خلافت کی شرعی لازمیت اور اس کا عقلی جواز
تحریر : زاہد مغل

غلط سوال اور درست سوال کی اہمیت

"یہ بتاؤ کہ کس آیت میں خلافت کے قیام کا حکم آیا ہے؟” جیسے سوالات عام طور پر خلافت کے مفہوم اور اس کی ناگزیریت کو نہ سمجھنے کی دلیل ہیں۔ اس قسم کے سوالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے کو معاملے کی نوعیت کا ادراک نہیں۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے:

  • کیا اللہ کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کی ادائیگی ضروری ہے؟
  • اگر یہ ضروری ہے، تو ان حقوق کو نافذ کرنے کا نظام کیسا ہونا چاہیے؟

خلافت کا مفہوم

خلافت ایک ایسا نظم اجتماعی ہے جو اللہ کے مقرر کردہ ناگزیر حقوق و فرائض کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ یہ کسی اضافی یا اختیاری معاملے کا نام نہیں بلکہ ان حقوق و فرائض کے تحفظ کے لیے ناگزیر نظام ہے، جنہیں قرآن و حدیث میں واضح کیا گیا ہے۔

اللہ کے احکامات کی نوعیت اور ان کا مقصد

انسانی زندگی میں احکامات کی اہمیت

قرآن و حدیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر مختلف قسم کے حقوق و فرائض عائد کیے ہیں، مثلاً:

  • قتل کرنے والے کو سزا دینا
  • چوری اور زنا کرنے والے کو سزا دینا
  • شوہر کا بیوی کا نفقہ ادا کرنا
  • لین دین اور تجارت میں ایمانداری

یہ تمام احکامات انسانوں کی بھلائی اور معاشرتی استحکام کے لیے ہیں۔ ان کی نوعیت اتفاقی یا وقتی نہیں بلکہ یہ انسانی معاشرت کے لازمی عناصر ہیں۔

چند اہم سوالات

  • یہ احکامات کیوں نازل کیے گئے؟
  • ان احکامات کا مقصد انسانوں کی بھلائی اور فلاح ہے، اور یہ ہر صورت میں ضروری ہیں۔
  • کیا ان احکامات پر عمل خودبخود ہوجاتا ہے؟
  • ظاہر ہے کہ ان پر عمل کے لیے ایک اجتماعی نظام کا قیام ضروری ہے۔
  • کیا ان احکامات کو نافذ کرنے کا انتظام بھی لازمی ہے؟

ہر عقل مند یہی کہے گا کہ اگر حقوق و فرائض ناگزیر ہیں تو ان کے نفاذ کا انتظام بھی لازمی ہوگا۔

خلافت کی شرعی و عقلی بنیاد

فقہاء کا موقف

اسلامی فقہ اور فقہِ سیاسیہ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ علماء کے نزدیک یہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ:

  • ایک امیر یا خلیفہ مقرر کریں۔
  • وہ خلیفہ اللہ کے احکامات کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

یہی نظام "خلافت” کہلاتا ہے، جسے بیسویں صدی کے مخصوص حالات میں "اللہ کی حاکمیت کا قیام” جیسے الفاظ سے بھی بیان کیا گیا۔

خلافت کی لازمیت کا انکار کیوں غلط؟

جو لوگ خلافت کو اختیاری سمجھتے ہیں، وہ دراصل اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ انسانی جان، مال، عزت اور دیگر حقوق کا تحفظ دین کا مقصود ہے۔ ان کے نزدیک یہ صرف اضافی احکامات ہیں، حالانکہ یہ تصور دین کے بنیادی احکامات کی ناگزیریت سے متصادم ہے۔

دلیل کا مطالبہ اور استخراجی منطق

دلیل کی نوعیت

خلافت کے قیام کی لازمیت ایک عقلی اور استخراجی نتیجہ ہے، جسے الگ سے دلیل کی ضرورت نہیں۔

  • اگر اللہ کے مقرر کردہ حقوق و فرائض ناگزیر ہیں تو ان کے نفاذ کا انتظام بھی ناگزیر ہوگا۔
  • اس انتظام کو "خلافت” کہتے ہیں۔

استخراجی منطق کی مثال

اگر:

  • الف، ب سے بڑا ہے
  • اور ب، ج سے بڑا ہے

تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ الف، ج سے بڑا ہے۔
اب اگر کوئی ان دونوں مقدمات کو ماننے کے بعد نتیجے پر دلیل طلب کرے تو یہ غیر معقول رویہ ہوگا۔

خلافت کا قیام اور تصور خیر

تصور خیر کی بنیاد پر سوال

یہ سوال کہ "کیا نظم اجتماعی خلافت کی شکل میں ہی ہونا چاہیے؟” اس کا جواب سائل کے عقیدے اور تصور خیر پر منحصر ہے۔

  • ایک سیکولر فرد کے نزدیک انسانی حقوق کی تفصیلات مختلف ہوسکتی ہیں۔
  • ایک سوشلسٹ کے نزدیک یہ تفصیلات اور مختلف ہوں گی۔

اسلامی تناظر

اسلامی شریعت کے مطابق خلافت ان حقوق کے تحفظ اور نفاذ کا نام ہے جو اللہ نے متعین کیے ہیں۔ اگر کوئی ان حقوق کو ناگزیر مانتا ہے تو اسے خلافت کے قیام کو بھی لازمی ماننا ہوگا۔

نتیجہ

خلافت اللہ کے مقرر کردہ حقوق و فرائض پر عمل درآمد کا ناگزیر نظام ہے۔ اس کے قیام پر سوال اٹھانا ان حقوق و فرائض کی لازمیت اور عقل کے اصولوں سے انکار کے مترادف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے