سوال : میری والدہ بیمار تھی۔ کئی ہسپتالوں میں علاج و معالجہ کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا، آخر کار وہ ایک کاہن کے پاس چلی گئی۔ کاہن نے اسے بکری کے خون سے غسل کرنے کو کہا، چونکہ میری والدہ اس بارے میں شرعی حکم سے آگاہ نہ تھی لہٰذا اس نے کاھن کے حکم کی تعمیل میں خون سے غسل کر لیا۔ ہمیں بتائیے کیا اس گناہ کی پاداش میں ہم پر کوئی کفارہ ہے ؟ اگر ہے تو کتنا ؟ جَزَاكُمْ الله خيراً
جواب : کاہنوں، نجومیوں، جادوگروں اور شعبدہ باز قسم کے لوگوں کے پاس جانا اور ان سے کسی مسئلے کا حل چاہنا ناجائز ہے۔ اسی طرح ان سے کچھ دریافت کرنا اور ان کی تصدیق کرنا بھی ناجائز بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلوة أربعين ليلة [صحیح مسلم و مسند أحمد]
”جو شخص کسی کاہن و نجومی کے پاس آئے، اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی۔“
ایک جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے :
من أتى عرافا أو كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم [سنن أربعة، مستدرك حاكم، مسند بزار، المعجم الأوسط]
”جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آئے پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے شریعت محمدیہ کا انکار کیا۔ “
نیز فرمایا کہ :
ليس منا من سحر أو سحر له، أو تكهن أو تكهن له، أو تطير او تطير له، و من اتي كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما انزل على محمد [مسند بزار بإسناد جيد]
”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو جادو کرتا ہے یا اس کے لیے جادو کیا جاتا ہے، یا وہ کہانت کرتا ہے یا اس کے لیے کہانت کی جاتی ہے یا وہ بدشگونی کرتا ہے یا اس کے لیے بدشگونی لی جاتی ہے اور جو شخص کسی کاہن کے پاس جاتا اور اس کی تصدیق کرتا ہے تو اس نے شریعت محمدیہ کا انکار کیا۔“
جہاں تک خون سے غسل کرنے کا تعلق ہے تو خون نجس اور حرام چیز ہے اور ناپاک چیزوں سے علاج کرنا ناجائز ہے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ سے امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله أنزل الداء والدواء، وجعل لكل داء دواء، فتداؤوا ولا تتداؤوا بحرام [كنز العمال : 28324 و مشكاة المصابيح 4538]
”تحقیق اللہ تعالیٰ نے بیماری اور علاج کو نازل فرمایا اور ہر بیماری کے لئے علاج بھی بنایا لہٰذا علاج کیا کرو اور حرام (چیزوں) سے علاج نہ کرو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشار ہے :
إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم [سنن البيهقى و ابن حبان
”اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں قطعاً تمہاری شفاء نہیں رکھی۔ “
ان دلائل کی روشنی میں مذکورہ عورت پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا واجب ہے۔ وہ آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے باز رہے۔ اللہ تعالیٰ صدق دل سے توبہ کرنے والوں کو معاف فرماتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ سے :
وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [24-النور:31]
”اے ایمان والو تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“