دلوں کو نرم کر دینے والی چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی (کتاب کا پی ڈی ایف لنک)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ، وَعَلَى آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ أَجْمَعِيْنَ، وَبَعْدًا
بَابُ مَثلِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ

دنیا اور آخرت کی مثال کا بیان

قَالَ اللهُ تعالىٰ: وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ [الحديد: ٢٠]
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر سامان دھو کے کا۔‘‘
(۱) ((وَعَنْ أَنَسِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : يَتبَعُ الْمَيِّتَ ثلاثَةٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلَهُ وَمَالَهُ وَعَمَلُهُ فيُرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عَمَلَهُ .)) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٥١٤ – صحیح مسلم، رقم: ٢٩٦٠/٥]
’’ سید نا انسؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فوت ہونے والے انسان کے ساتھ تین قسم کے مال جاتے ہیں (ان میں سے ) دو واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک مال اس کے ساتھ رہتا ہے (چنانچہ ) اس کے ساتھ جانے والے اس کے اہل وعیال، اس کا مال اور اس کے اعمال ہوتے ہیں جبکہ اہل وعیال اور مال تو واپس آ جاتے ہیں اور اعمال اس کے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘
باب قول النبي ﷺ : كُن في الدُّنْيَا كَانَكَ غَرِيبٌ أو عَابِرُ سبیل

دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو جیسے تم مسافر ہو

(۲) (عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْكِبِي فَقَالَ: كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلِ ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا نننظرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنتَظِرِ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صحتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤١٦.
❀ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑ کر ارشاد فرمایا:
دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستے پر چلنے والے ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرمایا کرتے تھے۔ شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو۔ تندرستی کی حالت میں وہ عمل کرو جو بیماری کے دنوں میں کام آئیں اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔‘‘
بَابٌ فِي الْأَمَلِ وَطُولِهِ

آرزو کی رسی کا دراز ہونا

قال الله تعالىٰ: ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا [الحجر: ٣]
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں کہ کھا پی لیں اور مزے اڑالیں۔‘‘
((وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ارْتَحَلَتِ الدُّنْيَا مُدْبِرَةً ، وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا، فَإِنَّ الْيَوْمَ عَمَل وَلا حِسَابَ، وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ . ))
❀ ’’حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ارشاد فرمایا:
دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آ رہی ہے۔ ان دونوں ( دنیا و آخرت) میں سے ہر ایک کے طالب ہیں۔ تم آخرت کے طلب گار بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو۔ بلاشبہ آج عمل کا موقع ہے حساب نہیں اور کل حساب ہو گا عمل کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘
(۳) ((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: خَطَّ النَّبِيُّ خَطَّا مُرَبَّعًا، وَخَطَ خَطَّا فِي الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْهُ، وَخَطَ خُطَطًا صِغَارًا إِلَى هَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ ، مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي فِي الْوَسَطِ فَقَالَ: هَذَا الْإِنْسَانُ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ – أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِهِ – وَهَذَا الَّذِى هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ، وَهَذِهِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ، هَذَا وَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤١٧ .
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مربع خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان سے ایک اور خط کھینچا جو مربع خط سے باہر نکلا ہوا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے درمیانے اندرونی خط کے دائیں بائیں دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مزید خط کھینچے پھر ارشاد فرمایا:
یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ خط جو باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے۔ چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ اگر انسان ایک مشکل سے بچ کر نکل جاتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے۔
اور اگر دوسری سے لکھتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔‘‘
بَاب مَنْ بَلَغَ سِيِّينَ سَنَةٌ فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّهُ إِلَيْهِ فِي الْعُمُرِ

جو شخص ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ [فاطر: ٣٧]
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا اور تمہارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا ؟
(۴) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعْدَرَ اللهُ إِلَى امْرِى أَخْرَ أَجَلَهُ حَتَّى بَلَغَهُ سِيِّينَ سَنَةٌ . )) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤١٩.]
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے عذر کے متعلق حجت تمام کر دی جس کی موت کو موخر کیا یہاں تک کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔‘‘
(۵) ((وَعَنْهُ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ علَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَزَالُ قَلْبُ الكَبِيرِ شَابًا في التين: في حُبِّ الدُّنْيَا، وَطُولِ الأمل . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٢٠.
’’اور انہی حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے، ان میں سے ایک دنیا کی محبت اور دوسرے لمبی امید۔‘‘
(۶)((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَكْبَرُ ابْنُ آدَمَ وَيَكْبَرُ مَعَهُ اثْنَانِ: حُبُّ الْمَالِ، وطول العمر . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٢١۔
❀ ’’حضرت انسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور اس کے ساتھ دو چیزیں بھی اس کے اندر پروان چڑھتی جاتی ہیں:
ایک مال کی محبت اور دوسری درازی عمر کی خواہش۔‘‘
باب الْعَمَلِ الَّذِي يُبْتَفَى بِهِ وَجُهُ اللَّهِ تَعَالَىٰ

ایسا کام جس سے خالص اللہ کی رضامندی مقصود ہو

(۷) ((قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ سَمِعْتُ عِبَانَ بْنَ مَالِكِ الْأَنْصَارِي ثُمَّ أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ قَالَ: غَدًا عَلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَنْ يُوَافِي عَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٢٢۔
’’سید نا محمود بن ربیعؓ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عتبان بن مالکؓ سے سنا، جو بنو سالم کے ایک فرد ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:
جب کوئی بندہ قیامت کے دن بایں حالت پیش ہو گا کہ اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا ہوگا اور اس اقرار سے مقصود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی تو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ کو اس پر حرام کر دے گا۔‘‘
(۸) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: مَا لِعَبْدِى الْمُؤْمِنِ عِنْدِى جَزَاء إِذَا قَبَضْتُ صَفِيَّهُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، ثُمَّ احْتَسَبَهُ إِلَّا الْجَنَّةَ . )) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٢٤.]
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
❀ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میرے اس مومن بندے کے لیے میرے پاس جنت کے علاوہ اور کوئی بدلہ نہیں جس کی کوئی محبوب اور پیاری چیز میں دنیا سے قبض کرلوں اور وہ اس پر صبر کر کے ثواب کا طالب رہے۔‘‘
بابُ مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَ التَّنَافُسِ فِيهَا

دنیا کی بہار اور رونق

((أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ – وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُوَى كَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاح إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِي، فَقَدِمَ أَبو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَينِ فَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقَدُومِهِ فَوَافَتْهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ تَعَرَّضُوا لَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ رَآهُمْ وَقَالَ: أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ بِقُدُومٍ أَبِي عُبَيْدَةَ وَأَنَّهُ جَاءَ بِشَيْءٍ قَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: فَأَبْشِرُوا وَأَمِلُوا مَا يسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُلْهِيكُمْ كَمَا أَلْهَتْهُمْ .)) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٢٥.
’’حضرت عمرو بن عوفؓ سے روایت ہے۔ جو بنو عامر بن لؤی کے حلیف ہیں اور غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو بحرین میں جزیہ وصول کرنے کے لیے روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین سے صلح کر لی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمیؓ کو امیر مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو عبیدہؓ بحرین سے مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی اور نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو انصار آپ کے سامنے آ گئے ۔ آپ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور ارشاد فرمایا:
میرا خیال ہے کہ تم نے ابو عبیدہ کے آنے کی خبر سنی ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار نے کہا:
ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے ارشاد فرمایا:
تمہیں خوشخبری ہو اور تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی ، اللہ کی قسم! مجھے تمہارے فقر و تنگ دستی کا اندیشہ نہیں، بلکہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم بھی اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور وہ تمہیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان لوگوں کو غافل کیا تھا۔‘‘
بَابُ مَا يُتَقَى مِنْ فِتْنَةِ الْمَالِ

مال کے فتنے سے ڈرتے رہنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ [التغابن: ١٥]
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بلاشبہ تمہارے مال و اولاد تمہارے لیے اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔‘‘
(۱۰) ((عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدِ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى الْمِنْبَرِ بِمَكَّةَ فِي خُطْبَتِهِ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ النَّبِيِّ كَانَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ أُعْطِيَ وَادِيًا مَلْكًا مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ ثانِيَا ، وَلَوْ أُعْطِيَ ثَانِيَا أَحَبَّ إِلَيْهِ ثَالِنَا، وَلَا يَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التَّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٣٨.
’’حضرت عباس بن سہل بن سعد سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن زبیرؓ کو مکہ مکرمہ میں منبر پر دوران خطبہ میں بیان کرتے سنا‘ انہوں نے کہا، اے لوگو! نبی ﷺ ارشاد فرماتے تھے:
اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کا خواہش مند رہے گا۔ اگر دوسری دے دی جائے تو تیسری کا طالب ہوگا، ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ تعالیٰ تو اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو ( صدق دل سے ) اس کی طرف رجوع کرے۔‘‘
بَابُ مَا قَدَّمَ مِنْ مَّالِهِ فَهُوَ لَهُ

آدمی جو مال اللہ کی راہ میں دے

(۱۱) ((قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ النَّبِيِّ : أَيُّكُمْ مَالُ وَارِيْهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا مَالُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ . قَالَ: فَإِنَّ مَالَهُ مَا قَدَّمَ، وَمَالُ وَارِيهِ مَا أَخَرَ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٤٢.
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے کون ہے جسے اپنے مال کے بجائے اپنے وارث کا مال زیادہ محبوب ہو ؟ صحابہ کرامؓ نے کہا:
اللہ کے رسول ! ہم میں سے ہر ایک کو اپنا ہی مال محبوب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
پھر اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے بھیج دیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ (اپنے) پیچھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘
بَابُ فَضْلِ الْفَقْرِ

فقر کی فضیلت کا بیان

(۱۲) ((عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدِ السَّاعِدِي أَنَّهُ قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَرَجُلٍ عِنْدَهُ جَالِسِ : مَا رَأَيْكَ فِي هَذَا؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِ النَّاسِ، هَذَا وَاللَّهِ حَرِى إِنْ خَطَبَ أَنْ يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَعَ، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ مَرَّ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا رَأَيْكَ فِي هَذَا؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ، هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ لَا يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ لَا يُشَفَّعَ، وَإِنْ قَالَ أَنْ لَا يُسْمَعَ لِقَوْلِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: هَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الْأَرْضِ مِثْلَ هَذَا . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٤٧.
’’حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ نے اپنے پاس بیٹھنے والے ایک شخص سے فرمایا:
اس آدمی کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا:
یہ معزز لوگوں میں سے ہے۔ اللہ کی قسم! یہ اس لائق ہے کہ اگر کسی کو پیغام نکاح بھیجے تو اس کا نکاح کر دیا جائے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو قبول کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ یہ سن کر خاموش رہے۔ پھر ایک اور آدمی وہاں سے گزرا تو آپ نے اس سے اس کے متعلق پوچھا:
اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا:
اللہ کے رسول! یہ صاحب تو مسلمانوں کے غریب طبقے سے ہیں۔ یہ اس لائق ہے کہ اگر کسی کو نکاح کا پیغام بھیجے تو اس کا نکاح نہ کیا جائے ۔ اگر سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے اور اگر بات کرے تو اس کی بات نہ سنی جائے۔
❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ کے ہاں یہ (محتاج) پہلے مال دار سے بہتر ہے۔ خواہ ایسے ( مال دار ) لوگوں سے زمین بھری ہوئی ہو۔‘‘
(۱۳) ((عَنْ أَبِى وَائِلٍ، قَالَ: عُدْنَا خَبَّابًا فَقَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُرِيدُ وَجْهَ اللَّهِ فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ تَعَالَى فَمِنَّا مَنْ مَضَى لَمْ يَأْخُذُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، مِنْهُمْ مُصْعَبُ بنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أَحَدٍ وَتَرَكَ نَمِرَةٌ فَإِذَا عَطَيْنَا رَأْسَهُ بَدَتْ رجُلَاهُ وَإِذَا غَطَيْنَا رِجْلَيْهِ بَدَا رَاسُهُ فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُعْطِيَ رَاسَهُ وَنَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ مِنَ الْإِذْخِرِ، وَمِنا من أينعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٤٨۔
’’حضرت ابووائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
ہم نے حضرت خباب بن ارتؓ کی عیادت کی تو انہوں نے فرمایا:
ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہجرت کی تو ہمارا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ ساتھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور انہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہ لیا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی ہیں جو غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے (ترکے میں) صرف ایک چادر چھوڑی تھی، جب ہم بطور کفن ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور جب ان کے پاؤں چھپاتے تو سرننگا ہو جاتا، چنانچہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں اور ہم میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن کے پھل دنیا میں خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔‘‘
(۱۴) ((عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَقَدْ تُوقِيَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَمَا فِي رَبِّي مِنْ شَيْءٍ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدِ، إِلَّا شَطْرُ شَعِيرٍ فِي رَفٌ لِي، فَأَكَلْتُ مِنْهُ حَتَّى طَالَ عَلَى فَكِلْتُهُ فَفْنى . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٥١۔
❀ ’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو میرے تو شہ دان میں کوئی غلہ نہ تھا جو کسی جان دار کے کھانے کے قابل ہوتا، البتہ تھوڑے سے جو میرے توشہ دان میں تھے۔ میں انہی سے کھاتی رہی۔ آخر کار جب بہت دن گزر گئے تو میں نے ان کا وزن کیا، چنانچہ وہ ختم ہو گئے۔‘‘
بَابُ كَيْفَ كَانَ عم النبي ﷺ وأصحابه وتخليهم من الدنیا

نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے گزران کا بیان

(۱۵) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنْ كُنتُ لأَعْتَمِدُ بِكَبِدِى عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، وَإِنْ كُنْتُ لأمد الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ، وَلَقَدْ فَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهم الَّذِي يَخْرُجُونَ مِنْهُ ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي ، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرْبِي عُمَرُ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ فَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرَّ بِي أَبو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِي ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا هِرًا قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْحَقِّ، وَمَضَى فَتَبِعْتُهُ فَدَخَلَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلَ فَوَجَدَ لَبَنَا فِي قَدَحٍ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ؟ قَالُوا: أَهْدَاهُ لَكَ – فُلانٌ أَوْ فَلانَهُ – قَالَ: أَبَا هِر ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْحَقِّ إِلَى أَهْلِ الصُّفَةِ فَادْعُهُمْ لِي، قَالَ: وَأَهْلُ الصَّفَةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ إِلَى أَهْلِ وَلَا مَالِ وَلَا عَلَى أَحَدٍ ، إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلُ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فيهَا، فَسَا عَنِى ذَلِكَ فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَةِ؟ كُنتُ أَحَقُّ أَنَا أَنْ أُصِيبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةَ أَتَقَوَّى بِهَا ، فَإِذَا جَاؤُوا أَمَرَنِي فَكُنْتُ أَنا أَعْطِيهِمْ، وَمَا عَسَى أَنْ يَبْلُغَنِي مِنْ هَذَا اللَّبَنِ؟ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدٌ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَأَقْبَلُوا، فَاسْتَأْذَنُوا فَأَذِنَ لَهُمْ ، وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ البَيْتِ، قَالَ: يَا أَبَا هِرُ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: خُذْ فَأَعْطِهِمْ، فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أَعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى الْقَدَحَ فَأَعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يروى ، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى الْقَدَحَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يروى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى الْقَدَحَ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوِيَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدِهِ فَنَظَرَ إِلَى فَتَبَسَّمَ فَقَالَ: أَبَا هِرٍ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ: بَقِيتُ أَنا وَأَنْتَ قُلْتُ صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: اقْعُدْ فَاشْرَبُ، فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ. فَقَالَ: اشْرَبْ، فَشَرِبْتُ، فَمَا زَالَ يَقُولُ: اشْرَبْ، حَتَّى قُلْتُ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ ، مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، قَالَ: فَأَرِنِي، فَأَعْطَيْتُهُ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى وَشَرِبَ الْفَضْلَةَ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٥٢.
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں بعض اوقات بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا اور بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں اس راستے پر بیٹھ گیا جہاں صحابہ کرام کی آمد و رفت تھی۔ حضرت ابوبکرؓ وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے متعلق پوچھا۔ میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بغیر کچھ کیے وہاں سے چل دیئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ میرے پاس سے گزرے تو میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت کے متعلق دریافت کیا اور دریافت کرنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا ئیں پلائیں لیکن وہ بھی کچھ کیے بغیر چپکے سے گزر گئے۔ ان کے بعد ( پیارے پیغمبر) ابوالقاسم ﷺ میرے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے جب مجھے دیکھا تو مسکرا دیے۔ میرے چہرے کو آپ نے تاڑ لیا اور میرے دل کی بات سمجھ گئے ، پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
اے ابوہریرہ! میں نے کہا:
اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
میرے ساتھ آ جاؤ۔ چنانچہ جب آپ چلنے لگے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ جب آپ اندر گئے تو آپ کو ایک پیالے میں دودھ ملا۔ آپ نے پوچھا:
یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ اہل خانہ نے کہا:
یہ فلاں مرد یا عورت نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے ابوہریرہ! میں نے عرض کی :
لبیک اللہ کے رسول! آپ نے ارشاد فرمایا:
اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔ اہل صفہ اہل اسلام کے مہمان تھے۔ وہ گھر بار، اہل وعیال اور مال وغیرہ نہ رکھتے تھے اور نہ کسی کے پاس جاتے ہی تھے۔ جب آپ ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو وہ ان کے پاس بھیج دیتے اور خود اس سے کچھ نہ کھاتے تھے اور جب آپ کے پاس ہدیہ آتا تو اس سے کچھ خود بھی کھا لیتے اور ان کے پاس بھی بھیج دیتے تھے اور انہیں اس میں شریک کر لیتے تھے۔ مجھے یہ بات ناگوار گزری۔ میں نے سوچا کہ اس دودھ کی مقدار کیا ہے جو وہ اہل صفہ میں تقسیم ہو؟ اس کا حق دار تو میں تھا کہ اسے نوش کر کے کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب (اہل صفہ) آئیں گے تو (رسول اللہ ﷺ مجھے ہی فرمائیں گے تو ) میں ان میں تقسیم کروں گا، مجھے تو شاید اس دودھ سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور ان کے حکم کی بجا آوری کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور انہیں ( آپ کی ) دعوت پہنچائی۔ وہ آئے اور انہوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہیں اجازت مل گئی۔ پھر وہ آپ ﷺ کے گھر میں اپنی اپنی جگہ پر فروکش ہو گئے۔
❀ آپ نے ارشاد فرمایا:
اے ابو ہر! میں نے عرض کی:
❀ لبیک اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:
پیالہ لو اور سب حاضرین کو دودھ پلاؤ۔ میں نے وہ پیالہ پکڑا اور ایک ایک کو پلانے لگا۔ ایک شخص جب پی کر سیراب ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا۔ پھر میں دوسرے شخص کو دیتا۔ وہ بھی سیر ہو کر پیتا، پھر پیالہ مجھے واپس کر دیتا، اسی طرح تیسرا پی کر پھر پیالہ مجھے واپس کر دیتا، یہاں تک کہ میں نبی ﷺ تک پہنچا جبکہ تمام اہل صفہ دودھ پی کر سیراب ہو چکے تھے۔ آخر میں آپ ﷺ نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا:
اے ابو ہر! میں نے عرض کی:
❀ لبیک اللہ کے رسول! فرمایا:
میں اور تو باقی رہ گئے ہیں، میں نے کہا:
اللہ کے رسول! آپ نے سچ ارشاد فرمایا ہے۔ آپ نے ارشادفرمایا:
بیٹھ جاؤ اور اسے نوش کرو۔ چنانچہ میں بیٹھ گیا اور دودھ پینا شروع کر دیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا:
اور پیو۔ آپ مجھے اور پینے کا مسلسل کہتے رہے حتی کہ مجھے کہنا پڑا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اب پینے کی بالکل گنجائش نہیں۔ اس کے لیے میں کوئی راہ نہیں پاتا۔ آپ سے ہم نے ارشاد فرمایا:
پھر مجھے دے دو۔ میں نے وہ پیالہ آپ کو دے دیا۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور بسم اللہ پڑھ کر (ہم سب کا ) بچا ہوا دودھ خود نوش فرمایا۔ ‘‘
(۱۶) ((عَنْ سَعْدِ، يَقُولُ: إِنِّي لَأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهُم فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَرَأَيْتُنَا نَغْزُو وَمَا لَنَا طَعَامُ إِلَّا وَرَقُ الحُبْلَةِ وَهَذَا السَّمُرُ، وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَا لَهُ خِلْفٌ ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدِ تُعَذِّرُنِى عَلَى الْإِسلام، خِبْتُ إِذَا وَضَلَّ سَعْيِي . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٥٣۔
’’ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلا عربی ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ ہم جہاد کرتے تھے لیکن ہمارے پاس حملہ کے پتوں اور کیکر کے چھلکے کے علاوہ دوسری کوئی چیز کھانے کے لیے نہ تھی اور (خشکی کے سبب) ہمیں بکری کی مینگنیوں کی طرح قضائے حاجت ہوتی تھی۔ اس میں کچھ بھی خلط ملط نہ ہوتا تھا۔ اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھے اسلام سکھا کر درست کرنا چاہتے ہیں۔ پھر تو میں بد نصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا دھرا اکارت گیا۔‘‘
(۱۷) ((عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا شَبعَ آلَ مُحَمَّدٍ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ بَر ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتَّى قُضِيَ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم ٦٤٥٤۔
’’حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ محمد ﷺ کے گھر والوں کو مدینہ آنے کے بعد کبھی تین دن تک گیہوں کی روٹی کھانے کے لیے نہیں ملی، یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی روح قبض ہوگئی۔‘‘
(۱۸) ((وَعَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ لِعُرْوَةَ ابْنَ أُخْتِي إِنْ كُنَّا لَتَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ ثَلَاثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ وَمَا أُوقِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ: مَا كَانَ يُعِيتُكُمْ؟ قَالَتْ: الْأَسْوَدَانِ: التَّمْرُ وَالْمَاءُ ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ لَهُمْ مَنَائِحُ ، وَكَانُوا يَمْنَحُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آبيَاتِهِمْ فیسقیناہ)) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم، ٦٤٥٩.
’’اور انہی سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عروہ بن زبیر سے فرمایا:
اے میرے بھانجے ! ہمارا یہ حال تھا کہ ہم دو ماہ میں تین چاند دیکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں آگ نہیں سلگتی تھی۔ میں نے پوچھا:
پھر تمہارا گزارا کیسے ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا:
دو سیاہ چیزوں پر یعنی پانی اور کھجوروں پر۔ ہاں، آپ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی اونٹنیاں تھیں، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے دودھ بھیج دیتے اور آپ ہمیں وہی دودھ پلا دیتے تھے۔‘‘
(۱۹) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ ارْزُقَ آلَ مُحَمَّدٍ قُوتًا .)) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٦٠.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ ! آل محمد کو صرف اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں ۔
(۲۰) بَابُ الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ
باب نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور میانہ روی اختیار کرنا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : لَنْ يُنَجِّيَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ ، قَالُوا: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَةٍ. سَيِّدُوا وَ قَارِبُوا وَ اغْدُوا وَرُوحُوا ، وَشَيْءٌ مِنَ الدُّلْجَةِ وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوا . [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٦٣.]
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔ صحابہ نے پوچھا:
اللہ کے رسول ! آپ کو بھی نہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا:
مجھے بھی نہیں الا یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے سائے میں لے لے، لہذا تم درستی کے ساتھ عمل جاری رکھو، میانہ روی اختیار کرو، صبح اور شام، نیز رات کے کچھ حصے میں نکلا کرو، اعتدال کے ساتھ سفر جاری رکھو اس طرح تم منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔‘‘
بَابُ الرَّجَاءِ مَعَ الْخَوفِ

اللہ سے خوف کے ساتھ امید بھی رکھنا

(۲۱) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الرَّحْمَةَ يَوْمَ خَلَقَهَا مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً، وَأَرْسَلَ فِي خَلْقِهِ كُلِّهِمْ رَحْمَةً وَاحِدَةً، فَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ بِكُلّ الَّذِي عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الرَّحْمَةِ لَمْ يَبْسُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَلَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ بِكُل الَّذِي عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الْعَذَابِ لَمْ يَأْمَنْ مِنَ النَّارِ . )) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٦٩.]
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن پیدا کیا تو اس کے سو حصے کیے۔ پھر اس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے صرف ایک حصہ اپنی تمام مخلوق کے لیے دنیا میں بھیجا، لہٰذا اگر کافر کواللہ کی ساری رحمت کا پتا چل جائے تو وہ کبھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن کو اللہ کے ہاں ہر قسم کے عذاب کا علم ہو جائے تو وہ دوزخ سے کبھی بھی بے خوف نہ ہو۔‘‘
بَابُ الصَّبْرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ

اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا

قَالَ اللهُ تعالىٰ: إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ [الزمر: ١٠]
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
بلاشبہ صبر کرنے والوں کو بے حد و حساب اجر دیا جائے گا۔
((وَقَالَ عُمَرُ: وَجَدْنَا خَيْرَ عَيْشِنَا بِالصَّبْرِ . ))
’’حضرت عمرؓ نے فرمایا:
ہم نے بہترین زندگی صبر ہی میں پائی ہے۔“
(۲۲) ((عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِى أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَنَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَسْأَلَهُ أَحَدٌ مِنْهُمْ إِلَّا أَعْطَاهُ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُمْ حِينَ نَفِدَ كُلُّ شَيْءٍ أَنْفَقَ بِيَدَيْهِ: مَا يَكُنْ عِندِي مِنْ خَيْرٍ لَا أَدْخِرْهُ عَنْكُمْ، وَإِنَّهُ مَنْ يَسْتَعِفْ يُعفه الله ، ومن يتصبر يصبره ه اللهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ الله، وَلَنْ تُعْطُوا عَطَاءَ خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ .)) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٧٠.
’’حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا۔ جس نے بھی آپ سے جو مانگا آپ نے اسے دیا حتی کہ جو مال آپ کے پاس تھا وہ ختم ہو گیا جب سب کچھ ختم ہو گیا جو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
جو اچھی چیز میرے پاس ہے وہ میں تم سے چھپا کر نہیں رکھتا، لیکن بات یہ ہے کہ جو تم میں سے بچتا رہے گا اللہ اس کو بچائے گا۔ جو صبر کرنا چاہے اللہ اسے صبر دے گا اور جو کوئی غنا چاہتا ہے اللہ اسے مستغنی کر دے گا اور تمہیں اللہ کی نعمت صبر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ملی۔‘‘
(۲۳) ((عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَتَّى تَرمَ ، أَوْ تَتَّفِخَ ، قَدَمَاهُ فَيُقَالُ لَهُ ، فَيَقُولُ: أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٧١۔
’’ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
نبی ﷺ اس قدر (لمبی) نماز پڑھتے کہ آپ کے دونوں قدموں پر ورم آ جاتا ۔ آپ سے کہا جاتا تو آپ ارشاد فرماتے:
کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ۔‘‘
بَابٌ حِفْظِ اللَّسَانِ

زبان کی حفاظت کا بیان

(۲۴) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ فِيهَا يَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَيْنَ الْمَشْرِقِ . )) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٧٧۔]
’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
بے شک بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق غور و فکر نہیں کرتا، اس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور جا گرتا ہے جس قدر مشرق اور مغرب کے درمیان مسافت ہے۔‘‘
بَابُ الْخَوفِ مِنَ اللَّهِ

اللہ سے ڈرنے کا بیان

(۲۵) ((عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَجُلًا فِيمَنْ كَانَ سَلَفَ أَوْ قَبْلَكُمْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَوَلَدًا – يَعْنِي أَعْطَاهُ. قَالَ – فَلَمَّا حُضِرَ قَالَ لِبَنِيهِ: أَي أَب كُنتُ لَكُمْ؟ قَالُوا خَيْرَ أَبِ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ يَبْتَخِرُ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا فَسَّرَهَا قَتَادَةُ: لَمْ يَدَّخِرْ – وَإِنْ يَقْدَمُ عَلَى اللَّهِ يُعَذِّبْهُ، فَانْظُرُوا فَإِذَا مُتُ فَأَحْرِقُونِي حَتَّى إِذَا صِرْتُ فَحْمًا فَاسْحَقُونِي أَوْ قَالَ: فَاسْهَكُونِي ثُمَّ إِذَا كَانَ رِيحٌ عَاصِفٌ فَأَذْرُونِي فِيهَا ، فَأَخَذَ مَوَاثِيقَهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَرَبِّي فَفَعَلُوا، فَقَالَ اللَّهُ: كُنْ ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ: أَى عَبْدِي مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: مَخَافَتُكَ أَوْ فَرَقٌ مِنْكَ ، فَمَا تَلافَاهُ أَنْ رَحِمَهُ اللَّهُ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٨١.
’’حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سابقہ امتوں میں سے ایک شخص کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و اولاد عطا فرمائی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا:
میں تمہارا کیسا باپ ہوں؟ انہوں نے کہا:
آپ ہمارے اچھے باپ ہیں۔ اس نے کہا:
تمہارے اس باپ نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی جمع نہیں کی ہے، اگر اسے اللہ کے حضور پیش کیا گیا تو وہ اسے ضرور عذاب دے گا۔ اب میرا خیال رکھو، جب میں مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا یہاں تک کہ میں کوئلہ بن جاؤں تو مجھے پیسں کر کسی تیز ہوا ( آندھی ) والے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس کے متعلق پختہ وعدہ لیا۔ قسم ہے میرے رب کی ! اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ہو جا تو وہ آدمی کی شکل میں کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے میرے بندے ! تجھے اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: تیرے خوف اور تیرے ڈرنے (آمادہ کیا ) اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یوں دیا کہ اس پر رحم فرمایا ( اور اسے معاف کر دیا) ۔‘‘
بَابٌ حُحِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ

جہنم کو خواہشات نفسانی سے ڈھک دیا گیا

(۲۶) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ، وَحُجِبَتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٨٧ .
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’دوزخ کے ارد گرد نفسانی خواہشات کی باڑ لگا دی گئی ہے جبکہ جنت کو مشکلات اور دشواریوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔‘‘
بَابُ الْجَنَّةِ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ تَعْلِهِ وَ النَّارُ مِثْلَ ذَلِكَ باب

جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے

(۲۷) ((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : الْجَنَّةُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم، ٦٤٨٨.
’’ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی تم سے زیادہ قریب ہے اور دوزخ بھی اسی طرح ہے۔‘‘
بَاب لِيَنظُرُ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ

اسے دیکھنا چاہیے جو نیچے درجہ کا ہے

(۲۸) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضْلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٩٠.
’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال و دولت اور شکل وصورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اس وقت اسے ایسے شخص کو بھی دیکھنا چاہیے جو اس سے کم درجے کا ہے۔‘‘
بَاب مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ أَو بِسَيْنَةٍ

جس نے کسی نیکی یا بدی کا ارادہ کیا

(۲۹) ((عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: قَالَ: إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ ، فَمَنْ هُم بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلُهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةٌ كَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هُم بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعَ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَمَنْ هُمْ بِسَيْئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلُهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةٌ كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٩١.
’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے اپنے رب عزوجل سے بیان کیا:
آپ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں، پھر انہیں صاف بیان کر دیا، لہٰذا جس نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے پاس دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا نیکیاں لکھ دیتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھا کر لکھتا ہے اور جس نے برائی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے پاس پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے برائی کے ارادے کے بعد اس پر عمل کر لیا تو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اس کے لیے ایک برائی ہی لکھتا ہے۔‘‘
بَابِ مَا يُتَقَى مِنْ مُحَقَرَاتِ الذُنُوبِ

چھوٹے اور حقیر گناہوں سے بھی بچتے رہنا

(۳۰) ((عَنْ أَنَسٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالَا هِيَ أَدَقُ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ، إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُوبِقَاتِ .)) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٩٢.
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ تم ایسے ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں جبکہ ہم لوگ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں انہیں ہلاک کر دینے والے شمار کرتے تھے۔‘‘
بَابِ الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِهِمِ وَمَا يُخَافُ مِنْهَا

عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے

(۳۱) ((عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِي قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ – وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ الْمُسْلِمِينَ غَنَاء عَنْهُمْ فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا . فَتَبِعَهُ رَجُلٌ فَلَمْ يَزَلْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى جُرحَ فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ فَقَالَ بِدْبَايَةِ سَيْفِهِ فَوَضَعَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ فَتَحَامَلَ عَلَيْهِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ بَيْنِ كَيْفَيْهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ – عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ ، وَيَعْمَلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ – عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِخَوَاتِيمِهَا . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٩٣.
’’ حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مشرکین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا، یہ آدمی لوگوں میں صاحب ثروت تھا، آپ نے ارشاد فرمایا:
اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اس کو دیکھ لے۔ اس کے بعد ایک شخص اس کی نگرانی کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ شخص مسلسل برسر پکار رہا حتی وہ زخمی ہو گیا۔ زخموں کی تاب نہ لا کر وہ جلدی مرنا چاہتا تھا تو اپنی تلوار کی دھار اپنے سینے پر رکھ دی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا تو وہ اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی لوگوں کے سامنے اہل جہنم کے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔ اعمال کا دارومدار تو ان کے خاتمے پر ہے۔‘‘
بَابِ الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ

ریا اور شہرت طلبی

(۳۲) ((عَنْ سَلَمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدَبًا يَقُولُ قَالَ النَّبِيِّ – وَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ غَيْرَهُ – فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ : مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُرَانِي يُرَانِي الله بہ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٤٩٩۔
’’حضرت سلمہ بن کہیل سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے حضرت جندبؓ کو کہتے سنا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اور (حضرت جندبؓ کے بعد) میں نے کسی کو بھی یہ کہتے نہیں سنا کہ نبی ﷺ فرمایا:
چنانچہ میں حضرت جندبؓ کے قریب پہنچا تو میں نے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جو انسان شہرت کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کی بندگی سب کو سنا دے گا، اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن ) اس کی ریا کاری ظاہر کر دے گا۔‘‘
بَاب التَّوَاضُع

تواضع یعنی عاجزی کرنے کے بیان میں

(۳۳) ((عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَتْ نَاقَةٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُسَمَّى الْعَصْبَاءَ، وَكَانَتْ لا تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ لَهُ فَسَبَقَهَا، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَقَالُوا: سُبقَتِ الْعَصْبَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يَرْفَعَ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ .)) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم‘ ٦٥٠١.
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جسے عضباء کہا جاتا تھا۔ کوئی جانور بھی اس کے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایک دیہاتی اپنے اونٹ پر سوار آیا اور اس سے آگے بڑھ گیا۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بہت شاق گزرا اور کہنے لگے:
افسوس ! اعضاء پیچھے رہ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نے خود پر یہ لازم کر لیا ہے کہ دنیا میں وہ کسی چیز کو بلند کرتا ہے تو اسے نیچے بھی لاتا ہے۔‘‘
(۳۴) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَى عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَى بِالنَّوَافِل حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبيتُهُ كُنْتُ . الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِسُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِن اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيدَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِى عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِن يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٥٠٢۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اور میرا بندہ جن جن عبادتوں کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت مجھے اتنی پسند نہیں جس قدر وہ عبادت پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے بھی مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ کا طالب ہو تو اس کو پناہ دیتا ہوں۔ میں کسی چیز میں ترد نہیں کرتا جس کو میں کرنے والا ہوتا ہوں جو مجھے مومن کی جان نکالتے وقت ہوتا ہے، وہ موت کی بوجہ تکلیف پسند نہیں کرتا اور مجھے بھی اسے تکلیف دینا اچھا نہیں لگتا۔‘‘
بَاب مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَہ

جو اللہ سے ملاقات کو پسند رکھتا ہے

(۳۵) ((عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:منْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ قَالَتْ عَائِشَةُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ إِنَّا لَنَكْرَهُ الْمَوْتَ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكِ، وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللَّهِ وَكَرَامَتِهِ ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ، فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ وَعُقُوبَتِهِ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَهَ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ ، كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللهُ لِقَاتَهُ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٥٠٧.
’’حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص اللہ سے ملنا پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنا پسند نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ یہ سن کر ام المومنین حضرت عائشہؓ یا کسی دوسری زوجہ محترمہ نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی پسند نہیں کرتے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نہیں یہ نہیں جو تم نے خیال کیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایمان دار آدمی کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے ہاں اکرام و احترام کی بشارت دی جاتی ہے جو اس کے آگے ہے، اس سے بہتر کوئی چیز اسے معلوم نہیں ہوتی ، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہش مند ہو جاتا ہے اور اللہ تعالٰی بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کے ہاں ملنے والی سزا کا بتایا جاتا ہے تو جو شے اس کے آگے ہے وہ اسے انتہائی ناگوار گزرتی ہے، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کو نا پسند کرتا ہے، لہٰذا اللہ بھی اسے ملنا نہیں چاہتا۔‘‘
بَاب سَكَرَاتِ الْمَوْتِ

موت کی سختیوں کا بیان

(۳۶) ((عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ عُدْوَةً وَعَشِيَّةً إِمَّا النَّارُ وَإِمَّا الْجَنَّةُ ، فَيُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى تُبْعَثَ إِلَيْهِ . )) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٥١٥.]
’’حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو صبح و شام اس کا ٹھکانا اسے دکھایا جاتا ہے، دوزخ یا جنت۔ پھر اسے کہا جاتا ہے یہ تیرے رہنے کی جگہ ہے یہاں تک کہ تو اس کی طرف اٹھایا جائے گا۔‘‘
بَابِ الْقِصَاصِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

قیامت کے دن بدلہ لیا جانا

(۳۷) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ فَلْيَتَحَلَّلَهُ مِنْهَا ، فَإِنَّهُ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٍ وَلَا دِرْهُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُؤْخَذَ لَّأَخِيهِ مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَخِيهِ فَطْرِحَتْ عَلَيْهِ . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٤٥٣٤.
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیے کہ اس سے معاف کرا لے کیونکہ وہاں درہم و دینار نہیں ہوں گے قبل اس کے کہ اس کے بھائی کا بدلہ چکانے کے لیے اس کی نیکیوں سے کچھ لیا جائے۔ اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم بھائی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی ۔‘‘
(۳۸) ((عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَخْلُصُ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ فَيُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةِ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُقَصُ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا هُذِبُوا وَنُقُوا أَذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِي الْجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٥٣٥۔
’’ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اہل ایمان جہنم سے چھٹکارا پا جائیں گے تو دوزخ و جنت کے درمیان انہیں ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر دنیا میں جو ایک دوسرے پر ظلم و ستم کیا ہو گا اس کا قصاص اور بدلہ لیا جائے گا حتی کہ جب وہ پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں جانے کی اجازت ہو گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اہل جنت میں سے ہر ایک جنت میں اپنا مقام دنیا میں اپنے گھر کی نسبت زیادہ جاننے والا ہو گا۔‘‘
باب صِفَةِ الْجَنَّةِ

جنت کا بیان

((عَنْ أَنَّسؓ عَنِ النَّبِيﷺ قَالَ: عَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ، وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ – أَوْ مَوْضِعُ قَدَمٍ مِنَ الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةَ منْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى الْأَرْضِ لأضَانَتْ مَا بَيْنَهُمَا، وَلَمَلات مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا، وَلَنَصِيفُهَا يَعْنِي الْخِمَارَ – خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا . )) . صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٥٦٨.
’’حضرت انسؓ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام گزارنا دینا و مافیہا سے بہتر ہے۔ جنت میں ایک قوس یا قدم رکھنے کی جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہے اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانکے تو آسمان سے لے کر زمین تک کو روشن کر دے اور اسے خوشبو سے بھر دے، اس عورت کا دوپٹا دینا و مافیہا سے بہتر ہے۔‘‘
بَابِ الصِّرَاطُ جَسُرُ جَهَنَّمَ

صراط ایک پل ہے

(۳۹) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ أَنَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ، يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتْبَعَهُ فَيَتَبَعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الأُمَّهُ، فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فِي غَيْرِ الصُّورَةِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ ، هَذَا مَكَانُنَا، حَتَّى يَأْتِينَا رَبُّنَا . فَإِذَا أَتَانَا رَبُّنَا ، عَرَفْنَاهُ. فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فِي الصُّورَةِ الَّتِي يَعْرِفُونَ. فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ أَنْتَ ربَّنَا، فَيَتبَعُونَهُ وَيُضْرَبُ جَسْرُ جَهَنَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ، وَدُعَاءُ الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ ، اللَّهُمَّ سَلَّمْ ، سَلِمَ ، وَبِهِ كَلالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، أَمَا رَأَيْتُمْ شَوْكَ السَّعْدَانِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهَا لَا يَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ ، فَتَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، مِنْهُمُ الْمُوبَقُ بِعَمَلِهِ ، وَمِنْهُمُ الْمُخَرْدَلُ ثُمَّ يَنْجُو حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللَّهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ عِبَادِهِ وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ مِنَ النَّارِ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ مِمَّنْ كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوهُمْ، فَيَعْرِفُونَهُمْ بِعَلامَةِ آثارِ السُّجُودِ، وَحَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ مِنِ ابْنِ آدَمَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيُخْرِجُونَهُمْ قَدِ امْتُحِشُوا، فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءٌ يُقَالُ لَهُ: مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ فِي حَمِيلٍ السَّيْلِ، وَيَبْقَى رَجُلٌ مِنْهُمْ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا ، فَاصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، فَلا يَزَالُ يَدْعُو اللَّهَ فَيَقُولُ: لَعَلَّكَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ أَنْ تسْأَلَنِي غَيْرَهُ، فَيَقُولُ: لا وَعِزَّتِكَ، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، فَيَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ ، ثُمَّ يَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ يَا رَبِّ قَرِبْنِي إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: أَلَيْسَ قَدْ زَعَمْتَ أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهُ ۚ وَيْلَكَ ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ ، فَلَا يَزَالُ يَدْعُو فَيَقُولُ: لَعَلَّى إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ تَسْأَلْنِي غَيْرَهُ، فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، فَيُعْطِي اللَّهَ مَا شَاءَ مِنْ عَهْدِ وَ مِيثَاقٍ أَنْ لَا يَسْأَلُهُ غَيْرَهُ فَيُقَرِبُهُ إلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا رَأَى مَا فِيهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُنَ، ثُمَّ قَالَ: رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَوَلَيْسَ قَدْ زَعَمْتَ أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهُ؟ وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لَا تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ، فَلَا يَزَالُ يَدْعُو حَتَّى يَضْحَكَ فَإِذَا ضَحِكَ مِنْهُ أَذِنَ لَهُ بِالدُّخُولِ فِيهَا ، فَإِذَا دَخَلَ فِيهَا قِيلَ: تَمَنَّ مِنْ كَذَا، فَيَتَمَنَّى، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: تَمَنَّ مِنْ كَذَا، فَيَتَمَنَّى حَتَّى تَنْقَطِعَ بِهِ الْأَمَانِيُّ فَيَقُولُ: هَذَا لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَذَلِكَ الرَّجُلُ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولا . )) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: ٦٥٧٣.
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول ! ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:
کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے جبکہ اس پر کوئی بادل وغیرہ نہ ہو؟ لوگوں نے کہا:
نہیں، اللہ کے رسول ! پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
کیا جب کوئی بادل نہ ہو تو تمہیں چودہویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دقت ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا:
نہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:
یقیناً تم قیامت کے دن اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور ان سے کہے گا:
جو کوئی کسی کی پوجا کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے لگ جائے، چنانچہ جو لوگ سورج کی عبادت کرتے تھے وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور جو لوگ چاند کی پرستش کرتے تھے وہ اس کے پیچھے ہو لیں گے اور جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے وہ ان کے پیچھے لگ جائیں گے اور آخر میں یہ امت باقی رہ جائے گی۔ اس میں منافقین کی جماعت بھی ہو گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہ ہوں گے اور ان سے کہے گا:
میں تمہارا رب ہوں۔ لوگ کہیں گے:
تجھ سے اللہ کی پناہ! ہم اپنی جگہ پر اس وقت تک رہیں گے جب تک ہمارا رب ہمارے سامنے نہ آئے، جب ہمارا رب ہمارے سامنے آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر حق تعالیٰ اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور ان سے کہے گا:
میں تمہارا رب ہوں۔ لوگ کہیں گے واقعی تو ہمارا رب ہے، پھر اسی کے پیچھے ہو لیں گے اور جہنم پر پل رکھا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اس پل کو عبور کروں گا۔ اس دن رسولوں کی دعا یہ ہو گی:
اے اللہ ! سلامتی سے گزار دے۔ اے اللہ ! سلامتی سے گزار دے۔ پل صراط کے ساتھ سعدان کے کانوں کی طرح کانٹے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں؟ لوگوں نے کہا اللہ کے رسول ! ہاں، دیکھے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
وہ آنکڑے سعدان کے کانوں کی طرح ہوں گے، البتہ ان کی لمبائی چوڑائی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق پکڑ لیں گے۔ ان میں سے کچھ تو اپنے اعمال کی پاداش میں ہلاک ہو جائیں گے اور کچھ زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے سے فارغ ہو گا اور جہنم سے انہیں نکالنا چاہے گا جنہیں نکالنے کی اس کی مشیت ہوگی وہ جو گواہی دیتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے تو اللہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالیں۔ فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچانتے ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ ابن آدم کے جسم سے سجدوں کے نشانات کو دکھائے، چنانچہ جب فرشتے ان کو نکالیں گے تو وہ جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر ان پر پانی بہایا جائے گا جسے آب حیات کہا جاتا ہے۔ وہ اس وقت اس طرح تر و تازہ ہو جائیں گے جس طرح سیلاب کے خس و خاشاک میں دانہ اگتا ہے۔ ایک ایسا شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ جہنم کی طرف ہو گا۔ وہ عرض کرے گا:
اے میرے رب! اس کی بدبو نے مجھے پریشان کر دیا ہے اور اس کی تیزی نے مجھے جلا ڈالا ہے، میرا چہرہ دوزخ سے دوسری طرف کر دے۔ وہ مسلسل اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے گا آخر کار اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں تو اس کے علاوہ کوئی اور سوال تو نہیں کرے گا۔ وہ عرض کرے گا:
اے میرے رب ! مجھے تیری عزت کی قسم ! اس کے علاوہ میں تجھ سے کوئی مطالبہ نہیں کروں گا، چنانچہ اس کا چہرہ جہنم کے علاوہ دوسری طرف پھیر دیا جائے گا۔ اب اس کے بعد وہ عرض کرے گا:
اے میرے رب! مجھے جنت کے دوازے کے قریب کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
کیا تو نے یقین نہیں دلایا تھا کہ میں اس کے علاوہ کوئی مطالبہ نہیں کروں گا ؟ افسوس اے ابن آدم! تو کس قدر عہد شکن اور وعدہ فراموش ہے۔ پھر وہ مسلسل دعائیں کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
اگر میں تیری یہ دعا قبول کر لوں تو پھر اس کے علاوہ کوئی اور چیز تو نہیں مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا:
نہیں، تیری عزت کی قسم! میں اس کے علاوہ اور کوئی چیز تجھ سے نہیں مانگوں گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کو مضبوط عہد و پیمان دے گا کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی اشیاء دیکھے گا تو جتنی دیر تک اللہ چاہے گا وہ خاموش رہے گا، پھر عرض کرے گا:
اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
کیا تو نے یہ یقین نہیں دلایا تھا کہ اب تو اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں مانگے گا؟ اے ابن آدم ! تو کس قدر وعدہ خلاف ہے۔ وہ عرض کرے گا:
اے میرے رب! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بڑا بد بخت نہ کر ۔ وہ مسلسل دعائیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہنس دے گا۔ جب اللہ تعالیٰ اس سے ہنس دے گا تو اس شخص کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ جب وہ اندر چلا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا: تو ایسی ایسی چیز کی خواہش کر ۔ وہ خواہش کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا: تو فلاں فلاں چیز کی تمنا کر، چنانچہ وہ پھر خواہش کرے گا یہاں تک کہ اس کی تمام خواہشات ختم ہو جائیں گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے فرمائے گا:
تیری یہ تمام خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی زیادہ نعمتیں مزید دی جاتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا:
یہ شخص سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘
بَابُ الدُّنْيَا سِجن لِلْمُؤْمِنِ وَ جَنَّةٌ لِلْكَافِرِ

دنیا مومن کے لیے بندی خانہ

(۴۰) ((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَ جَنَةُ الْكَافِرِ . )) [اصحیح مسلم، کتاب الزهد والرقائق، رقم: ٧٤١٧.]
’’سید نا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایمان دار شخص کے لیے دنیا جیل ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔‘‘
وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلى خَيْرٍ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: