میں مبتلا نہ ہو، اور اپنی زندگی کو آخرت کی تیاری کے لیے استعمال کرے۔ دنیا کو اصل منزل سمجھنے کے بجائے ایک عارضی گزرگاہ سمجھے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں وقت گزارے۔

دنیا کی حقیقت اور آخرت کے مقابلے میں اس کی حیثیت

محترم قارئین!
دنیا اپنی تمام تر زینتوں، خوبصورتیوں اور رعنائیوں کے باوجود آخرت کے مقابلے میں انتہائی حقیر ہے اور اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے دنیا اور آخرت کے باہمی فرق کو نہایت بلیغ مثال کے ساتھ واضح فرمایا۔

حدیثِ نبوی ﷺ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعَہُ هٰذِهِ – وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ – فِی الْیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ ))
📚 صحیح مسلم: 2858

ترجمہ:
“آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی یہ (شہادت کی) انگلی ڈالے، پھر دیکھے کہ وہ انگلی کتنے پانی کے ساتھ باہر آئی ہے۔”

حدیث کے دو اہم مفاہیم

دنیا کی عمر کی قلت
اس حدیث کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جیسے انگلی پر لگا ہوا پانی بہت جلد خشک ہو جاتا ہے، اسی طرح دنیا کی زندگی بھی بہت جلد ختم ہو جانے والی ہے، جبکہ سمندر کا پانی باقی رہتا ہے، اسی طرح آخرت کی نعمتیں بھی ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں۔

یہ حدیث اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کی عمر چاہے ہزاروں سال کیوں نہ ہو، آخرت کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہے، بالکل ایسے ہی جیسے انگلی پر لگا ہوا پانی سمندر کے پانی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

قیامت کے دن دنیا کی حقیقت

قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جب کفار قیامت کے دن کی ہولناکیوں کو دیکھیں گے تو انہیں دنیا کی زندگی محض چند لمحوں پر مشتمل محسوس ہوگی۔

آیتِ قرآنی

﴿ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا ﴾
📚 النازعات 79:46
ترجمہ:
“جب وہ قیامت کو دیکھیں گے تو انہیں ایسا محسوس ہوگا جیسے وہ دنیا میں بس ایک شام یا ایک صبح ہی ٹھہرے تھے۔”

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ﴾
📚 الأحقاف 46:35
ترجمہ:
“جس دن وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس سے انہیں ڈرایا جاتا تھا تو انہیں یوں محسوس ہوگا جیسے وہ دنیا میں دن کی صرف ایک گھڑی ٹھہرے تھے۔”

اور فرمایا:
﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ﴾
📚 یونس 10:45
ترجمہ:
“اور جس دن اللہ انہیں جمع کرے گا تو انہیں ایسا لگے گا جیسے وہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی ہی رہے ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے میں مشغول ہوں گے۔”

ان آیاتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی عمر خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، آخرت کے مقابلے میں صرف ایک لمحے کے برابر ہے۔

نصیحت

لہٰذا عقل مند انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس قلیل وقت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارے، تاکہ آخرت میں دائمی نعمتوں سے سرفراز ہو سکے۔

دنیا کی قلت اور آخرت کی وسعت
حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انگلی پر لگا ہوا پانی دنیا ہے اور باقی سمندر آخرت ہے۔ یعنی دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل، محدود اور فانی ہے، جبکہ آخرت بے حد وسیع، عظیم اور لامحدود ہے، ایسی کہ جس کا تصور بھی انسانی عقل سے ماورا ہے۔

اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنت کی صرف چوڑائی ہی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔

آیتِ قرآنی

﴿ وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴾
📚 آلِ عمران 3:133
ترجمہ:
“اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔”

آخرت کی عظمت اور جنت کی نعمتیں

قرآنِ مجید کی متعدد آیات اور رسول اکرم ﷺ کی صحیح احادیث اس حقیقت کو کھول کر بیان کرتی ہیں کہ آخرت کی نعمتیں دنیا کے مقابلے میں نہ صرف کہیں زیادہ ہیں بلکہ اپنی کیفیت، وسعت اور دوام کے اعتبار سے بے مثال ہیں۔

جنت کی وسعت کا بیان

اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
﴿ سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهِ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴾
📚 الحدید 57:21

ترجمہ:
“اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے، جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔”

جب جنت کی چوڑائی ہی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے تو اس کی لمبائی اور اس کی نعمتوں کا اندازہ انسانی عقل سے بالاتر ہے۔

جنت کے ایک چھوٹے سے حصے کی فضیلت

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(( مَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ))
📚 صحیح البخاری: 6415

ترجمہ:
“جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے، اور اللہ کے راستے میں صبح یا شام نکلنا بھی دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بہتر ہے۔”

یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جنت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی پوری دنیا اور اس کے تمام خزانے، آسائشیں اور لذتوں سے کہیں زیادہ قیمتی اور بہتر ہے۔

دنیا کی زندگی کی ناپائیداری

دنیا نہ صرف آخرت کے مقابلے میں حقیر ہے بلکہ خود اپنی ذات میں بھی نہایت عارضی اور تیزی سے ختم ہونے والی ہے۔

دنیا کی مثال کھیتی کی مانند

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾
📚 یونس 10:24

ترجمہ:
“دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس سے زمین کی وہ نباتات خوب گھنی ہو گئیں جن سے انسان اور جانور کھاتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اپنی پوری رونق پر آ گئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب وہ اس پر پورا اختیار رکھتے ہیں، تو اچانک رات یا دن ہمارے حکم نے اسے آ لیا اور ہم نے اسے یوں کاٹ کر رکھ دیا جیسے کل یہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اسی طرح ہم غور و فکر کرنے والوں کے لیے آیات کھول کر بیان کرتے ہیں۔”

یہ مثال واضح کرتی ہے کہ جس طرح کھیتی ایک وقت میں سرسبز اور شاداب نظر آتی ہے اور پھر اچانک تباہ ہو جاتی ہے، اسی طرح انسان کی زندگی بھی جوانی، طاقت اور خوشحالی کے بعد اچانک موت کے ذریعے ختم ہو جاتی ہے۔

دنیا کی حقیقت: کھیل، تماشا اور فریب

اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:
﴿ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ … وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾
📚 الحدید 57:20

ترجمہ:
“خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل، تماشا، زینت، آپس میں فخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کا نام ہے… اور دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔”

یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ دنیا کی ظاہری چمک دمک دھوکے کے سوا کچھ نہیں، جو انسان کو آخرت سے غافل کر دیتی ہے۔

دنیا کی حقارت: احادیث کی روشنی میں

مردہ بکری کے بچے کی مثال
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بازار سے گزرے اور ایک مردہ بکری کے بچے کو دیکھا، جس کے کان چھوٹے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(( فَوَاللّٰهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ هٰذَا عَلَيْكُمْ ))
📚 صحیح مسلم: 2957

ترجمہ:
“اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ تمہارے نزدیک حقیر ہے۔”

مچھر کے پر سے بھی کم حیثیت
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(( لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِندَ اللّٰهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى الْكَافِرَ مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ ))
📚 جامع الترمذی: 2320، وصححہ الألبانی

ترجمہ:
“اگر دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔”

دنیا ایک فتنہ ہے

دنیا کی ظاہری چمک دمک، اس کی لذتیں اور آسائشیں درحقیقت ایک بڑا امتحان اور فتنہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت کو بار بار دنیا کے فتنوں سے خبردار فرمایا۔

حدیثِ نبوی ﷺ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(( إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللّٰهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاءِ ))
📚 صحیح مسلم: 2742

ترجمہ:
“بے شک دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اور اللہ تمہیں اس میں جانشین بنانے والا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہٰذا دنیا سے بچتے رہو اور عورتوں کے فتنے سے بھی بچتے رہو، کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں ہی کے بارے میں تھا۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ دنیا بذاتِ خود بری نہیں، بلکہ اس سے پیدا ہونے والا فتنہ انسان کو اللہ سے غافل کر دیتا ہے۔

دنیا میں اجنبی اور مسافر کی طرح رہنے کی تلقین

نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ تعلیم دیا کرتے تھے کہ دنیا کو اصل گھر نہ سمجھو بلکہ ایک عارضی گزرگاہ سمجھ کر رہو۔

حدیثِ نبوی ﷺ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
(( كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ ))
📚 صحیح البخاری: 6416

ترجمہ:
“دنیا میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی ہو یا راستہ چلتا ہوا مسافر۔”

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود فرمایا کرتے تھے:
(( إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ ))
📚 صحیح البخاری، کتاب الرقاق: 6416

ترجمہ:
“جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو، اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو، اور اپنی تندرستی سے بیماری کے لیے (نیک اعمال) جمع کر لو، اور اپنی زندگی سے موت کے لیے (زادِ راہ) تیار کر لو۔”

حدیث کے مفہوم کی وضاحت

مسند احمد میں اسی حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
(( كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَعُدَّ نَفْسَكَ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ ))
📚 الصحیحۃ للألبانی: 1157

ترجمہ:
“دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔”

اجنبی انسان کا کوئی مستقل گھر نہیں ہوتا اور مسافر راستے میں کہیں عارضی قیام کرتا ہے مگر اس کا دل منزل پر لگا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح مومن کا دل بھی آخرت کی منزل پر ہونا چاہیے۔

امام نووی رحمہ اللہ کی تشریح

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
( لَا تَرْكَنْ إِلَى الدُّنْيَا، وَلَا تَتَّخِذْهَا وَطَنًا، وَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْبَقَاءِ فِيهَا، وَلَا تَتَعَلَّقْ مِنْهَا بِمَا لَا يَتَعَلَّقُ بِهِ الْغَرِيبُ فِي غَيْرِ وَطَنِهِ )

ترجمہ:
“دنیا کی طرف مت جھکو، اسے اپنا وطن نہ بناؤ، اس میں ہمیشہ رہنے کی آرزو نہ کرو، اور اس کی ان چیزوں سے دل نہ لگاؤ جن سے کوئی اجنبی اپنے وطن سے باہر دل نہیں لگاتا۔”

دنیا سے حد سے زیادہ وابستگی کی ممانعت

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(( لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا ))
📚 جامع الترمذی: 2328، وصححہ الألبانی

ترجمہ:
“بڑے بڑے مال و جائیداد مت بناؤ کہ کہیں تم دنیا ہی کی طرف مائل نہ ہو جاؤ۔”

اس حدیث کا مقصد دنیاوی ذرائع کو حرام قرار دینا نہیں، بلکہ حد سے زیادہ مشغول ہو کر دین سے غافل ہو جانے سے بچانا ہے۔

دنیا سے کم لینے اور آخرت کی فکر کی ترغیب

دنیا کے فتنے سے بچنے کا ایک مؤثر طریقہ یہ ہے کہ انسان دنیا سے ضرورت کے مطابق لے اور دل کو اس کا اسیر نہ بنائے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس معاملے میں سب سے بڑھ کر محتاط تھے۔

ایک صحابی کا واقعہ

ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ابو ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گئے، تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
“ماموں جان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا درد کی وجہ سے یا دنیا کے لالچ کی وجہ سے؟”

انہوں نے فرمایا:
“دنیا کے لالچ کی وجہ سے نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں نے اس عہد کی پوری پاسداری نہیں کی۔ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہارے لیے پورے مال میں سے ایک خادم اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے ایک سواری کافی ہے، جبکہ آج مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں نے اس سے زیادہ مال جمع کر لیا ہے۔”
📚 جامع الترمذی: 2327، وصححہ الألبانی

یہ روایت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مومن دنیا میں کم پر قناعت کرے اور اصل فکر آخرت کی رکھے۔

رسول اکرم ﷺ کی دنیا سے بے رغبتی

نبی کریم ﷺ خود دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت تھے، حالانکہ اگر آپ ﷺ چاہتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کی تمام آسائشیں عطا فرما دیتا۔

چٹائی پر سونے کا واقعہ

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پر سوئے، پھر جب آپ ﷺ اٹھے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشانات پڑ گئے تھے۔
ہم نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ! اگر ہم آپ کے لیے ایک بستر بنا دیں؟”

تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(( مَالِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا ))
📚 جامع الترمذی: 2377، وصححہ الألبانی

ترجمہ:
“مجھے دنیا سے کیا تعلق! میں تو دنیا میں اس سوار کی طرح ہوں جو کسی درخت کے نیچے تھوڑی دیر سستانے کے لیے ٹھہرتا ہے، پھر اسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔”

قیصر و کسریٰ اور نبی ﷺ کا زہد

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ سے ملنے گئے، تو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک چٹائی پر تشریف فرما ہیں، سر کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے، اور پہلو پر چٹائی کے نشانات ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔

آپ ﷺ نے فرمایا:
“عمر! کیوں روتے ہو؟”

انہوں نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ عیش و عشرت میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہو کر اس حال میں ہیں!”

تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(( أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ ))
📚 صحیح البخاری: 4913، صحیح مسلم: 1479

ترجمہ:
“کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟”

یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دل میں دنیا کی کوئی محبت نہ تھی، بلکہ آپ ﷺ کا مطمحِ نظر صرف آخرت تھی۔

آخرت کے لیے عمل کی اہمیت

چونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے، اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اپنی محنت اور جدوجہد کا اصل مرکز آخرت کو بنائے۔

قرآنِ مجید کی رہنمائی

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ۝ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴾
📚 الأعلىٰ 87:16-17

ترجمہ:
“بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی۔”

اسی طرح فرمایا:
﴿ وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۖ وَمَا عِندَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾
📚 القصص 28:60

ترجمہ:
“تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟”

آخرت کی نعمتیں کن لوگوں کے لیے ہیں؟

قرآنِ مجید نے یہ حقیقت بار بار واضح کی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں جو دائمی اور عظیم نعمتیں ہیں وہ ہر ایک کے لیے نہیں بلکہ مخصوص صفات کے حامل بندوں کے لیے ہیں۔

آیتِ قرآنی

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا عِندَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴾
📚 الشوریٰ 42:36

ترجمہ:
“تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی۔”

پھر فرمایا کہ یہ دائمی نعمتیں کن لوگوں کے لیے ہیں:
﴿ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴾
📚 الشوریٰ 42:36

ترجمہ:
“یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔”

اہلِ ایمان کی مزید صفات

اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے:
﴿ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ ۝ وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴾
📚 الشوریٰ 42:37-38

ترجمہ:
“اور وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔ اور وہ جو اپنے رب کے حکم کو قبول کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں، اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ آخرت کی کامیابی ایمان، تقویٰ، عبادت، حسنِ اخلاق اور اللہ پر توکل کے ساتھ وابستہ ہے، نہ کہ دنیاوی مال و دولت کے ساتھ۔

دنیاوی خواہشات کا فتنہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے دنیا کی کئی چیزوں کو خوش نما بنا دیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیا جائے۔

آیتِ قرآنی

﴿ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ﴾
📚 آلِ عمران 3:14

ترجمہ:
“لوگوں کے لیے خواہشات کی محبت مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں، بیٹے، سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے، عمدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتیاں۔”

پھر ان سب کی حقیقت واضح کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ﴾
📚 آلِ عمران 3:14

ترجمہ:
“یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے، اور بہترین ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔”

ان سب سے بہتر چیز

اللہ تعالیٰ انسان کو متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿ قُلْ أَأُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَٰلِكُمْ ۚ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ ﴾
📚 آلِ عمران 3:15

ترجمہ:
“کہہ دیجیے! کیا میں تمہیں ان سب سے بہتر چیز کی خبر نہ دوں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی رضامندی حاصل ہو گی۔”

دنیا پرستی کا انجام

جو لوگ دنیا میں نفسانی خواہشات میں ڈوب کر اللہ کے دین سے غافل رہتے ہیں، ان کے بارے میں قرآن خبردار کرتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب وہ پچھتائیں گے اور دنیا میں واپسی کی تمنا کریں گے، مگر وہ موقع دوبارہ نہ ملے گا۔

آیاتِ قرآنی

﴿ وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ۝ وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ۝ أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللّٰهِ… ﴾
📚 الزمر 39:54-58

ترجمہ:
“اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے تابع ہو جاؤ اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ جائے، پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔ اور اس بہترین چیز کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے، اس سے پہلے کہ اچانک تم پر عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی جان کہنے لگے: ہائے افسوس! میں نے اللہ کے حق میں کتنی کوتاہی کی، اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا… یا یہ کہے: کاش اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں متقیوں میں سے ہوتا… یا جب عذاب دیکھے تو کہے: کاش مجھے ایک اور موقع مل جائے تو میں نیک لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔”

جنت کی نعمتوں کی وسعت: سب سے نچلا اور سب سے اعلیٰ درجہ

آخرت کی نعمتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنت میں سب سے نچلے درجے والے جنتی کو بھی ایسی بادشاہت عطا کی جائے گی جو دنیا کے بڑے بادشاہوں کی سلطنت سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔

حدیثِ نبوی ﷺ

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا:
اے میرے رب! جنت میں سب سے نچلے درجے والا جنتی کیسا ہوگا؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ شخص ہوگا جو جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد آئے گا۔ اس سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ۔
وہ کہے گا: اے میرے رب! میں کیسے داخل ہو جاؤں جبکہ سب لوگ اپنے اپنے گھر لے چکے ہیں اور اپنے انعامات پا چکے ہیں؟

اس سے کہا جائے گا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کی سلطنت کے برابر سلطنت دے دی جائے؟
وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں۔

اللہ فرمائے گا: میں نے تمہیں اس جیسی ایک سلطنت، پھر اس جیسی ایک اور، پھر اس جیسی ایک اور، پھر اس جیسی ایک اور، پھر اس جیسی ایک اور عطا کی۔
وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہو گیا۔

اللہ فرمائے گا:
(( هٰذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، وَلَكَ مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ وَلَذَّتْ عَيْنُكَ ))

“یہ (سب) تمہارے لیے ہے اور اس کے دس گنا مزید بھی، اور تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جو تمہارا دل چاہے اور جس سے تمہاری آنکھیں لذت پائیں۔”

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب! سب سے اعلیٰ درجے والے جنتی کیسے ہوں گے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(( أُولٰئِكَ الَّذِينَ أَرَدْتُّ، غَرَسْتُ كَرَامَتَهُمْ بِيَدِي، وَخَتَمْتُ عَلَيْهَا، فَلَمْ تَرَ عَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَىٰ قَلْبِ بَشَرٍ ))
📚 صحیح مسلم، کتاب الإیمان: 189

ترجمہ:
“یہ وہ لوگ ہیں جنہیں میں نے خود منتخب کیا، ان کی عزت اپنے ہاتھ سے لگا دی اور اس پر مہر لگا دی، ان کے لیے وہ نعمتیں ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔”

اسی حقیقت کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:
﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ ﴾
📚 السجدہ 32:17

ترجمہ:
“کوئی جان نہیں جانتی کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کون سی نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔”

سب سے آخری جنتی کا واقعہ

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(طویل حدیث جس میں سب سے آخری جنتی کا جنت میں داخل ہونا، درختوں کے سائے کی درخواست، اور آخرکار دنیا اور اس جیسی مزید دس دنیاؤں کے برابر نعمتیں عطا کیے جانے کا ذکر ہے)
📚 صحیح مسلم: 2807

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ جنت کی ادنیٰ نعمت بھی دنیا کی تمام تر خوشحالی سے کہیں بڑھ کر ہے۔

دوسرا خطبہ: دنیا کی خوشحالی اور تنگی کی حقیقت

رسول اکرم ﷺ نے دنیا اور آخرت کے فرق کو ایک اور مثال سے واضح فرمایا:

حدیثِ نبوی ﷺ

(( يُؤْتَىٰ بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا وَاللّٰهِ يَا رَبِّ ))

“دنیا کے سب سے زیادہ نعمتوں والے شخص کو (جو اہلِ جہنم میں سے ہوگا) لایا جائے گا، پھر اسے جہنم میں ایک لمحہ ڈبو دیا جائے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا: کیا تم نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی تھی؟
وہ کہے گا: نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے رب!”

اور پھر فرمایا:

(( وَيُؤْتَىٰ بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُصْبَغُ فِي الْجَنَّةِ صَبْغَةً، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ مَرَّ بِكَ بُؤْسٌ قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا وَاللّٰهِ يَا رَبِّ ))
📚 صحیح مسلم: 2807

ترجمہ:
“دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال جہنمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں ایک لمحے کے لیے ڈبو دیا جائے گا، پھر پوچھا جائے گا: کیا تم نے کبھی کوئی خوشحالی دیکھی تھی؟ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب!
اور دنیا کے سب سے زیادہ تنگ حال جنتی کو لایا جائے گا، جنت میں ایک لمحے کے لیے ڈبو دیا جائے گا، پھر پوچھا جائے گا: کیا تم نے کبھی کوئی تنگی دیکھی تھی؟ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب!”

دنیا مومن کے لیے قید خانہ

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
( اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ )
📚 صحیح مسلم: 2956

ترجمہ:
“دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔”

چار قسم کے لوگ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ ))

“بے شک دنیا چار طرح کے لوگوں ہی کے لیے ہے۔”

📚 جامع الترمذی: 2325، وصححہ الألبانی

پھر چار اقسام بیان فرمائیں:
➊ وہ جسے اللہ نے مال اور علم دیا اور وہ صحیح استعمال کرتا ہے — افضل درجہ
➋ وہ جسے علم دیا مگر مال نہیں، مگر نیت نیک ہے — برابر اجر
➌ وہ جسے مال دیا مگر علم نہیں — بدترین درجہ
➍ وہ جسے نہ علم نہ مال ملا مگر بری نیت رکھتا ہے — برابر گناہ

یہ حدیث ہر شخص کو خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے۔

دنیا اور آخرت کے درمیان توازن

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ﴾
📚 القصص 28:77

ترجمہ:
“جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے آخرت کا گھر تلاش کرو، اور دنیا سے اپنا حصہ مت بھولو۔”

نتیجہ

دنیا کا فریب وقتی ہے اور آخرت کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں۔
جو شخص دنیا کی خاطر آخرت کو قربان کرے، وہ بد نصیب ہے، اور جو دنیا کو آخرت کے تابع رکھے، وہی اصل کامیاب ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کے فتنے سے محفوظ رکھے، آخرت کی تیاری کی توفیق دے، اور جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے