خلافت دینی اصطلاح یا سیاسی نظریہ
تحریر سیدمتین احمد

محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا موقف

محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر ایک وقت میں کثرت سے بات ہوئی، جناب خورشید احمد ندیم نے اپنے ایک کالم (12 اپریل 2017ء) میں ان کے خیالات کو مختصراً پیش کیا۔ اس بیانیے میں ایک بنیادی سوال یہ تھا: "کیا خلافت دینی اصطلاح ہے؟”

غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ خلافت دینی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عمومی تصور ہے، اور اس کا دین سے کوئی لازمی تعلق نہیں۔ یہ ان کا ذاتی فہم ہے جس کا احترام کیا جا سکتا ہے، مگر اس پر اصرار کہ یہ فہم ہی واحد درست بات ہے، ایک علمی جبر ہوگا۔

"خلافت” کی دینی حیثیت: روایتی نقطۂ نظر

اسلامی فکر کے روایتی حلقوں میں خلافت کے تصور کو ہمیشہ ایک دینی بنیاد پر دیکھا گیا ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے علما نے خلافت کو دینی اصطلاح قرار دیا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا ہے۔

مولانا حمید الدین فراہی کا تصورِ خلافت

مولانا فراہی نے سورۂ عصر کی تفسیر میں "تواصوا بالحق” کو خلافت کے قیام سے جوڑا ہے۔ ان کے مطابق:

  • ایمان تمام عقائد کا مرکز ہے۔
  • عمل صالح شریعت پر عمل کا مظہر ہے۔
  • تواصوا بالحق امت کے نظم و ضبط کا ذریعہ ہے۔

مولانا فراہی کے مطابق، "تواصوا بالحق” اور "امر بالمعروف و نہی عن المنکر” جیسے فرائض کے لیے خلافت کا قیام ضروری ہے، کیونکہ حقوق کی ادائیگی اور نظمِ اجتماعی کے بغیر ان فرائض کی تکمیل ممکن نہیں۔ (مجموعہ تفاسیر فراہی، ص 342-344)

مولانا امین احسن اصلاحی کا نقطۂ نظر

مولانا اصلاحی نے خلافت کے قیام کو امت کے لیے ایک بنیادی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک:

    • سورۂ آل عمران کی آیت "وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّۃ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ” میں خلافت کے قیام کا حکم دیا گیا ہے۔

"اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔”

  • خلافت محض دعوت و تبلیغ نہیں، بلکہ سیاسی اختیار اور اقتدار کے ذریعے معروف کا نفاذ اور منکر کا خاتمہ ہے۔

(تدبر قرآن)

مولانا اصلاحی کے مطابق، خلافت کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ امت "اعتصام بحبل اللہ” (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے) کے نصب العین پر قائم رہے۔

خلافت کا مقصد

  • دعوت الی الخیر
  • امر بالمعروف
  • نہی عن المنکر

یہ تین اصول خلافت کے قیام کے لیے لازم ہیں اور اسی پر خلفائے راشدین کا نظام قائم تھا۔

قرآنی آیات سے استدلال

  • سورۂ اعراف (69): مولانا اصلاحی کے مطابق، قوم نوح کے بعد عاد کو خلافت دی گئی، جس کا مطلب اقتدار اور تمکن تھا۔
  • سورۂ انبیاء: حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو خلافت دی گئی، اور ان کی حکمرانی عدل و انصاف پر مبنی تھی، جو خلافت کے جوہر کو نمایاں کرتی ہے۔
  • سورۂ بقرہ (251): حضرت داؤدؑ کو حکمت اور بادشاہی عطا ہوئی، جسے مولانا اصلاحی خلافت کا ایک مثالی نمونہ قرار دیتے ہیں۔

دبستانِ شبلی اور تصورِ خلافت

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے "دبستان شبلی” کو ایک فکری مدرسہ قرار دیا، جس میں مولانا حمید الدین فراہی کو "امام العصر” کہا گیا ہے۔ اس مدرسہ فکر نے خلافت کو دینی اصطلاح کے طور پر پیش کیا ہے۔ مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے تفسیری بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خلافت کو ایک اجتماعی دینی نظام کے طور پر دیکھا گیا۔

خلافت اور جدید حالات

غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ خلافت کی کوئی دینی حیثیت نہیں، اور ان کا یہ موقف زیادہ تر موجودہ عالمی حالات، خاص طور پر 9/11 کے بعد کی صورتحال سے متاثر نظر آتا ہے۔ ان کے نزدیک، امت کو موجودہ دور میں خلافت کے بجائے تعلیم، تربیت اور اخلاقی اصلاح پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

ایک متوازن موقف

مولانا الیاسؒ اور دیگر علما نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امت کے اصل مسائل کا حل تعلیم، تربیت، اور اخلاقی اصلاح میں ہے۔ پرامن جدوجہد کے ذریعے اصلاح ممکن ہے، اور ماضی میں علما نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو موجودہ دور میں بھی مشعل راہ بن سکتے ہیں۔

نتیجہ: خلافت کی دینی حیثیت پر غور

غامدی صاحب کا موقف ان کا ذاتی اجتہاد ہے، لیکن مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی آراء یہ ثابت کرتی ہیں کہ خلافت کو ہمیشہ دینی اصطلاح کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ خلافت کو محض ایک سیاسی تصور قرار دینا مسلم فکری روایت کے ساتھ انصاف نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے