حکام کی اطاعت اور خروج کی ممانعت جب تک نماز قائم رہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ان کے خلاف خروج (بغاوت) جائز نہیں ہے جب تک وہ نماز قائم رکھیں اور کھلم کھلا کفر کا اظہار نہ کریں
جیسا کہ پیچھے ”باغیوں سے لڑائی کے بیان میں“ تفصیلی ذکر گزر چکا ہے ۔
نیز اس مسئلے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔
[السيل الجرار: 556/4]
➊ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر کچھ امیر مقرر ہوں گے جن (کی کچھ باتوں ) کو تم اچھا سمجھو گے اور کچھ کو برا سمجھو گے ۔ جس شخص نے ان کی بُری باتوں کا انکار کیا وہ بری ہے اور جس نے ان کو برا جانا وہ محفوظ رہا ، البتہ جس نے ان کو پسند کیا اور ان کے مطابق چلا (وہ خائب و خاسر ہو گا ) ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا ، کیا ہم ان سے لڑائی کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ، ما صلولا ، ما صلوا
”نہیں ، جب تک وہ نماز کے نظام کو قائم رکھیں ۔“
[مسلم: 1854 ، كتاب الإمارة: باب وجوب الإنكار على الأمراء فيما يخالف الشرع]
➋ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بہترین امیر وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تم ان کے حق میں دعائیں کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعائیں کرتے ہیں اور تمہارے بدترین امیر وہ ہیں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو اور وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں ۔ (راوی نے کہا ) ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اُس وقت انہیں معزول نہ کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
لا ، ما أقاموا فيكم الصلاة ، لا ما أقاموا فيكم الصلاة
”نہیں ، جب تک کہ وہ تم میں اقامتِ صلاۃ کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں ۔ نہیں ، جب تک وہ تم میں اقامت صلاۃ کے فریضے پر کار بند رہیں ۔“
خبر دار ! جس شخص پر کوئی امیر بنایا گیا اس نے امیر کو دیکھا کہ وہ کسی حد تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس کی نافرمانی کرنے کو کراہت سے دیکھے لیکن اپنا ہاتھ اس کی اطاعت سے نہ کھینچے ۔“
[مسلم: 1855 ، كتاب الإمارة: باب خيار الأئمة وشرارهم]
➌ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور تنگی و آسانی خوشی و ناخوشی (ہر حال ) میں اطاعت کریں گے اور اگر ہم پر (کسی کو ) ترجیح دی جائے گی تو بھی اطاعت کریں گے اور ہم ان لوگوں سے امارت نہیں چھینیں گے جو اس پر قابض ہوں گے اور ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے ، اللہ (کے احکامات کے بارے ) میں کسی ملامت کرنے والے کی علامت سے خائف نہ ہوں گے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ :
وعلي أن لا تنازع الأمر أهله إلا أن تروا كفرا بواحا ، عندكم من الله فيه برهان
”ہم امارت پر قابضوں سے امارت نہیں چھینیں گے البتہ جب ان میں ظاہر کفر دیکھیں گے اور اس میں اللہ کی جانب سے دلیل موجود ہو گی ۔“
[بخاري: 7055 ، 7056 ، كتاب الفتن: باب قول النبي: سترون بعدى أمورا تنكرونها ، مسلم: 1709]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ومن رأى من أميره شيئا يكرهه فليصبر فإنه ليس أحد يفارق الجماعة شبرا فيموت إلا مات ميتة جاهلية
”جو شخص اپنے امیر میں کوئی قابل کراہت بات دیکھے تو صبر سے کام لے اس لیے کہ جو شخص بھی جماعت (کے نظم ) سے بالشت بھر الگ ہوا اور پھر اسی حالت میں فوت ہو گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔“
[بخاري: 7053 أيضا ، مسلم: 1849]
➎ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنا ہاتھ امیر کی اطاعت سے کھینچ لیا وہ قیامت کے دن اللہ کے ساتھ ملاقات کرے گا تو اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی :
ومن مات وليس فى عنقه بيعة مات ميتة جاهلية
”اور جو شخص فوت ہوا اور اس کی گردن میں امیر کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔“
[مسلم: 1851 ، كتاب الإمارة: باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن]
➏ حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنه سيكون هنات وهنات فمن أراد أن يفرق أمر هذه الأمة وهـي جميـع فـاضربوه بالسيف كائنا من كان
”مستقبل میں فتنے اور فسادات ہوں گے ۔ پس جو شخص اُمت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہے تو اسے تلوار سے قتل کر دو چاہے کوئی بھی ہو ۔“
[مسلم: 1852 ، كتاب الإمارة: باب حكم من فرق أمر المسلمين وهو مجتمع]
➐ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حمل علينا السلاح فليس منا
”جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ۔“
[بخاري: 7070 ، كتاب الفتن: باب قول النبى من حمل علينا السلام فليس منا ، مسلم: 98]
❀ احادیث میں موجود ”امامت“ سے لغوی امامت مراد نہیں ہے جو ہر حکمران اور کسی بھی صفت سے اس کی پیروی کرنے والوں کو شامل ہو ۔ بلکہ (اس سے ) مراد خاص امامتِ شرعیہ ہے (یعنی تمام عرب و عجم کے مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہو ) ۔
[السيل الجرار: 506/4]
(جمہور ) ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بھی خروج درست نہیں جب تک وہ اقامتِ صلاۃ کا فریضہ سرانجام دیں ۔ لیکن بعض اہل علم امر بالمعروف اور نهي عن المنكر کی احادیث کی وجہ سے اس کے جواز کے قائل ہیں لیکن یہ احادیث عام ہیں اور مسئلہ امامت خاص ہے اس لیے عام و خاص کے ما بین کوئی تعارض نہیں ہے ۔
[الروضة الندية: 778/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے