خلیفہ بارون الرشید کا ایمان افروز واقعہ
امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمہ اللہ (متوفی ۲۷۷ھ) فرماتے ہیں کہ :
میں نے علی بن المدینی (رحمہ اللہ) کو فرماتے سنا کہ:
محمد بن خازم (ابو معاویہ الضرير) نے فرمایا :
میں امیر المؤمنین ھارون (الرشید) کے پاس (سلیمان بن مہرن) الاعمش کی ابو صالح (عن ابی ہریرہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند) سے بیان کردہ حدیثیں پڑھ رہا تھا ، میں جب کہتا کہ:
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
تو امیر المومنین کہتے:
صلى الله على سيدي و مولاي
حتی کہ میں نے آدم و موسیٰ (علیہما السلام) کی ملاقات والی حدیث بیان کی (جس میں تقدیر کا مسئلہ ثابت ہے)
تو ہارون الرشید کے (کسی) چچا نے کہا:
اے محمد (بن خازم) ان (آدم و موسیٰ) کی ملاقات کہاں ہوئی تھی ؟
یہ سن کر هارون الرشید (سخت) ناراض ہوئے اور کہا:
یہ بات کس نے تجھے بتائی ہے؟ اور اس (چچا) کے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا، بعد میں اس (چچا) نے مجھے جیل میں بلایا اور کہا اللہ کی قسم مجھے کسی نے یہ بتایا نہیں ہے، ویسے ہی میری زبان سے یہ کلمات نکل گئے تھے ۔ میں نے واپس جا کر امیر المؤمنین (ھارون الرشید) کو بتایا کہ اس نے خود ہی (حماقت سے) یہ کلمات کہ دیئے تھے کسی نے اسے بتایا نہیں ہے۔ تو انہوں نے اس (چچا) کی رہائی کا حکم دیا اور فرمایا:
میں یہ سمجھتا تھا کہ بعض ملحدین (بے دین اور زندیق لوگو ) نے یہ کلام اسے سکھایا ہے ، مجھے اگر معلوم ہو جائے کہ یہ ملحدین کون ہیں تو میں انہیں قتل کر دوں، ویسے میرا یہ یقین ہے کہ (میرا رشتہ دار) قریشی زندیق نہیں ہوسکتا۔
(کتاب المعرفة والتاریخ: ۱۸۱/۲ ،۱۸۲وسنده صحیح ، و تاریخ بغداد : ۲۴۳/۵ت ۲۷۳۵)
معلوم ہوا کہ امیرالمؤمنین هارون الرشید رحمہ اللہ کے نزدیک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کرنے والا ملحد اور زندیق ہے، آج کل بعض کلمہ گولوگ کتاب وسنت کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اس بات سے غافل ہیں کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب ہر انسان اپنے رب کے سامنے پیش ہوگا ، جس نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی احادیث رد کی ہوں گی وہ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
’’کہ دو، اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر تم (اس سے) منہ پھیرو گے تو (جان لو کہ) بے شک اللہ تعالیٰ کا فروں کو پسند نہیں کرتا۔
(آل عمران :۳۲)
وما علينا إلا البلاغ