وَفِي رِوَايَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ مَاعِرُ بْنُ مَالِكَ إِلَى النَّبِيِّ عَلَى فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِي، فَقَالَ: ( (وَيُحَكَ، ارْجِعُ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبُ إِلَيْهِ))) قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرُنِي، [قَالَ] : (فَقَالَ النَّبِيُّ: ( (وَيُحَكَ) ارْجِعُ فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَيْهِ)) قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِي، فَقَالَ النَّبِيُّ مِثْلَ ذلِكَ، حَتَّى إِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ لام: ( (فِيمَ أَطَهِّرُكَ)) فَقَالَ: مِنَ الزِّنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَ: ( (أَبِهِ جُنُونٌ؟ )) فَأَخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُونِ، فَقَالَ: ( (أَشْرِبَ خَمْرًا؟ )) فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْكَهَهُ، فَلَمْ يَجِدُ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: ( (أَزَنَيْتَ؟ )) قَالَ: نَعَمُ قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ فَرُحِمَ)) [قَالَ] فَكَانَ النَّاسُ فِيهِ فِي فِرَقَتَيْنِ: قَائِلٌ يَقُولُ: لَقَدْ هَلَكَ، لَقَدْ أَحَاطَتُ بِهِ خَطِيئَتُهُ وَقَائِلٌ يَقُولُ: مَاتَوُبَةٌ أَفْضَلُ مِنْ تَوْبَةِ مَاعِرٍ، حَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مَن فَوَضَعَ يَدَهُ فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: اقْتُلَنِي بِالْحِجَارَةِ – قَالَ: فَلَبِثُوا بِذلِكَ يَوْمَيْنِ أَوْثَلَاثَةٌ [قَالَ] : ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللهِ عَل وَهُمْ جُلُوسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ)) [قَالَ] فَقَالُوا: (غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَن: لَقَدْ تَابَ تَوْبَةٌ لَوْ قُسِمَتُ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتُهُمْ )) – وَقَالَ: ثُمَّ جَاءَ تُهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ مِنَ الْأَزْدِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرُنِي، فَقَالَ: ( (وَيُحَكِ، ارْجِعِي فَ سُتَغْفِرِي اللَّهَ، وَتُوبِى ( (وَيُحَكِ، ارْجِعِي فَ سُتَغْفِرِي اللَّهَ، وَتَوبِى إِلَيْهِ)) فَقَالَتْ: أَرَاكَ تُرِيدَ أَنْ تَرُدُّنِي كَمَا رَدَدْتَ مَا عِزَ بُنَ مَالِكٍ، فَقَالَ: ( (وَمَا ذَاكَ؟ )) قَالَتْ: إِنَّمَا حُبْلَى مِنَ الزِّنَا – فَقَالَ: ( (أَزَنَيْتِ؟ )) فَقَالَتُ نَعَمْ، فَقَالَ لَهَا ( (اصْبِرِي حَتَّى تَضَعِي مَا فِي بَطْنِكِ)) قَالَ: فَكَفْلَهَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتَّى وَضَعَتْ، قَالَ: فَأَتَى النَّبِيُّ عَلَى فَقَالَ: قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِيَّةُ فَقَالَ: ( (إِذَنْ لَا تَرْجُمَهَا وَنَدَعَ وَلَدَهَا صَغِيرًا، لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ) فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: إِلَيَّ [1] رِضَاعُهُ يَا نَبِيَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَجَمَهَا
سليمان بن بریدہ کی روایت میں ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، اس نے کہا کہ ماعز بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پاک کر دیجیے آپ نے فرمایا: ”تجھ پر یہ بڑا افسوس ہے واپس جاؤ اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو“ راوی نے کہا وہ تھوڑی دور تک گیا پھر واپس آیا اور کہا یا رسول اللہ پاک کر دیجیے اس نے کہا یا رسول اللہ یا مجھے پاک کر دیجیے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اسی طرح کہا، جب چوتھی مرتبہ ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس حوالے سے تجھے پاک کروں؟ اس نے کہا زنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ دیوانہ ہے؟ آپ کو بتایا گیا کہ یہ دیوانہ نہیں ہے آپ نے پوچھا ”کیا اس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص اٹھا اس نے اسے سونگھا تو اس نے شراب کی بو نہ پائی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے زنا کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے رجم کر دیا گیا اس کے بارے میں لوگ دوگروہوں میں بٹ گئے ایک کہنے والا کہتا ہے یہ تباہ ہو گیا اس کی خطا نے اسے گھیرے میں لے لیا، دوسرا کہنے والا کہتا ہے ماعز کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیا پھر فرمایا مجھے پتھر سے قتل کر دیجیے راوی نے کہا وہ دو یا تین دن ٹھہرے روای نے کہا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا’ لوگ وہاں بیٹھےہوئے تھے اس نے سلام کیا اور بیٹھ گیا آپ نے فرمایا: ماعز کے لیے مغفرت کی دعا کرو“ انہوں نے کہا اللہ ماعز کو بخشے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر امت کے درمیان اسے تقسیم کر دیا جائے تو ان کے لیے کافی ہوگی روای نے کہا پھر آپ کے پاس قبیلہ ازد کی ایک عورت آئی اس نے کہا یا رسول اللہ مجھے پاک کر دیجیے آپ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس واپس جاؤ اور اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو“ اس نے کہا میرا خیال ہے آپ مجھے اسی طرح لوٹا دیں گے جس طرح ماعز بن مالک کو لوٹا دیا آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ وہ زنا کی وجہ سے حاملہ ہوگئی آپ نے پوچھا ”کیا تو نے زنا کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں آپ نے اس سے فرمایا ”صبر کرو یہاں تک کہ جو کچھ تیرے پیٹ میں ہے اسے تو جنم دے دے۔“ اس کی کفالت ایک انصاری نے اپنے ذمے لی اس نے بچے کو جنم دے دیا روای کہتا ہے کہ کفیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ غامدی خاتون کے بچے کو جنم دے دیا ہے آپ نے فرمایا: ”ابھی ہم اسے رجم نہیں کریں گے کہ اس کے بچے کو چھوٹا سا چھوڑ دیں اور اسے کوئی دودھ پلانے والا نہ ہو؟ انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ اس کی رضاعت میرے ذمے روای نے کہا تو اسے رجم کر دیا۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1695]
فوائد:
➊ زانی گناہ کی غلاظت سے لبریز ہوتا ہے کوڑے یا رجم اس کو غلاظت سے پاک کر دیتے ہیں۔
➋ گناہ کی کیسی بے تابی ہے کہ حد لگوائے بغیر سکون نہیں ملتا۔ جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ گناہ تازہ ہو یا پرانا ایک جیسی وقعت رکھتا ہے۔
➌ کبیرہ گناہ کے لیے خالص توبہ ایک مفید تریاق ہے۔
➍ حالت نشہ میں کوئی بات قابل اعتبار ہوتی ہے نہ ہی اس پر ایکشن لیا جائے گا۔
➎ خطا کار زانی جب حد لگایا جاتا ہے تو عوام میں دو طرح کے ذہن ہوتے ہیں۔ ① زانی کو اس کے گناہ پر برا بھلا کہنا۔ ② زانی کے لیے سزا بطور کفارہ بن جانے اور اللہ کے ہاں اس کے مقبول ہو جانے کا ذہن رکھنا۔ رجم گناہ کا کفارہ ہے تو یہ توبہ نصوح کا مقام رکھتا ہے جس سے آدمی ہمیشہ کے لیے نجات پا جاتا ہے۔
سليمان بن بریدہ کی روایت میں ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، اس نے کہا کہ ماعز بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پاک کر دیجیے آپ نے فرمایا: ”تجھ پر یہ بڑا افسوس ہے واپس جاؤ اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو“ راوی نے کہا وہ تھوڑی دور تک گیا پھر واپس آیا اور کہا یا رسول اللہ پاک کر دیجیے اس نے کہا یا رسول اللہ یا مجھے پاک کر دیجیے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اسی طرح کہا، جب چوتھی مرتبہ ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس حوالے سے تجھے پاک کروں؟ اس نے کہا زنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ دیوانہ ہے؟ آپ کو بتایا گیا کہ یہ دیوانہ نہیں ہے آپ نے پوچھا ”کیا اس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص اٹھا اس نے اسے سونگھا تو اس نے شراب کی بو نہ پائی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے زنا کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے رجم کر دیا گیا اس کے بارے میں لوگ دوگروہوں میں بٹ گئے ایک کہنے والا کہتا ہے یہ تباہ ہو گیا اس کی خطا نے اسے گھیرے میں لے لیا، دوسرا کہنے والا کہتا ہے ماعز کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیا پھر فرمایا مجھے پتھر سے قتل کر دیجیے راوی نے کہا وہ دو یا تین دن ٹھہرے روای نے کہا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا’ لوگ وہاں بیٹھےہوئے تھے اس نے سلام کیا اور بیٹھ گیا آپ نے فرمایا: ماعز کے لیے مغفرت کی دعا کرو“ انہوں نے کہا اللہ ماعز کو بخشے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر امت کے درمیان اسے تقسیم کر دیا جائے تو ان کے لیے کافی ہوگی روای نے کہا پھر آپ کے پاس قبیلہ ازد کی ایک عورت آئی اس نے کہا یا رسول اللہ مجھے پاک کر دیجیے آپ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس واپس جاؤ اور اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو“ اس نے کہا میرا خیال ہے آپ مجھے اسی طرح لوٹا دیں گے جس طرح ماعز بن مالک کو لوٹا دیا آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ وہ زنا کی وجہ سے حاملہ ہوگئی آپ نے پوچھا ”کیا تو نے زنا کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں آپ نے اس سے فرمایا ”صبر کرو یہاں تک کہ جو کچھ تیرے پیٹ میں ہے اسے تو جنم دے دے۔“ اس کی کفالت ایک انصاری نے اپنے ذمے لی اس نے بچے کو جنم دے دیا روای کہتا ہے کہ کفیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ غامدی خاتون کے بچے کو جنم دے دیا ہے آپ نے فرمایا: ”ابھی ہم اسے رجم نہیں کریں گے کہ اس کے بچے کو چھوٹا سا چھوڑ دیں اور اسے کوئی دودھ پلانے والا نہ ہو؟ انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ اس کی رضاعت میرے ذمے روای نے کہا تو اسے رجم کر دیا۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1695]
فوائد:
➊ زانی گناہ کی غلاظت سے لبریز ہوتا ہے کوڑے یا رجم اس کو غلاظت سے پاک کر دیتے ہیں۔
➋ گناہ کی کیسی بے تابی ہے کہ حد لگوائے بغیر سکون نہیں ملتا۔ جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ گناہ تازہ ہو یا پرانا ایک جیسی وقعت رکھتا ہے۔
➌ کبیرہ گناہ کے لیے خالص توبہ ایک مفید تریاق ہے۔
➍ حالت نشہ میں کوئی بات قابل اعتبار ہوتی ہے نہ ہی اس پر ایکشن لیا جائے گا۔
➎ خطا کار زانی جب حد لگایا جاتا ہے تو عوام میں دو طرح کے ذہن ہوتے ہیں۔ ① زانی کو اس کے گناہ پر برا بھلا کہنا۔ ② زانی کے لیے سزا بطور کفارہ بن جانے اور اللہ کے ہاں اس کے مقبول ہو جانے کا ذہن رکھنا۔ رجم گناہ کا کفارہ ہے تو یہ توبہ نصوح کا مقام رکھتا ہے جس سے آدمی ہمیشہ کے لیے نجات پا جاتا ہے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]