الحمد للہ وحدہ، والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔
اہل علم کے ہاں یہ اصول مسلم ہے کہ کوئی بھی روایت اس وقت تک معتبر نہیں سمجھی جاتی جب تک کہ اس کی سند صحیح اور اس کے رواۃ ثقہ نہ ہوں۔
بعض روایات ایسی ہیں جو غلو پر مبنی گھڑنت کے طور پر وضع کی گئیں تاکہ کسی شخصیت کے بارے میں غیر معمولی فضیلت ظاہر کی جائے۔ انہی میں سے ایک مشہور روایت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت علیؓ کیلئے سورج واپس پلٹا دیا گیا۔
❀ اس مضمون میں ہم اس روایت کی تمام بڑی اسناد کا تحقیقی جائزہ پیش کریں گے۔
❀ ہر سند کے رواۃ پر محدثین کی جرح نقل کی جائے گی۔
❀ اس کے بعد محدثین کے مجموعی فیصلے کو بھی ذکر کیا جائے گا کہ انہوں نے اس روایت کے بارے میں کیا کہا۔
① پہلی سند: امام طحاوی کی روایت (فضیل بن مرزوق کے طریق سے)
عربی متن:
«1067 – حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: صَلَّيْتَ يَا عَلِيُّ؟ قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ. قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ، ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرَبَتْ.»
حوالہ: شرح مشکل الآثار للطّحاوی.
اردو ترجمہ:
اسماء بنت عمیسؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہورہی تھی اور آپ ﷺ کا سر حضرت علیؓ کی گود میں تھا، اسی دوران علیؓ عصر نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی: “اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے، ان کے لیے سورج واپس لوٹا دے۔” اسماءؓ کہتی ہیں: میں نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا، پھر اسے غروب کے بعد دوبارہ طلوع ہوتے بھی دیکھا۔
تحقیقِ سند (خلاصہ):
✿ اس سند میں الفضیل بن مرزوق پر جرح منقول ہے، اور اس کے شیخ إبراهیم بن الحسن مجہول ہیں؛ ایسی حالت میں منفرد روایت سے احتجاج نہیں کیا جاتا۔ (تفصیلی اقوالِ محدثین اسی مقالے کے مجموعی فیصلوں کے حصے میں آئیں گے جہاں ابن الجوزی وغیرہ کی عربی عبارات نقل ہوں گی جن میں فضیل بن مرزوق پر کلام مذکور ہے: «وفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ضَعَّفَهُ يَحْيَى…» وغیرہ۔)
② دوسری سند: امام طبرانی کی روایت (عون بن محمد و اُمّ جعفر کے طریق سے)
عربی متن:
«382 – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْخَفَّافُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْفِطْرِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ … قَالَتْ: فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى رُفِعَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ غَابَتْ، وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ.»
حوالہ: المعجم الکبیر للطبرانی 24/144.
اردو ترجمہ:
اسماء بنت عمیسؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی تو سورج دوبارہ طلوع ہوا یہاں تک کہ پہاڑوں اور زمین پر بلند ہوگیا، علیؓ نے وضو کرکے عصر ادا کی، پھر سورج غروب ہوگیا؛ یہ واقعہ صہباء میں تھا۔
تحقیقِ سند
❖ حافظ ابن کثیرؒ:
«وَهَذَا الْإِسْنَادُ فِيهِ مَنْ يَجْهَلُ حَالَهُ، فَإِنَّ عَوْنًا هَذَا وَأُمَّهُ لَا يُعْرَفُ أَمْرُهُمَا بِعَدَالَةٍ وَضَبْطٍ… فَكَيْفَ يَثْبُتُ بِخَبَرِهِمَا هَذَا الْأَمْرُ الْعَظِيمُ…»
حوالہ: البداية والنهاية (موضع القصة).
ترجمہ:
اس سند میں ایسے افراد ہیں جن کا حال مجہول ہے؛ عون اور اس کی والدہ کی عدالت و ضبط معلوم نہیں۔ جب کم تر امور میں بھی ان سے حجت قائم نہیں ہوتی تو اس قدر عظیم دعویٰ ان کی خبر سے کیسے ثابت ہوگا؟
❖ حافظ ابن حجرؒ:
«8750- أم عون بنت محمد بن جعفر بن أبي طالب… مقبولة من الثالثة.»
حوالہ: تقريب التهذيب (ترجمۃ: أم جعفر/أم عون).
ترجمہ:
ام عون… “مقبولہ” یعنی (مجہول الحال جس کی روایت متابعت میں قبول ہو)۔
❖ حافظ ذہبیؒ:
«وَعَوْنٌ وَأُمُّهُ لَيْسَا مِمَّنْ يُعْرَفُ حِفْظُهُمْ وَعَدَالَتُهُمْ، وَلَا مِنَ الْمَعْرُوفِينَ بِنَقْلِ الْعِلْمِ، وَلَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِمَا.»
حوالہ: المنتقى من منهاج الاعتدال.
ترجمہ:
عون اور اس کی والدہ کے حفظ و عدالت معروف نہیں، وہ اہلِ نقل میں شمار نہیں ہوتے، ان دونوں کی روایت سے حجت قائم نہیں کی جاتی۔
خلاصۂ تحقیق (سند ②):
◈ سند میں دو مجہول رواۃ (عون بن محمد اور ام جعفر) پائے جاتے ہیں؛ محدثین نے ان کی روایت سے احتجاج کو مردود قرار دیا۔ لہٰذا یہ طریق معتبر نہیں۔
③ تیسری سند: المعجم الأوسط للطبرانی (معقل بن عبید اللہ ← أبو الزبیر ← جابرؓ)
عربی متنِ روایت:
«حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ، نا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَرَّانِيُّ، نا الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ التَّمِيمِيُّ، نا مَعْقِلُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ الشَّمْسَ فَتَأَخَّرَتْ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ.»
حوالہ: المعجم الأوسط للطبرانی، رقم (4039).
اردو ترجمہ:
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے سورج کو حکم دیا تو وہ دن کے ایک حصے کے لیے پیچھے ہٹ گیا۔
تحقیق سند:
✿ أبو الزبیر المکی (محمد بن مسلم بن تدرُس) مدلس ہیں اور یہ روایت مُعنعن ہے۔
نصِّ جرح (عربی): «وأبو الزبير المكي… من القسم الثالث» (یعنی تدلیس مشہور)
حوالہ: ابن حجر، طبقات المدلسين (ضمن ذكره في القسم الثالث)؛ نیز تهذيب التهذيب میں تدلیس کا ذکر۔
✿ اس طریق پر ائمہ نے وضع/نکارت کی طرف اشارہ کیا:
— الجوزقاني: «هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ مُضْطَرِبٌ.»
حوالہ: الجوزقاني، الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير، رقم (154) تحت قصة «فاردد عليه الشمس».
— السيوطي (نقلاً وحكماً): «مَوْضُوعٌ اضْطَرَبَ» (اور پہلے جوزقانی کا «منكر مضطرب» نقل کیا)
حوالہ: السيوطي، اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة، باب رد الشمس.
❖ خلاصہ (سند ③): اس طریق میں تدلیس + عنعنہ اور نکارت/اضطراب کی بنا پر روایت قابلِ حجت نہیں۔
④ چوتھی سند: تاريخ دمشق لابن عساكر (طریق ابن عُقدة)
عربی متنِ روایت (اختصاراً):
«… أخبرنا أبو العباس ابن عُقدة، نا أحمد بن يحيى الصوفي، نا عبد الرحمن بن شريك، حدثني أبي، عن عروة بن عبد الله بن قشير … عن أسماء بنت عميس … فقال رسول الله ﷺ: اللهم رد على علي الشمس، فرجعت الشمس حتى بلغت نصف المسجد.»
حوالہ: ابن عساكر، تاريخ دمشق (ترجمة أمير المؤمنين عليّؓ، موضع قصة ردّ الشمس).
اردو ترجمہ:
اسماء بنت عمیسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اے اللہ! علی کے لیے سورج واپس لوٹا دے” تو سورج پلٹ آیا یہاں تک کہ مسجد کے نصف تک روشنی ہوگئی۔
تحقیق سند:
✿ ابن عُقدة (أحمد بن محمد بن سعيد الكوفي): متقدم ناقدین کے نزدیک سخت مجروح/رافضی/وضّاع نقلیات کا راوی۔
— ابن عساكر کا حکم: «هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، وَفِيهِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْمَجَاهِيلِ.»
حوالہ: تاريخ دمشق (موضع القصة).
— ابن تيمية: «هَذَا الْإِسْنَادُ لَا يَثْبُتُ بِمِثْلِهِ شَيْءٌ، وَكَثِيرٌ مِنْ رِجَالِهِ لَا يُعْرَفُونَ بِعَدَالَةٍ وَلَا ضَبْطٍ… وَمِنْهُمْ مَنْ هُوَ مَعْرُوفٌ بِالْكَذِبِ.»
حوالہ: ابن تيمية، منهاج السنة النبوية (في نقض كلام من احتج بردّ الشمس).
— الذهبي (قاعدة واشتهار): «لَوْ وَقَعَتْ هَذِهِ الْحَادِثَةُ الْعَظِيمَةُ لاشْتُهِرَتْ، وَتَوَافَرَتِ الدَّوَاعِي عَلَى نَقْلِهَا…»
حوالہ: الذهبي، تلخيص كتاب الموضوعات لابن الجوزي (ضمن اعتراضه على قصة رد الشمس).
❖ خلاصہ (سند ④): اس طریق میں مجہول راویان + راویِ اصل (ابن عُقدة) پر شدید جرح + حکمِ نکارت کی بنا پر روایت مردود ہے۔
⑤ پانچویں سند: روایتُ الدُّولابي (إبراهيم بن حيان کے طریق سے)
عربی متنِ روایت:
«164 – حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، عَنِ الْحُسَيْنِ… قال: قال رسول الله ﷺ … «اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ فِي حَاجَتِكَ وَحَاجَةِ رَسُولِكَ فَارُدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ»، فَرَدَّهَا عَلَيْهِ فَصَلَّى وَغَابَتِ الشَّمْسُ.»
حوالہ: أبو بشر الدولابي، الذرية الطاهرة النبوية، ص 92.
اردو ترجمہ:
اسحاق بن یونس → سوید بن سعید → المطلب بن زیاد → ابراہیم بن حیان کے واسطے سے روایت کرتے ہیں… کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی: “اے اللہ! تو جانتا ہے کہ وہ (علیؓ) تیری اور تیرے رسول کی حاجت میں تھے، پس ان کے لئے سورج واپس لوٹا دے” تو سورج لوٹ آیا اور انہوں نے نماز پڑھی، پھر سورج غروب ہوگیا۔
تحقیق سند:
❖ ابن الجوزی:
«52 – إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَيَّانَ بن حكيم… قَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: ضَعِيفُ الْحَدِيثِ، يَرْوِي أَحَادِيثَ مَوْضُوعَةً مَنَاكِيرَ. قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ:… مَتْرُوكٌ.»
حوالہ: ابن الجوزي، الضعفاء والمتروكون (ترجمة إبراهيم بن حيان).
❖ أبو زرعة الرازي (نصًّا):
«250 – إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَيَّانَ… سُئِلَ أَبُو زُرْعَةَ عَنْهُ فَقَالَ: مَجْهُولٌ.»
حوالہ: ابن أبي حاتم، الجرح والتعديل (موضع الترجمة).
❖ الخطيب البغدادي:
«وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ حَيَّانَ كُوفِيٌّ أَيْضًا، آخَرُ فِي عِدَادِ الْمَجْهُولِينَ.»
حوالہ: الخطيب، تلخيص المتشابه في الرسم (في ترجمة إبراهيم بن حيان).
نتیجہ (سند ⑤): سند میں إبراهيم بن حيان پر شدید ضعف/جہالت ثابت ہے؛ اس بنا پر یہ طریق قابلِ احتجاج نہیں۔
⑥ چھٹی سند: منسوب إلی الخوارزمي المكي (الخطيب)
ماخذِ نقل: بعض متأخرین نے حضرت علیؓ کے لئے “ردّ الشمس” کی سند الخوارزمي المكي المعروف بخطيب خوارزم کی کتاب سے نقل کی ہے۔ اس راوی/مصنّف کے بارے میں قدیم مصادر میں اس کی اعتقادی میلانات کی صراحت ملتی ہے:
نصُّ النَّقل:
«وذَكَرَ صدرُ الأئمّةِ المكيُّ، خَطِيبُ الخُطَباءِ الخُوارِزميُّ المُعْتَزِلِيُّ، القائلُ بتفضيلِ عليٍّ على كلِّ الصَّحابة.»
حوالہ: منسوب إلى مناقب الكردري (نَقْلًا كما هو متداولٌ في كتب التراجم).
تعقیبِ سندی:
— جب اصلِ سند ایسے مصدر سے منقول ہو جس کے اعتقادی رجحانات معروف ہوں اور تفصیلی اسانید میں کثیر مجہول/متروک رواۃ پائے جائیں، تو اصولِ حدیث کے مطابق ایسے طرق تقویت نہیں دیتے، خصوصاً جب صحاح/سنن/مسانیدِ مشہورہ میں یہ واقعہ ثابت نہ ہو۔
نتیجہ (سند ⑥): الخوارزمی کی طریقِ نقل اس باب میں قابلِ اعتماد بنیاد فراہم نہیں کرتا؛ اس پر استدلال معتبر نہیں۔
ائمۂ جرح و تعدیل کے مجموعی فیصلے
اب تک کی تفصیل میں ہر سند کا ضعف واضح ہوچکا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ جمہور محدثین اور ناقدین نے اس روایت «ردّ الشمس لعلي» کے بارے میں کیا حتمی احکام دیے ہیں۔
① امام ابن الجوزی (597ھ)
عربی نص:
«هَذَا حَدِيثٌ مَوْضُوعٌ بِلَا شَكٍّ، وَقَدِ اضْطَرَبَ الرُّوَاةُ فِيهِ… وَفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ضَعَّفَهُ يَحْيَى… وَكَذَرَ حَدِيثَ رُجُوعِ الشَّمْسِ لَهُ. وَهَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ.»
حوالہ: ابن الجوزي، الموضوعات (3/252).
اردو ترجمہ:
یہ حدیث بلا شبہ موضوع ہے، اس میں راویوں نے سخت اضطراب کیا ہے… اور فضیل بن مرزوق کو یحییٰ (بن معین) نے ضعیف کہا ہے… سورج کے پلٹنے والی روایت باطل ہے۔
② حافظ ابن حزم (456ھ)
عربی نص:
«وَبَيْنَ دَعْوَى الرَّافِضَةِ رَدَّ الشَّمْسِ عَلَى عَلِيٍّ مَرَّتَيْنِ… وَكَذَلِكَ دَعْوَى النَّصَارَى لِرُهْبَانِهِمْ… وَالْيَهُودِ لِأَحْبَارِهِمْ… وَهَذَا كُلُّهُ بَاطِلٌ مَوْضُوعٌ.»
حوالہ: ابن حزم، الفصل في الملل والأهواء والنحل (5/45).
اردو ترجمہ:
رافضیوں کا یہ دعویٰ کہ علیؓ کے لیے سورج دو بار پلٹایا گیا، بالکل اسی طرح کا باطل اور موضوع ہے جیسے نصاریٰ نے اپنے راہبوں کے لئے اور یہود نے اپنے احبار کے لئے دعویٰ کیا۔
③ حافظ ابن کثیر (774ھ)
عربی نص:
«قِيلَ لَهُ: كَيْفَ لَنَا لَوْ صَحَّ هَذَا الْحَدِيثُ فَنَحْتَجُّ عَلَى مُخَالِفِينَا؟ وَلَكِنَّ الْحَدِيثَ ضَعِيفٌ جِدًّا لَا أَصْلَ لَهُ.»
حوالہ: ابن کثیر، البداية والنهاية (6/84).
اردو ترجمہ:
اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو ہم اپنے مخالفین کے خلاف حجت پکڑتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں۔
④ حافظ ابن القيم (751ھ)
عربی نص:
«وَكَذَلِكَ رِوَايَتُهُمْ: إِنَّ الشَّمْسَ رُدَّتْ لِعَلِيٍّ بَعْدَ الْعَصْرِ وَالنَّاسُ يُشَاهِدُونَ… وَلا يَعْرِفُهُ إِلَّا أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ. فَهُوَ مَوْضُوعٌ.»
حوالہ: ابن القيم، المنار المنيف في الصحيح والضعيف (ص 82).
اردو ترجمہ:
یہ روایت کہ سورج عصر کے بعد علیؓ کے لئے پلٹا، اور صرف اسماء بنت عمیسؓ نے دیکھا، موضوع ہے۔
⑤ امام ابن تیمیہ (728ھ)
عربی نص:
«هَذَا الْإِسْنَادُ لَا يَثْبُتُ بِمِثْلِهِ شَيْءٌ، وَكَثِيرٌ مِنْ رِجَالِهِ لَا يُعْرَفُونَ بِعَدَالَةٍ وَلَا ضَبْطٍ… وَمِنْهُمْ مَنْ هُوَ مَعْرُوفٌ بِالْكَذِبِ.»
حوالہ: ابن تیمیہ، منهاج السنة النبوية (4/184).
اردو ترجمہ:
یہ سند ایسی نہیں جس سے کوئی چیز ثابت ہوسکے، اس کے اکثر راوی عدالت و ضبط سے غیر معروف ہیں اور ان میں بعض جھوٹ بولنے کے لئے مشہور ہیں۔
⑥ حافظ جوزقانی (543ھ)
عربی نص:
«هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ مُضْطَرِبٌ.»
حوالہ: الجوزقاني، الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير (رقم 154).
اردو ترجمہ:
یہ حدیث منکر اور مضطرب ہے۔
⑦ امام سیوطی (911ھ)
عربی نص:
«قَالَ الْجَوْزَقَانِي: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ مُضْطَرِبٌ. وَقَالَ الْمُؤَلِّفُ: مَوْضُوعٌ اضْطَرَبَ.»
حوالہ: السيوطي، اللآلئ المصنوعة (2/360).
اردو ترجمہ:
جوزقانی نے کہا: یہ حدیث منکر اور مضطرب ہے۔ مؤلف (سیوطی) نے کہا: یہ موضوع اور مضطرب ہے۔
⑧ محب الدین الطبری (694ھ)
عربی نص:
«وَقَالَ عُلَمَاءُ الْحَدِيثِ: هُوَ حَدِيثٌ مَوْضُوعٌ، وَلَمْ تُرَدَّ الشَّمْسُ لِأَحَدٍ، وَإِنَّمَا حُبِسَتْ لِيُوشَعَ بْنِ نُونٍ.»
حوالہ: محب الدين الطبري، الرياض النضرة (2/189).
اردو ترجمہ:
علمائے حدیث نے کہا: یہ روایت موضوع ہے۔ سورج کسی کے لئے واپس نہیں آیا، سوائے یوشع بن نون کے کہ ان کے لئے سورج تھوڑی دیر روک دیا گیا تھا۔
⑨ حافظ ذہبی (748ھ)
عربی نص:
«فَلَوْ رُدَّتِ الشَّمْسُ، لَاشْتُهِرَتْ وَتَوَافَرَتِ الدَّوَاعِي عَلَى نَقْلِهَا… وَأَمَّا رَدُّ الشَّمْسِ لِعَلِيٍّ بِبَابِلَ فَهَذَا مِنْ أَبَاطِيلِ الرَّافِضَةِ.»
حوالہ: الذهبي، تلخيص الموضوعات (ص 370)؛ نیز المنتقى من منهاج الاعتدال.
اردو ترجمہ:
اگر سورج پلٹایا گیا ہوتا تو یہ واقعہ مشہور ہوجاتا اور لوگ ضرور نقل کرتے… اور بابل میں علیؓ کے لئے سورج کی واپسی رافضیوں کے اباطیل میں سے ہے۔
⑩ حافظ ابن عساکر (571ھ)
عربی نص:
«هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، وَفِيهِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْمَجَاهِيلِ.»
حوالہ: ابن عساكر، تاريخ دمشق (ترجمة علي بن أبي طالب، موضع رد الشمس).
اردو ترجمہ:
یہ روایت منکر ہے اور اس میں ایک سے زیادہ مجہول راوی ہیں۔
⑪ امام عقیلی (322ھ)
عربی نص:
«فَأَمَّا الثَّانِي (رد الشمس) فَالرِّوَايَةُ فِيهِ لَيِّنَةٌ.»
حوالہ: العقيلي، الضعفاء الكبير (3/182).
اردو ترجمہ:
جہاں تک دوسری روایت (ردّ الشمس) کا تعلق ہے، اس کی سند ضعیف ہے۔
⑫ ابن حجر الہیتمی (974ھ)
عربی نص:
«وَرَدُّوا عَلَى جَمْعٍ قَالُوا: إِنَّهُ مَوْضُوعٌ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ لَا فَائِدَةَ لِرَدِّهَا بَعْدَ فَوَاتِ الْوَقْتِ.»
حوالہ: ابن حجر الهيتمي، الصواعق المحرقة (2/357).
اردو ترجمہ:
جمہور نے اس روایت کو موضوع کہا اور فرمایا کہ وقت گزرنے کے بعد سورج پلٹانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
⑬ امام سخاوی (902ھ)
عربی نص:
«519 – حَدِيثُ: رَدُّ الشَّمْسِ عَلَى عَلِيٍّ، قَالَ أَحْمَدُ: لَا أَصْلَ لَهُ.»
حوالہ: السخاوي، المقاصد الحسنة (ص 435).
اردو ترجمہ:
حدیث ردّ الشمس علیؓ کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: اس کی کوئی اصل نہیں۔
◈ خلاصۂ تحقیق
-
اصل روایت:
حضرت علیؓ کے لئے سورج کے واپس پلٹنے والی روایت مختلف طرق سے بیان کی گئی، لیکن تمام اسانید یا تو ضعیف، یا منکر، یا موضوع قرار دی گئیں۔ -
اسانید کا حال:
-
پہلی سند (طحاوی): راوی فضیل بن مرزوق پر جمہور کی جرح اور شیخ ابراہیم بن الحسن مجہول۔
-
دوسری سند (طبرانی): مجہولین عون بن محمد اور اس کی والدہ۔
-
تیسری سند (طبرانی، معجم اوسط): ابو الزبیر مدلس اور روایت معنعن۔
-
چوتھی سند (ابن عساکر): بنیادی راوی ابن عقدہ رافضی اور وضّاع۔
-
پانچویں سند (الدولابی): ابراہیم بن حیان متروک و مجہول۔
-
چھٹی سند (الخوارزمی): اعتقادی تعصب اور غیر معتبر مصادر۔
-
-
ائمہ کے مجموعی فیصلے:
-
ابن الجوزی، ابن القیم، سیوطی، محب الدین طبری وغیرہ نے اسے موضوع کہا۔
-
ابن حزم، ابن تیمیہ، ابن کثیر، الذہبی، ابن عساکر، العقیلی نے اسے باطل/منکر/ضعیف جدّاً قرار دیا۔
-
امام احمد بن حنبلؒ سے منقول ہے: «لا أصل له» یعنی اس کی کوئی اصل نہیں۔
-
-
عقلی و شرعی پہلو:
-
اگر سورج واقعی پلٹتا تو یہ ایسا غیر معمولی واقعہ تھا جس کی شہرت طوفانِ نوح یا انشقاقِ قمر کی طرح ہوتی۔
-
عصر کا وقت سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے، تو اس کے بعد سورج پلٹانے کا کوئی شرعی فائدہ بھی نہیں۔
-
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت یوشع بن نونؑ کے لئے سورج رکنے کا واقعہ ہے، لیکن اس کے علاوہ کسی کے لئے یہ امر ثابت نہیں۔
-
◈ نتیجہ
❖ تمام اسانید کے ضعف اور ائمہ کے واضح احکام کی روشنی میں حضرت علیؓ کے لئے سورج واپس آنے والی روایت باطل اور موضوع ہے۔
❖ یہ روایت فضائل کے نام پر غلو پر مبنی گھڑنت ہے جس کا مقصد حضرت علیؓ کی افضلیت میں غیر شرعی دعویٰ قائم کرنا تھا۔
❖ اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علیؓ کے فضائل بے شمار ہیں اور قرآن و صحیح احادیث میں محفوظ ہیں، ان کے لئے ایسے موضوعات گھڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اہم حوالاجات کے سکین


























