خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

الحمد للہ وحدہ، والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔

یہ تحقیقی مقالہ ایک نہایت اہم علمی مسئلے کی وضاحت کے لئے تحریر کیا جا رہا ہے۔ بعض احناف و دیوبندی حضرات یہ الزام لگاتے ہیں کہ اہلحدیث خلیفہ ابو یوسف یعقوب بن یوسف المراکشی (المتوفی 595ھ) فقہ ظاہری کے مقلد تھے یا انہوں نے اپنی سلطنت میں فقہ ظاہری کو نافذ کیا۔

❀ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تاریخی شہادتوں کی روشنی میں اس الزام کا علمی پوسٹ مارٹم کیا جائے۔
❀ ہم دکھائیں گے کہ خلیفہ ابو یوسف درحقیقت تقلید کے منکر اور کتاب و سنت کے نفاذ کے داعی تھے۔
❀ ان کے دور میں فقہی فروعات کو ترک کیا گیا، اہلحدیث علماء کو جمع کیا گیا اور صحاح و سنن کی کتب کو بنیاد بنا کر مسائل اخذ کیے گئے۔
❀ یہ واضح ہوگا کہ بعض مورخین نے صرف موافقتِ استنباط کو تقلید سمجھ کر غلط فہمی پیدا کی، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

✦ ابن خلکان کی شہادت

مشہور مورخ ابن خلکان (681ھ) نے خلیفہ ابو یوسف یعقوب المراکشی کے اوصاف اور ان کے منہج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

عربی متن:
«وكان ملكاً جواداً عادلاً متمسكاً بالشرع المطهر، يأمر بالمعروف وينهى عن المنكر كما ينبغي من غير محاباة ويصلي بالناس الصلوات الخمس، ويلبس الصوف، ويقف للمرأة وللضعيف ويأخذ لهم بالحق. وأوصى أن يدفن على قارعة الطريق ليترحم عليه من يمر به»
(وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان)

اردو ترجمہ:
وہ ایک سخی اور عادل بادشاہ تھے، شریعت مطہرہ پر مضبوطی سے قائم، بغیر جانبداری کے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے تھے۔ پانچوں نمازیں باجماعت پڑھاتے، صوف کا لباس پہنتے، عورت یا کمزور کے لیے رک جاتے اور ان کا حق دلاتے۔ انہوں نے وصیت کی کہ مجھے راستے کے کنارے دفن کیا جائے تاکہ گزرنے والے میرے لیے دعا کریں۔

✦ ان کا منہجِ فقہ

ابن خلکان آگے لکھتے ہیں:

عربی متن:
«وأمر برفض فروع الفقه، وأن العلماء لا يفتون إلا بالكتاب العزيز والسنة النبوية، ولا يقلدون أحداً من الأئمة المجتهدين المتقدمين، بل تكون أحكامهم بما يؤدي إليه اجتهادهم من استنباطهم القضايا من الكتاب والحديث والإجماع والقياس»
(وفيات الأعيان)

اردو ترجمہ:
انہوں نے حکم دیا کہ فقہی فروعات کو ترک کر دیا جائے، علماء صرف قرآن و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیں، مجتہدینِ متقدمین میں سے کسی کی تقلید نہ کریں، بلکہ اپنے اجتہاد اور استنباط کے ذریعے قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سے مسائل اخذ کریں۔

✦ نتیجہ

یہ نصوص واضح کرتی ہیں کہ خلیفہ ابو یوسف کا منہج کیا تھا:

تقلید کی نفی: «ولا يقلدون أحداً من الأئمة»
قرآن و حدیث کی بنیاد: «لا يفتون إلا بالكتاب العزيز والسنة النبوية»
اجتہاد و استنباط کی ترغیب: «تكون أحكامهم بما يؤدي إليه اجتهادهم»

❀ اگر وہ فقہ ظاہری کے مقلد ہوتے تو داود ظاہری کی کتب یا اصول نافذ کرتے، مگر ایسا کہیں نہیں۔
❀ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے تقلید کو ترک کیا اور اجتہاد و استنباط کو رائج کیا، جو خالص اہلحدیث منہج ہے۔

✦ عبدالواحد المراکشی کی شہادت

خلیفہ ابو یوسف کے منہج کے بارے میں دوسری بڑی شہادت مشہور مؤرخ عبدالواحد بن علی المراکشی (متوفی 647ھ) نے دی ہے۔ وہ اپنی معروف کتاب المعجب فی تلخیص أخبار المغرب میں لکھتے ہیں:

عربی متن:
«وتقدم إلى الناس في ترك الاشتغال بعلم الرأي والخوض في شيء منه، وأمر جماعة ممن كان عنده من العلماء المحدثين بجمع أحاديث من المصنفات العشرة: الصحيحين، والترمذي، والموطأ، وسنن أبي داود، وسنن النسائي، وسنن البزار، ومسند ابن شيبة، وسنن الدارقطني، وسنن البيهقي في الصلاة وما يتعلق بها»
(المعجب فی تلخیص أخبار المغرب)

اردو ترجمہ:
انہوں نے عوام کو حکم دیا کہ علم الرائے (فقہی قیاسات و آراء بازی) میں مشغول نہ ہوں اور نہ ہی کسی پہلو سے اس میں الجھیں۔ پھر اپنے پاس موجود علماء اہلحدیث کی جماعت کو حکم دیا کہ وہ نماز اور اس سے متعلقہ مسائل صرف ان دس کتابوں سے جمع کریں:
① صحیح بخاری
② صحیح مسلم
③ جامع ترمذی
④ موطا امام مالک
⑤ سنن ابی داود
⑥ سنن نسائی
⑦ سنن البزار
⑧ مسند ابن شیبہ
⑨ سنن دارقطنی
⑩ سنن بیہقی

✦ اہم نکتہ

عبدالواحد المراکشی کی اس صریح گواہی سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:

❀ خلیفہ ابو یوسف نے علم الرائے اور فقہی آراء کو ترک کرنے کا حکم دیا۔
❀ انہوں نے اپنی سلطنت میں اہلحدیث علماء کو جمع کیا تاکہ صرف کتب حدیث سے مسائل اخذ کریں۔
❀ وہ مسائل کے لیے صحاح و سنن کو اصل ماخذ قرار دیتے تھے۔

✦ نتیجہ

یہاں بھی کہیں یہ ذکر نہیں کہ خلیفہ ابو یوسف فقہ ظاہری کے مقلد تھے۔ اگر وہ واقعی ظاہری ہوتے تو:
✿ داود ظاہری یا ابن حزم وغیرہ کی کتب کو بنیاد بناتے۔
✿ اہلحدیث علماء کو جمع کر کے صرف حدیث کی کتب پر اکتفا نہ کرتے۔

اس لیے یہ شہادت بھی صاف ظاہر کرتی ہے کہ خلیفہ ابو یوسف کا منہج صرف کتاب و سنت پر مبنی اہلحدیث منہج تھا، نہ کہ ظاہری تقلید۔

✦ حافظ ذہبی کی شہادت

اہلِ تاریخ کے جلیل القدر امام حافظ شمس الدین الذہبی (748ھ) نے بھی خلیفہ ابو یوسف کے منہج کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں ابوبکر بن الجد المالکی (586ھ) کا واقعہ نقل کرتے ہیں:

عربی متن:
«دَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ يُوسُف، فَوَجَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ كِتَاب ابْن يُونُسَ، فَقَالَ: أَنَا أَنظُرُ فِي هذِهِ الْآرَاءِ الَّتِي أُحْدِثَتْ فِي الدِّينِ، أَرَأَيْتَ الْمَسْأَلَةَ فِيهَا أَقْوَالٌ، فَفِي أَيِّهَا الْحَقُّ؟ وَأَيُّهَا يَجِبُ أَنْ يَأْخُذَ بِهِ الْمُقَلِّدُ؟
فَافْتَتَحْتُ أُبَيِّنُ لَهُ، فَقَطَعَ كَلاَمِي، وَقَالَ: لَيْسَ إِلَّا هَذَا، وَأَشَارَ إِلَى الْمُصْحَفِ، أَوْ هَذَا، وَأَشَارَ إِلَى (سُنَن أَبِي دَاوُدَ)، أَوْ هَذَا، وَأَشَارَ إِلَى السَّيْفِ»
(تاریخ الاسلام ووفيات المشاهير والأعلام)

اردو ترجمہ:
ابوبکر بن الجد کہتے ہیں: میں امیر المؤمنین یوسف کے پاس گیا تو ان کے سامنے ابن یونس کی کتاب رکھی تھی۔ انہوں نے فرمایا: "میں ان آراء کو دیکھ رہا ہوں جو دین میں نئی پیدا کی گئی ہیں۔ ایک مسئلے میں کئی اقوال ہیں، ان میں حق کون سا ہے؟ اور مقلد کو کس پر چلنا چاہیے؟”
میں نے وضاحت شروع کی تو انہوں نے میری بات کاٹ دی اور فرمایا: "یہی (قرآن کی طرف اشارہ کیا) یا یہ (سنن ابی داود کی طرف اشارہ کیا) یا یہ (تلوار کی طرف اشارہ کیا)۔”

✦ اس واقعے سے حاصل نکات

❀ خلیفہ ابو یوسف نے فقہاء کی کثرتِ آراء کو دین میں پیدا کردہ بدعت قرار دیا۔
❀ انہوں نے واضح کیا کہ حق صرف:
① قرآن مجید میں ہے۔
② سنت رسول ﷺ (کتبِ حدیث) میں ہے، بطور خاص سنن ابی داود کو بطور مثال ذکر کیا۔
③ اور اگر لوگ اس سے منہ موڑیں تو پھر قوتِ نافذہ (تلوار) کے ذریعے شریعت کا نفاذ ہوگا۔

✦ نتیجہ

یہ شہادت بھی بالکل صریح ہے کہ خلیفہ ابو یوسف نہ تو فقہ مالکی پر رکے اور نہ ہی فقہ ظاہری کو اختیار کیا، بلکہ:

✿ انہوں نے براہِ راست قرآن اور حدیث کو ماخذ بنایا۔
✿ سنن ابی داود جیسی کتبِ حدیث کو بطور عملی مرجع پیش کیا۔
✿ تقلیدِ آراء کو باطل اور غیر شرعی قرار دیا۔

لہٰذا یہ الزام کہ خلیفہ ابو یوسف "فقہ ظاہری کے مقلد” تھے، محض تاریخی مغالطہ اور حقیقت سے بعید ہے۔

✦ صلاح الدین صفدی کی شہادت

اہم مؤرخ صلاح الدین خلیل بن أیبک الصفدی (764ھ) نے خلیفہ ابو یوسف یعقوب المراکشی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے احکام اور طرزِ عمل کو تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ اپنی کتاب الوافی بالوفیات میں بیان کرتے ہیں:

عربی متن:
«83 – الْمَنْصُور المراكشي يَعْقُوب بن يُوسُف بن عبد الْمُؤمن بن عَليّ الملقب بالمنصور أَمِير الْمُؤمنِينَ … وَكَانَ قد أَمر أَن لَا يُفْتى بِفُرُوع الْفِقْه، وَأَن لَا يُفْتى إِلَّا بِالْكتاب وَالسُّنَّة، وَأَن تجتهد الْفُقَهَاء على طَريقَة أهل الظَّاهِر»
(الوافی بالوفیات 28/98)

اردو ترجمہ:
امیر المؤمنین یعقوب بن یوسف المراکشی، الملقب بالمنصور … انہوں نے حکم دیا کہ فقہی فروعات میں فتویٰ نہ دیا جائے، صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر فتویٰ دیا جائے، اور فقہاء استنباط میں اہلِ ظاہر کے طریقے پر اجتہاد کریں۔

✦ وضاحت

❀ یہاں "اہلِ ظاہر کے طریقے پر اجتہاد” کا ذکر ہے، لیکن اس سے مراد اہلِ ظاہر کی تقلید نہیں بلکہ صرف استنباطی موافقت ہے۔
❀ اگر تقلید مقصود ہوتی تو داود ظاہری کی کتب یا فتاویٰ نافذ کیے جاتے، حالانکہ ایسی کوئی شہادت نہیں۔
❀ بلکہ یہ الفاظ صریح بتاتے ہیں کہ اصل ہدف قرآن و سنت کو بنیاد بنانا تھا، اور فقہاء کو اجتہاد پر ابھارنا تھا۔

✦ دیگر احکام (صفدی کی روایت)

صلاح الدین صفدی نے خلیفہ ابو یوسف کے بعض عملی احکامات بھی ذکر کیے ہیں:

بسم اللہ بالجہر کا حکم


«وأمر بِقِرَاءَة الْبَسْمَلَة فِي أول الْفَاتِحَة فِي الصَّلَوَات»
(الوافی بالوفیات 28/98)

ترجمہ: خلیفہ نے حکم دیا کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے شروع میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھی جائے۔

شراب نوشی پر سخت سزا


«وَقَتَلَ فِي بعض الأحيان على شُرْب الْخَمْر»
(الوافی بالوفیات 28/98)

ترجمہ: بعض اوقات انہوں نے شراب پینے والوں کو قتل بھی کروا دیا۔

✦ اہم نکتہ

❀ یہ دونوں احکامات اس بات کے مزید شاہد ہیں کہ خلیفہ ابو یوسف فقہ ظاہری کے مقلد نہیں تھے، کیونکہ:
✿ فقہ ظاہری میں بسم اللہ بالجہر کا حکم لازم نہیں، بلکہ یہ زیادہ تر شافعیہ کا مسلک ہے۔
✿ شراب نوشی پر قتل کی سزا ابن حزم اور ظاہریہ کا موقف نہیں، بلکہ ان کا مسلک 40 کوڑوں کی سزا ہے۔

لہٰذا یہ تمام نصوص صاف بتا رہی ہیں کہ خلیفہ ابو یوسف کا منہج کتاب و سنت پر براہِ راست عمل اور تقلید کی نفی تھا، نہ کہ فقہ ظاہری کی پیروی۔

✦ حافظ ابن حزم کی شہادت اور تقابل

ابو محمد حافظ ابن حزم اندلسی (456ھ) ظاہری فقہ کے سب سے بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ اگر واقعی خلیفہ ابو یوسف فقہ ظاہری کے مقلد ہوتے تو ان کے فتاویٰ ابن حزم یا ظاہریہ کے اقوال کے عین مطابق ہوتے۔ لیکن تاریخی نصوص اس کے برعکس بتاتی ہیں:

① مسئلہ بسم اللہ بالجہر

ابن حزم کا قول:
«مَنْ عَدَّ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ آيَةً مِنْ الْقُرْآنِ لَمْ تُجْزِهِ الصَّلَاةُ إِلَّا بِالْبَسْمَلَةِ، وَمَنْ كَانَ يَقْرَأُ بِرِوَايَةِ مَنْ لَا يَعُدُّهَا آيَةً … فَهُوَ مُخَيَّرٌ أَنْ يُبَسْمِلَ، أَوْ أَنْ لَا يُبَسْمِلَ»
(المحلى بالآثار)

ترجمہ:
جو قاری بسم اللہ کو قرآن کی آیت شمار کرتا ہے اس کی نماز بسم اللہ کے بغیر درست نہیں۔ اور جو اسے آیت نہیں مانتا، اس کو اختیار ہے کہ بسم اللہ پڑھے یا نہ پڑھے۔

❀ خلیفہ ابو یوسف نے بسم اللہ بالجہر کو لازم قرار دیا، جو امام شافعی کا موقف ہے، نہ کہ ظاہریہ کا۔

② مسئلہ شراب نوشی کی سزا

ابن حزم کا قول:
«أَنَّ الْقَوْلَ بِجِلْدِ أَرْبَعِينَ فِي الْخَمْرِ هُوَ قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ … وَبِهِ نَقُولُ»
(المحلى بالآثار)

ترجمہ:
شراب نوشی کی سزا چالیس کوڑے ہے۔ یہی حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور دیگر صحابہ کا موقف ہے، اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں۔

❀ لیکن خلیفہ ابو یوسف نے بعض اوقات شراب نوشوں کو قتل کروا دیا، جو ابن حزم کے مسلک کے خلاف ہے۔

✦ خلاصہ و نتیجہ

مندرجہ بالا تمام تاریخی نصوص اور تقابلی شہادتوں سے درج ذیل نکات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئے:

① خلیفہ ابو یوسف یعقوب المراکشی نے تقلید کی نفی کی اور حکم دیا کہ صرف قرآن و سنت کے مطابق فتاویٰ دیے جائیں۔
② انہوں نے فقہی فروعات اور علم الرائے کو ترک کروا دیا اور اہلحدیث علماء کو جمع کرکے صحاح و سنن کی کتب سے مسائل اخذ کرنے کا حکم دیا۔
③ ان کے عملی احکامات (بسم اللہ بالجہر، شراب نوشوں پر قتل وغیرہ) فقہ ظاہری کے اقوال سے بالکل مختلف تھے۔
④ لہٰذا یہ الزام کہ وہ "فقہ ظاہری کے مقلد” تھے، سراسر باطل اور محض ایک تاریخی مغالطہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک اہلحدیث خلیفہ تھے، جنہوں نے اپنی سلطنت میں کتاب و سنت کو ہی معیار بنایا۔

اہم حوالہ جات کے سکین

خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 01 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 02 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 03 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 04 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 05 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 06 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 07 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 08 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 09 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 10 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 11 خلیفہ ابو یوسف المراکشی اور فقہ ظاہری کی تہمت کا علمی رد – 12

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے