حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ

تحریر: حافظ ابویحییٰ نورپوری حفظ اللہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قبر میں مردے سے سوال و جواب کیے جاتے ہیں تو اس وقت مردے کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
وتعاد روحه فى جسده، ويأتيه ملكان،فيجلسانه، فيقولان له : من ربك؟
’’ مردے کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟۔۔۔“ [مسند أبى داؤد الطيالسي : 114/2، ح :، 789 طبعة دار هجر، مصر، الزهد والرقائق لابن المبارك والزهد لنعيم ابن حماد المروزي : 1219، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت، مصنف ابن أبى شيبة : 54/3، ح : 12062، طبعة مكتبة الرشد، الرياض، مسند أحمد : 499/30، طبعة مؤسسة الرسالة، الزهد لهناد بن السري : 205/1، ح : 339، طبعة دار الخلفاء للكتاب الاسلامي، الكويت، سنن ابي داؤد السجستاني : 4753، الرد على الجهمية للدارمي : 110، طبعة دار ابن الأثير، الكويت، تفسير الطبري : 660/13، طبعة دار هجر، مستخرج أبى عوانة ”إتحاف المهرة لابن حجر : 459/2، طبعة مجمع الملك فهد، المدينة“، مسند الروياني : 263/1، 392، طبعة مؤسسة القرطبة، القاهرة، الشريعة للآجري : 1294/3، طبعة دار الوطن، الرياض، الإيمان لابن مندة : 1064، طبعة مؤسسة الرسالة، بيروت، المستدرك على الصحيحين لالحاكم : 93/1، ح : 107، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت، إثبات عذاب القبر للبيهقي : 20،21، طبعة دار الفرقان، عمان]
↰ قارئین کرام نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ اس حدیث کو تدوین حدیث کے شروع سے لے کر ہر دور میں متقدمین و متاخرین محدثین نے عقیدے اور دیگر موضوعات پر مبنی کتب میں ذکر کیا ہے۔ محدثین کرام نے اس حدیث سے عقیدے کے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اہل فن اور نقاد محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اس حدیث کو ناقابل اعتبار قرار نہیں دیا۔ اس کے تمام راوی جمہور محدثین کرام کے ہاں ثقہ و صدوق ہیں۔ اس حدیث کے صحیح ہونے کے لیے یہی بات کافی تھی، اس پر مستزاد کہ کئی ایک محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی صراحت بھی کر دی ہے، جیساکہ :

➊ امام ابوعبداللہ، محمد بن اسحاق بن محمد بن یحییٰ، ابن مندہ، عبدی رحمہ اللہ (م : 395ھ) اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
هذا إسناد متصل مشهور، رواه جماعة عن البراء، وكذلك رواه عدة عن الأعمش، وعن المنهال بن عمرو، والمنهال أخرج عنه البخاري ما تفرد به، وزاذان أخرج عنه مسلم، وهو ثابت على رسم الجماعة. وروي هذا الحديث عن جابر، وأبي هريرة، وأبي سعيد، وأنس بن مالك، وعائشة رضي الله عنهم.
’’ یہ متصل اور مشہور سند ہے۔ اسے کئی راویوں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح بہت سے راویوں نے اسے اعمش اور منہال بن عمرو سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے (صحیح بخاری میں) منہال بن عمرو کی ایک ایسی حدیث بھی بیان کی ہے، جسے بیان کرنے میں وہ اکیلا ہے۔ زاذان راوی کی روایت امام مسلم رحمہ اللہ نے (اپنی صحیح) میں ذکر کی ہے۔ یوں یہ حدیث، متواتر حدیث کی طرح ثابت ہے۔ یہ حدیث دیگر صحابہ کرام، سیدنا جابر، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابوسعید، سیدنا انس بن مالک اور سیدہ عائشہ سے بھی مروی ہے۔“ [الإيمان لابن مندة : 962/2، ح : 1064، طبعة مؤسسة الرسالة، بيروت]

➋ امام ابونعیم، احمد بن عبداللہ، اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما حديث البراء فحديث مشهور، رواه عن المنهال بن عمرو الجم الغفير، وهو حديث اجمع رواة الاثر على شهرته و استفاضته.
’’ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث مشہور کے درجے پر ہے، اسے منہال بن عمرو سے محدثین کی بہت بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔ اس کے مشہور اور مستفیض ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔“ [مجموع الفتاوى لا بن تيمية: 439/5، طبعة مجمع الملك فهد، المدينة]

➌ امام ابوعبداللہ، محمد بن عبداللہ، حاکم، نیشاپوری رحمہ اللہ (321-405ھ) فرماتے ہیں :
هذا حديث صحيح على شرط الشيحين، فقد احتجا جميعا بالمنهال بن عمرو وزاذان أبى عمر الكندي، وفي هذا الحديث فوائد كثيرة لأهل السنة، وقمع للمبتدعة، ولم يخرجاه بطوله، وله شواهد على شرطهما، يستدل بها على صحته.
’’ یہ حدیث امام بخاری و مسلم رحمها اللہ کی شرط پر صحیح ہے۔ امام بخاری و مسلم دونوں نے منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمر کندی کی روایات کو دلیل بنایا ہے (منہال کی روایت بخاری میں، جبکہ زاذان کی مسلم میں ہے)۔ اس حدیث میں اہل سنت کے لیے بہت سے فوائد ہیں اور یہ بدعت شکن ہے۔ امام بخاری و مسلم نے اسے تفصیلاً بیان نہیں کیا، البتہ بخاری و مسلم کی شرط پر اس حدیث کے کئی شواہد ہیں، جن سے اس کی (مزید) صحت پر استدلال کیا جاتا ہے۔“ [المستدرك على الصحيحين :196/1 طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

➍ امام ابوبکر، احمد بن حسین بن علی، بیہقی رحمہ اللہ (384- 458ھ) فرماتے ہیں :
هذا حديث صحيح الإسناد.
’’ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 610/1، ح : 390، طبعة مكتبة الرشد، الرياض]

➎ حافظ ابومحمد، زکی الدین، عبدالعظیم بن عبدالقوی، منذری رحمہ اللہ ( 581-656ھ) لکھتے ہیں :
هذا الحديث حديث حسن، رواتهٔ محتج بهم فى الصحيح
’’ یہ حدیث حسن ہے، اس کے راویوں سے صحیح (بخاری و مسلم) میں حجت لی گئی ہے۔“ [الترغيب والترهيب للمنذري : 197/4، ح : 5396، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

➏ مشہور مفسر، علامہ، ابوعبداللہ، محمد بن احمد، قرطبی رحمہ اللہ (م:671ھ) فرماتے ہیں :
وهو حديث صحيح، له طرق كثيرة
’’ یہ حدیث صحیح ہے، اس کی بہت سی سندیں ہیں۔“ [التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة، ص: 359، طبعة دار المنهاج، الرياض]

➐ شیخ الاسلام، تقی الدین، احمد بن عبدالحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728 ھ) فرماتے ہیں :
وهو على شرطهما ’’ یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔“ [شرح حديث النزول، ص : 83، طبعة المكتب الاسلامي، بيروت]

➑ علامہ، ابوعبداللہ، محمد بن احمد بن عبدالہادی دمشقی رحمہ اللہ (705-744 ھ) فرماتے ہیں :
وقد ثبت فى حديث البراء بن عازب الطويل المشهور فى عذاب القبر ونعيمه، فى شأن الميت وحاله، أن روحه تعاد إلى جسده.
’’ سیدنا براء بن عازب کی عذاب و ثواب قبر کے بارے میں بیان کردہ طویل اور مشہور حدیث میں میت کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ روح اس کی طرف لوٹائی جاتی ہے۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 223، طبعة مؤسسة الريان، بيروت]

➒ علامہ، شمس الدین، ابوعبداللہ، محمد بن احمد بن عثمان ذہبی رحمہ اللہ (673- 748ھ) لکھتے ہیں :
على شرطهما ’’ یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔“ [المستدرك على الصحيحين مع تلخيص الذهبي :196/1 طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

➓ شیخ الاسلام ثانی، علامہ محمد بن ابوبکر بن ایوب، ابن قیم رحمہ اللہ (691- 751ھ) فرماتے ہیں :
وهذا حديث صحيح ’’ یہ حدیث صحیح ہے۔“ [إعلام الموقعين :137/1، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

◈ نیز فرماتے ہیں :
وذهب إلى القول بموجب هذا الحديث جميع أهل السنة والحديث من سائر الطوائف.
’’ اہل سنت و حدیث کے تمام گروہ بالاتفاق اس حدیث کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں۔“ [الروح فى الكلام على أرواح الأموات والأحياء، ص : 42، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

◈ ایک مقام پر فرماتے ہیں :
هذا حديث ثابت، مشهور، مستفيض صححه جماعة من الحفاظ، ولا نعلم أحدا من أئمة الحديث طعن فيه، بل رووه فى كتبهم، وتلقوهٔ بالقبول، و جعلوه اصلا من اصول الدين فى عذاب القبر ونعيمه، ومسائلة منكر و نكير، وقبض الأرواح وصعودها إلى بين يدي الله، تم رجوعها إلى القبر.
’’ یہ حدیث ثابت، مشہور اور مستفیض ہے۔ اسے بہت سے حفاظ ائمہ کرام نے صحیح قرار دیا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس میں طعن نہیں کی، بلکہ انہوں نے اسے اپنی کتابوں میں روایت کر کے اسے قبول کیا ہے اور عذاب و ثواب قبر، منکر نکیر کے سوالات، قبض روح، اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف جانے اور پھر قبر کی طرف واپس لوٹنے کے بارے میں بنیادی دینی حیثیت دی ہے۔“ [الروح فى الكلام على أرواح الأموات والأحياء، ص:48، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

⓫ علامہ ابوالحسن، علی بن ابوبکر بن سلیمان ہیثمی (735-807ھ) لکھتے ہیں :
هو فى الصحيح وغيره باختصار، رواه أحمد، ورجاله رجال الصحيح.
’’ یہ حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں اختصار کے ساتھ موجود ہے۔ اسے امام احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور اس کے راوی صحیح (بخاری و مسلم ) والے ہیں۔“ [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 50/3، 4266، طبعة مكتبة القدسي، القاهرة]

⓬ حافظ، ابوالفضل، احمد بن علی، ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) اس کی صحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و صححه ابو عوانة وغيره. ’’ اسے امام ابوعوانہ وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے۔“ [فتح الباري : 234/3]

⓭ علامہ عبدالرحمٰن بن ابوبکر، سیوطی (849-911ھ) لکھتے ہیں :
اخرج احمد وابن ابي شيبة فى المصنف والطيالسي وعبد الله فى مسنديهما، وهناد بن السري فى الزهد، وأبو داؤد فى سننه، والحاكم فى المستدرك، وابن جرير، وابن أبى حاتم، والبيهقي فى كتاب عذاب القبر، وغيرهم من طرق صحيحة، عن البراء بن عازب.
’’ اس حدیث کو امام احمد نے (اپنی مسند میں )، امام ابن ابوشیبہ نے اپنی مصنف میں، امام (ابوداؤد) طیالسی اور امام عبداللہ ( ؟ ) نے اپنی مسند میں، امام ہناد بن سری نے اپنی کتاب الزہد میں، امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں، امام حاکم نے اپنی مستدرک میں، امام ابن جریر، امام ابن ابوحاتم نے اور امام بیہقی نے کتاب عذاب قبر میں، نیز دیگر ائمہ کرام نے (اپنی اپنی کتب میں ) سیدنا براء بن عازب سے صحیح سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔“ [شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، ص:61، طبعة دار المعرفة، لبنان]

⓮ علامہ، ابوالحسن، عبیداللہ بن محمد عبدالسلام، مبارکپوری رحمہ اللہ (1327-1414 ھ) فرماتے ہیں :
والحديث نص فى أن الروح تعاد إلى الميت فى قبره وقت السؤال، وهو مذهب جميع أهل السنة من سائر الطوائف.
’’ یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ قبر میں میت سے سوال کے وقت اس کی روح لوٹائی جاتی ہے۔ اہل سنت کے تمام گروہوں کا یہی مذہب ہے۔“ [مراعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 331/5، طبعة إدارة البحوث العلمية، الهند]

⓯ علامہ، ابوعبدالرحمٰن، محمد ناصر الدین بن الحاج نوح، البانی رحمہ اللہ (1332-1420 ھ) فرماتے ہیں :
وقال الحاكم : صحيح على شرط الشيخين، وأقره الذهبي، وهو كما قالا.
’’ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے (کہ یہ حدیث صحیح ہے )۔“ [أحكام الجنائز، ص: 159، طبعة المكتب الإسلامي]

↰ قارئین غور فرمائیں کہ مختلف ادوار کے ایک درجن سے زائد محدثین اور اہل علم کی طرف سے اس حدیث کی صحت کی توثیق ہو چکی ہے۔ کسی ایک بھی اہل فن محدث نے اسے ’’ ضعیف“ قرار نہیں دیا۔ اہل سنت و الجماعت کا ہر دور میں اتفاقی طور پر یہی عقیدہ رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے اس حدیث کو ’’ ضعیف“ قرار دیتے ہوئے اس کے دو راویوں منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمر کے بارے میں جرح ذکر کی ہے۔

↰ اپنے زعم میں ڈاکٹر عثمانی نے بڑی علمی کاوش کی ہے، لیکن حقیقت میں انہوں نے محدثین کرام کی مخالفت مول لے کر بہت بڑی جہالت کا ارتکاب کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محدثین کرام جنہوں نے خود قرآن و سنت کی روشنی میں روایات کے قبول و رد کے قوانین وضع کیے اور کمال احتیاط سے راویان حدیث کے مراتب طے کیے، وہ اس حدیث کی علتوں سے واقف نہ ہو سکے اور جو لوگ رجال حدیث سے اچھی طرح واقف بھی نہیں تھے، ان کے سامنے اس حدیث میں موجود ’’ خرابیاں“ عیاں ہو گئیں ؟ اور اسی بنا پر ان لوگوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے امام اہل سنت اور دیگر محدثین و اکابرین امت کے بارے میں کفر و شرک کے فتوے داغنے شروع کر دئیے !

↰ آئندہ سطور میں ہم اسی بات کا جائزہ لیں گے اور اصول محدثین کی روشنی میں انتہائی انصاف کے ساتھ واضح کریں گے کہ یہ ساری کارروائی ڈاکٹر عثمانی نے اپنی جہالت کی وجہ سے کی ہے۔ اگر ان کو فن حدیث و رجال میں ادنیٰ سا بھی درک ہوتا تو وہ ہرگز ایسی جاہلانہ کاوش نہ کرتے۔

محدثین کرام اور منہال بن عمرو کی توثیق

منہال بن عمرو کی حدیث صحیح ہے، اس بارے میں ایک درجن سے زائد محدثین و نقاد اہل فن کی آراء ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ان سب کے نزدیک منہال بن عمرو ثقہ راوی ہے۔ اب اس کے بارے میں مزید محدثین کرام کی شہادتیں ملاحظہ فرمائیں :
➊ امام جرح و تعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (158-233 ھ) فرماتے ہیں :
المنهال بن عمرو ثقة.
”منہال بن عمرو ثقہ راوی ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 357/8، طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، الهند، وسنده صحيح، تاريخ ابن معين برواية الدوري: 407/3، طبعة مركز البحث العلمي، مكة المكرمة]

➋ امام اہل سنت، ابوعبداللہ، احمد بن حنبل رحمہ اللہ (164-241 ھ) فرماتے ہیں :
أبو بشر أوثق، إلا أن المنهال أمتن.
”ابوبشر زیادہ ثقہ ہے، لیکن منہال زیادہ مضبوط راوی ہے۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 236/4، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

↰ یعنی امام احمد کے نزدیک اگرچہ منہال بن عمرو کی نسبت ابوبشر زیادہ ثقہ ہے، لیکن ان کے نزدیک منہال بن عمرو بہی مضبوط راوی ہے۔

➌ امام بخاری رحمہ اللہ (194-256ھ) نے صحیح بخاری میں منہال بن عمرو سے حدیث نقل کی ہے۔ [دیکھیں : حديث نمبر:3371] یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے منہال بن عمرو پر اعتماد۔ کرنے کی دلیل ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں صرف صحیہ احادیث ذکر کی ہیں اور اپنی کتاب کا نام بھی ’’ صحیح“ رکھا ہے اور امت مسلمہ نے اتفاقی طور پر اس کے صحیح ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔

◈ شارح بخاری ابوالفضل، احمد بن علی بن محمد، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م :852 ھ) فرماتے ہیں :
ينبغي لكل منصف ان يعلم ان تخريج صاحب الصحيح لاي راو، كان مقتض لعدالته عنده، وصحة ضبطه، وعدم غفلته، ولا سيما ما انضاف إلى ذلك من إطباق جمهور الأئمة على تسمية الكتابين بالصحيحين، وهذا معنى لم يحصل لغير من خرج عنه فى الصحيح، فهو بمثابة اطباق الجمهور على تعديل من ذكر فيها
’’ ہر منصف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری و مسلم کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکا ہے، نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں۔ خصوصاً جب کہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری و مسلم کی کتابوں کو ”صحیح“ کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہو سکتا جس کی روایت صحیح (بخاری و مسلم ) میں موجود نہیں۔ گویا جس راوی کا صحیح بخاری و مسلم میں ذکر ہے، وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہے۔“ [فتح الباري شرح صحيح البخاري : 384/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

↰ معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک منصف شخص وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم کے راویوں کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کی بنا پر ثقہ اور قابل اعتماد سمجھے۔ اب ڈاکٹر عثمانی کی طرح کا جو شخص صحیح بخاری کے راویوں کو ’’ ضعیف، مجروح اور متروک“ کہتا ہے، وہ بقول ابن حجر، منصف نہیں، بلکہ خائن ہے۔

◈ محدث العصر، علامہ محمد ناصرالدین، البانی رحمہ اللہ منہال بن عمرو پر جرح کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ويكفي فى رد ذلك أنه من رجال البخاري.
’’ اس کے رد میں یہی کافی ہے کہ منہال بن عمرو صحیح بخاری کا راوی ہے۔“ [تحقيق الآيات البينات فى عدم سماع الأموات، ص: 84، طبعة المكتب الإسلامي، بيروت]

➍ امام احمد بن عبداللہ بن صالح، عجلی رحمہ اللہ (181-261ھ) فرماتے ہیں :
منهال بن عمرو، كوفي، ثقة
’’ منہال بن عمرو، کوفے کا رہائشی اور قابل اعتماد شخص تھا۔“ [تاريخ العجلي : 300/2، طبعة مكتبة الدار، المدينة]

➎ امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث، سجستانی رحمہ اللہ (202-275 ھ) منہال بن عمرو کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
هذا دليل على أن القرآن ليس بمخلوق.
’’ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم مخلوق نہیں۔“ [سنن أبى داود، تحت الحديث : 4737]

↰ امام ابوداود رحمہ اللہ منہال بن عمرو کی حدیث کو اس بات کی دلیل بنا رہے ہیں کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن کو مخلوق کہنے والا امام ابوداود کے نزدیک سنت کا مخالف ہے۔ اسی لیے ائمہ دین نے ایسے شخص کو کافر قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ منہال بن عمرو امام صاحب کے نزدیک ثقہ و قابل اعتماد ہیں اور ان کی حدیث دین کے بنیادی معاملات، یعنی عقائد میں بھی دلیل ہوتی ہے۔

➏ امام، ابوعیسیٰ، محمد بن عیسیٰ، ترمذی رحمہ اللہ (209-279 ھ) منہال بن عمرو کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
هذا حديث حسن صحيح [سنن الترمذي، تحت الحديث : 2060]

↰ بهلا کسی ”ضعیف مجروح اور متروک “ شخص کی حدیث حسن صحیح ہوتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک منہال بن عمرو ثقہ راوی ہیں، اسی لئے ان کے نزدیک اس کی حدیث حسن صحیح کے درجے کو پہنچتی ہے۔

➐ امام، ابوبکر، احمد بن عمرو بن عبدالخالق بزار رحمہ اللہ (م : 292 ھ) منہال بن عمرو کی بیان کردہ ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
واسنادۂ حسن . ”اس کی سند حسن ہے۔ ‘‘ [مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار: 321/11، طبعة مكتبة العلوم والحكم، المدينة]

➑ امام الائمہ، ابوبکر، محمد بن اسحاق،، ابن خزیمہ رحمہ اللہ (223-311 ھ) نے بھی منہال بن عمرو کی بیان کردہ کئی احادیث (مثلاً دیکھیں صحیح ابن خزیمہ : 1194، 2830 ) کو صحیح قرار دیا ہے۔

➒ امام ابوعوانہ، یعقوب بن اسحاق، نیشاپوری رحمہ اللہ (م : 316 ھ) بھی منہال بن عمرو کی بیان کردہ حدیث ( دیکھیں مستخرج ابوعوانہ : 7764 ) کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

➓ امام، ابوجعفر، احمد بن محمد بن سلامہ، طحاوی حنفی رحمہ اللہ (238-321 ھ) منہال بن عمرو کی بیان کردہ ایک حدیث ذکر کرنے كے بعد فرماتے ہیں:
وكان فى ذلك دليل . . . ”اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ۔۔۔۔ “ [شرح مشكل الأثار: 347/1، طبعة مؤسسة الرسالة، بيروت]

امام طحاوی حنفی کے نزدیک منہال من عمرو کی بیان کردہ حدیث عقیدے میں بھی دلیل بنتی ہے، جیسا کہ وہ ایک مقام پر فرماتے ہیں :
فكان هذا الحديث فيه إثبات عذاب القبر.
”اس حدیث سے عذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے۔ ” [ايضا:177/13]

⓫ امام، ابوحاتم، محمد بن حبان بن احمد، ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی (م : 354 ھ) منہال بن عمرو کی بہت سی احادیث [مثلاً دیکھیں صحیح ابن حبان : 1012، 1013، 1757، 2978، 5617] کو صحیح قرار دیا ہے۔

⓬ ناقد رجال، امام ابوالحسن، علی بن عمر، دارقطنی رحمہ اللہ (306-385 ھ) سے امام حاكم رحمہ اللہ نے منہال بن عمرو كے بارے ميں پوچها تو انہوں نے فرمايا:
صدوق . ”وه سچا اور قابل اعتماد شخص تها۔‘‘ [سؤالات الحاكم للدارقطني، ص : 273، طبعة مكتبة المعارف، الرياض]

⓭ امام، ابوحفص عمر بن احمد، ابن شاہين رحمہ اللہ (297-385 ھ) فرماتے ہيں:
والمنهال بن عمرو ثقة . ’’ منہال بن عمرو ثقہ ہے۔“ [تاريخ أسماء الثقات، ص: 230، ت : 1412، طبعة الدار السلفية، الكويت]

⓮ امام اندلس، ابو عمر، یوسف بن عبداللہ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والأحاديث فى أعلام نبوته أكثر من أن تحصي، وقد جمع قوم كثير كثيرا منها، والحمد لله، ومن أحسنها، وكلها حسن، ما حدثنا عبد الوارث بن سفيان . . . عن المنهال بن عمرو . . .
”علامات نبوت کے بارے میں بے شمار احادیث مروی ہیں۔ الحمد للہ ! بہت سے لوگوں نے ان میں سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ یہ ساری کی ساری حسن ہیں، لیکن ان سب میں سے بہترین حدیث وہ ہے، جو ہمیں عبد الوارث بن سفیان نے . . . منہال بن عمرو کے واسطے سے بیان کی ہے۔۔۔ ‘‘ [التمهيد لما فى المؤطأ من المعاني والأسانيد : 221/1، طبعة وزارة عموم الأوقاف، المغرب]

⓯ حافظ، ابوالقاسم، علی بن حسن،، ابن عساكر رحمہ اللہ (499-571 ھ) سے منہال کی بیان کردہ حدیث کی قرار دیا ہے۔ [معجم ابن عساكر :340/1، طبعة دار البشائر، دمشق]

⓰ علامہ، ابوعبداللہ، محمد بن عبدالواحد، ضياء الدين مقددسی رحمہ اللہ (569-643 ھ) نے منہال بن عمرو کی بہت سی احادیث [ مثلا ديكهيں الاحاديث المختارة: 760،455 ] کو صحیح کہا ہے۔

⓱ حافظ، ابوفداء، عمادالدین، اسماعیل بن عمر،ابن كثیر رحمہ اللہ (700-774 ھ) کچھ روایات، جن میں منہال بن عمرو کی بیان کردہ روایت بھی تھی، کے بارے میں فرماتے ہیں :
فهذه طرق جيدة، مفيدة للقطع فى هذه القضية
”یہ عمدہ سندیں ہیں جو کہ اس معاملے کی قطعیت کو ثابت کرتی ہیں۔ ‘‘ [مسند الفاروق : 391/1، طبعة دار الوفاء، المنصورة]

⓲ حافظ، ابو عبد اللہ، محمد بن احمد بن عثمان، ذہبی رحمہ اللہ (673 – 748 ھ) نے منہال بن عمرو کا ترجمہ ذکر کرنے سے پہلے صح لکھا ہے۔ اس رمز کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں :
إذا كتبت (صح) أول الاسم، فهي إشارة إلى أن العمل على توثيق ذلك الرجل .
’’ جب میں کسی اسم سے پہلے صح لکھ دوں تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس آدمی کی توثیق ہی پر اعتماد کیا جائے گا۔“ [لسان الميزان لابن حجر: 9/1، طبعة مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بيروت]

نیز منہال بن عمرو کی بیان کردہ ایک روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فهذا اسنادهٔ صالح.
’’ اس کی سندحسن ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 107/4، طبعة دار الغرب الإسلامي]

⓳ حافظ، ابوالفضل، احمد بن علی، ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) منہال بن عمرو پر کی گئی کی کی ایک جرح کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
وبهذا لا يجرح الثقه.
”ثقہ راوی کو ایسی بات کے ذریعے مجروح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ “ [هدى الساري : 446/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

⓴ علامہ، محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420 ھ) منہال بن عمرو کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
وهذا اسناد صحيح، المنهال بن عمرو ثقة من رجال البخاري.
’’ یہ سند صحیح ہے۔ منہال بن عمرو ثقہ ہے اور صحیح بخاری کا راوی ہے۔“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة : 442/2، طبعة مكتبة المعارف، الرياض]

ایک درجن سے زائد محدثین کرام اور اہل علم نے عود روح والی حدیث کو صحیح کہا اور اب بیس محدثین و ماہرین فن حدیث سے منہال بن عمرو کو ثقہ اور قابل اعتماد ثابت کیا جا چکا ہے۔ جن ائمہ دین نے منہال بن عمرو کو ثقہ قرار دیا ہے اور اس کی احادیث پر اعتماد کیا ہے، ان کے نزدیک بھی منہال کی بیان کردہ عود روح والی حدیث بھی بالکل صحیح ہے۔

کیا یہ تمام ائمہ دین بھی عثمانی فرقے کے ہاں مردہ پرست اور مشرک قرار پائیں گے ؟ اب یہ لوگ ان ائمہ کی بیان کردہ احادیث کو کس منہ سے اپنی دلیل بناتے ہیں ؟ اب ڈاکٹر عثمانی کوصراط مستقیم پر ماننے والے لوگ بتائیں کہ ان کے وار سے کون سا امام بچا ہے ؟

ڈاکٹر عثمانی کے جہالت پر مبنی اعتراضات

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ دراصل مردے کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت جعفریہ کی روایت ہے، جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منسوب کر دی ہے۔ اس کی سند دیکھیے تو اس کے اندر ضعفاء، مجروحین، متروکین اور شیعہ ملیں گے۔“ [ ’’ ایمان خالص“، دوسری قسط، ص : 17]

↰ ملاحظہ کیا قارئین نے کہ اس عبارت میں ڈاکٹر عثمانی نے اس حدیث کو زاذان راوی کی کارروائی قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کو بیان کرنے کا قصوروار صرف زاذان راوی ہے، لیکن اگلی ہی سطر میں منہال بن عمرو پر جرح نقل کرنا شروع کر دی۔ جب زاذان ہی اس روایت کا ذمہ دارتھا تو پہلے منہال بن عمرو پر جرح کا سبب سوائے ہٹ دھرمی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

منہال بن عمرو پر جرح کی حقیقت

درجنوں ائمہ حدیث کا منہال بن عمرو کو ثقہ کہنا اور اس کی حدیث پر عقیدے میں بھی اعتماد کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے اور اس کی بیان کردہ روایات اصول محدثین کے مطابق بالکل صحیح ہیں، نیز اس پر جو جرح کی گئی ہے، وہ مردود ہے، جیساکہ :
◈ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک منہال بن عمرو پر جرح قابل قبول نہیں، بلکہ اس کی توثیق ہی راجح ہے۔ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال: 192/4، طبعة دار المعرفة، بيروت]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
المنهال بن عمرو تكلم فيه بلا حجة
’’ منہال بن عمرو پر کی گئی جرح بے دلیل ہے۔“ [هدى الساري:464/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

◈ علامہ البانی رحمہ اللہ منہال بن عمرو کے بارے میں فرماتے ہیں :
وفيه كلام لا يضر ’’ اس پر کی گئی جرح اس کو کوئی نقصان نہیں دیتی۔“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة : 442/2، طبعة مكتبة المعارف، الرياض]

◈ عصر حاضرکے محقق، دکتور بشار عواد معروف لکھتے ہیں :
ولم يجرح بجرج حقيقي، وبعض ما نسب إلى جرحه لا يصح بسبب ضعف الراوي .
’’ منہال بن عمرو پر کوئی قابل قبول جرح نہیں کی گئی، اس پر کی گئی بعض جرحیں تو بیان کرنے والے کے کمزور ہونے کی بنا پر ثابت ہی نہیں۔“ [حاشية تهذيب الكمال فى أسماء الرجال : 572/28]

↰ اس بارے میں اہل علم و فن کے مزید اقوال ہم آئندہ سطور میں ذکر کریں گے۔ ڈاکٹر عثمانی نے منہال بن عمرو پر جو جرح ذکر کی ہے، ہم اگر اس کو قارئین کی آسانی کے لیے اپنے الفاظ میں ترتیب دیں تو اس کا خلاصہ کچھ یوں ہو گا۔ (ڈاکٹرعثمانی کے الفاظ ہم تفصیلی تجزئیے میں ذکر کریں گے ) :
① امام حاکم کا کہنا ہے کہ منہال بن عمرو کی حیثیت یحییٰ بن سعید گراتے تھے۔
② ابن معین منہال کی شان کو گراتے تھے۔
③ امام شعبہ نے منہال بن عمرو کے گھر سے گانے کی آواز سنی تو اسے ترک کر دیا۔
④ جوزجانی نے منہال بن عمرو کو بدمذہب لکھا ہے۔
⑤ ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی قبر میں سوال و جواب والی رایت کو رد کیا ہے۔
↰ امام بخاری رحمہ اللہ سمیت درجنوں محدثین کی واضح توثیق کے خلاف ڈاکٹر عثمانی کے پاس یہی جمع پونجی تھی۔ اصول حدیث کے مطابق اتنے زیادہ محدثین کی توثیق کے مقابلے میں یہ پانچوں جروح اگر ثابت اور مؤثر بھی ہوتیں تو ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ چہ جائیکہ ان میں سے پہلی دو تو سرے سے ثابت ہی نہیں، یعنی امام یحییٰ بن سعید قطان اور امام یحییٰ بن معین نے منہال پر کوئی جرح کی ہی نہیں، جبکہ باقی تینوں سے منہال بن عمرو کی حدیث پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ آئیے تفصیلا ملاحظہ فرمائیں :

① امام یحییٰ بن سعید اور منہال بن عمرو

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ الذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ حاکم کا کہنا ہے کہ منہال کی حیثیت یحییٰ بن سعید گراتے تھے۔“ (’’ ایمان خالص“، دوسری قسط، ص : 17)

↰ اس بات کا تذکرہ نہ امام حاکم رحمہ اللہ کی کسی کتاب میں ملتا ہے، نہ امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے کسی نے باسند ایسی کوئی بات ذکر کی ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ کے درمیان تقریباً ساڑھے تین صدیوں کا فاصلہ ہے، جبکہ امام حاکم اور امام یحییٰ بن سعید کے درمیان قریباً دو صدیاں حائل ہیں۔ بغیر کسی سند کے کیسے مان لیا جائے کہ واقعی امام یحییٰ بن سعید نے منہال کی حیثیت گرائی تھی ؟ عجیب منطق ہے ڈاکٹر عثمانی کی کہ جمہور محدثین ایک حدیث کو صحیح قرار دیں تو بھی وہ اسے رد کرنے کے لیے اس کی سند کو زیر بحث لاتے ہیں، لیکن خود جرح نقل کرنے کے لیے کسی سند کا التزام نہیں کرتے۔

↰ یاد رہے کہ جس طرح حدیث کو سند کے بغیر یا ضعیف سند کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح حدیث کے رد و قبول کے بارے میں اقوال اور راویان حدیث کی توثیق و جرح بھی سند کے بغیر یا ضعیف سند کے ساتھ قبول نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ امور بلاواسطہ حدیث سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ہمارے منہج کو بھی ملحوظ رکھیں کہ ہم جس طرح حدیث کے بارے میں صحت سند کا اہتمام کرتے ہیں، بالکل اسی طرح کسی بھی حوالے سے کسی بھی امام کا قول ذکر کرتے ہوئے بھی یہ اہتمام کرتے ہیں کہ وہ قول یا تو خود اس امام کی کسی ثابت شدہ کتاب میں موجود ہو یا پھر کسی اور نے اس کو محدثین کے ہاں قابل حجت سند کے ساتھ ذکر کیا ہو۔ اس کے برعکس گمراہ لوگ اپنی تائید میں متاخرین کی کتب سے اندھا دھند بے سند اقوال ذکر کرتے رہتے ہیں۔

↰ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے منہال بن عمرو پر ابن قطان کی کوئی جرح ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ مبہم سی بات ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی زیادہ ثقہ راوی کے مقابلے میں ابن قطان اس کی حیثیت کو کم کرتے ہوں اور یہ کوئی جرح نہیں۔

◈ اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وحكاية الحاكم عن القطان غير مفسرة.
’’ امام حاکم کی امام یحییٰ بن سعید قطان سے روایت مبہم ہے۔“ [فتح الباري : 446/1]
↰ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ خود منہال پر جرح کے خلاف تھے۔ وہ تو منہال بن عمرو کو ثقہ قرار دیتے تھے، جیساکہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عثمانی کی ’’ دیانت علمی“ ملاحظہ فرمائیں کہ منہال بن عمرو کی توثیق کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ کے ثابت شدہ قول اور ابن قطان کی جرح پر ابن حجر کے تبصرے کو بالکل نظر انداز کر دیا، جبکہ منہال پر جرح کے بارے میں بے سند و بے ثبوت قول کو سینے سے لگا لیا۔ سجان اللہ، کیا تحقیق ہے !

② امام یحییٰ بن معین اور منہال

ڈاکٹر عثمانی نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ”تہذیب التہذیب“ کے حوالے سے لکھا ہے : ’’ ابن معین، منہال کی شان کو گراتے تھے۔“ [’’ ایمان خالص“، دوسری قسط، ص :18]

↰ گزشتہ کی طرح یہ بات بھی بے سند ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام بن معین رحمہ اللہ سے چھ صدیاں بعد پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے ابن معین تک اس قول کی کوئی سند بھی ذکر نہیں کی۔ بغیر کسی سند کے کیسے مان لیا جائے کہ واقعی ابن معین رحمہ اللہ، منہال کی شان کو گراتے تھے ؟ اس سلسلے میں ابن حجر رحمہ اللہ نے جس نقل پر اعتماد کیا ہے، شاید وہ یہ ہے :

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ (499-571 ھ) نے منہال بن عمرو کے حالات میں لکھا ہے :
قال المفضل بن غسان الغلابي : ذم یحيى بن معين المنهال بن عمرو.
’’ مفضل بن غسان غلابی کا کہنا ہے کہ امام یحییٰ بن معین نے منہال بن عمرو کی مذمت کی ہے۔“ [تاريخ دمشق: 374/60 طبعة دار الفكر، بيروت]

↰ اس حکایت کا راوی ابوبکر محمد بن احمد بن محمد بن موسیٰ بابسیری ’’ مجہول“ ہے۔
↰ اگر یہ قول ثابت بھی ہو تو یہ منہال پر جرح نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فأما حكاية الغلابي، فلعل بن معين كان يضع منة بالنسبة إلى غيره، كالحكاية عن أحمد، ويدل على ذلك أن أبا حاتم حكى عن ابن معين انهٔ وثقه.
’’ رہی غلابی کی حکایت، تو شاید امام ابن معین کسی اور (زیادہ ثقہ ) راوی کی نسبت اس کی شان کو گراتے ہوں، جیسا کہ امام احمد سے بھی ثابت ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابوحاتم نے امام ابن معین سے منہال کا ثقہ ہونا بھی ذکر کیا ہے۔“ [فتح الباري : 446/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

↰ یعنی جرح کے برعکس امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی طرف سے منہال بن عمرو کی واضح توثیق ثابت ہے، جیسا کہ توثیق کے ضمن میں سب سے پہلے نمبر پر ہم بیان کر چکے ہیں۔

↰ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے منہال پر جرح کا رد کیا ہے۔ ڈاکٹر عثمانی نے ابن حجر سے ان کی مردود بتائی ہوئی جرح بغیر رد نقل کیے ذکر کر دی، لیکن جو بات ابن معین اور ابن حجر سے ثابت تھی، یعنی منہال کی توثیق، اپنے خلاف پا کر اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایسے لوگوں سے انصاف کی توقع عبث ہے۔

③ امام شعبہ اور منہال بن عمرو

امام شعبہ رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو طرح کی روایات بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے منہال بن عمرو کے گھر سے قرآن کریم کو سر کے ساتھ پڑھنے کی آواز سنی۔ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 357/8، طبعة دار إحياء التراث العربي، بيروت]
دوسرے یہ کہ انہوں نے منہال کے گھر سے گانے کی آواز سنی تھی۔ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 236/4، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت، وسنده صحيح]

↰ جو روایت ڈاکٹر عثمانی نے ذکر کی ہے، اس میں گانے کا کوئی ذکر نہیں۔ الفاظ یہ ہیں :
لانه سمع من داره صوت قراءة بالتظريب
’’ کیونکہ شعبہ رحمہ اللہ نے منہال کے گھر سے سر کے ساتھ قرآن کی قرأت سنی تھی۔“
ثابت ہوا کہ اس روایت میں گانے کا نہیں، بلکہ قرآن کریم کی قرأت کا ذکر ہے، جیسا کہ ڈاکٹر عثمانی کی محولہ کتاب میں ایک اور جگہ تصریح ہے :
سمع صوت قراءة بألحان، فترك الكتابة عنه لأجل ذلك.
’’ امام شعبہ رحمہ اللہ نے ترنم کے ساتھ قرأت کی آواز سنی، اسی بنا پر اس سے حدیث لکھنا چھوڑ دیا۔“ [الجرح والتعديل : 172/1]
یہ عالم ہے ڈاکٹر عثمانی کی عربی دانی اور کتب کی ورق گردانی کا !
بہرحال قرآن کریم کو تغنی، یعنی سر اور خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا کوئی قابل جرح بات نہیں، جیسا کہ عرب محقق ڈاکٹر بشار عواد معروف فرماتے ہیں :
هذا جرح مردود، والله أعلم، وما أدري كيف جوز شعبة لنفسه أن يتركهٔ للتطريب بالقراءة، ان صح ذلك عنه، فقد ثبت عن المصطفي صلى الله عليه وسلم ضرورة تحسين الصوت والتطريب بالقراءة.
’’ یہ جرح مردود ہے۔ اگر امام شعبہ رحمہ اللہ سے یہ بات ثابت ہے تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے نرم اور خوبصورت آواز سے قرأت کو بنیاد بنا کر منہال کو چھوڑنا جائز کیسے سمجھ لیا ؟ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کی قرأت خوبصورت آواز اور سر میں ہونی چاہیے۔“ [حاشية تهذيب الكمال فى أسماء الرجال : 570/28، طبعة مؤسسة الرسالة]

دوسری روایت جس میں منہال کے گھر سے گانے کی آواز آنے کا ذکر ہے، اس کے مطابق بھی منہال بن عمرو پر کوئی قدغن نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ جب امام شعبہ رحمہ اللہ نے وہب بن جریر رحمہ اللہ کے سامنے یہ ماجرا بیان کیا تو وہب بن جریر رحمہ اللہ نے امام شعبہ رحمہ اللہ کے اس طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے ایک سوال کیا، جس پر امام شعبہ رحمہ اللہ خاموش ہو گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ وہب بن جریر رحمہ اللہ امام شعبہ سے اپنا مکالمہ یوں بیان کرتے ہیں :
عن شعبة، قال : أتيت منزل منهال بن عمرو، فسمعت منه صوت الطنبور، فرجعت، ولم أساله، قلت : وهلا سألته ! فعسى كان لا يعلم.
’’ امام شعبہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں منہال بن عمرو کے گھر آیا تو مجھے گھر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ میں لوٹ آیا اور منہال سے اس بارے میں نہیں پوچھا۔ میں نے کہا : آپ نے اس سے کیوں نہ پوچھا ؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے لاعلم ہو۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 236/4، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت، و سندهٔ صحيح]

امام شعبہ رحمہ اللہ کی منہال پر جرح کا سب سے پہلے رد تو وہب بن جریر رحمہ اللہ نے ان کے سامنے کر دیا اور ان کو لاجواب بھی کر دیا۔ وہب بن جریر رحمہ اللہ کی بات بالکل درست تھی کہ ہو سکتا ہے، منہال کو اس بات کا علم ہی نہ ہو، وہ گھر پر نہ ہو، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے پڑوسیوں کے گھر سے یہ آواز آ رہی ہو اور امام شعبہ رحمہ اللہ کو غلط فہمی ہو گئی ہو۔ پھر کسی کے گھر سے گانے کی آواز آنا جرح کا سبب تو نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ گھر کا جو فرد ایساکر رہا ہے، منہال اس سے راضی نہ ہو۔ بعض انبیائے کرام کے گھر والے بھی تو ان کے نافرمان ہوئے ہیں۔ کیا اس بنا پر ان کو بھی الزام دیا جائے گا ؟ وہب بن جریر رحمہ اللہ کے مطابق امام شعبہ رحمہ اللہ کو منہال کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ان سے استفسار کرنا چاہیے تھا۔

بعد والے اہل علم بھی امام شعبہ رحمہ اللہ کی اس بے جا سختی کا رد کرتے آئے ہیں، جیسا کہ :
◈ علامہ، ابوالحسن، علی بن محمد، ابن قطان، فاسی رحمہ اللہ (562-628 ھ) منہال کی نرم آواز میں قرأت پر امام شعبہ کے رد عمل والی روایت ذکر کر کے فرماتے ہیں :
فإن هذا ليس بجرحه، إلا أن يتجاوز إلى حد يحرم، ولم يذكر ذلك فى الحكاية.
’’ یہ (سر سے قرأت ) کوئی جرح نہیں، الا یہ کہ حرمت کی حد تک پہنچ جائے (یعنی اس میں تکلف اور غلطی آ جائے )، اور ایسی کوئی بات اس واقعے میں مذکور نہیں۔“
اور گانے کی آواز سن کر شعبہ کے ترک کرنے والی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
فهذا، كما ترى، التعسف فيه ظاهر.
’’ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، امام شعبہ کا یہ رویہ واضح طور پر بےجا ہے۔“ [بيان الوهم والإيهام فى كتاب الأحكام : 363/3، طبعة دار طيبة، الرياض]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661-728 ھ) امام شعبہ رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
وأما قول من قال: تركه شعبة، فمعناه أنه لم يرو عنه، كما قال أحمد بن حنبل : لم يسمع شعبة من عمر بن أبى سلمة شيئا، وشعبة، ويحيى بن سعيد، وعبد الرحمن بن مهدي، ومالك، ونحوهم، قد كانوا يتركون الحديث عن أناس لنوع شبهة بلغتهم، لا توجب رد أخبارهم، فهم إذا رووا عن شخص كانت روايتهم تعديلا له، وأما ترك الرواية فقد يكون لشبهة لا توجب الجرح، وهذا معروف فى غير واحد قد خرج له فى الصحيح.
’’ جس نے امام شعبہ رحمہ اللہ کے کسی راوی کو ترک کر دینے کی بات کی ہے، اس کی مراد یہ تھی کہ امام شعبہ نے اس سے احادیث روایت نہیں کیں، جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شعبہ نے عمر بن ابوسلمہ سے کوئی حدیث نہیں سنی۔ امام شعبہ، امام یحییٰ بن سعید، امام عبدالرحمٰن بن مہدی، امام مالک وغیرہ جیسے ائمہ کسی شبہ کی بنا پر بھی لوگوں سے روایت کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ یہ ائمہ جس راوی سے روایت کریں، اس کے ثقہ ہونے کی یہ دلیل ہو گی، لیکن ان کا کسی سے روایت چھوڑ دینا بسا اوقات کسی شبہ کے وجہ سے ہوتا ہے جو حقیقت میں جرح کا سبب نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری کے کئی راویوں کے بارے میں امام شعبہ رحمہ اللہ کا ایسا طرز عمل ثابت ہے۔“ [ الفتاوي الكبري : 53/3، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
ان مجرد ترك شعبة له لا يدل على ضعفه فكيف وقد قال بن ابي حاتم انما تركهٔ شعبة لانهٔ سمع فى دارہ صوت قراءۃ بالتطريب، وروي عن شعبة، قال : أتيت منزل المنهال، فسمعت صوت الطنبور، فرجعت، فهذا سبب جرحه، ومعلوم أن شيئا من هذا لا يقدح فى روايته، لأن غايته أن يكون عالما به، مختارا له، ولعله متأول فيه، فكيف وقد يمكن أن لا يكون ذلك بحضورہ، ولا إذنه، ولا علمه، وبالجملة فلا يرد حديث الثقات بهذا وأمثاله.
’’ امام شعبہ رحمہ اللہ کا چھوڑ دینا منہال پر کے ضعیف ثابت ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا، جبکہ امام ابن ابوحاتم نے یہ بیان بھی کر دیا ہے کہ امام شعبہ نے منہال کے گھر سے قرآن کریم کی قرأت سر سے ہو رہی تھی، اسی بنا پر انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ ایک روایت کے مطابق امام شعبہ بیان کرتے ہیں کہ میں منہال کے گھر گیا تو وہاں مجھے گانے کی آواز سنائی دی۔ یہ تھا امام شعبہ کی جرح کا سبب۔ مسلم بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز منہال کی روایت کو عیب دار نہیں کرتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ منہال کو اس بارے میں علم ہو اور اس کے اختیار سے یہ کچھ ہو رہا ہو، البتہ وہ اس بارے میں تاویل کرتا ہو (یعنی اسے بعض دلائل کی بنا پر جائز سمجھتا ہو، جیسا کہ ابن حزم رحمہ اللہ کا خیال ہے )۔ جبکہ یہ بھی بعید نہیں کہ یہ کچھ نہ اس کی موجودگی میں ہوا ہو، نہ اس کی اجازت سے اور نہ اس کے علم میں یہ بات آئی ہو۔ الغرض، اس طرح کی باتوں سے ثقہ راویوں کی روایات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔“ [حاشية ابن القيم على سنن أبى داؤد مع عون المعبود : 64/13، طبعة دار الكتب العلمية]

◈ حافظ، ابوعبداللہ، محمد بن احمد بن عثمان، ذہبی رحمہ اللہ (673- 748ھ) فرماتے ہیں :
وهذا لا يوجب غمز الشيخ.
’’ یہ بات شیخ (منہال بن عمرو) کو مجروح نہیں کرتی۔“ [ميزان الاعتدال: 192/4ء، طبعة دار المعرفة، بيروت]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام شعبہ رحمہ اللہ پر وہب بن جریر رحمہ اللہ کے اعتراض کے بارے میں لکھتے ہیں :
وهذا اعتراض صحيح، فإن هذا لا يوجب قدحا فى المنهال
’’ وہب بن جریر کا یہ اعتراض صحیح تھا، کیونکہ امام شعبہ کی ذکر کردہ بات منہال کے بارے میں جرح کا سبب نہیں بنتی۔“ [فتح الباري : 446/1]

◈ علامہ، محمد بن عبدالرحمٰن، سخاوی رحمہ اللہ (831-902 ھ) فرماتے ہیں :
وجرحہ بهذا تعسف ظاهر.
’’ امام شعبہ کا اس بنا پر منہال پر جرح کرنا واضح طور پر بے جا ہے۔“ [فتح المغيث بشرح ألفية الحديث: 2 /24، طبعة مكتبة السنة، مصر]
↰ یہ ساری باتیں ڈاکٹر عثمانی نے خیانت کرتے ہوئے ہڑپ کر لیں اور صرف جرح والی بات کو ذکر کر کے شور ڈال دیا کہ منہال بن عمرو ’’ ضعیف“ راوی ہے۔
↰ معلوم ہوا کہ امام شعبہ کا منہال بن عمرو کو چھوڑ دینا قابل جرح بات نہیں، یہ امام شعبہ رحمہ اللہ کی راویوں کے بارے میں حد سے زیادہ سختی کی دلیل ہے۔

علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ :
شعبة متعنت ’’ امام شعبہ (راویوں کے بارے میں ) بہت سخت مزاج ہیں۔“ [المغني فى الضعفاء : 792/2، بتحقيق الد كتور نور الدين عتر]

موسیقی اور ابن حزم

پھر جو لوگ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کی منہال بن عمرو پر جرح کو دلیل بنا کر اس حدیث کو رد کرتے ہیں، ان کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے اور ان دونوں میں سے ایک بات کو ترک کر دینا چاہیے، یعنی یا وہ منہال بن عمرو پر گانے والی روایت کی وجہ سے جرح نہ کریں، یا ابن حزم کی باتوں کو ذکر کرنا چھوڑ دیں، کیونکہ ابن حزم گانے اور آلات موسیقی کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیتے تھے۔ [ديكهيں المحلى : 599/7، طبعة دار الفكر، بيروت]

↰ عود روح والی حدیث کو دنیا میں سب سے پہلے پانچویں صدی ہجری میں ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’ ضعیف“ قرار دیا۔ ان سے پہلے تمام محدثین اور اہل علم اسے صحیح ہی قرار دیتے رہے تھے، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عثمانی کی بندر بانٹ ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص صریح طور پر گانے کو جائز کہے اور آلات موسیقی کی خرید و فروخت کو بھی حلال قرار دے، ان کے نزدیک اس کی جرح و تعدیل بھی قبول اور اس کی حدیث بینی بھی عین دلیل، لیکن جس کے بارے میں یہ بھی ثابت نہ ہو سکے کہ اسے علم بھی تھا کہ اس کے گھر میں گانا گایا گیا، اس کے خلاف یہ غلط پروپیگنڈا ! کیا یہی انصاف ہے ؟ اور کیا ایسے لوگوں میں امانت و دیانت کی کوئی رتی موجود ہو سکتی ہے ؟

امام شعبہ رحمہ اللہ اور دیگر ثقہ راویوں کا ترک :

↰ امام شعبہ رحمہ اللہ نے اپنی حد سے زیادہ احتیاط کی بنا پر معمولی سے شبہے کی وجہ سے دیگر کئی ثقہ راویوں کو بھی ترک کر دیا تھا۔ ہم ہہاں پر صرف ایک مثال عرض کرتے ہیں :
محمد بن مسلم، ابوالزبیر مکی :
ابوالزبیر مکی صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ محدثین عظام کے ایک جم غفیر نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، لیکن امام شعبہ رحمہ اللہ ان سے بھی روایت نہیں لیتے تھے۔ ورقاءکا بیان ہے :
قلت لشعبة : ما لك تركت حديث أبى الزبير؟ قال : رأيته يزن ويسترجح فى الميزان
’’ میں نے شعبہ سے کہا : آپ نے ابوالزبیر کی حدیث کیوں چھوڑ دی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ان کو وزن کرتے دیکھا، وہ زیادہ وزن طلب کر رہے تھے۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 130/4، طبعة دار الكتب العلمية، وسنده صحيح]

امام شعبہ رحمہ اللہ کے اس طرز عمل کے رد میں امام ابن حبان لکھتے ہیں :
ولم ينصف من قدح فيه، لأن من استرجح فى الوزن لنفسه، لم يستحق الترك من أجله.
’’ جس نے ابوالزبیر پر جرح کی، اس نے انصاف سے کام نہیں لیا، کیونکہ جو شخص اپنے لیے زیادہ وزن طلب کرتا ہے، وہ اس بنا پر ترک کر دئیے جانے کا مستحق نہیں ہو جاتا۔“ [الثقات: 352/5، طبعة دائرة المعارف العثمانية، الهند]

↰ کیا امام شعبہ رحمہ اللہ کے ترک کر دینے کی وجہ سے ابوالزبیر مکی بھی ’’ ضعیف“ قرار پائیں گے ؟ اس طرح تو صحیح بخاری و مسلم میں موجود ان کی سینکڑوں احادیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ کیا ڈاکٹر عثمانی کے پیروکار ابوالزبیر مکی کی احادیث کو بھی چھوڑ دیں گے ؟ معلوم ہوا کہ جب جمہورمحدثین کرام کسی راوی کو ثقہ قرار دے رہے ہوں تو امام شعبہ رحمہ اللہ کا اسے ترک کر دینا اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا۔

④ ابواسحاق جوزجانی اور منہال

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ الجوزجانی نے اپنی کتاب ”الضعفاء“ میں لکھا ہے کہ وہ بدمذہب تھا۔“ [ ’’ ايمان خالص“، دوسري قسط، ص : 17، 18]

↰ پہلی بات تو یہ ہے کہ جوزجانی کے اصل الفاظ کیا ہیں ؟ ذکر کرنے والوں کا اس میں اختلاف ہے۔ علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے تو جوزجانی سے منہال کے بارے میں (بدمذہب ) کے الفاظ نقل کیے ہیں، جبکہ علامہ عینی حنفی (762-858 ھ) نے منہال بن عمرو کے بارے میں جوزجانی کا تبصرہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے :
وقال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني: المنهال بن عمرو سني المذهب.
’’ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی نے کہا ہے کہ منہال بن عمرو مذہب کے لحاظ سے سنی تھا۔“ [مغاني الأخيار فى شرح أسامي رجال معاني الأثار: 85/3، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]
معلوم ہوتا ہے کہ جوزجانی کی کتاب کا جو نسخہ علامہ عینی کے پاس تھا، اس میں یہی الفاظ تھے، پھر علامہ عینی حنفی کے ذکر کردہ الفاظ بعید از قیاس بھی نہیں، کیونکہ منہال بن عمرو اہل سنت والے عقائدکے حامل تھے، رافضی نہیں تھے۔ ان سے سیدہ عائشہ کو ’’ ام المؤمنین“ کہنا اور ان کے بارے میں ”رضی اللہ عنہا“ کے دعائیہ الفاظ ذکر کرنا ثابت ہے۔ [ديكهيں سنن أبى داؤد : 5217]

جبکہ رافضی شیعہ تو دشمنان صحابہ ہوتے ہیں، وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسی پر تعظیم رائے کا اظہار نہیں کر سکتے۔ علامہ عینی کی کتاب سے ناواقفیت یا مجرمانہ چشم پوشی ڈاکٹر عثمانی کی ’’ وسعت مطالعہ“ یا ’’ دیانت علمی“ کا خوب پتا دیتی ہے۔
پھر اگرمنہال بن عمرو کے بارے میں جوزجانی کے ’’ بدمذہب“ والے الفاظ ہی صحیح ہوں تو ڈاکٹر عثمانی نے یہ بات علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر، دونوں کی کتابوں سے ذکر کی ہے، لیکن یہ نہیں بتایاکہ خود ان دونوں اہل علم کا جوزجانی کی اس جرح کے بارے میں کیا تاثر تھا۔ ان دونوں نے جوزجانی کی اس جرح کو قابل التفات نہیں سمجھا۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے جوزجانی کی جرح نقل کرنے سے قبل ہی صح لکھ کر بتا دیاکہ اس پر کی گئی کسی کی کوئی جرح، بشمول جوزجانی، مؤثر نہیں، جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بہت تفصیل کے ساتھ جوزجانی کے متعصبانہ رویے کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ سچے اور ایمان دار اہل کوفہ کو بھی بدمذہب قرار دینا جوزجانی کا متعصبانہ وطیرہ ہے، اس سے متنبہ رہنا چاہیے۔ جوزجانی کے بارے میں حافظ موصوف کی سخت تنبیہ محققین کے لیے لازم مطالعہ ہے، وہ فرماتے ہیں :
وممن ينبغي أن يتوقف فى قبول الجرح من كان بينه وبين من جرحه عداوة سببها الاختلاف فى الاعتقاد، فإن الحاذق إذا تأمل ثلب أبى إسحاق الجوزجاني لأهل الكوفة رأى العجب، وذلك لشدة انحرافه فى النصب، وشهرة أهلها بالتشيع، فتراه لا يتوقف فى من ذكره منهم، بلسان ذلقة وعبارة طلقة، حتى إنه يلين مثل الأعمش، وأبي نعيم، وعبيد الله بن موسى، وأساطين الحديث، وأركان الرواية، فهذا إذا عارضة مثله أو أكبر منه، فوثق رجلا ضعفه قبل التوثيق
’’ جن لوگوں کے جرح والے قول کو قبول کرنے میں توقف کرنا ضروری ہے، ان میں سے وہ شخص بھی ہے، جس کی مجروح راوی سے بسبب اختلاف عقیدہ عداوت ہو، چنانچہ جب کوئی ماہر (رجال ) ابواسحاق جوزجانی کی اہل کوفہ کے خلاف جرح پر غور کرے گا تو وہ عجیب طرز عمل دیکھے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقیدہ نصب (اہل بیت سے عداوت ) میں سخت انحراف کا شکار ہیں، جبکہ کوفہ والے تشیع (اہل بیت سے زیادہ محبت ) میں مشہور ہیں، لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ اہل کوفہ میں سے جس کو بھی ابواسحاق جوزجانی نے ذکر کیا ہے، اس پر تیز زبان اور سخت عبارت کے ساتھ جرح کرنے میں توقف نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ امام اعمش، ابونعیم اور عبیداللہ بن موسیٰ جیسے راویان حدیث پر بھی جرح کر گئے، جو کہ حدیث کے دارومدار اور روایت کے ستون تھے۔ چنانچہ جب ان کا کوئی ہم پلہ امام یا ان سے بڑا امام اس آدمی کو ثقہ کہہ دے، جس کو جوزجانی نے ضعیف کہا ہو، تو توثیق کو قبول کیاجائے گا۔۔۔“ [لسان الميزان :16/1، طبعة مؤسسة الأعلمي، بيروت]

یعنی یہ حقیقت ہے کہ اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ حب اہل بیت میں انتہا پسندی کا شکار ہو کر باقی صحابہ کرام کے بارے میں بدگمان ہو گئے تھے، لیکن یہ اس سے بھی واضح حقیقت ہے کہ سب اہل کوفہ کا معاملہ ایسا نہیں تھا۔ اگر حب اہل بیت میں غلو کرتے ہوئے باقی صحابہ کرام کی گستاخی پر اتر آنا ایک انتہا ہے تو باقی صحابہ کرام کی طرفداری میں اہل بیت کی تنقیص میں ملوث ہو جانا اور سب صحابہ کرام کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اہل بیت سے محبت رکھنے والے اہل کوفہ سے عداوت رکھنا اور ان پر عیب جوئی کرنا دوسری انتہا ہے۔ پہلی انتہا کو پہنچنے والے ’’ رافضی“ اور دوسری انتہا والوں کو اصطلاحاً ’’ ناصبی“ کہا جاتا ہے۔ جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے۔ اگر کوئی ایک بھی معتبر محدث کسی کوفی راوی کو ثقہ قرار دے تو جوزجانی کی جرح رد ی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی، چہ جائیکہ منہال کو درجنوں محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے اور ڈاکٹرعثمانی جوزجانی کی جرح کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ محققین نے معتدل محدثین کے مقابلے میں متعصب جوزجانی کے قول کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

علامہ، محمدناصرالدین، البانی رحمہ اللہ جوزجانی کی جرح کے بارے میں فرماتے ہیں :
ويكفي فى رد ذلك أنه من رجال البخاري.
’’ جوزجانی کے رد کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ صحیح بخاری کا راوی ہے۔“ [تحقيق الآيات البينات فى عدم سماع الأموات، ص: 84، طبعة المكتب الإسلامي، بيروت]
↰ اس منصفانہ انداز تحقیق کے برعکس ڈاکٹر عثمانی کے انداز تحقیق کو جہالت و بددیانتی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
منہال بن عمرو پر جوزجانی کی جرح کا رد کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما الجوزجاني، فقد قلنا غير مرة : إن جرحه لا يقبل فى أهل الكوفة، لشدة انحرافه، ونصبه.
’’ رہی جوزجانی کی بات، تو ہم کئی مرتبہ یہ بتا چکے ہیں کہ سخت ناصبی ہونے اور راہ اعتدال سے ہٹ جانے کی بنا پر اہل کوفہ کے بارے میں اس کی جرح کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔“ [فتح الباري : 446/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

ابن حجر رحمہ اللہ کئی مرتبہ کیا، کئی لاکھ مرتبہ بھی بتائیں، لیکن ڈاکٹر عثمانی جیسے ’’ محققین“ کو انصاف اور دیانت سے کیا لینا دینا ؟ انہوں نے تو جوزجانی کی طرح یہی متعصبانہ وطیرہ اپنایا ہوا ہے کہ جہاں سے اپنے مطلب کی بات ملی، اسے بیان کرنے والے کے سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنی تائید میں پیش کر لیا اور صاحب کتاب کا اس بارے میں کوئی تاثر بھی نقل نہ کیا۔ ان کی اس روش کا ہم قارئین کو مسلسل مشاہدہ کروا رہے ہیں۔

⑤ ابن حزم رحمہ اللہ اور منہال بن عمرو

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ اسی طرح ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی (اسی ) قبر کی آزمائش اور سوال و جواب والی روایت کو ناقابل احتجاج ٹھہرایا۔“ [’’ ایمان خالص“، دوسری قسط، ص : 17]

↰ اپنی دیانت و انصاف سے پاک روش کے مطابق ڈاکٹر عثمانی نے ابن حزم کی جرح تو حافظ ذہبی سے لے لی، لیکن اس کے بارے میں ان کا اپنا موقف نقل کرنا گوارا نہیں کیا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ایک تو شروع میں ”صح“ لکھ کر بتادیا کہ اس پر ابن حزم کی جرح قابل قبول نہیں، بلکہ مردود ہے۔ دوسرے منہال کی اسی عذاب قبر اور عود روح والی حدیث کوبخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا، جیسا کہ ہم نے بیان کر دیا ہے۔ تیسرے یہ کہ ابن حزم کی جرح نقل کرنے کے بعد منہال کی ایک حدیث ذکر کر کے اس کی سند کو صالح قراد دے دیا۔ ڈاکٹر عثمانی نے ان سب باتوں سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں اور سمجھ لیاکہ شاید کوئی ان تک پہنچ نہیں پائے گا۔ اللہ تعالیٰ دشمنان حدیث کی کارروائیوں کو لوگوں کے سامنے ضرور لاتا ہے۔

◈ حافظ، ابوفداء، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774 ھ) فرماتے ہیں :
وتكلم فيه ابن حزم، ورد حديثه عن زاذان، عن البراء، فى السؤال فى القبر، فاخطا ابن حزم
’’ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے منہال بن عمرو پر جرح کی ہے اور قبر میں سوال و جواب کے بارے میں اس کی بواسطہ زاذان، سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث کو رد کیا ہے۔ یہ ابن حزم کی غلطی ہے۔“ [التكميل فى الجرح و التعديل :211/1، طبعة مركز النعمان لالبحوث، اليمن]

↰ درجنوں محدثین کے عود روح والی حدیث کو صحیح کہنے اور بیسیوں اہل علم کے منہال کو ثقہ کہنے کے خلاف ڈاکٹرعثمانی ابن حزم کی غلطی پر ڈٹ گئے ہیں۔ یہ ہے ان کی انمول تحقیق !

حافظ ابن حزم کا جرح وتعدیل میں مقام :

ابن حزم رحمہ اللہ اگرچہ مجتہد و فقیہ تھے، لیکن بہرحال وہ متاخر تھے اور جرح و تعدیل میں ان کی حیثیت صرف ایک ناقل کی تھی۔ وہ صرف کسی متقدم امام کے قول کو بنیاد بنا کر ہی کسی راوی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے اہل تھے، جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وضعفه أبو محمد ابن حزم، فأخطأ، لأن لا نعلم له سلفا فى تضعيفه .
’’ اسے (مروان بن محمد دمشقی کو) ابومحمد ابن حزم نے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ ان کی غلطی ہے، کیونکہ ہمارے علم کے مطابق ابن حزم سے پہلے اسے کسی نے ضعیف نہیں کہا:۔۔۔“ [لسان الميزان : 96/10، طبعة مجلس دائرة المعارف النظامية، الهند]

↰ لہٰذا امام بخاری وغیرہ جیسے ماہرین فن محدثین کے مقابلے میں ان کی بات کو کوئی وقعت نہیں دی جا سکتی۔ ہاں ! اگر ابن حزم رحمہ اللہ کسی متقدم محدث کے قول کو دلیل بنا کر کسی راوی کو ’’ ثقہ“ یا ’’ ضعیف“ قرار دیں تو ان کی دلیل ضرور قابل غور ہو گی۔ منہال بن عمرو کو ’’ ضعیف“ قرار دینے کے حوالے سے بھی ابن حزم نے ایک دلیل ذکر کی ہے، اس کا جائزہ ہم آئندہ سطور میں لیں گے۔ ان شاءاللہ !

↰ پھر یہ بات بھی مسلم ہے کہ جرح و تعدیل اور صحت و سقم حدیث کی معرفت ابن حزم رحمہ اللہ کا میدان نہیں تھا۔ ایک ناقل ہونے کے ناطے بھی وہ جرح و تعدیل میں طاق نہیں تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے صحیح بخاری کی حرمت موسیقی والی روایت کو ’’ ضعیف“ قرار دیا، حالانکہ متقدمین و متاخرین محدثین اس کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے امام ترمذی رحمہ اللہ کو بھی ’’ مجہول“ قرار دے دیا، حالانکہ وہ حدیث کے ایک مشہور و معروف امام ہیں۔ متقدمین و متاخرین نے ان کی توصیف کی ہے۔

اس بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ثقة مجمع عليه، ولا التفات إلى قول أبى محمد بن حزم فيه، فى الفرائض، من كتاب الإيصال : إنه مجهول، فإنه ما عرفه، ولا درى بوجود الجامع، ولا العلل اللذين له .
’’ امام ترمذی رحمہ اللہ کی ثقاہت پر امت کا اتفاق ہے۔ ان کے بارے میں ابومحمد ابن حزم کا کتاب الایصال کے باب الفرائض میں یہ قول ناقابل التفات ہے کہ وہ مجہول ہیں۔ (حیرت ہے کہ ) ابن حزم نہ امام صاحب کو پہچان سکے، نہ ان کی جامع کو اور ان کی علل حدیث پر تصنیف کی گئی دو کتب کو۔“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال : 678/3، طبعة دار المعرفة، بيروت]

اسی طرح صحیح بخاری و مسلم کے کئی راویوں کو ابن حزم نے ’’ ضعیف“ قرار دیا ہے۔ مثلاً :
➊ ابراہیم بن طہمان صحیح بخاری و مسلم کی بیسیوں صحیح احادیث کے راوی ہیں۔
ان کے بارے میں کسی معتبر امام کی کوئی جرح ثابت نہیں، لیکن ابن حزم رحمہ اللہ نے ا سے ’’ ضعیف“ کہا ہے۔ [المحلي بالآثار:65/10، طبعة دار الفكر، بيروت]
اسرائیل بھی صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ ان پر بھی علامہ ابن حزم نے جرح کی ہے۔ [ديكهيں المحلى بالآثار:284/1]

حالانکہ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ :
ثقة، تكلم فيه بلا حجة.
’’ یہ ثقہ راوی ہے۔ ان پر کی گئی جرح بے دلیل ہے۔“ [تقريب التهذيب، ص : 104، ت: 401، طبعة دار الرشيد، سوريا]

حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
ثقة إمام، ضعفه ابن حزم، ورد أحاديثه، مع كونها كثيرة الصحاح.
’’ اسرائیل ثقہ امام ہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے، حالانکہ صحیح احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ ان کا بیان کردہ ہے۔“ [من تكلم فيه وهو موثق، ص: 44، ت : 32، طبعة مكتبة المنار، الزرقاء]

اگر ابراہیم بن طہمان اور اسرائیل بن یونس وغیرہ کے بارے میں ابن حزم کا فیصلہ مان لیں تو بخاری و مسلم کا ایک بڑ احصہ ضعیف اور ناقابل حجت ہو جائے گا۔
اس لیے جرح و تعدیل میں ابن حزم کا قول اسی وقت قبول کیا جائے گا، جب وہ جمہور متقدمین محدثین کے قول کے موافق ہو، بصورت دیگر اسے رد کر دیا جائے گا، جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے منہال کے بارے میں ان کے محدثین کے خلاف قول کو غلط کہہ کر رد کر دیا۔

ابن حزم رحمہ اللہ کی دلیل :
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے منہال بن عمرو پر جرح کی دلیل بھی ذکر کی ہے، وہ یہ ہے :
والمنهال ضعيف، وروي عن المغيرة بن مقسم أنه قال : لم يثبت للمنهال شهادة فى الإسلام .
’’ منہال بن عمرو ضعیف ہے، مغیرہ بن مقسم سے منقول ہے کہ اسلام میں منہال کی گواہی ثابت نہیں ہوتی۔“ [المحلي بالآثار: 216/9]

مغیرہ بن مقسم کی وفات سے لے کر ابن حزم رحمہ اللہ کی پیدائش تک کوئی اڑھائی صدیوں کا فاصلہ ہے۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس قول کی کوئی سند بیان نہیں کی۔ البتہ اس کی سند ابن ابوخیثمہ نے بیان کی ہے۔ شاید ابن حزم رحمہ اللہ نے وہیں سے اسے نقل کیا ہو، لیکن انہیں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ سند صحیح نہیں۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وروى ابن أبى خيثمة بسند له عن المغيرة بن مقسم . . . وهذه الحكاية لا تصح، لأن راويها محمد بن عمر الحنفي لا يعرف.
’’ ابن ابی خیثمہ نے اپنی سند کے ساتھ مغیرہ بن مقسم سے بیان کیا ہے۔۔۔ لیکن یہ حکایت ثابت نہیں، کیونکہ اس کا راوی محمد بن عمر حنفی مجہول ہے۔“ [فتح الباري:446/1]

جب ابن حزم رحمہ اللہ کی دلیل ہی ثابت نہ ہوئی تو اس پر کھڑی جرح کی عمارت بھی زمین بوس ہو گئی۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ بات آ جائے کہ منہال کے گھر سے گانے کی آواز سن کر امام شعبہ رحمہ اللہ نے جو اسے چھوڑ دیا تھا، وہ تو ثابت ہے، شاید وہ بھی ابن حزم رحمہ اللہ کے سامنے ہو اور اس بنا پر انہوں نے منہال کو ’’ ضعیف“ کہا ہو، لیکن یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں، کیونکہ خود ابن حزم رحمہ اللہ گانے کو بھی جائز سمجھتے تھے اور آلات موسیقی کی خرید و فروخت کو بھی حلال کہتے تھے۔ پھر گھر سے گانے کی آواز آنے پر وہ منہال پر جرح کیسے کر سکتے تھے ؟

ابن حزم اور ڈاکٹر عثمانی :

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صرف منہال کی وجہ سے رد کیا تھا اور فرمایا تھا :
ولم يرو أحد أن فى عذاب القبر رد الروح إلى الجسد إلا المنهال بن عمرو، وليس بالقوي.
’’ عذاب قبر والی حدیث میں جسم کی طرف روح لوٹنے کا ذکر صرف منہال بن عمرو نے کیا ہے اور وہ قوی نہیں۔“ [المحلي بالآثار:42/1]

مذکورہ قول سے ثابت ہوا کہ ابن حزم کے نزدیک اگر منہال ’’ ضعیف“ نہ ہوتا یا کوئی ثقہ راوی ایسی حدیث بیان کر دیتا تو وہ اسے قبول کر لیتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ڈاکٹر عثمانی نے منہال کے استاذ زاذان پر بھی جرح کی ہے، لیکن ابن حزم اس معاملے میں ڈاکٹر عثمانی کے مخالف ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ حدیث صرف منہال کی بنا پر ’’ ضعیف“ ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر عثمانی نے سارا الزام زاذان کو دیا ہے، جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔

اب ایک تو منہال بن عمرو ثقہ ثابت ہو گیا ہے اور دوسرے منہال کے علاوہ بھی ثقہ راویوں سے بیان کردہ احادیث میں عود روح کا ذکر ہے، جیسا کہ ہم بیان کرنے والے ہیں، لہٰذا اہل انصاف کو چاہیے کہ وہ حق و باطل میں حق کا امتیازکریں۔

الحاصل

منہال بن عمرو کے بارے میں بیسیوں محدثین کرام اور اہل فن کی توثیق کے خلاف پورے ذخیرۂ کتب رجال سے ڈاکٹرعثمانی کو صرف پانچ جروح ملی تھیں۔ ان میں سے دو، یعنی امام یحییٰ بن سعید قطان اور امام یحییٰ بن معین رحمها اللہ کی جروح تو سرے سے ثابت ہی نہیں ہو سکیں۔ اس کے برعکس امام یحییٰ بن معین کی واضح توثیق ہم نے ذکر کر دی ہے۔ باقی تین میں سے ایک یہ تھی کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے ان سے روایت چھوڑ دی تھی۔ اس کے بارے میں بتا دیا گیا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا، امام وہب بن جریر رحمہ اللہ نے جب اس بات پر ان کا مناقشہ کیا تو امام شعبہ رحمہ اللہ لاجواب ہو گئے۔ پھر یہ کام انہوں نے اپنی سختی کی وجہ سے کیا، جس کا بہت سے ائمہ دین نے رد کیا اور اسے ان کی حد سے زیادہ احتیاط پر مبنی قرار دیا۔ پھر ہم نے بتایا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے صحیح بخاری و مسلم کے کئی اور راویوں سے بھی روایات چھوڑ دی تھیں، جبکہ ان کی بیان کردہ روایات کو ڈاکٹر عثمانی بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں۔

لیکن منہال بن عمرو کے بارے میں بیسیوں محدثین کے خلاف ڈاکٹر عثمانی نے امام شعبہ کی اس روش کو اپنی دلیل بنا لیا۔

دوسری جرح علامہ جوزجانی کی تھی۔ ہم نے بتایا کہ ایک تو ان کے الفاظ دو طرح سے ہم تک پہنچے ہیں، جن میں سے ایک جرح پر نہیں، بلکہ توثیق پر دلالت کرتے ہیں۔ دوسرے ہم نے ائمہ دین کی زبانی واضح کر دیا کہ جوزجانی ناصبی تھے اور جرح و تعدیل میں اہل کوفہ کے بارے میں غیر جانبدار نہیں رہ سکے۔ ان کی اہل کوفہ پر جرح ائمہ دین قبول نہیں کرتے، لیکن بیسیوں معتبر ائمہ دین کی مخالفت میں ڈاکٹر عثمانی نے اسے اپنے گلے کا ہار بنایا۔

تیسری جرح حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی تھی، جس کے بارے میں ہم نے بتا دیا کہ منہال پر جرح کرنے کے بارے میں ابن حزم نے جو دلیل پیش کی تھی، اس کی سند ثابت نہیں، نیز ابن حزم فن رجال میں چنداں ماہر نہیں تھے۔ متقدمین محدثین کی مخالفت میں ابن حزم کی جرح قابل التفات ہی نہیں۔ ابن حزم نے تو صحیح بخاری و مسلم کے کئی راویوں کو بھی ’’ ضعیف“ قرار دیا ہے، حالانکہ ان کی بیان کردہ روایات کو ڈاکٹر عثمانی بھی صحیح سمجھتے ہیں، لیکن یہاں اپنی مطلب برآری کے لیے ڈاکٹر عثمانی نے ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ کے مصداق بنتے ہوئے ابن حزم کے قول کو بلاتامل قبول کر لیا۔

اب اہل انصاف خود ہی فیصلہ کر لیں کہ بیسیوں محدثین کرام کی توثیق کی بنا پر منہال بن عمرو کی حدیث کو قبول کریں گے یا ڈاکٹر عثمانی کی ان پانچ جروح کو مدنظر رکھ کر اس کی حدیث کو رد کریں گے، جن میں سے دو سرے سے ثابت ہی نہیں اور باقی تین محدثین کی نظر میں منہال کی حدیث کو کوئی نقصان نہیں دیتیں !

اب آتے ہیں عود روح والی حدیث پر ڈاکٹر عثمانی کے دوسرے اعتراض کی طرف۔
انہوں نے اس حدیث میں منہال بن عمرو کے استاذ زاذان پر بھی جرح نقل کی ہے، بلکہ انہوں نے اس روایت کی ساری ذمہ داری ہی زاذان پر ڈالی تھی، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا تھا، پھر نہ جانے منہال پر ناحق کیوں برس پڑے ؟

محدثین و محققین کی طرف سے زاذان ابوعمر کی توثیق

قارئین کرام پہلے بھی ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اپنے خود ساختہ عقیدے کے خلاف کسی بھی حدیث کو رد کرنے کے لیے ڈاکٹر عثمانی کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ کتب جرح و تعدیل میں سے ثقہ راویوں کے بارے میں محدثین کے اقوال کو وہ اپنی ’’ دیانت“ کی چھلنی میں ڈالتے ہیں جس میں سے بیسیوں واضح توثیقی اقوال گزر ہی نہیں پاتے، صرف چند ایک مبہم اور غیر مؤثر جروح ان کی کتاب کے اوراق تک پہنچ پاتی ہیں اور ان کے جاہل مقلدین ان کے اسی دیانتی کارنامے کو تحقیق انیق شمار کرتے ہوئے عش عش کر اٹھتے ہیں۔

زاذان کے بارے میں بھی ڈاکٹر عثمانی نے یہی روش اپنائی ہے۔ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ درجنوں محدثین و محققین نے عود روح والی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اس سے عقیدے کے مسائل اخذ کرتے ہوئے عذاب و ثواب قبر کے معاملے میں اسے اساسی حیثیت دی ہے۔ ان میں سے تیرہ کا ذکر ہم باحوالہ کر چکے ہیں۔ یہ سب کہتے ہیں کہ زاذان ابوعمر ثقہ راوی ہے۔

اب مزید کچھ اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
➊ امام، ابوعبداللہ، محمد بن سعد بن منیع، بغدادی رحمہ اللہ (168-230 ھ) فرماتے ہیں :
وكان ثقة، قليل الحديث.
’’ یہ ثقہ راوی تھا۔ اس نے تھوڑی حدیثیں بیان کی ہیں۔“ [الطبقات الكبري:217/6، طبعة دارالكتب العلمية،بيروت]
➋ امام جرح و تعدیل، ابوزکریا، یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (158-233 ھ) فرماتے ہیں :
ثقة، —، لا يسال عن مثل هؤلاء.
’’ یہ ثقہ راوی ہیں، ان جیسے راویوں کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں جانا چاہیے۔“ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 290/18، طبعة دارالفكر، بيروت، و سندهٔ صحيح]
➌ مشہور محدث، امام، ابوالحسن، مسلم بن حجاج، نیشاپوری رحمہ اللہ (204-261ھ) نے زاذان سے روایت (صحیح مسلم : 1657 وغیرہ) لے کر اس کی توثیق کی ہے۔
➍ مؤر خ رجال، امام، ابوالحسن، احمد بن عبداللہ بن صالح، عجلی رحمہ اللہ (181-261ھ) نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ [الثقات، ص: 63، ت: 450، طبعة دار الباز]
➎ امام، ابوعیسیٰ، محمد بن عیسیٰ، ترمذی رحمہ اللہ (209-279ھ) نے زاذان کی بیان کردہ ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے : هذا حديث حسن صحيح ’’ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔“ [سنن الترمذي، تحت الحديث : 1868]
➏ امام الائمہ، ابوبکر، محمد بن اسحاق، ابن خزیمہ رحمہ اللہ (223-311 ھ) نے اپنی صحیح میں روایت [2791] لے کر اس کی توثیق کی ہے۔
➐ امام، ابوعوانہ، یعقوب بن اسحاق، اسفرائینی رحمہ اللہ (م : 316 ھ) نے اپنی صحیح [مستخرج علی صحیح مسلم] میں اس کی روایت [6050 وغیرہ] ذکر کی ہے، جو کہ توثیق ضمنی ہے۔
➑ امام، ابوحاتم، محمد بن حبان، بستی رحمہ اللہ (م : 354 ھ) نے بھی اپنی صحیح میں اس کی روایت [914] ذکر کی ہے، جو کہ ان کی طرف سے زاذان کی توثیق ہے۔
➒ امام، ابواحمد، عبداللہ بن عدی، جرجانی رحمہ اللہ (277-365 ھ) فرماتے ہیں :
وأحاديثة لا بأس بها إذا روى عنه ثقة.
’’ جب اس سے بیان کرنے والاراوی ثقہ ہو تو اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 210/4، طبعة دار الكتب العلمية]
➓ امام، ابوبکر، احمد بن علی، خطیب بغدادی رحمہ اللہ (392-463 ھ) فرماتے ہیں :
وكان ثقة. ’’ زاذان ثقہ راوی تھا۔“ [تاريخ بغداد:515/9، طبعة دار الغرب]
⓫ حافظ، ابوعبداللہ، محمد بن عبدالواحد، ضیاءالدین، مقدسی رحمہ اللہ (569-643 ھ) نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔ [الاحاديث المختارة: 451، طبعه دار خضر، بيروت]
⓬ علامہ، ابومحمد، عبدالعظیم بن عبدالقوی، منذری رحمہ اللہ (م : 656ھ) فرماتے ہیں :
وزاذان ثقة مشهور. ’’ زاذان مشہور ثقہ راوی ہے۔“ [الترغيب والترهيب من الحديث الشريف : 198/4، طبعة دار الكتب العلمية]
⓭ شیخ الاسلام، ابوالعباس، احمد بن عبدالحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : 728ھ) فرماتے ہیں :
و حديث زاذان مما اتفق السلف والخلف على روايته، وتلقيه بالقتول
’’ زاذان کی حدیث کو بیان کرنے اور قبول کرنے پر سلف و خلف کا اتفاق ہے۔“ [شرح حديث النزول، ص: 89، طبعة المكتب الإسلامي، بيروت]
⓮ حافظ، ابوعبداللہ، محمد بن احمد، ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (705-744ھ) نے زاذان کی بیان کردہ حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [الصارم المنكي، ص:202، طبعة مؤسسة الريان]
⓯ حافظ، ابوعبداللہ، محمد بن احمد بن عثمان، ذہبی رحمہ اللہ (673- 748ھ) فرماتے ہیں :
وكان ثقة، صادقا. ’’ یہ ثقہ اور سچا شخص تھا۔“ [سير أعلام النبلاء : 280/4، طبعة مؤسسة الرسالة، بيروت]
⓰ حافظ، ابوالحسن، علی ابن ابوبکر، ہیثمی رحمہ اللہ (735-807 ھ ) نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 116/9، طبعة مكتبة القدسي، القاهرة]
درجنوں ائمہ نے زاذان کی حدیث کو صحیح کہہ کر اس کی توثیق کی تھی، اس پر مستزاد ائمہ دین کی زاذان کی صریح توثیق پر مبنی یہ درجنوں شہادتیں ہیں۔ آئیے اب ڈاکٹر عثمانی کی طرف سے نقل کی گئی جروح کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں :

زاذان پر جرح کی حقیقت

ڈاکٹر عثمانی نے کئی درجن محدثین و محققین کی توثیق کے خلاف زاذان پر جو جروح نقل کی ہیں، ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے :
➊ حکم سے پوچھا گیا کہ آپ زاذان سے روایت کیوں نہیں لیتے ؟ انہوں نے کہاکہ وہ باتیں بہت کرتا تھا، اس لیے۔
➋ ابن حبان نے کہا کہ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔
➌ ابو احمد حاکم کہتے ہیں کہ وہ اہل علم کے نزدیک مضبوط نہیں۔
➍ سلمہ بن کہیل نے کہاکہ ابوالبختری کو میں اس سے اچھا سمجھتا ہوں۔
➎ ابن حجرنے کہا ہے کہ زاذان میں شیعیت ہے۔
یہ تھا امام مسلم، امام یحییٰ بن معین، امام ترمذی اور امام ابن خزیمہ وغیرہ سمیت درجنوں محدثین کے مقابلے میں زاذان کے خلاف ڈاکٹر عثمانی کا سارا سرمایہ۔ اصول حدیث کی رو سے درجنوں محدثین کے مقابلے میں یہ جروح اگر مؤثر بھی ہوں تو ناقابل التفات ہیں۔ چہ جائیکہ محدثین کے ہاں ان کی کوئی وقعت نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :

زاذان اور امام حکم بن عتیبہ

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے الحکم سے کہا کہ آپ زاذان سے کیوں روایت نہیں لیتے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ باتیں بہت زیادہ کرتا ہے، اس لیے۔“ [ ’’ ایمان خالص“، دوسری قسط، ص : 18]

↰ باتیں زیادہ کرنا یا امام حکم کا ان سے روایات نہ لینا کوئی جرح نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین و محققین نے حکم کی اس بات کو نقل بھی کیا ہے، لیکن اسے پھر بھی ثقہ ہی قرار دیا ہے۔
کسی نے بھی اسے زاذان پر کوئی جرح خیال نہیں کیا۔ پھر بعض ائمہ کی تصریح اس پر مستزاد ہے :

◈ حدیث اور رجال حدیث کے امام، ابواحمد، ابن عدی رحمہ اللہ (277-365ھ) فرماتے ہیں :
وأحاديثه لا بأس بها إذا روى عنه ثقة،—، وإنما رماه من رماه بكثرة كلامه.
’’ جب اس سے بیان کرنے والا راوی ثقہ ہو تو اس کی احادیث میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔ اسے جس نے الزام دیا ہے، صرف زیادہ باتیں کرنے کا دیا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 210/4، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت]

↰ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے بات بالکل صاف کر دی ہے کہ زاذان پر صرف باتیں زیادہ کرنے کے حوالے سے اعتراض کیا گیا ہے، لیکن اس اعتراض سے اس کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بلکہ اس کے باوجود وہ ثقہ ہے اور اس کی احادیث صحیح ہیں۔

◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے [ميزان الاعتدال :63/2] زاذان کے بارے میں ”صح“ لکھ کر یہ بتا دیا کہ اس سے زاذان کی ثقاہت متاثر نہیں ہوتی۔

پھر ڈاکٹر عثمانی کے پیروکاروں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے زاذان کو شیعہ کہہ کر اس کی حدیث کو رد کیا ہے، حالانکہ یہ بات ثابت بھی نہیں، اس کی حقیقت تو ہم ترتیب کے مطابق آئندہ صفحات میں بیان کریں گے، البتہ یہاں پر ان سے اتنا ضرور پوچھیں گے کہ اگر شیعہ ہونا جرح ہے اور شیعہ کی بیان کردہ حدیث معتبر نہیں تو کیا کسی شیعہ کی سنی راویوں پر جرح و تعدیل معتبر ہوتی ہے ؟ اگر ہاں تو کیوں ؟ اور اگر نہیں تو جان لیں کہ زاذان کی روایات کو چھوڑنے والے امام حکم بن عتیبہ شیعہ تھے۔ زاذان کا شیعہ ہونا تو ثابت نہیں ہوا، البتہ امام حکم کا شیعہ ہونا ثابت ہے، جیسا کہ :
◈ امام، ابوالحسن، احمد بن عبداللہ، عجلی رحمہ اللہ (م 261ھ) فرماتے ہیں :
وكان فيه تشيع، إلا أنّ ذلك لم يظهر منه إلا بعد مؤته .
’’ ان میں شیعیت تھی، البتہ اس کا علم ان کی وفات کے بعد ہی ہو سکا۔“ [تاريخ الثقات، ص : 125، ت : 315، طبعة دار الباز]

↰ ذرا سوچیں کہ بھلا کوئی شیعہ اپنے مذہب کا پرچار کرنے والے کسی شیعہ پر کیوں جرح کرے گا ؟ اور فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر عثمانی نے کتنے فیصد انصاف سے کام لیا ہے ؟

معلوم ہوا کہ اہل انصاف کے ہاں امام حکم بن عتیبہ شیعہ کا زاذان کو چھوڑنا کوئی جرح نہیں، نہ ہی اس سے زاذان کی حدیث پر کوئی زد پڑتی ہے۔

ابن حبان اور زاذان

ڈاکٹرعثمانی کے الفاظ ہیں : ابن حبان نے کہا کہ كان يخطي، كثيرا ’’ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔“ [ ’’ ایمان خالص“، دوسری قسط، ص : 18]

● پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ، زاذان کے بارے میں متذبذب تھے۔ بھلا جو شخص بہت غلطیاں کرے، وہ ثقہ ہوتا ہے ؟ اسے ثقات میں ذکر کرنے کا کیا جواز ؟ پھر خود ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’ ضعیف“ راویوں کے بارے میں بھی ایک کتاب ”المجروحين“ لکھی ہے۔ اگر زاذان ان کے نزدیک ’’ ضعیف“ تھا تو انہوں نے اس کتاب میں ذکر کرنے کی بجائے اس کا شمار ثقہ راویوں میں کیوں کیا ؟ اس پر مستزاد یہ کہ خود ابن حبان رحمہ اللہ نے زاذان کی حدیث [صحيح ابن حبان : 914] کو صحیح قرار دیا ہے۔ کیا بہت غلطیاں کرنے والے کی حدیث صحیح ہوتی ہے ؟

● دوسری بات یہ ہے کہ محققین کے ہاں امام مسلم، امام یحییٰ بن معین، امام ترمذی رحمها اللہ کے مقابلے میں ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح و تعدیل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب ابن حبان ان درجنوں کبار ائمہ کی مخالفت کریں تو ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

● تیسری بات یہ کہ اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ کبار ائمہ دین کی موافقت میں منہال بن عمرو کی حدیث کو صحیح قرار دیں تو ڈاکٹر عثمانی اس کا ذکر تک نہ کریں اور جب وہ ان سب کی مخالفت میں زاذان پر جرح کریں تو ڈاکٹر عثمانی جھٹ سے اسے قبول کر لیں، حالانکہ وہ خود اسے ثقہ بھی قرار دے چکے ہوں اور اس کی حدیث کو صحیح بھی کہہ چکے ہوں، کیا اسے انصاف کہتے ہیں ؟

↰ معلوم ہوا کہ ابن حبان رحمہ اللہ کا زاذان پر جرح کرنا درجنوں کبار ائمہ کی توثیق اور خود اپنے فیصلے کے بھی خلاف ہے، لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

ابواحمدالحاکم اور زاذان

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ ابواحمد الحاکم کہتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک وہ مضبوط نہیں ہے۔“ [ ’’ ايمان خالص“، دوسري قسط، ص :18]

↰ یہ بات ابو احمد الحاکم کی علمی لغزش ہے۔ وہ اہل علم کون ہیں جنہوں نے زاذان کو کمزور کہا ہو ؟ ڈاکٹر عثمانی کو شاید معلوم نہیں تھا کہ کئی درجن محدثین تو زاذان کو ثقہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی تفصیل ہم نے سپرد قارئین کر دی ہے۔ انصاف سے بتائیں کہ کیا امام ابن سعد، امام مسلم، امام یحییٰ بن معین، امام ترمذی، امام ابن عدی، امام عجلی، امام ابن خزیمہ، امام ابوعوانہ، امام خطیب بغدادی، امام ابن مندہ، امام ابونعیم اصبہانی، امام ابو عبداللہ حاکم، امام بیہقی، حافظ مقدسی، حافظ منذری، حافظ ابن عبدالہادی، علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، علامہ سیوطی، علامہ ذہبی، حافظ ہیثمی وغیرہ اہل علم نہیں ہیں ؟ اگر یہ اہل علم نہیں تو بتائیں کہ کون ہیں اہل علم ؟ یہ سارے تو کہتے ہیں کہ زاذان ثقہ راوی ہے۔

اب ڈاکٹر عثمانی کے پیروکار ہی کوئی نیا انکشاف کریں، جس سے ثابت ہو جائے کہ اہل علم زاذان کو کمزور سمجھتے تھے۔ زاذان کو کمزور کہنے کے سلسلے میں ڈاکٹر عثمانی کی کل کائنات ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے، اس میں سے تین جروح پر تبصرہ ہو چکا ہے، باقی دو جروح کا حال بھی ابھی آپ کے سامنے ہو گا۔ ان میں سے سوائے ابن حبان کے کسی کی بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کے نزدیک زاذان کمزور ہو۔ رہی ابن حبان کی بات، تو وہ ان کے اپنے قول و فعل سے متصادم ہے۔ کیا اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اہل علم زاذان کو کمزور قرار دیتے ہیں ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

سلمہ بن کہیل اور زاذان

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ سلمہ بن کہیل نے کہا کہ ابوالبختری کو میں اس سے اچھا سمجھتا ہوں۔“ [ ’’ ايمان خالص“، دوسري قسط، ص : 18]

کسی محدث کی طرف سے ایک راوی کا دوسرے راوی سے تقابل، توثیق نسبی یا تضعیف نسبی کہلاتا ہے۔ اس تقابل کو توثیق یا تضعیف کی تناظر میں سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس سے کسی کا تقابل کیا جا رہا ہے، اس کا مقام محدثین کے نزدیک کیا ہے ؟
اسی بات کو لیجیے کہ سلمہ بن کہیل نے زاذان کا تقابل ابوالبختری سے کرتے ہوئے ابوالبختری کو زاذان سے بہتر خیال کیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ابوالبختری کا کیا مقام ہے۔ اصولی بات ہے کہ اگر ابوالبختری ثقہ ہے تو زاذان اس سے کچھ کم ثقہ ہو گا، کیونکہ ابوالبختری زاذان سے اچھا ہے اور اگر ابوالبختری ’’ کمزور“ ہے تو زاذان اس سے زیادہ ’’ کمزور“ ہو گا، کیونکہ ابوالبختری بہرحال اس سے اچھا ہے۔

ابوالبختری سعید بن فیروز صحیح بخاری و مسلم کا راوی ہے۔ اسے امام بخاری و مسلم کے علاوہ امام یحییٰ بن معین، امام ابوحاتم، امام ابوزعہ، امام ابن حبان، امام عجلی، وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اب اگر ابوالبختری کو زاذان سے بہتر قرار دیا جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ زاذان کا مقام و مرتبہ ابوالبختری سے کچھ کم ہے۔ اس تقابل سے یہ کشید کرنا کہ سلمہ بن کہیل کے نزدیک زاذان ’’ ضعیف“ راوی ہے، نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔ دو ثقہ راویوں کے تقابل سے کیا ایک ’’ ضعیف“ یا کمزور ہو جاتا ہے ؟

قارئین کرام یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ سلمہ بن کہیل، جن کی بات نقل کر کے ڈاکٹر عثمانی صاحب زاذان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، وہ شیعہ تھے۔ [الثقات للعجلي، ص:198]

ڈاکٹر عثمانی نے زاذان کو شیعہ ہونے کا الزام دے کر عود روح والی حدیث کو رد کیا ہے۔

ہمارا سوال ہے کہ اگر شیعہ راوی کی بیان کردہ حدیث ’’ ضعیف“ ہے تو اس کی کسی راوی پر جرح کیسے قبول ہے ؟ یہ علمی حیثیت عود روح والی حدیث پر اعتراض کرنے والوں کی !
معلوم ہوا کہ سلمہ بن کہیل کے اس قول سے زاذان کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

زاذان پر شیعیث کا الزام

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ زاذان میں شیعیث ہے۔“ [’’ ايمان خالص“، دوسري قسط، ص : 18]

ڈاکٹر عثمانی کی جہالت اور ان کا تعصب دیکھیں کہ انہوں نے غور و خوض کی زحمت نہیں کی اور زاذان کو فقہ جعفریہ کا پرچارک قرار دے دیا۔ دنیا میں سب سے پہلے ابن حجر رحمہ اللہ نے زاذان میں شیعیث کا دعویٰ کیا۔ ان سے پہلے کسی معتبر محدث نے یہ بات نہیں کہی۔ ابن حجر رحمہ اللہ کی بات اگر درست ہے تو ان کی مراد وہ اصطلاحی شیعہ نہیں تھا، جو دین محمدی کو چھوڑ کر فقہ جعفریہ کا پیروکار ہو۔

البتہ ابوبشر دولابی (224-310ھ) نے لکھاہے : وكان من شيعة علي
’’ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل تھا۔“ [الكني والاسماء:773/2، طبعة دار ابن حزم]

شاید اس سے کوئی جاہل یہ سمجھ بیٹھے کہ زاذان شیعہ تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل ہونا گمراہ اور دشمن صحابہ شیعہ ہونے کا ثبوت نہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں بہت سے صحابہ کرام بھی شامل تھے۔ کیا ان کو بھی شیعہ کہا جائے گا ؟

دراصل متقدمین محدثین اور متاخرین کی اصطلاح شیعہ میں بھی فرق ہے۔ اس فرق کو بیان کرتے ہوئے خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہی لکھتے ہیں :
التشيع فى عرف المتقدمين، هو اعتقاد تفضيل على علي عثمان، وأن عليا كان مصيبا فى حروبه، وأن مخالفة مخطى، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا كان معتقد ذلك ورعا، دينا، صادقا، مجتهدا، فلا ترد روايته بهذا .
’’ متقدمین کی اصطلاح میں شیعیث سے مراد سیدنا ابوبکر و عمر کی فضیلت کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینا اور یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لڑائیوں میں حق پر تھے اور آپ کے مخالفین غلطی پر تھے۔ ان (متقدمین کی اصطلاح میں شیعہ لوگوں ) میں سے کوئی (تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ ) بسااوقات یہ عقیدہ بھی رکھ لیتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل، ہیں۔ جب اس اعتقاد والا آدمی پرہیزگار، دین دار، سچا اور مجتہد ہو تو اس کی روایت کو رد نہیں کیا جائے گا۔“ [تهذيب التهذيب:81/1، طبعة دائرة المعارف النظامية، الهند]

یعنی اگر زاذان شیعہ ہیں بھی تو اس سے مراد فقہ جعفریہ کے ماننے والے شیعہ نہیں۔
ڈاکٹر عثمانی اور ان کے حواریوں نے زاذان کی کنیت پر بھی غور نہیں کیا۔ زاذان کی کنیت ’’ ابوعمر“ تھی۔ کیا دشمنان صحابہ شیعہ اپنی کنیت ابوعمر رکھ سکتے ہیں ؟

دوسری بات یہ کہ وہ کیسا شیعہ ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا شاگرد بن کر ان سے روایات بیان کرے اور انہیں ”رضی اللہ عنہا“ کی دعا دے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باسند صحیح زاذان سے ایک روایت بیان کی ہے، اس کی سند ملاحظہ فرمائیں :
. . . عن زاذان، عن عائشة رضي الله عنها . . .
’’ زاذان بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔“ [الأدب المفرد، ص: 217، ح : 619، طبعة دار البشائر الإسلامية، بيروت]

تیسری بات یہ کہ وہ کیسا شیعہ ہے جو سیدنا عمر فاروق کے امیر المؤمنین ہونے کا اقراری ہو اور انہیں ”رضی اللہ عنہ“ کہتا ہو ؟ زاذان کی بیان کردہ ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں :
. . . عن زادان، قال : كنا عند علي، فتذاكرنا الخيار، فقال: أما أمير المؤمنين عمر رضى الله عنه، قد سألني عنه . . .
’’ زاذان کہتے ہیں کہ ہم سیدنا علی کے پاس تھے۔ ہم نے (طلاق میں )خیار کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں میری رائے پوچھی تھی۔۔۔“ [شرح معاني الأثار للطحاوي الحنفي: 309/3، طبعة عالم الكتب، و سندهٔ حسن]
دیکھیں کہ زاذان نے سیدنا علی کے بارے میں ”امیر المؤمنین“ یا ”رضی اللہ عنہ“ کا لفظ نہیں بولا:، جبکہ سیدنا عمر کو ”امیر المؤمنین“ بھی کہا ہے اور ”رضی اللہ عنہ“ بھی۔ کیا شیعہ ایسے ہوتے ہیں ؟

زاذان اور فقہ جعفریہ کی روایت۔ ایک لطیفہ :

یہاں پر ڈاکٹر عثمانی کی ذہنی حالت کے بارے میں ایک لطیفہ سنتے چلیے۔ انہوں نے لکھا ہے : ’’ دراصل قبر میں مردے کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت جعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب سے منسوب کر دی ہے۔“ [’’ ایمان خالص“، دوسری قسط، ص : 18]

اب ڈاکٹر عثمانی کے حواری ذرا دل تھام لیں کہ ان کی عقیدت کا بت ٹوٹ کر گرنے والا ہے، ان شاءاللہ !۔ ان سے گزارش ہے کہ اللہ کے لیے اس حقیقت کو ملاحظہ فرما کر ڈاکٹر عثمانی کے دجل و فریب سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ یہ حقیقت دیکھ کر بھی اگر انہوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو اللہ کے سامنے ان کا کوئی عذر کام نہ دے گا۔

فقہ جعفریہ امام ابوعبداللہ، جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب، صادق سے منسوب ہے۔ وہ ائمہ رجال کے مطابق 80 ہجری میں پیدا ہوئے، جبکہ فقہ جعفریہ کے مدو ن کللینی (جس کی کتاب کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے دیا ہے ) کے مطابق 83 ہجری کو ان کی ولادت ہوئی اور 148 میں فوت ہو گئے۔ جبکہ زاذان کی وفات 82 ہجری میں ہوئی۔ یعنی جب زاذان فوت ہوئے تو امام جعفر صادق یا تو پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا ان کی عمر صرف 2 سال تھی اور جب تک جعفر صادق رحمہ اللہ جوان ہوئے اور فقہی خدمات انجام دینے کے قابل ہوئے، اس وقت تک زاذان کو فوت ہوئے بیسیوں سال گزر چکے تھے۔

اب ڈاکٹر عثمانی کا کوئی معتقد ہی بتائے کہ فقہ جعفریہ کی داغ بیل پڑنے سے بیسیوں سال پہلے فوت ہو جانے والا زاذان بیچارہ کئی عشرے بعد میں پیدا ہونے والوں کی فرمودہ باتیں کس طرح بیان کر سکتا تھا ؟

پھر فقہ جعفریہ امام جعفر صادق کے فوت ہونے کے کئی صدیوں بعد ترتیب دی گئی۔ کلینی جس کی کتاب سے ایک شیعہ روایت ڈاکٹر عثمانی نے پیش کی ہے، وہ امام جعفر صادق کی وفات سے بھی کوئی ایک صدی بعد پیدا ہوا۔ اس نے امام جعفر صادق سے یہ روایت بیان کی۔ کوئی پاگل اور بے وقوف شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ زاذان نے اپنی وفات کے کئی سو سال بعد معرض وجود میں آنے والی شیعی روایات اپنی زندگی میں بیان کر دی تھیں۔

یہ ہے عقلی حالت ڈاکٹر عثمانی کی ! اب تواس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ اہل سنت و الجماعت کے متفقہ عقیدے کو چھوڑ کر ایسے بددماغ شخص کی بات ماننا بدبختی کی انتہا ہے۔ جو شخص اہل سنت کے ائمہ کی گستاخی کرتے ہوئے انہیں مشرک و کافر قرار دینا شروع کر دے، اللہ تعالیٰ اس کی دماغی حالت ایسی ہی بنا دیتا ہے۔

الحاصل
زاذان محدثین کرام کے نزدیک ثقہ راوی ہے اور اس کی روایت محدثین کے اصولوں اور ان کی تصریحات کی روشنی میں بالکل صحیح ہے۔ اس پر تمام اعتراضات باطل ہیں۔

ڈاکٹر عثمانی کا خود شیعہ اور بدمذہب راویوں کی روایات پر اعتماد

ہم ڈاکٹر عثمانی کی ’’ دیانت و امانت“ کی کچھ جھلک قارئین کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔ وہ زاذان کو شیعہ کہہ کر اس کی بیان کردہ حدیث رد کرنے کے حوالے سے ایک اور ’’ دیانت“ ملاحظہ فرما لیں۔ ڈاکٹر عثمانی کے رسالے ’’ تعویذات اور شرک (ص : 3 ) میں پیش کی گئی سب سے پہلی حدیث کی سند پر نظر فرمائیں، جس میں تعویذات کی ممانعت وارد ہے۔ یہ سنن ابوداؤد کی حدیث ہے۔ اس کی سند یہ ہے :
حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا أبو معاوية، حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن يحيى بن الجزار، عن ابن أخي زينب امرأة عبد الله، . . . عن زينب امرأة عبد الله، عن عبد الله . . .
اس سند کے دو راوی شیعہ اور دو راوی مرجی (ایک گمراہ فرقے سے تعلق رکھنے والے ) ہیں۔
➊ اس سند میں یحییٰ بن جزار نامی راوی تو نظر آ رہا ہو گا۔ یہ شیعہ تھا، ایک نہیں، کئی ایک محدثین نے اسے شیعہ، بلکہ غالی شیعہ قرار دیا، لیکن ڈاکٹر عثمانی کی خائن قلم نے اس کا بالکل تذکرہ نہ کیا۔ آئیے ہم بتاتے ہیں کہ اہل علم کی اس بارے میں کیا رائے تھی۔
امام شعبہ رحمہ اللہ کے استاذ امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان یحيى بن الجزار يغلو فى التشيع.
’’ یحییٰ بن جزار کٹر قسم کا شیعہ تھا۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 396/4، طبعة دار الكتب العلمية، و سندهٔ صحيح]

معروف مؤرخ، امام ابوالحسن، احمد بن عبداللہ بن صالح، عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان يتشيع ’’ یہ شیعہ تھا۔“ [الثقات للعجلي:1796، طبعة دار الباز]
اس کے بارے میں اسی ابواسحاق جوزجانی کا قول بھی ملاحظہ فرما لیں، ڈاکٹر عثمانی کے مطابق جس نے منہال بن عمرو کو ’’ بدمذہب“ قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر عثمانی کے معتقدین ذرا دل تھام کے دیکھیں کہ یحییٰ بن جزار کے بارے میں اسی جوزجانی کی کیا رائے ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وكان يحيى بن الجزار غاليا مفرطا
’’ یحییٰ بن جزار غالی قسم کا شیعہ تھا اور گمراہی میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔“ [أحوال الرجال: 1796، طبعة حديث اكادمي]

➋ اسی سند کے دوسرے راوی سلیمان بن مہران اعمش کو بھی شیعہ کہا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں :
جوزجانی جو منہال بن عمرو کو بدمذہب قرار دیتے تھے، اس کے بارے میں بھی مذموم المذهب ’’ بدمذہب“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ [احوال الرجال: 105]
◈ امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان فيه تشيع. ’’ اس میں شیعہ پن موجود تھا۔“ [الثقات للعجلي : 619، طبعة دار الباز]
واہ ! بہت خوب۔ عود روح والی حدیث کے ایک راوی کو جوزجانی نے بدمذہب کہا تو ڈاکٹر عثمانی نے اسے خوب اچھالا، لیکن ان کی اپنی بیان کردہ حدیث کے دو راویوں کو اسی جوزجانی نے بدمذہب کہا، پھر بھی انہوں نے اسے اپنی پہلی اور بنیادی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا۔ اسے کہتے ہیں بندر بانٹ اور اسے ہی کہتے ہیں ’’ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو۔“
➌ اسی سند کا عمرو بن مرہ نامی راوی مرجی تھا۔ بتائیں مرجی کون ہوتا ہے ؟
بقیہ بن ولید اور امام شعبہ، [الجرح والتعديل لابن ابي حاتم : 148/1 وسنده حسن] امام احمد [العلل : 1814] ، امام یعقوب بن سفیان فسوی [المعرفه والتاريخ : 85/3] اور امام ابن حبان [الثقات : 183/5] وغیرہم نے عمرو بن مرہ کو مرجی قرار دیا ہے۔

➍ اسی سند کا راوی ابومعاویہ محمد بن خازم ضریر بھی مرجی تھا۔ امام یعقوب بن شیبہ [تاريخ بغداد : 134/3، وسنده حسن] ، امام ابن سعد [الطبقات الكبريٰ : 364/6] ، امام عجلی [الثقات : 1450] اور امام ابن حبان [الثقات : 442/7] وغیرہم نے اس کے مرجی ہونے کی صراحت کی ہے۔

ائمہ دین اور محدثین کے ہاں اس حدیث کے دو راویوں کے شیعہ، غالی شیعہ اور دو کے مرجی اور سخت گمراہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر عثمانی نے اس حدیث کو اپنی سب سے مرکزی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے۔ تصور کریں کہ یہی حدیث اگر ڈاکٹر عثمانی کے مزاج کے خلاف ہوتی اور ان کا کوئی مخالف اسے پیش کر دیتا تو ڈاکٹر عثمانی کا رویہ کیا ہوتا ؟ کیا انصاف اسی کا نام ہے ؟

اللہ کے لیے اب ہی ڈاکٹر عثمانی کی بات ماننے والے لوگ ہوش کے ناخن لیں۔
اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ فن حدیث اور رجال کے بارے میں ڈاکٹر عثمانی کو کس قدر مہارت تھی ! حقیقت وہی ہے جو ہم نے ابن حجر کے بقول بیان کر دی ہے کہ راوی اگر سچا ہو تو اس کا شیعہ ہونا اس کی روایت کو نقصان نہیں دیتا۔ لہٰذا زاذان کا شیعہ ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں آتی۔

عود روح کے بارے میں ایک اور حدیث

ڈاکٹر عثمانی کے عود روح والی حدیث پر اعتراضات کے دندان شکن جوابات تو قارئین نے ملاحظہ فرما لیے ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں یہ بات بھی لازم الذکر ہے کہ عود روح کا بیان صرف اسی حدیث میں نہیں ہوا جس پر ڈاکٹر عثمانی نے اعتراضات کیے ہیں، بلکہ ایک اور حدیث میں بھی اس بات کا تذکرہ ہے۔ آئیے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں نیک اور بد شخص کی موت اور قبر کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ذکر فرماتے ہیں :
فترسل من السماء، ثم تصير الي القبر، فيجلس الرجل الصالح
’’ پھر روح کو آسمان سے بھیج دیا جاتا ہے اور وہ قبر کی طرف آ جاتی ہے۔ پھر نیک شخص کو بٹھا لیا جاتا ہے۔۔۔“ [مسند أحمد : 378/14، طبعة مؤسسة الرسالة، سنن ابن ماجه : 4262، جامع البيان للطبري : 425/12، طبعة مؤسسة الرسالة، الإيمان لابن مندة : 968/2، طبعة مؤسسة الرسالة، إثبات عذاب القبر :45/1، ح : 35، طبعة مؤسسة الرسالة، وسنده صحيح]
اس کی سند کے سارے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔
امام ابونعیم اصبہانی فرماتے ہیں :
هذا حديث متفق على عدالة ناقليه
’’ اس حدیث کے راوی بالاتفاق ثقہ ہیں۔“ [شرح حديث النزول لابن تيمية، ص:87]
اس حدیث کے کسی راوی پر شیعہ ہونے کا جھوٹا الزام بھی نہیں ہے۔ اب ڈاکٹر عثمانی کے پیروکار اسے کیسے شیعہ روایت قرار دیں گے ؟

یوں ابن حزم رحمہ اللہ کا یہ کہنا بھی صحیح نہ رہا کہ منہال بن عمرو کے علاوہ کوئی بھی عذاب قبر کی حدیث میں روح کے لوٹنے کا ذکر نہیں کرتا۔ [المحلي:42/1]

اگر ابن حزم رحمہ اللہ کے علم میں یہ حدیث آ جاتی تو وہ ضرور اس کی طرف رجوع فرما لیتے۔

وہ تو عدم علم کی بنا پر اللہ کے ہاں معذور و ماجور ہوں گے، لیکن جو لوگ صحیح احادیث کا علم ہو جانے کے بعد بھی انہیں جھٹلاتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر جانا چاہیے۔

الحاصل
عود روح والی حدیث کے دو راویوں، منہال بن عمرو اور زاذان پر ڈاکٹر عثمانی نے اعتراضات کیے تھے۔ الحمدللہ ! امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو مردہ پرست ہونے کا الزام دینے والوں کے یہ اعتراضات ان کی اپنے علمی چہرے پر طمانچہ ثابت ہوئے ہیں۔ ان اعتراضات سے ڈاکٹر عثمانی اور ان کے ہمنواؤں کی اپنی علمی کرتوت اور بیمار ذہنی حالت لوگوں کے سامنے آ گئی ہے۔ محدثین اور اہل علم کا فیصلہ ہی درست ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ مسلمانوں کو اسی کے مطابق اپنا عقیدہ بنانا چاہیئے۔

ایک عقلی اعتراض

عود روح والی حدیث پر ایک عقلی اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مرنے والا تو قیامت کے دن سے
پہلے زندہ نہیں ہو گا۔ جسم سے روح نکلے تو وہ مردہ ہو گا اور اگر روح ڈال دی جائے تو وہ زندہ ہو جائے گا؟ پھر قبروں والے مردہ تو نہ رہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قبر میں روح کا جسم کے ساتھ اتصال کامل نہیں ہوتا، بلکہ جزوی قسم کا ہوتا ہے جس سے مردہ دنیاوی زندگی کی طرح زندہ نہیں ہوتا۔ وہ مردہ ہی رہتا ہے۔ یوں کسی آیت قرآنی یا حدیث نبوی کی تکذیب لازم نہیں آتی۔ جیسا کہ سوئے ہوئے زندہ انسان کی روح نکال لی جاتی ہے، لیکن وہ زندہ ہی رہتا ہے۔ چونکہ روح کا یہ خروج کامل نہیں ہوتا، لہٰذا اسے حقیقی موت نہیں کہا جاتا اور سویا ہوا انسان زندہ ہی کہلاتا ہے، مردہ نہیں کہلاتا۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:
اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [39-الزمر:42]
”وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا، ( اس کی روح ) نیند میں ( قبض کر لیتا ہے )، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے، اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔“

اسی طرح حدیث نبوی میں سونے سے پہلے یہ دعا سکھائی گئی ہے:
باسمك ربي، وضعت جنبي، وبك ارفعه، ان امسكت نفسي فارحمها، وإن أرسلتها فاحفظها، بما تحفظ به عبادك الصالحين
”میرے رب ! میں نے تیرے ہی نام سے اپنا پہلو ( بستر پر ) رکھا اور تیری ہی مدد سے اس کو اٹھاؤں گا۔ اگر تو میری روح کو روک لے ( یعنی مجھے موت دیدے ) تو اس پر رحم کرنا، اور اگر تو اس کو چھوڑ دے ( تاکہ پھر جسم میں آئے ) تو اس کی اسی طرح حفاظت کر جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔“ [صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب التعوذ والقراءة عند المنام، ح : 6320، صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب ما يقول عند النوم، ح : 2714]

اس طرح نیند کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں جن کا ذکر بہت طوالت کا باعث ہو گا، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ نیند میں انسان کی روح نکال لی جاتی ہے اور مجازی طور پر اسے مردہ بھی کہا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود کبھی کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ اس سے بےشمار موتیں لازم آتی ہیں، نہ کبھی کسی نے سوئے ہوئے انسان کو مردہ ہی کہا، کیونکہ روح کا یہ خروج کامل نہیں ہوتا، بلکہ جزوی طور پر ہوتا ہے۔

بالکل یہی معاملہ قبر میں روح کے لوٹائے جانے کا ہے کہ اس روح کا اصل ٹھکانہ تو جنت یا جہنم ہوتا ہے، لیکن اس کا جسم کے ساتھ ایک جزوی تعلق بنا دیا جاتا ہے تاکہ روح کو ملنے والے ثواب و عذاب کو وہ جسم بھی محسوس کرتا رہے، جو اس کے ساتھ نیکی و بدی میں شریک تھا۔ اس اعادۂ روح سے تیسری زندگی لازم نہیں آتی۔ ائمہ دین نے یہ بات بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کی ہے اور ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب دیا ہے جو اس حدیث کو دو زندگیوں اور دو ( دیکھیں موتوں کے قانون کے منافی سمجھتے ہیں۔۔ [ديكهيں شرح حديث النزول لابن تيميه، ص: 89، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت، حاشية ابن القيم على سنن أبى داود : 65/13، طبعة دار الكتب العلمية، الصارم المنكي فى الرد على السبكي لابن عبد الهادي، ص : 223، طبعة مؤسسة الريان، بيروت، شرح العقيدة الطحاوية لابن أبى العز الحنفي، ص: 399، طبعة دار السلام، الرياض، مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 271/3، طبعة إدارة البحوث العلمية، الهند]

الحاصل
قبر میں روح کے لوٹائے جانے کے بارے میں وارد حدیث اصول حدیث کی رو سے بالکل صحیح ہے۔ ہر دور میں ائمہ دین اسے قبول کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عثمانی کی طرف سے اس کے راویوں پر کیے گئے اعتراضات فضول ہیں، کیونکہ ایک تو وہ راوی صحیح بخاری و مسلم کے ہیں اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں، دوسرے یہ راوی عود روح کو بیان کرنے میں منفرد نہیں۔

ڈاکٹر عثمانی نے جو اعتراضات اس صحیح حدیث کے ثقہ راویوں پر کیے ہیں، وہی اعتراضات بطور کمال ان احادیث میں موجود ہیں، جنہیں وہ صحیح سمجھتے ہیں۔ یہ تحریر ڈاکٹر عثمانی کی کوتاہ بینی اور کم علمی کی بین دلیل ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر طرح کی گمراہی سے بچتے ہوئے حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين

 

اس تحریر کو اب تک 53 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply