کندیر بن سعید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں میں نے دور جاہلیت میں حج کیا اس دوران میں نے دیکھا ایک آدمی بیت الله کا طواف کر رہا ہے اور وہ دعا کر رہا تھا۔
رب رد الى راكبي محمد . . . . رده الى واصطنع عندي يدا
”میرے اللہ ! میری سواری کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت لوٹا۔“
”محمد کو مجھ سے ملا، اپنی جناب سے احسان فرما۔“
کہتے ہیں میں نے پوچھا : کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے کہا : عبدالمطلب بن هاشم ہے، ان کا اونٹ کہیں چلا گیا ہے، انہوں نے اپنے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تلاش کے لئے بھیجا ہے، راوی کہتا ہے عبد المطلب اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ سمیت آ گئے، تو عبدالمطلب کہنے لگے، میرے بیٹا جس قدر میں تیرے لیٹ ہونے پر پریشان ہوا ہوں آج تک مجھے اتنی پریشانی کبھی نہیں ہوئی اور اللہ کی قسم ! آج کے بعد میں تم کو کسی کام کے لئے نہیں بھیجوں گا : بیٹا تو کبھی بھی مجھ سے جدا ہوا کر۔
تحقیق الحدیث :
[اسناده ضعيف۔ مستدرك للحاكم 603/2،604 رقم 4184]
اس میں عباس بن عبد الرحمن راوی مجھول ہے۔
اگرچہ اس کو حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
اس طرح اس واقعہ کو سیرت کے سچے موتی میں نقل کیا گیا ہے۔ اس کی سند کو حسن لذاتہ کہا ہے جبکہ یہ ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر نے تقریب [374/1] میں اس کو مستور کہا ہے۔ [تهذيب الكمال 3127 222/14 و تهذيب التهذيب 121/5 ]