سوال :
کیا حق مہر کی شرعی مقدار دس درہم ہے؟
جواب:
حق مہر کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت نے مقرر نہیں کی، فریقین باہمی رضامندی سے جو طے کر لیں ، اسے مہر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ کم سے کم دس در ہم حق مہر کے متعلق روایات اصول محدثین کے مطابق پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا مهر دون عشرة دراهم.
”دس درہموں سے کم کوئی حق مہر نہیں۔ “
(سنن الدارقطني : 245/3 ، مسند أبي يعلى الموصلي : 2094 الكامل لابن عدي : 418/6 ، السنن الكبرى للبيهقي : 133/7)
یہ جھوٹی روایت ہے۔
➊مبشر بن عبید بالا جماع متروک وکذاب ہے۔
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أحاديثه أحاديث موضوعة ، كذب .
”اس کی بیان کردہ احادیث من گھڑت اور جھوٹی ہیں۔ “
(العلل ومعرفة الرّجال برواية عبد الله بن أحمد : 2639)
❀ امام جوز جانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحاديثه بواطيل.
” اس کی احادیث جھوٹی اور باطل ہیں۔ “
(أحوال الرّجال : 303)
❀ الله امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ ثقہ راویوں سے منسوب من گھڑت اور جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔ البتہ اس کی حدیث کو بطور تعجب لکھا جا سکتا ہے۔
(كتاب المجروحين : 30/3)
❀ امام بخاری رحمہ اللہ نے منکر الحدیث کہا ہے۔
(التاريخ الكبير : 1960 )
❀ امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متروك الحديث، يضع الحديث
یہ متروک الحدیث ہے، حدیثیں گھڑتا تھا۔
(سنن الدارقطني : 237/4)
❀ نیز مذکورہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
متروك الحديث، أحاديثه لا يتابع عليه .
”متروک الحدیث ہے،اس کی احادیث منکر ہیں ۔“
(سنن الدارقطني : 245/3)
❀ اس روایت کے بعد امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناده باطل ، كان لا يرويه غير مبشر .
اس کی سند باطل ہے۔ اسے سوائے مبشر بن عبید کے کوئی بیان نہیں کرتا۔“
(الكامل في ضعفاء الرجال : 418/7)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد أجمع أهل العلم بالحديث على ترك حديثه
مبشر بن عبید کے متروک الحدیث ہونے پر محدثین کا اجماع ہے۔
(معرفة السنن والآثار : 218/10 ، الخلافيات : 156/6 )
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناده واه، فيه مبشر بن عبيد ، وهو كذاب .
اس کی سند ضعیف ہے۔ اس میں مبشر بن عبید کذاب موجود ہے۔
(الدراية : 62/2)
➋ حجاج بن ارطاۃ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مدلس ہے ۔
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا ينبته أحد من أهل العلم بالحديث .
اس حدیث کو کوئی بھی محدث ثابت نہیں مانتا۔“
(الاستذكار : 411/5)
علامہ زیلعی حنفی ( نصب الرایہ 199/30) اور علامہ ابن ہمام حنفی ( فتح القدیر: 319/30) نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
ثابت ہوا کہ اس روایت کا دارو مدار مبشر بن عبید جیسے کذاب اور حجاج بن ارطاۃ جیسے ضعیف راوی پر ہے۔ اس کے باوجود دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث ، جناب انور شاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں:
ر ہی احناف کی دلیل ، تو ہمارے اکثر اصحاب دار قطنی کی حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ۔ میں (انور شاہ ) کہتا ہوں کہ اس کی سب سندوں میں حجاج بن ارطاۃ راوی ہے، جو کہ متکلم فیہ ہے۔ میں اس سے حجت نہیں پکڑتا ، اگر چہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی روایات کو حسن‘، بلکہ بعض مواقع پر صحیح بھی قرار دیا ہے۔“
(العرف الشذي، تحت الحديث : 1111 ، فيض الباري : 532/5)
شاہ صاحب کی دیانت علمی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے اس روایت کی سب سندوں میں موجود سخت جھوٹے راوی مبشر بن عبید کا ذکر تک نہیں کیا ، بلکہ یہ باور کرایا کہ اس میں صرف حجاج بن ارطاۃ کا ضعف ہے۔
احناف کا یہ موقف کہ حق مہر کم از کم دس درہم ہوناضروری ہے، بے دلیل ہے۔
تنبیه بلیغ :
اس روایت کو ائمہ محدثین نے منکر قرار دیا ہے۔ اس لیے ابن ہمام حنفی (861ھ) نے امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک سند گھڑی اور اس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر دیا۔ نیز کہا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سند کو حسن کہا ہے۔ سند یہ ہے:
قال ابن أبى حاتم : حدثنا عمرو بن عبد الله الأودي، حدثنا وكيع عن عباد بن منصور قال : حدثنا القاسم بن محمد قال سمعت جابرا رضى الله عنه يقول : قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ولا مهر أقل من عشرة .
(فتح القدير : 186/3)
❀ ابن ہمام کی اس کاروائی پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے شاگرد حافظ سخاوی رحمہ اللہ پکاراٹھے:
قد كان شخص نقل لي ذلك عن شيخنا فأنكرته، فلما رأيت كلام ابن الهمام حار فكري فى ذلك وقد أمعنت فى التفتيش عليه فلم أظفر به .
ایک شخص نے ہمارے شیخ ( حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) سے یہ بات میرے سامنے نقل کی ، میں نے انکار کر دیا لیکن جب میں نے اس بارے میں ابن ہمام حنفی کا کلام دیکھا، تو میرا ذہن پریشان ہو گیا اور میں نے اس بارے میں گہری تفتیش کی، پھر بھی مجھے ( ابن حجر رحمہ اللہ کی مرویات و کتب میں ) یہ روایت نہیں ملی ۔
(تنزيه الشريعة لابن عراق : 207/2 ، الأجوبة المرضية للسخاوي : 59/1)
ابن ہمام کی وضع کردہ سند بھی ضعیف ہی ہے، اس میں عباد بن منصور ناجی جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف و مختلط ہے۔
❀ سید ناعلی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
لا صداق أقل من عشرة دراهم.
”دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔ “
(سنن الدارقطني : 200/3 ، السنن الكبرى للبيهقي : 261/8)
اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ داود بن یزید او دی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ اسے امام احمد بن حنبل ہمالہ نے ضعیف الحدیث، امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے ضعیف اور امام دارقطنی اللہ نے ”متروک“ کہا ہے۔
(سوالات البرقاني : 137 )
امام علی بن مدینی ، امام ابو حاتم ، امام ابن حبان ہمیشہ نے بھی مجروح قرار دیا ہے۔ امام عبدالرحمن بن مہدی اور امام یحیی بن سعید قطان نے اس سے روایت ہی نہیں لیتے تھے۔ متاخرین میں سے حافظ ابن الجوزی ، حافظ ہیثمی ، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔
البتہ امام ابن عدی رحمہ اللہ (الکامل : 81/3) نے اس کی توثیق کی ہے، جو جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں۔
❀ سید نا علی رضی اللہ عنہ کے قول کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لقن غيات بن إبراهيم داود الأودي عن الشعبي عن على لا مهر أقل من عشرة دراهم، فصار حديثا .
غیاث بن ابراہیم (سخت جھوٹے راوی) نے داود اودی کو شعبی کے واسطہ سے سید نا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول تلقین کیا کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ۔ یہ قول ہی آہستہ آہستہ حدیث بن گیا۔
(سنن الدارقطني : 200/3 ، السنن الكبرى للبيهقي : 240/7 ، وسنده حسن)
❀ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رووا عن على رضى الله عنه شيئا لا يثبت مثله.
انہوں نے سیدنا علی رضی الے سے ایسی بات روایت کی ، جو ثابت نہیں ۔
(السنن الكبرى : 240/7 معرفة السنن والآثار للبيهقي : 217/1 ، وسنده صحيح، الأم للشّافعي : 60/5)
پس ثابت ہوا کہ یہ قول ثابت نہیں ۔
❀ سید نا علی رضی اللہ عنہ سے ہی منسوب ہے:
لا يكون المهر أقل من عشرة دراهم.
”مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے۔“
(سنن الدارقطني : 200/3)
سخت ضعیف ہے۔
جعفر بن محمد بن مروان قطان کے متعلق امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس ممن يحتج بحديثه .
اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔“
(سؤالات الحاكم : 7)
نیز ”ضعیف“ بھی کہا ہے۔
(سنن الدارقطني : 264/2)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد يجمع مجهولين وضعفاء .
اس سند میں مجہول اور ضعیف راوی جمع ہیں۔
(السنن الكبرى : 261/8)
محمد بن مروان قطان کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شيخ من الشيعة، حاطب ليل، لا يكاد يحدث عن ثقة، مترول .
یہ شیعہ شیخ تھا۔ حاطب لیل ( بغیر تحقیق و تنقیح کے ہر طرح کی روایات بیان کرنے والا ) تھا۔ ثقہ راویوں سے کم ہی روایت کرتا تھا۔ یہ متروک ہے۔
(سؤالات البرقانی : 458)
جو یبر بن سعید بلخی ”متروک“ ہے۔
اسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”متروک“ کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروكون : 147)
نیز امام یحیی بن معین، امام ابوحاتم ، امام ابو زرعہ، امام نسائی ، امام ابن عدی اور جمہور محدثین کرام ہم نے بھی ”ضعیف“اور ”متروک“ کہا ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ اپنے استاذ علی بن الحسن شیبانی کے متعلق فرماتے ہیں :
كان يكذب .
وہ جھوٹ بولتا تھا۔
(سؤالات الحاكم : 252)
❀ حافظ حسن بن محمد خلال رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضعيف، تكلموا فيه .
”ضعیف ہے، محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔“
(تاریخ بغداد للخطيب : 238/11)
اس کو صرف حافظ ابوعلی نیسابوری نے ثقہ کہا ہے ۔ امام دار قطنی رحمہ اللہ نے ان کارد کیا، لہذا یہ راوی ضعیف ہی ہے۔
اسماعیل بن یسع مجہول ہے.
عاصم بن عمر کی تعیین و توثیق درکار ہے!
ان وجوہ کی بنا پر روایت باطل ہے۔
❀ مولا نا تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
لیکن قرآن وحدیث کے پورے ذخیرے میں حضرت جابر بھی کی مذکورہ حدیث کے علاوہ کسی بھی حدیث میں مہر کی کوئی مقدار مروی نہیں۔“
(درس ترمذی : 392/3)
ثابت ہوا کہ مہر کی کم از کم مقدار دس درہم مقرر کرنا درست نہیں۔
❀ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو دس در ہم حق مہر پر شادی کرتا ہے:
قد كان المسلمون يتزوجون على أقل من ذلك وأكثر .
مسلمان (صحابہ و تابعین ) اس سے کم اور زیادہ مقدار حق مہر پر نکاح کیا کرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 187/4، وسنده صحيح)
❀ صالح بن مسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قلت للشعبي : رجل تزوج امرأة بدرهم قال : لا تصلح إلا بثوب أو بشيء .
میں نے امام شعبی رحمہ اللہ سے عرض کیا : اگر کوئی شخص ایک درہم مہر کے عوض نکاح کرلے، تو ؟ فرمایا: کپڑے یا کسی بھی چیز کے عوض نکاح درست ہے ۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 187/4، وسنده صحيح)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ ) فرماتے ہیں:
فریقین راضی ہوں ، تو تھوڑے حق مہر ، خواہ وہ کی ایک انگوٹھی ہو، پر نکاح کے جواز کی صحیح، صریح اور محکم سنت کو ایک غیر ثابت اثر اور فاسدترین قیاس کی وجہ سے رد کر دیا گیا ہے۔ قرآن کریم نے عمومی طور پر فرمایا ہے : أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ (النساء : 24) ” تمہارے لیے اپنے مالوں کے عوض نکاح کرنا جائز ہے۔“ نیز فریقین کی رضا مندی کی صورت میں تھوڑے یا زیادہ مال کے بدلے خرید وفروخت پر قیاس بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔ (احناف نے حق مہر کو قطع ید پر قیاس کیا ہے۔) حالانکہ کہاں نکاح اور کہاں چوری ؟ کہاں شرمگاہ کی حلت اور کہاں چوری میں ہاتھ کا ٹنا؟ کئی بار یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ سب سے بہترین قیاس اہل حدیث ہی کرتے ہیں، کیونکہ جتنا کوئی شخص حدیث کے قریب ہو گا، اتنا ہی اس کا قیاس زیادہ صحیح ہو گا اور جتنا کوئی شخص حدیث سے دور ہوگا، اتنا ہی اس کا قیاس فاسد ہوگا۔“
(إعلام المؤقعين عن رب العالمين : 330/2)
یادر ہے کہ کم از کم دس درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں، لہذا اس پر قیاس کر کے کم از کم دس درہم مقرر کرنا علم کی بات نہیں۔
❀ بعض لوگ بہ طور دلیل یہ آیت پیش کرتے ہیں:
قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ
(الأحزاب : 50)
”ہم نے ظاہر کر دیا ہے جو ان پر ان کی بیویوں کے بارے میں فرض کیا ہے۔“
اس میں لفظ فرض اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مہر کی مقدار شرعاً مقرر ہے ۔ اس لیے کہ فرض کے معنی مقرر کرنے کے آتے ہیں۔
( درس ترمذی: 392/3)
اس آیت میں مہر کی بات کہاں سے آگئی؟ یہ تخصیص بلا دلیل ہے۔ قرآن وحدیث میں مہر کی کم از کم مقدار مقرر نہیں۔ آیت کریمہ میں حقوق و واجبات ، نان ونفقہ، حسن سلوک اور حسن معاشرت کی بات ہو رہی ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیک وقت بیویوں کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھی جاسکتی ہیں یا عورتوں سے نکاح ان کے ولی کی اجازت کے ساتھ کرنا فرض و مقرر کر دیا گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر مہر بھی ان چیزوں میں شامل کر لیا جائے تو یہ آیت مجمل ہے۔حدیث جابر جو موضوع ومن گھڑت ہے، وہ اس کے لیے بیان کی حیثیت نہیں رکھتی ۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ قرآن کریم کے اجمال کی تفصیل من گھڑت اور جھوٹی روایات سے کی جائے۔ قرآن کریم نے مہر تو مقرر کر دیا ہے، لیکن اس کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مقدار مقرر نہیں کی۔ احادیث بھی عموم پر دلالت کرتی ہیں۔ جمہور سلف صالحین کے عمل سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ مہر کی کم سے کم مقدار مقر ر ہیں ۔
❀ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی صاحب لکھتے ہیں :
بعض اُصولیوں نے ذکر کیا ہے کہ آیت کریمہ میں حق مہر کو مجمل طور پر اللہ تعالیٰ نے مقررفرمایا ہے اور خبر واحد میں اس اجمال کا بیان اور تفصیل ہے۔ لیکن یہ بات مخدوش ہے، کیونکہ یہاں ”ما“ موصولہ سے مہر مراد نہیں ، جیسا کہ اس کے بعد و ما ملكت ايما نهم کے ازواج پر عطف سے معلوم ہوتا ہے اور فرض کے معنی حقیقۂ یہاں ایجاب و وجوب کے ہیں، مقرر کرنے کے نہیں۔ اور اس سے عورتوں کا نان ونفقہ اور دیگر حقوق مراد ہیں ، جیسا کہ مفسرین کرام نے کہا ہے۔ تاویلات کا دروازہ تو بڑا وسیع ہے، اسے کھولنا مناسب نہیں، بلکہ سلامتی اسی میں ہے کہ تاویلات کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے حضرات نے کم سے کم حق مہر کی مقدار دس درہم مقرر کرنے کی کوئی شافی دلیل پیش نہیں کی ، لہذا قرآن پاک کے مطلق حکم پر ہی عمل واجب ہے۔ یہ قول اگر چہ حنفیہ کے مخالف ہے لیکن قول فیصل یہی ہے ۔
( ظفر الامانی ، ص 172 )
❀ نیز لکھتے ہیں :
اولاً دس درہم کی تعیین کے بارے جتنی روایات ہیں، وہ تمام ضعیف اور نا قابل استدلال ہیں اور علامہ عینی نے جو یہ کہا ہے کہ یہ تمام احادیث کثرت طرق کی بنا پر درجہ حسن تک پہنچ جاتی ہیں ، وہ قطعا صحیح نہیں، کیونکہ ان میں ضعف شدید ہے اور کوئی سند بھی کذاب اور متہم بالکذب جیسے راوی سے خالی نہیں۔
ثانیاً بہت سے صحیح احادیث ان کے خلاف ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دس درہم سے کم بھی حق مہر جائز ہے۔
ثالثاً یہ احادیث قرآن مجید کے مطلقاً حکم کے بھی خلاف ہیں اور ان کے نزدیک قرآن کی تخصیص صحیح خبر واحد سے بھی جائز نہیں، چہ جائیکہ ضعیف خبر واحد سے تخصیص کی جائے ۔
(عمدة الرعاية : 33/2)
علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی کی یہ عبارات فضیلتہ الشیخ علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی تالیف مسلک احناف اور مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ سے نقل کی گئی ہیں ۔
حدیث جابر کی ایک ہی سند ہے، جس میں مبشر بن عبید راوی بالا تفاق ”متروک“ ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ روایت کثرت طرق کی بنا پر درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے، بہت ہی عجیب وغریب بات ہے۔
فائدہ : حق مہر کی تین صورتیں ہیں ؟
➊ نکاح کے وقت ہی ادا کر دیا جائے ۔ اسے مہر معجل کہتے ہیں ۔
➋ نکاح کے وقت مقرر کر لیا جائے اور بعد میں ادا کیا جائے ،اسے مہر غیر متجل کہتے ہیں ۔
➌ وقت نکاح حق مہر کی مقدار مقرر نہ کی جائے اور بعد میں دیا جائے ، اسے نکاح تفویض کہتے ہیں، یہ بالا جماع جائز ہے۔ اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ مہر مثل سے مراد وہ مہر ہے، جو دلہن کی بہنوں اور دا دھیالی خاندان کی عورتوں کو دیا گیا ہو۔
حق مہر کی کم از کم کوئی مقدار مقرر نہیں ۔ باہمی رضا مندی سے جو بھی چیز حق مہر میں مقرر کر لی جائے ، اس کے بدلے نکاح درست اور جائز ہے۔
❀ امام ابن منذر رحمہ االله (319ھ) فرماتے ہیں:
لا نعلم حجة تثبت صداقا معلوما، لا يجوز غيره.
” ہمیں ایسی کوئی دلیل معلوم نہیں ، جو مہر طے کرتی ہو، کہ اس مقدار کے علاوہ مہر جائز نہ ہو۔“
الإشراف على مذاهب العلماء : 36/1)