خلافت صدیقی پر نبوی اشارے
تحریر: محمد ارشد کمال ,پی ڈی ایف لنک

خلافت صدیقی پر نبوی اشارے

نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو صحابہ کرامؓ نے متفقہ طور پر سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو اپنا حاکم اور خلیفہ منتخب کرلیا۔

امام ابوبکر آجری (المتوفی : 360ھ ) فرماتے ہیں:

آپ لوگ یہ بات جان لیں! اللہ تعالیٰ ہم پر اور آپ پر رحم فرمائے کہ جو شخص اسلام کا پیروکار ہو اور جسے اللہ تعالیٰ نے ایمان کا ذائقہ چکھایا ہو، وہ اس بارے میں اختلاف نہیں کرے گا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی ہیں۔ کسی مسلمان کے لیے اس کے علاوہ مؤقف اختیار کرنا جائز نہیں ہے اور یہ چیز دلائل کے ذریعے سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلافت کے حوالے سے خصوصیت عطا فرمائی، نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں سیدنا ابو بکرؓ کو خصوصیت عطا کی اور اپنی وفات کے بعد بھی ان کے بارے میں حکم دیا۔

(الشریعۃ، ص : 441)

گو آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں واضح طور پر تو کسی صحابی کا نام بطور خلیفہ پیش نہیں کیا ، تا ہم آپ ﷺ نے ایسے کئی ایک اشارے ضرور فرمائے جن سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے بعد خلافت صدیقی کی پیشین گوئی فرمائی اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی کو خلیفہ بنانے کا حکم دیا۔ اس مضمون میں چند اشارات بیان ہوں گے:

➊ آپ ﷺ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:

’’ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘ عرض کیا گیا:

ابوبکرؓ بے حد نرم دل اور رقیق القلب انسان ہیں، وہ آپ کی جگہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ آپ ﷺ نے پھر وہی حکم دیا تو پھر وہی عرض کیا گیا۔ پھر تیسری بار آپ نے فرمایا:

’’تمھاری مثال صواحب یوسف کی سی ہے، ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘

چنانچہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سید نا ابو بکرؓ نماز پڑھانے لگے ۔

(صحيح البخاري ، ح : 664)

نبی کریم ﷺ کا اپنی مرض وفات میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کرنا اور سید نا ابوبکر صدیقؓ کا ان تمام ایام میں لوگوں کی امامت کروانا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبیﷺ کے بعد امامت و خلافت انھی کو ملنے والی ہے اور وہی خلیفہ بنیں گے۔

سید نا عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو انصار نے کہا:

ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے۔ سیدنا عمرؓ ان کے پاس آئے اور فرمایا :

اے انصار کے گروہ! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اللہ کے رسول نے سید نا ابوبکرؓ کو لوگوں کی امامت کا حکم دیا تھا؟ تم میں سے کون ہے جو سیدنا ابو بکرؓ سے مقدم ہونا چاہتا ہے؟ انھوں نے کہا:

ہم اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ سے آگے بڑھیں۔

(مسند أحمد: 21/1 و إسناده حسن)

معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کا اپنے ایام مرض میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو مصلیٰ امامت پر کھڑے کرنا اس بات کا اشارہ تھا کہ آپ ﷺ کے بعد وہی خلیفہ ہوں گے۔ سید نا عمرؓ اس اشارے کو سمجھ گئے تھے۔

➋ حجتہ الوداع سے ایک سال پہلے نبیﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو امیر حج مقرر فرمایا تھا۔

(صحيح البخاري : 4657)

آپ مولیؓ نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ میں امارت حج کے منصب پر فائز ہوئے گویا نبیﷺ نے اپنی زندگی میں آپ کو نماز میں اپنا نائب بنایا اور حج میں بھی۔ آپ ﷺ کا نماز اور حج جیسے اہم امور میں سید نا ابو بکرؓ کو منتخب فرمانا بھی اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ ﷺ کے بعد سید نا ابوبکرؓ ہی خلیفہ ہوں گے۔

➌ ایک عورت نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ نے اسے (اب کی دفعہ لوٹ جانے اور) پھر کبھی دوبارہ آنے کا حکم دیا۔ اس نے کہا:

اگر میں آؤں اور آپ نہ ملیں تو ؟ گویا وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر آپ وفات پا جائیں تو (کس سے ملوں)؟

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اگر میں نہ مل سکوں تو ابو بکرؓ کے پاس چلی جانا۔‘‘

(صحيح البخاري : 7220)

امام بخاریؒ نے اس حدیث سے سیدنا ابو بکرؓ کی خلافت پر استدلال کیا ہے۔ آپ نے اس حدیث پر خلافت کا عنوان قائم کیا ہے۔

علامہ ابن ملقنؒ (المتوفی 804ھ) فرماتے ہیں:

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ بنایا جائے گا اور اس حدیث میں شیعہ کے اس قول کا رد ہے کہ سیدنا علیؓ کو خلیفہ بنانے کی رسول اللہ ﷺ نے تصریح کی تھی ، اسی طرح ان رافضیوں کے قول کا بھی رد ہے جنھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عباسؓ کو خلیفہ بنانے کی تصریح کی تھی۔

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 259/20)

حافظ ابن حجرؒ (المتوفی : 852ھ) فرماتے ہیں:

اس حدیث کی شرح میں بعض علماء کا یہ کہنا درست ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نبی ﷺ کے بعد خلیفہ ہیں، لیکن اس میں صراحت نہیں بلکہ واضح اشارہ ہے۔

(فتح الباري : 407/13)

➍ وفات سے چند دن پہلے آپ ﷺ نے خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ مسجد میں کوئی دروازہ نہ چھوڑا جائے سب بند کر دیے جائیں سوائے ابوبکر کے دروازے کے ۔“

(صحيح البخاري : 3654)

امام ابن حبانؒ (المتوفی : 354ھ) فرماتے ہیں:

اس حدیث میں دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلیفہ سیدنا ابوبکرﷺ تھے کیوں کہ مصطفی ﷺ نے خلافت کے بارے میں لوگوں کا طمع یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ مجھ سے مسجد میں ہر کھڑکی بند کر دو، سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔

(صحیح ابن حبان : 6860)

علامہ ابن بطال رقم طراز ہیں:

سید نا ابو بکرؓ کی خلافت کی ایک دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو بکرؓ کو اس چیز کے ساتھ خاص کیا ہے جس کے ساتھ ان کے علاوہ کسی کو خاص نہیں کیا۔ وہ اس طرح کہ ان کا دروازہ مسجد میں رکھا، تا کہ ان کو امامت میں اپنا خلیفہ بنائیں اس لیے کہ وہ اپنے گھر سے مسجد میں نکل سکیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نکلا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے سب لوگوں کو اس سے روک دیا۔ یہ دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ یوم کے بعد سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ ہوں گے۔

(شرح البخاري لابن بطال: 142/3)

علامہ ابن رجبؒ (المتوفی : 795ھ) فرماتے ہیں:

نبی ﷺ نے اس خطبہ میں صحابہ کرامؓ میں سیدنا ابو بکرؓ کی خصوصی فضیلت کا ذکر کیا ہے اور مسجد میں ان کے دروازے کے کھلنے سے ان کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور سب لوگوں کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اس نفی میں اشارہ ہے کہ آپؓ اکیلے ہی آپ ﷺ کے بعد خلافت کے اہل ہوں گے کیوں کہ امام مسجد میں زیادہ آنے کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ اسی میں نمازیوں کی مصلحت ہوتی ہے۔

(فتح الباري لابن رجب: 547/2)

علامہ سیوطیؒ (المتوفى : 911ھ) فرماتے ہیں:

علماء کا بیان ہے کہ یہ حدیث سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت کی طرف کھلا اشارہ ہے کیوں کہ آپ مسجد میں کھڑکی کی راہ سے نماز پڑھانے تشریف لاتے تھے۔

(تاریخ الخلفاء، ص : 67)

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیے سوائے سیدنا علیؓ کے دروازے کے۔ وہ جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہوتے ۔ ان کا یہی راستہ تھا اور کوئی راستہ نہ تھا۔

(مسند أحمد -331/1۔ سنن الترمذي : 3732 وإسناده حسن)

تطبیق :

ان روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ سدابواب (دروازے بند کرنے) کا حکم دو مرتبہ دیا گیا۔ پہلی مرتبہ دیا گیا تو سیدنا علیؓ کا استثناء ہوا اور وہ اس لیے کہ ان کا باہر آنے جانے کا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا اس لیے انھیں استثناء ملا۔ اور دوسری مرتبہ بند کرنے کا جو حکم آیا تو اس سے سید نا ابوبکر صدیقؓ کو استثناء ملا اور اس سے مقصود ان کی خصوصیت اور استحقاق خلافت کا اظہار تھا۔ پہلی دفعہ جب دروازے بند کرنے کا حکم جاری ہوا تو علیؓ کا دروازہ چھوڑ کر باقی سب بند کر دیے گئے۔ بعد ازاں لوگوں نے مسجد میں قریب سے آنے کے لیے کھڑکیاں بنا لیں اور ان کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ تب آپ ﷺ نے وفات سے چند روز قبل تمام کھڑکیاں بھی بند کرنے کا حکم فرما دیا اور سیدنا صدیقؓ کو مستثنیٰ کر دیا۔ اب تمام کھڑکیاں اور علیؓ کا دروازہ سب بند کر دیے گئے اور سیدنا ابو بکرؓ کو استثناء ملا، اور ظاہر ہے کہ یہ استثناء کسی اختصاص، امتیاز اور وجہ ترجیح کی بنا پر ہی دیا تھا۔ وہ اختصاص یہی تھا کہ سیدنا ابو بکرؓ خلافت کے مستحق اور اس پر متمکن ہونے والے تھے سو نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کے استحقاق خلافت بلا فصل کو ظاہر کرنے کے لیے سدابواب کے عام حکم سے ابوبکر دنیا کا استثناء فرمایا۔

(مزید دیکھیں، فتح الباري: 20/7)

➎ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

”میں خواب میں ایک کنویں پر کھڑا اس سے پانی کھینچ رہا تھا کہ میرے پاس ابوبکر و عمر آئے۔ ابوبکر نے مجھ سے ڈول لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے ۔ ان کے کھینچنے میں ذرا کمزوری تھی اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، پھر ابوبکر کے ہاتھ سے وہ ڈول عمر نے لے لیا اور ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی وہ ایک بڑے ڈول کی شکل اختیار کر گیا۔ میں نے ان سے زیادہ کوئی ہمت والا اور بہادر انسان نہیں دیکھا جو اتنی حسن تد بیر اور مضبوط قوت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہو۔ چناںچہ انھوں نے اتنا پانی کھینچا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو بھی پانی پلا کر بٹھا دیا۔“

(صحيح البخاري : 3676)

اس حدیث میں بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کا بڑا واضح اشارہ ہے۔ نبی ﷺ سے سیدنا ابوبکرؓ نے ڈول لیا، یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبی ﷺ کے بعد خلافت سید نا ابوبکرؓ کو ملے گی ۔ سیدنا ابو بکرؓ کے ڈول کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی، یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ان کی مدت خلافت کم ہوگی اور اس میں فتوحات بھی کم ملیں گی۔

امام شافعیؒ (المتوفی : 204ھ) فرماتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ کا فرمان کہ’’ ان (ابوبکر) کے ڈول کھینچنے میں کمزوری تھی ۔“ کا معنی ان کی مدت خلافت کا اختصار، ان کی وفات کا جلد واقع ہونا اور اہل ارتداد سے لڑنے میں مصروف ہونے کی وجہ سے ان کا فتوحات اور خلافت اسلامیہ کو توسیع دینے سے رہ جانا اور اس کا موقع نہ ملنا ہے۔

(كتاب الأم: 21/2)

➏ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے ایام میں فرمایا:

”اپنے والد ابوبکر اور اپنے بھائی کو بلاؤ تا کہ میں انھیں ایک تحریر لکھ دوں ۔ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی (خلافت کی ) تمنا کرنے والا تمنا نہ کرے اور کوئی کہنے والا یوں نہ کہے کہ میں اس (خلافت) کا زیادہ مستحق ہوں، حالاںکہ اللہ انکار کرتا ہے، اور مسلمان بھی انکار کرتے ہیں کہ ابوبکر کے سواکسی اور کو (خلافت) ملے ۔‘‘

(صحیح مسلم ، ح : 2387)

علامہ نوویؒ (المتوفی : ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں :

اس حدیث میں سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت پر واضح دلیل ہے اور مستقبل کے متعلق نبیﷺ کی پیش گوئی ہے کہ خلافت کے معاملے میں مسلمانوں میں نزاع ہوگا اور سیدنا ابو بکرؓ کے علاوہ مسلمان کسی کی خلافت پر متفق نہیں ہوں گے۔ سیدہ عائشہؓ کے بھائی کو اس لیے بلایا تھا کہ وہ مکتوب لکھ دیں گے کیوں کہ نبی ﷺ کے لیے جانا دشوار اور مشکل تھا۔ آپ ﷺ جماعت سے نماز پڑھنے بھی نہیں جا رہے تھے۔ آپ نے نمازوں میں سید نا ابوبکرؓ کو خلیفہ بنا دیا تھا۔

(شرح صحیح مسلم: 273/2، 274)

➐ سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

” مجھے معلوم نہیں کہ میں کب تک تمھارے درمیان رہتا ہوں، لہٰذا تم میرے بعد ان دونوں کی اقتدا کرنا۔‘‘ آپ ﷺ نے سیدنا ابوبکر وسید نا عمرؓ کی طرف اشارہ کیا۔

(سنن الترمذي ، ح: 3663 و إسناده حسن)

اس حدیث میں بھی خلافت صدیقی کی طرف اشارہ ہے کہ نبی ﷺ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور ان کے بعد سید نا عمرؓ خلیفہ ہوں گے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ ان کی اقتدا کرنا۔

➑ سیدہ عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو خلیفہ بناتے؟ انھوں نے فرمایا:

سید نا ابوبکرؓ کو۔ پوچھا گیا:

ابوبکرؓ کے بعد کس کو خلیفہ بناتے؟ فرمایا:

عمرؓ کو پوچھا گیا کہ عمرؓ کے بعد؟ فرمایا:

ابو عبیدہ بن جراحؓ کو ۔ اس کے بعد سیدہ عائشہؓ خاموش ہوگئیں ۔

(صحیح مسلم ، ح: 2385)

یہ روایات اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی ہیں اور پھر ایسے ہی ہوا کہ آپ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں سیدنا عمرؓ اور ارباب حل و عقد اور پھر تمام مسلمانوں نے سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت کی جو سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت کا بین ثبوت ہے۔ اگر صحابہ کرامؓ کو سیدنا ابو بکرؓ کی خلافت کے سلسلے میں کوئی شبہ ہوتا یا ان کے خاص اور عام میں اس کے درمیان کوئی اختلاف ہوتا تو وہ سب آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں متفق نہ ہوتے اور اگر انھوں نے بیعت کر لی تھی تو دوسرے اس کو جائز قرار نہ دیتے۔ صحابہ کرامؓ کا سیدنا صدیقؓ کی بیعت پر متفق ہو جانا خلافت صدیقی کے برحق ہونے کے لیے کافی ہے۔ بالفرض اگر سیدنا ابو بکرؓ کی خلافت کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ بھی ہوتی ، اس کی طرف کوئی اشارہ کنایہ نہ بھی ہوتا تو ان کی خلافت کے صحیح ہونے کے لیے صحابہ کرامؓ کا اتفاق اور اجماع ہی کافی تھا۔ اللہ ہمیں حق کی پیروی کی توفیق دے۔ آمین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے