خلع کے احکام

 

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ، وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً
”(بطور حق مہر دیا ہوا) باغ واپس لے کر اسے فارغ کر دو۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5273]
فوائد :
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی جمیلہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنے خاوند ثابت بن قیس کے خلق و کردار اور دینی اقدار کے متعلق کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن میں اسے برداشت نہیں کر سکتی ہوں اور میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ اسلام میں رہتے ہوئے کفران نعمت کا ارتکا ب کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تو حق مہر میں دیا ہوا باغ واپس کرنے کو تیار ہے۔“ اس نے عرض کیا : ”جی ہاں“ ا س کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باغ واپس لے کر اسے فارغ کر دو، چنانچہ انہوں نے باغ لے کر اسے فارغ کر دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5276]
خلع، عورت کی طرف سے علیحدگی اختیار کرنے کا نام ہے، عورت کو چاہئے کہ کسی معقول عذر کی بنا پر اپنے خاوند سے علیحدگی کا مطالبہ کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
” جو عورت کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے خاوند سے علیحدگی کا مطالبہ کرتی ہے، اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔ “ [مسند امام احمد : 277/5 ]
وہ حالات جن کے پیش نظر عورت خلع لینے میں حق بجانب ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں :
٭ شکل و صورت، سیرت و کردار یا دینی اقدار کے متعلق اپنے خاوند کو ناپسند کرے۔
٭ عمر میں بڑا ہونے، کمزور ہونے یا قوت برداشت سے عاری ہونے کی بنا پر۔
چونکہ یہ عورت کا اپنا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اس لئے اگر وہ عقلمند اور صاحب بصیرت ہے تو اپنے والدین یا بھائیوں سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہے۔ خلع کا فیصلہ ہوتے ہی نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کی عدت ایک حیض ہے۔ عدت گزارنے کے بعد وہ عقد ثانی کر سکتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: