ایک بہن نے سوال بھیجا تھا کہ ایک عورت راستہ چلتے ہوئے کن باتوں کا خیال کرےاور چلنے کا انداز کیا ہو یعنی وہ آہستہ چلے یا تیز بھی چل سکتی ہے اور چلتے ہوئے اپنے آپ کو سیدھی رکھے یا کچھ جھکاہوا،مزیداور کن باتوں کو دھیان میں رکھنا ہے؟
مجھے یہ سوال کافی اہم معلوم ہوا اس لئے سوچا کہ اس سے متعلق اہم معلومات جمع کی جائے تاکہ سائلہ کے علاوہ دوسری مسلم بہنوں کو بھی اس سے فائدہ ہوچنانچہ مذکورہ سوال کے تناظرمیں شریعت مطہرہ سے جو رہنمائی ملتی ہیں اس کو اختصار کے ساتھ مندجہ ذیل سطور میں بیان کرتاہوں ۔
ایک عورت جب گھر سے باہر نکلنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے بنیادی طور پرپہلے تین باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ۔
(1)اللہ تعالی نے ایک عورت کو اپنے گھر میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے عورت اپنے گھر کو لازم پکڑے اور گھر سے بلاضرورت باہر قدم نہ نکالے ۔ جب عورت کو گھر سے باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تب ہی گھر سے باہر نکلے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولىٰ(الاحزاب:33)
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں سکونت اختیار کرو اور اگلے زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگار کے ساتھ نہ نکلا کرو۔
اس آیت میں اللہ نے ایک طرف عورت کو گھر میں ٹک کر رہنے کا حکم دیا ہے تو دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت ضرورت کے تحت گھر سے باہر جاسکتی ہے جاہلی دور کی طرح زیب وزینت کا اظہار کرکے نہیں بلکہ باپردہ ہوکر۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوعورت کے گھر سے نکلنے پربڑا ناگوار لگتا تھا، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا (پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد)قضائے حاجت کے ارادے سے باہر نکلیں ، حضرت عمر آپ کوبھاری بھرکم بدن سے پہچان گئے اور کہاکہ کس طرح باہر نکل رہی ہیں ؟وہ واپس گھر پلٹ گئیں، آپ کے ہی گھر رسول اللہﷺ تھے ، انہوں نے ماجرابیان کیا،اتنے میں وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے فرمایا:إنه قد أذن لكن أن تخرجن لحاجتكن(صحیح البخاری:4795)
تمہیں (اللہ کی طرف سے) قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عورت ضرورت کے پیش نظر گھر سے باہر جاسکتی ہے اور وہ ضرورت کیا ہوسکتی ہے، علاج کے لئے، ضروری ملاقات کے لئے ، نماز کے لئے،عذر کے تحت خرید و فروخت کے لئے، شرعی حد میں رہتے ہوئے جائز عمل کی انجام دہی کے لئے اور اس قسم کی دوسری ضرورت کے لئے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔
عورت کو گھر سے بلاضرورت نکلنے سے کیوں منع کیا جاتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
المرأةُ عورةٌ فإذا خرجتِ استشرفَها الشَّيطانُ(صحيح الترمذي:1173)
ترجمہ:عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں اس طرح آتا ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں :إن المرأة عورة ، فإذا خرجت استشرفها الشيطان ، وأقرب ما تكون من وجه ربها وهي في قعر بيتها(صحيح ابن خزيمة:1685 وقال الألباني إسناده صحيح)
ترجمہ:عورت تو پردے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے اور عورت اللہ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے، جب وہ اپنے گھر کے کسی کونے اور پوشیدہ جگہ میں ہو۔
یعنی عورت شیطان کے لئے ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعہ عورت اور مرد کو گناہ کے راستہ پر لگاسکتا ہے اس لئے اسلام نے گناہ کے سدباب کے طور پر عورت کو بلاضرورت گھر سے نکلنے پر پابندی لگائی ہے ۔گھر میں رہنے والی عورت محفوظ ومامون اور رب سے قریب ہوتی ہے اور گھر سے نکلنے والی عورت فتنہ کا باعث بن سکتی ہے ۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ جب عورت اپنے گھر سے ضرورت کے تحت باہرنکلے تو مکمل حجاب اور پردہ میں نکلے ۔ اس بات کی دلیل سابقہ آیت احزاب بھی ہے ۔ اس آیت میں اللہ نے ضرورت کے تحت باہر نکلتے وقت تبرج یعنی بناؤ سنگار کا اظہار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت تبرج کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔”تبرّج میں کیا کچھ شامل ہے؟ تبرّج بمعنی اپنی زینت، جسمانی محاسن اور میک اپ دوسروں کو اور بالخصوص مردوں کو دکھانے کی کوشش کرنا اور اس میں پانچ چیزیں شامل ہیں۔ (١) اپنے جسم کے محاسن کی نمائش (٢) زیورات کی نمائش اور جھنکار(٣) پہنے ہوئے کپڑوں کی نمائش(٤) رفتار میں بانکپن اور نازو ادا (٥) خوشبویات کا استعمال جو غیروں کو اپنی طرف متوجہ کرے”۔(تفسیر تیسیرالرحمن)
یہاں پر اس حدیث کو بھی مدنظر رکھیں جب نبی ﷺ نے عورتوں کو عیدگاہ نکلنے کا حکم دیا تو اس پر ام عطیہ رضی اللہ عنہا آپ سے پوچھتی ہیں کہ اگر کسی عورت کے پاس جلباب (بڑی چادر) نہ ہوتووہ کیسے عیدگاہ نکلے، اس پر آپ نے فرمایا کہ اس کی بہن اس کو چادر اڑھادے ۔(صحیح بخاری :324)
گویا کہ ہرحال میں عورت مکمل پردہ کے ساتھ ہی باہر نکلے اور اگر کسی عورت کےپاس حجاب نہ ہو وہ بھی کسی دوسرے کے حجاب میں ہی گھر سے باہرنکلے ۔ عہد رسول کی خواتین چہرہ، ہاتھ اور پیرسمیت مکمل جسم ڈھک کر باہر نکلتی تھیں ، کپڑے کا دامن زمین سے گھسٹتا تھا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم لأمهات المؤمنين في الذيل شبرا ثم استزدنه فزادهن شبرا فكن يرسلن إلينا فنذرع لهن ذراعا(ابوداؤد:4119، صححہ البانی)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔
یہاں ایک بالشت سے مراد نصف پنڈلی سے ایک بالشت ہے جس کی اجازت رسول نے دی، صحابیات میں پردہ کا شوق دیکھیں وہ مزیدپردہ کامطالبہ کرتی ہیں پھرآپ ﷺ نے مزید ایک بالشت کی اجازت دیدی ،اس طرح مردوں کے مقابلہ میں عورت کو اپنا لباس نصف پنڈلی سے دوبالشت نیچے تک رکھنا ہے ، دو بالشت برابر ایک ہاتھ ہوتا ہے اس لئے ابن عمررضی اللہ عنہما نصف ساق سے ایک ہاتھ کپڑا ناپتے تھے ۔ یہا ں ایک اور حدیث ملاحظہ کریں ، ایک خاتون آپ ﷺ سے یہ سوال کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا مسجد تک جانے کا راستہ غلیظ اور گندگیوں والا ہے تو جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا اس کے آگے پھر کوئی اس سے بہتر اور پاک راستہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: ہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کا جواب ہے۔ (ابوداؤد:384، صححہ البانی)
اس حدیث سے بھی عورت کا لباس زمین سے گھسٹ کرچلنے کی دلیل ملتی ہے اور یہاں پردہ کی اس تفصیل کا مقصد ہے کہ آج کی خواتین ان باتوں سے نصیحت حاصل کریں اور اپنی اصلاح کریں ۔
(3)تیسری چیز یہ ہے کہ عورت خوشبو لگاکر باہر نہ نکلے ۔ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل عين زانية ، والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس ، فهي كذا وكذا. يعني زانية( صحيح الترمذي:2786)
ترجمہ:ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے یعنی وہ بھی زانیہ ہے۔
اس حدیث میں خوشبو لگاکر گھر سے باہر نکلنے والی عورت کے لئے کس قدر وعید ہے ، ایسی عورت کو زانیہ کہا گیا ہے کیونکہ اس خوشبو سے لوگ اس کی طرف مائل ہوں گے یعنی وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا سبب بن رہی ہے اس لئے اس کے واسطے سخت وعید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو گھر سے مسجد کے لئے آنے کی اجازت ہے لیکن عورت خوشبو لگائی ہو تو اس صورت میں اسے مسجد آنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيما امرأة أصابت بخورا فلا تشهدن معنا العشاء(صحيح أبي داود:4175)
ترجمہ:جس عورت نے خوشبو کی دھونی لے رکھی ہو تو وہ ہمارے ساتھ عشاء کے لیے (مسجد میں) نہ آئے۔
اس جگہ یہ بھی دھیان رہے کہ چوڑی یا پازیب یا کوئی ایسی چیز نہ لگاکر نکلے جس سے چلتے وقت جھنکار اورآواز پیدا ہوکیونکہ لوگ اس آواز کی طرف مائل ہوں گے حتی کہ مائل کرنے والےپرکشش لباس اور مائل کرنے والی کوئی صفت بھی نہ اپنائے ۔ نبی ﷺ نے مائل کرنے والی عورت اور مائل ہونے والی عورت (سیدھی راہ سے)کے بارے میں فرمایا :لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا(مسلم:2128)
ترجمہ: وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔
ان بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے راہ چلتے وقت ایک عورت کو مندرجہ ذیل باتیں دھیان میں رکھنی چاہیے۔
٭اس تعلق سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عورت سڑک کے کنارے سے چلے کیونکہ نبی ﷺ نے عورتوں کو درمیان سڑک چلنے سے منع فرمایا ہے :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ليس للنساء وسط الطريق( السلسلة الصحيحة:856)
ترجمہ:عورتوں کے لیے راستے کے درمیان میں چلنا درست نہیں۔
ویسے آج کل گاڑیوں کی وجہ سے عموما درمیان سڑک چلنا سب کے لئے مشکل ہے پھر بھی مختلف راستے ابھی بھی ایسے میں جہاں پورے سڑک پر لوگ چلتے ہیں ایسے میں عورتوں کو کنارے سے چلنا چاہئے ۔
ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وهو خارج من المسجد، فاختلط الرجال مع النساء في الطريق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للنساء: استأخرن؛ فإنه ليس لكن أن تحققن الطريق، عليكن بحافات الطريق. قال: فكانت المرأة تلصق بالجدار حتى إن ثوبها ليتعلق بالجدار من لصوقها به(سنن ابی داؤد:5272، حسنہ البانی)
ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت فرماتے ہوئے سنا جب آپ مسجد سے باہر نکل رہے تھے اور لوگ راستے میں عورتوں میں مل جل گئے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: ”تم پیچھے ہٹ جاؤ، تمہارے لیے راستے کے درمیان سے چلنا ٹھیک نہیں، تمہارے لیے راستے کے کنارے کنارے چلنا مناسب ہے“ پھر تو ایسا ہو گیا کہ عورتیں دیوار سے چپک کر چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے (دوپٹے وغیرہ) دیوار میں پھنس جاتے تھے۔
ذرا غور فرمائیں کہ جب نبی ﷺ کی طرف سے کوئی فرمان آجاتا تو اس پر عمل کرنے میں صحابیات کس قدر شوق دکھاتیں، سبحان اللہ۔
٭راہ چلتے ہوئے عورتوں کے لئے ایک اہم شرعی حکم نگاہ نیچی کرکے چلنا ہے ، نگاہ نیچی کرنے کا حکم مردوں کو بھی دیا گیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ عورتوں کوبھی اس کا حکم دیا گیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن ويحفظن فروجهن ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها ۖ وليضربن بخمرهن علىٰ جيوبهن(النور:31)
ترجمہ:اورمسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔
یہ آیت عام حالات میں بھی جہاں اجنبی مرد حضرات ہوں یا راہ چلتے ہوئے یا سفر کرتے ہوئے ایک عورت کو اپنے نگاہیں نیچی کرکے، زینت کو چھپاتے ہوئے اور اپنے سینوں پر اوڑھنی ڈالے ہوئے رکھے گویا راہ چلتے وقت ایک عورت کو بنیادی طور پر ان باتوں کو عمل میں لانا ہے۔
٭مذکورہ آیت کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت ادھرادھر نظریں گھماتے ہوئے ، ہرچیز کو گھورتے اور دیکھتے ہوئے اور چاروں طرف التفات کرتے ہوئے نہ چلے بلکہ سرجھکاکر، نگاہیں نیچی کرکے اور سامنے دیکھتے ہوئے چلے اور ضرورت کے وقت ہی نظر اٹھائے اور التفات کرے ۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے چلنے کی کیفیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں : اتبعت النبي صلى الله عليه وسلم، وخرج لحاجته، فكان لا يلتفت، فدنوت منه(صحيح البخاري:155)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (چلتے وقت) ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا۔
اور بھی احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ چلتے ہوئے ادھر ادھر التفات نہیں کرتے جیسے جابربن عبداللہ رضی اللہ روایت کرتے ہیں :كان لا يلتفت وراءه إذا مشى(صحيح الجامع:4870) یعنی نبی ﷺ چلتے وقت پیچھے مڑکر نہیں دیکھا کرتے تھے ۔ اور ایک روایت میں اس طرح ہے: كان إذا مشى لم يلتفت(صحيح الجامع :4786) یعنی آپ جب چلتے تو ادھرادھر التفات نہیں فرماتے۔جب مرد کی حیثیت سے نبی ﷺ کا یہ حال ہے تو ایک عورت جو سراپا پردہ ہے اس کو اور بھی اس معاملہ میں حساس رہنا چاہئے۔
٭عورت کے لئے پیرمارکر یعنی پٹخ پٹخ کرچلنے کی ممانعت ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے:ولا يضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن (النور:31)
ترجمہ:اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے۔
اس آیت میں عورت کی چال پرپابندی لگائی جارہی ہے کہ وہ اپنے پیروں کو زمین پر مار کر نہ چلے جس سے اس کے پیروں کی زینت ظاہرہوجائے یا پازیب وغیرہ کی جھنکار سنائی دینے لگے ۔ عورت عام چال جس میں سنجیدگی اور وقار ہواس طرح چلے ۔
٭عورت کا زیور اس کی شرم وحیاہے اوریہ زیور عورت کے ساتھ ہمیشہ ہونا چاہئے ۔ جب گھر سے نکلے تو راہ چلتے ہوئے حیا کے ساتھ چلےاور فاحشہ عورت کی طرح مٹک مٹک کر، نازوادا کے ساتھ نہ چلے ۔ آپ نے موسی علیہ السلام کے مدین سفر سے متعلق دو بہنوں کا قصہ پڑھا ہوگا، اس قصہ میں ایک بہن کے آنے کا ذکر کچھ اس انداز میں ہے: فجاءته إحداهما تمشي على استحياء(القصص:25)
ترجمہ:اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔
موسی علیہ السلام نے اللہ سے خیروبھلائی نازل کرنے کی دعا کی تھی ، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور دو بہنوں میں ایک بہن حیا کے ساتھ موسی علیہ السلام کے پاس آئی اورکہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں۔
٭اللہ کی زمین میں کسی کے لئے غرور وتکبر سے چلناروا نہیں ہے خواہ عورت ہو یا مرد اور عورت تو صنف نازک ہے اسے مرد کے مقابلہ اور بھی تواضع کے ساتھ چلنا چاہئے اوراللہ کو اکڑوالی ادا ہرگز پسند نہیں ہے اس لئے اس نےاپنے بندوں کو زمین میں اکڑکر چلنے سے منع فرمایا ہے اور بطور عبرت بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بينما رجل يمشي في حلة، تعجبه نفسه، مرجل جمته، إذ خسف الله به، فهو يتجلجل إلى يوم القيامة(صحيح البخاري:5789)
ترجمہ:(بنی اسرائیل میں) ایک شخص ایک جوڑا پہن کر کبر و غرور میں سر مست، سر کے بالوں میں کنگھی کئے ہوئے اکڑ کر اتراتا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک اس میں تڑپتا رہے گا یا دھنستا رہے گا۔
٭ راہ چلتے ہوئے بہت سارے لوگوں کے پاس سے عورت کا گزرہوسکتا ہے ایسے میں کسی اجنبی مرد کو سلام کرنا یا کسی مرد کا عورت کو سلام کرنا کیسا ہے ؟
سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كنا نفرح يوم الجمعة قلت: ولم؟ قال: كانت لنا عجوز، ترسل إلى بضاعة – قال ابن مسلمة: نخل بالمدينة – فتأخذ من أصول السلق، فتطرحه في قدر، وتكركر حبات من شعير، فإذا صلينا الجمعة انصرفنا، ونسلم عليها فتقدمه إلينا، فنفرح من أجله، وما كنا نقيل ولا نتغدى إلا بعد الجمعة(صحيح البخاري:6248)
ترجمہ: ہم جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کی کس لیے؟ فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ جایا کرتی تھیں۔ ابن سلمہ نے کہا کہ بضاعہ مدینہ منورہ کا کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر وہ وہاں سے چقندر لایا کرتی تھیں اور اسے ہانڈی میں ڈالتی تھیں اور جَو کے کچھ دانے پیس کر (اس میں ملاتی تھیں) جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے آتے اور وہ یہ چقندر کی جڑ میں آٹا ملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے اور قیلولہ یا دوپہر کا کھانا ہم جمعہ کے بعد کرتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد حضرات عورت کو سلام کرسکتی ہے اس لئے امام بخاری ؒ نے باب باندھا ہے(باب تسليم الرجال على النساء، والنساء على الرجال)(باب: مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو)
نبی ﷺ بھی عورتوں کو سلام کرتے تھے ۔ شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ انہیں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے:
مر علينا النبي صلى الله عليه وسلم في نسوة، فسلم علينا( صحيح أبي داود:5204)
ترجمہ: ہم عورتوں کے پاس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا۔
ام ہانی بنت ابی طالب جو نبی ﷺ کی چچازاد بہن تھیں، رشتہ میں آپ ان کے لئے غیرمحرم ہوئے اس کے باوجود انہوں نے (فتح مکہ کے موقع سے) آپ ﷺ کو سلام کیا۔(دیکھیں ، بخاری: 6158)
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ عورت مرد کو اور مرد عورت کو سلام کرسکتی ہے جب فتنہ کا خوف نہ ہو مثلا عمردراز سے یا عورتوں اور مردوں کی جماعت میں یا محرم کی موجودگی میں لیکن فتنہ کا اندیشہ ہو تو سلام ترک کردینا بہتر ہے اور یہ حکم معلوم رہے کہ سلام کرنا واجب نہیں ، سنت ہے ۔
آخری کلام
اللہ نے عورت کو مردوں سے بالکل الگ ساخت اور خصوصیات دے کر پیدا فرمایا ہے اس لئے عورت سراپا پردہ کہی جاتی ہے اور اس کی زندگی میں ہمیشہ پردہ نمایاں رہنا چاہئے ۔ یہ پردہ لباس وپوشاک کے ساتھ ، چال چلن ،معاملات اور گفتگو میں بھی جھلکنا چاہئے ۔ مندرجہ بالا سطور میں عورت کے راہ چلنے سے متعلق چند اہم امور بیان کردئے گئےہیں ، ان کے علاوہ بھی مزید مسائل ہوسکتے ہیں تاہم بنیادی چیزوں کا ذکر ہوچکا ہے ۔ اس کے ساتھ سرسری طور پر یہ باتیں بھی عورتوں کے علم میں رہے کہ وہ فیشن والےلباس، عریاں لباس، شہرت اور فحش عورتوں کے لباس لگاکر باہر نہ نکلے ، اس سے فتنہ بھی پھیلے گا اور عورت گنہگار بھی ہوگی ۔اسی طرح ہیل والی سینڈل لگاکرباہر نہ نکلے، راہ چلتے ہوئے ہنسی مذاق ، بلاضرورت زور زور سے باتیں کرنا، موبائل پر گفتگو کرتے ہوئے چلنا، لوگوں کی بھیڑ میں رک کربلاضرورت سلام وکلام کرنااور مردوں کی طرف بلاضرورت نظریں اٹھاناوغیرہ عورتوں کے حق میں مناسب نہیں ہے ۔ عورت مرد کی مشابہت اختیار نہ کرے ، یہ لعنت کا سبب ہے ۔
عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:” لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال(صحيح البخاري:5885)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں۔
حتی کہ مسلمان عورت ،کافر ہ اور فاحشہ عورت کی کوئی مذموم اور فحش چیز اوربر ی صفت کی نقالی نہ کرے اور یہ معلوم رہے کہ عورت معمولی دوری تک تو اکیلے جاسکتی ہے لیکن کہیں دوسری جگہ کا سفر کرنا ہو تو بغیر محرم سفر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ضرورت کے وقت غیرمامون جگہوں پربھی عورت اکیلی نہ جائے خواہ وہ جگہ نزدیک ہی کیوں نہ ہو۔ آج کل معمولی دوری بھی لوگ سواری سے طے کرتے ہیں ایسے میں عورت کو سواری میں مردوں سے ہٹ کر بیٹھنا چاہئے اور بہت افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ بعض عورتیں غیرمحرم کے ساتھ موٹرسائیکل پر سٹ کر بیٹھتی ہیں ، یہ عمل جائز نہیں ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ مسلم ماں بہنوں کو دین پر چلنے کی توفیق دے، انہیں شرعی حجاب اپنانے اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے آمدورفت کرنےکی توفیق دے ۔ آمین ۔