سوال :
جب جمعہ کا خطبہ ہو رہا ہو تو کیا باہر سے مسجد میں آنے والا آدمی لوگوں کو ”السلام علیکم“ کہہ سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :
جس وقت امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت سلام کہنا اور اس کا جواب دینا، یا کسی کو چھینک آجائے تو ”يرحمك الله“ کہنا، یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آجائے تو درود شریف پڑھنا، یہ ائمہ حدیث کے ہاں اختلافی مسئلہ ہے۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دونوں طرف عمومی دلائل ظاہری طور پر متعارض ہیں۔ بعض احادیث وآثار ایسے ہیں جن میں حالتِ خطبہ میں کلام کی ممانعت اور انصات کا حکم ہے، جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت والإمام يخطب فقد لغوت
(بخاری، كتاب الجمعة، باب الانصات يوم الجمعة والإمام يخطب 934، مسلم، 851/11)
”جب تم نے اپنے ساتھی سے جمعہ کے دن کہا کہ خاموش ہو جا، اس حال میں کہ امام خطبہ دے رہا ہو، تو تم نے لغوبات کی ۔“
یہ اور اسی معنی کی دیگر احادیث سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ دوران خطبہ ہر طرح کا کلام منع ہے، جو شخص کسی دوسرے کو اتنا کہہ دے کہ ”خاموش ہو جا“ اس کا یہ قول بھی لغو شمار ہوتا ہے، بلکہ وہ اپنا جمعہ ضائع کر لیتا ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من اغتسل يوم الجمعة، ومس من طيب امرأته إن كان لها، ولبس من صالح ثيابه ثم لم يتخط رقاب الناس، ولم يلغ عند الموعظة، كانت له كفارة لما بينهما، ومن لغا وتعطى رقاب الناس كانت له ظهرا
(ابوداود کتاب الطهارة، باب في الغسل للجمعة 347 ، صحيح ابن خزيمة 156/3، ح: 1810 ببهقی231/3)
”جس آدمی نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اپنی بیوی کی خوشبو میں سے کچھ خوشبو لگالی، اگر اس کے پاس خوشبو ہو اور اپنے کپڑوں میں سے اچھے کپڑے پہن لیے، پھر لوگوں کی گردنیں نہیں پھلانگیں، اور وعظ و نصیحت کے وقت لغو بات نہ کی تو یہ اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا اور جس نے لغو بات کی اور لوگوں کی گردنیں پھلانگیں تو اس کے لیے نماز ظہر ہوگی ۔“
علامہ عینی نے شرح بخاری میں لکھا ہے:”جب امام خطبہ میں مشغول ہو جائے تو خطبہ سننے والے کے لیے مناسب ہے کہ وہ ہر اس کام سے بچے جس سے وہ نماز میں بچتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”جب قرآن پڑھا جائےتو غور سے سنو اور خاموش ہو جاؤ ۔“ (الأعراف: 204) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: إذا قلت لصاحبك أنصت والإمام يخطب فقد لغوت”جب تو نے اپنے ساتھی سے کہا خاموش ہو جاؤ تو تو نے لغو بات کی۔ “ جب یہ صورتِ حال میں سلام کا جواب دینا اور چھینک مارنے والے کو ”يرحمك الله“ کہنا مکروہ ہے۔“
(عمدۃ القاری 230/6، تحفۃ الأحوذی 59/3)
علامہ عینی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ جب کوئی آدمی سلام کہہ دے تو دل ہی میں جواب دے ۔ اس کے بر عکس میں سلام کہنے اور درود شریف پڑھنے کے عمومی دلائل ہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حق المسلم على المسلم إذا لقيه فليسلم عليه
(صحيح مسلم، کتاب السلام باب من حق المسلم المسلم رد السلام 2162/5، الأدب المفرد 925، 991 مسند احمد 372/2، ح : 8832)
”مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں جب بھی تو اسے ملے تو سلام کہہ “
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا انتهى أحدكم إلى المحلي فليسلم، فإذا أراد أن يقوم فليسلم، فليسلم، فإذا أراد فليسلم، فليست الأولى بأحق من الآخرة
أبو داود، كتاب الأدب، باب في السلام إذا قام من المجلس (5208)، ابن حيان (140)، مسند الحميدي (1166)، الأدب المفرد (1007)، ترمذی (2706)
”تم میں سے جب بھی کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، پھر جب اٹھنے کا ارادہ کرے تو سلام کرے، کیونکہ پہلے سلام کا حق دوسرے سے زیادہ نہیں ہے۔“
اس مفہوم کے دلائل عام ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے بھائیوں سے ملے، یا کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کہے اور سننے والے سلام کا جواب دیں۔ اسی طرح درود شریف پڑھنے کے بھی عمومی دلائل ہیں۔ اب ایک طرف خطبہ دھیان سے سننے کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف سلام و درود کا مسئلہ ہے تو ان ظاہری متعارض ولائل میں تطبیق یوں ہے کہ آہستہ جواب دے اور درود پڑھ لے، کیونکہ سری اور آہستہ پڑھنا انصات کے منافی نہیں ہے۔
علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ شرح ترمذی میں فرماتے ہیں: ”ان متعارض عمومات میں میرے نزدیک اولی یہ ہے کہ یوں تطبیق دی جائے کہ حالت خطبہ میں تکلم سے ممانعت کا مطلب لوگوں کا باہمی گفتگو کرتا ہے اور انصات سے مراد بھی یہی ہے کہ لوگ باہمی گفتگو سے خاموش رہیں، اس سے ذکر اللہ سے خاموشی مراد نہیں ہے، جیسا کہ امام ابن خزیمہ نے اختیار کیا ہے کہ جب حالت خطبہ میں لوگوں کے ساتھ کلام کرنے سے خاموش رہے اور سلام کا جواب، چھینک مارنے والے کو ”يرحمك الله“کہنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت درود، یہ سب آہستہ پڑھ لے تو تمام نصوص پر عمل کرنے والا ہو جائے گا، خواہ وہ نہی سے تعلق رکھتی ہیں یا امر ہے۔ اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ خنفیہ نے کہا کہ خطیب جب ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (الأحزاب: 56) دوران خطبہ پڑھے تو سامعین اپنے نفس میں آہستہ جواب دیں تو جائز ہے۔ علامہ عینی نے ”البنایہ “شرح ہدایہ میں کہا ہے کہ اگر تو یہ کہے کہ سننے والے پر دو حکم وارد ہوئے ہیں، ایک تو ﴿صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا﴾ ”یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کہو“ اور دوسرا ”اور جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو“ مجاہد نے کہا یہ آیت خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اگر ان میں سے ایک حکم پر عمل کرتا ہے تو دوسرا فوت ہو جاتا ہے۔ (یعنی اگر درود پڑھتا ہے تو استماع فوت ہو جاتا ہے، اگر استماع کرتا ہے تو درود فوت ہو جاتا ہے ) میں (عینی) کہتا ہوں کہ جب اپنے نفس میں درود پڑھ لے تو انصات اور سکوت کرنے والا بن جائے گا اور دونوں حکموں پر عمل کرنے والا ہو جائے گا۔“
(تحفة الأحوذي 59/3)
بالکل اسی طرح جب کوئی شخص حالت خطبہ میں سلام کہہ دے تو آہستہ دل میں جواب دے لے تو خاموشی والے حکم پر بھی عمل ہو جائے گا، کیونکہ دل میں آہستہ جواب دینا انصات کے منافی عمل نہیں ہے اور سلام کہنے اور جواب دینے والی احادیث پر بھی عمل ہو جائے گا۔
مذکورہ بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ حالت خطبہ میں سلام کہتا اور دل میں آہستہ جواب دینا درست ہے۔ ایسی صورت میں نصوص میں کوئی تعارض نہیں رہتا، کئی ایک احادیث صحیحہ و مرفوعہ و متصلہ سے یہ بات واضح ہے کہ آہستہ اور عدم جہر انصات کے خلاف اور منافی نہیں ہے۔