حضرت ابوبکر صدیقؓ ایمان، صداقت اور وفا کی زندہ مثال
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اسلامی تاریخ کے اوراق میں ایسی ہستیاں بہت کم ملتی ہیں جن کی زندگی سراپا ایمان، ایثار، تقویٰ اور صداقت سے معمور ہو۔ ان میں سرِ فہرست وہ مبارک شخصیت ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتِ مسلمہ میں سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ آج کا یہ مضمون اُسی ہستی کے فضائل، سیرت اور کارناموں پر مشتمل ہے جن کا نام نامی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے۔ ان کی زندگی نہ صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و وفا کی روشن مثال ہے بلکہ ایمان و عمل، صدق و اخلاص اور قربانی کا اعلیٰ ترین نمونہ بھی ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ذاتِ گرامی

❀ وہ شخصیت جنہیں انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل مانا گیا۔
❀ وہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حال میں ساتھ دیا — خواہ سفر ہو یا حضر، امن ہو یا خطرہ۔
❀ وہ جنہوں نے اپنے پورے مال و جان کو اسلام کے لیے وقف کر دیا۔
❀ وہ جن کے ایمان کا وزن پوری امت کے ایمان سے زیادہ قرار پایا۔
❀ وہ جنہیں ہجرتِ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیقِ سفر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

یہ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ — وہ عظیم ہستی جن سے محبت ایمان کا لازمی جز ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سب سے آگے

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

( أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ ؟ )

ترجمہ:

’’آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عائشہ رضی اللہ عنہا۔‘‘
میں نے کہا: ’’مردوں میں؟‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ابو بکر رضی اللہ عنہ۔‘‘
[البخاری: 3662، مسلم: 2384]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ اگر عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں تو مردوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔

یہ وہ درجہ ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ پس ہر مومن پر لازم ہے کہ ان سے سچی محبت کرے کیونکہ محبتِ صدیق ایمان کی علامت ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تعارف

آپ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب القرشی التیمی تھا، مگر زیادہ مشہور ابوبکر بن ابی قحافہ کے نام سے ہوئے۔ آپ کی پیدائش منیٰ (مکہ مکرمہ) میں ہوئی۔

آپ کے والد عثمان بن عامر المعروف ابو قحافہ تھے، جو فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے۔
حضرت ابوبکرؓ اپنے والد کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( لَوْ أَقْرَرْتَ الشَّیْخَ فِی بَیْتِہِ لَأتَیْنَاہُ )

[صحیح ابن حبان: 5472]

ترجمہ:

"اگر تم اس بزرگ کو گھر پر ہی رہنے دیتے تو ہم خود ان کے پاس آ جاتے۔”

حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: "یارسول اللہ! ان کا آپ کے پاس آنا ہی زیادہ بہتر ہے۔”
اسی موقع پر ابو قحافہؓ مسلمان ہو گئے۔

بالوں کے رنگ کے متعلق نبی ﷺ کی ہدایت

چونکہ ابو قحافہؓ کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہو چکے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( غَیِّرُوْا ہٰذَا بِشَیْیٍٔ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ )

[مسلم: 2102]

ترجمہ:

"اس سفیدی کو کسی رنگ سے بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔”

حضرت ابوبکرؓ کی والدہ محترمہ

آپ کی والدہ سلمیٰ بنت صخر (کنیت: ام الخیر) تھیں، جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کیا۔ ان کے قبولِ اسلام کا واقعہ نہایت ایمان افروز ہے، جو حضرت ابوبکرؓ کے صبر و محبتِ رسول ﷺ کا آئینہ دار ہے۔

دعوتِ الی اللہ میں پہلا خطبہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تعداد 38 تک پہنچی تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ اب ہمیں دعوتِ اسلام خفیہ نہیں بلکہ علانیہ دینی چاہیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( یَا أَبَا بَکْرٍ ! إِنَّا قَلِیْلٌ )

ترجمہ:

"ابوبکر! ہم ابھی قلیل ہیں۔”

لیکن ابوبکرؓ کے اصرار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، اور یوں مسجدِ حرام میں سب سے پہلا علانیہ خطاب حضرت ابوبکرؓ نے دیا۔

مشرکین نے سخت تشدد کیا، حتیٰ کہ آپ کا چہرہ پہچان میں نہ آتا تھا۔ مگر ہوش میں آتے ہی آپ نے سب سے پہلا سوال یہی کیا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟”

یہی ان کی محبتِ رسول ﷺ کا سب سے روشن ثبوت ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی جاہلیت کے دور کی زندگی

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جاہلیت کے دور میں بھی قریش کے معزز اور نہایت بااخلاق افراد میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نرم گفتار، بردبار، دیانتدار اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ اہلِ مکہ اپنے اجتماعی یا قبائلی معاملات میں آپ سے مشورہ لیا کرتے تھے، کیونکہ آپ کی رائے ہمیشہ متوازن اور حکمت پر مبنی ہوتی تھی۔

آپ شراب نوشی اور دیگر برائیوں سے ہمیشہ دور رہے۔ وہ چیزیں جو اس وقت عرب کے معاشرے میں عام تھیں، ان سے آپ نے ہمیشہ اجتناب فرمایا۔

بت پرستی سے انکار

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ ایک واقعہ خود آپ نے بیان فرمایا:

میرے والد مجھے ایک دن بتوں کے پاس لے گئے اور کہا: “یہ ہیں تمہارے معبود، ان کی عبادت کیا کرو۔” پھر وہ چلے گئے۔ میں نے ایک بت کے قریب جا کر کہا: "میں بھوکا ہوں، مجھے کچھ کھلاؤ!” مگر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ پھر کہا: "میرے پاس کپڑے نہیں، مجھے کپڑے دو!” مگر پھر بھی کوئی جواب نہ ملا۔ چنانچہ میں نے ایک پتھر اٹھایا اور اسے دے مارا، وہ منہ کے بل گر گیا۔
[التاریخ الاسلامی: ج ۳، ص ۳۱]

یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ فطری طور پر توحید کے قائل تھے اور ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی روشنی بچپن ہی سے موجود تھی۔

لقب “صدیق” کیوں ملا؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو “صدیق” کا لقب اس لیے دیا گیا کہ انہوں نے واقعۂ معراج کی خبر سنتے ہی بغیر کسی تردد کے اس کی تصدیق کی۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

قریش کے چند لوگ ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا: “کیا تم اپنے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات مانتے ہو جو کہتے ہیں کہ وہ ایک رات میں بیت المقدس گئے اور واپس آگئے؟”
حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا: “کیا واقعی انہوں نے یہ فرمایا ہے؟”
انہوں نے کہا: “ہاں، فرمایا ہے۔”
تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا: “اگر انہوں نے فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔”
[دلائل النبوۃ للبیہقی، الإسراء والمعراج للألبانی، ص ۶۰–۶۱]

ترجمہ:

“اگر میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو وہ یقیناً سچ ہے، کیونکہ میں تو ان کی تصدیق اس سے بھی بڑی بات میں کرتا ہوں کہ ان پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے۔”

اسی وقت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو "صدیق” کے لقب سے نوازا۔

حدیث: نبی ﷺ کا ابوبکرؓ کو “صدیق” کہنا

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ احد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ ہلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( أُثْبُتْ أُحُدُ ، فَإِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وَصِدِّیْقٌ وَشَہِیْدَانِ )
[البخاری: 3675]

ترجمہ:
“اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔”

یہ وہ مبارک الفاظ ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت ابوبکرؓ کے صدق و اخلاص کی گواہی دی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عظیم فضائل

❶ جہنم سے نجات کی بشارت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( أَبْشِرْ ، فَأَنْتَ عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّارِ )
[ترمذی: 3679]

ترجمہ:

“خوش ہو جاؤ، تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہنم کی آگ سے آزاد کردہ ہو۔”

اسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو “عتیق” کے لقب سے بھی یاد کیا جانے لگا۔

❷ جنت کی خوشخبری

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کرام کو ان کے نام لے کر جنت کی بشارت دی، جن میں سب سے پہلے ابوبکر صدیقؓ کا نام ذکر فرمایا۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

“ابوبکر جنت میں ہیں، عمر جنت میں ہیں، عثمان جنت میں ہیں، علی جنت میں ہیں، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم جنت میں ہیں۔”
[ترمذی، مسند احمد، صحیح الجامع للألبانی: 50]

❸ اہلِ جنت کے بزرگوں کے سردار

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( ہٰذَانِ سَیِّدَا کُہُوْلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ مِنَ الْأوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ إِلَّا النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ )

[ترمذی: 3666]

ترجمہ:

“یہ دونوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) انبیاء و رسل کے علاوہ تمام اولین و آخرین اہلِ جنت کے عمر رسیدہ لوگوں کے سردار ہوں گے۔”

❹ جنت کے ہر دروازے سے پکارے جائیں گے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ نُوْدِیَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ… )

[البخاری: 1897، مسلم: 1027]

ترجمہ:

“جو شخص اللہ کے راستے میں دو چیزیں (جوڑے) خرچ کرے گا، اسے جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا:
اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ تمہارے لیے ہے۔
جو نماز کا اہل ہے، اسے باب الصلاۃ سے بلایا جائے گا؛
جو جہاد کا اہل ہے، اسے باب الجہاد سے؛
جو روزہ دار ہے، اسے باب الریان سے؛
اور جو صدقہ کرنے والا ہے، اسے باب الصدقہ سے پکارا جائے گا۔”

حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا:
“یارسول اللہ! کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( نَعَمْ وَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنَ مِنْہُمْ )

ترجمہ:

“ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہی میں سے ہو گے۔”

دشمنوں کی زبان سے حضرت ابوبکرؓ کے فضائل کا اعتراف

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی شدت حد سے بڑھ گئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ہجرت کا ارادہ کیا اور حبشہ کی جانب نکل پڑے۔ جب وہ ’’برک الغماد‘‘ کے مقام پر پہنچے تو ان کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہوئی جو قبیلہ ’’القارۃ‘‘ کا سردار تھا۔

ابن الدغنہ نے پوچھا:
“ابوبکر! کہاں جا رہے ہو؟”
حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا:
“میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اس لیے میں زمین میں نکل کر اپنے رب کی عبادت کرنا چاہتا ہوں۔”

ابن الدغنہ نے کہا:

( فَإِنَّ مِثْلَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ لَا یَخْرُجُ وَلاَ یُخْرَجُ ، إِنَّکَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ )

[البخاری: کتاب مناقب الأنصار، باب ہجرۃ النبی ﷺ وأصحابہ، حدیث: 3905]

ترجمہ:

“اے ابوبکر! آپ جیسے شخص کو نہ خود نکلنا چاہیے اور نہ نکالا جانا چاہیے۔ آپ تو محتاجوں کے کام آتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے کاموں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔”

ابن الدغنہ نے قریش کے سرداروں کے سامنے بھی انہی الفاظ میں ابوبکرؓ کے اوصاف بیان کیے، اور قریش نے ان باتوں کو رد نہ کیا۔
یہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ مخالفین بھی ابوبکرؓ کی اخلاقی عظمت اور نیکیوں کا انکار نہیں کر سکے۔

قرآن میں حضرت ابوبکرؓ جیسے صدیقین کا مقام

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾

[النساء: 69]

ترجمہ:

“اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے: یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، اور یہ لوگ بہت بہترین رفیق ہیں۔”

یہ آیت حضرت ابوبکرؓ جیسے صدیقین کے بلند مرتبے کو بیان کرتی ہے جنہیں انبیاء کے بعد سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عملی زندگی کے نمایاں پہلو

ان کے فضائل و مناقب اپنی جگہ پر روشن ہیں، لیکن اصل عظمت ان کے اعمالِ صالحہ اور عملی کردار میں جھلکتی ہے۔ ذیل میں چند نمایاں مثالیں پیش ہیں:

❶ اعمالِ خیر میں سبقت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا:

( مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمُ الْیَومَ صَائِمًا ؟ )

ترجمہ:

“آج تم میں سے کون روزے سے ہے؟”
حضرت ابوبکرؓ نے کہا: “میں روزے سے ہوں۔”

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( فَمَنْ تَبِعَ مِنْکُمُ الْیَومَ جَنَازَۃً ؟ )

ترجمہ:

“آج تم میں سے کس نے جنازے میں شرکت کی؟”
حضرت ابوبکرؓ نے کہا: “میں نے۔”

پھر فرمایا:

( فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْکُمُ الْیَومَ مِسْکِیْنًا ؟ )

ترجمہ:

“آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟”
ابوبکرؓ نے کہا: “میں نے۔”

اور فرمایا:

( فَمَنْ عَادَ مِنْکُمُ الْیَومَ مَرِیْضًا ؟ )

ترجمہ:

“آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی؟”
ابوبکرؓ نے کہا: “میں نے۔”

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( مَا اجْتَمَعْنَ فِی امْرِیئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ )

[مسلم: 1027]

ترجمہ:

“یہ تمام خوبیاں جس شخص میں جمع ہو جائیں، وہ یقیناً جنت میں داخل ہوگا۔”

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نہ صرف ایمان میں بلکہ ہر نیکی میں سب سے آگے تھے۔

❷ مال و دولت کا قربان کر دینا

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

“ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ دینے کی ترغیب دی۔ اتفاق سے اس دن میرے پاس مال زیادہ تھا۔ میں نے سوچا: آج میں ابوبکرؓ سے آگے بڑھ جاؤں گا۔ چنانچہ میں نے آدھا مال پیش کر دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ‘گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟’ میں نے کہا: ‘اتنا ہی جتنا لایا ہوں۔’
پھر ابوبکرؓ آئے اور اپنا سارا مال پیش کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ‘گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟’
ابوبکرؓ نے کہا: ‘اللہ اور اس کے رسول کو۔’
میں نے دل میں کہا: میں اب کبھی ابوبکر سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔”
[ابوداؤد: 1678]

یہ تھی حضرت ابوبکرؓ کی کامل ایثار و اخلاص کی مثال کہ انہوں نے دنیاوی مال کی پروا نہ کی بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کو سب کچھ قرار دیا۔

❸ غلاموں کو آزاد کرانے کا عظیم عمل

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی ٭ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ٭ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی ٭ اِِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی ٭ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی﴾

[اللیل: 17–21]

ترجمہ:

“اور جو پرہیزگار ہوگا، اسے (جہنم کی) آگ سے دور رکھا جائے گا۔ وہ جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے۔ اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ چکائے، بلکہ وہ اپنے ربِ اعلیٰ کی رضا چاہتا ہے، اور عنقریب وہ (اللہ) اسے راضی کر دے گا۔”

اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیات خاص طور پر حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں نازل ہوئیں کیونکہ وہ ایمان لانے والے غلاموں کو کافروں کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے خرید کر آزاد کر دیا کرتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

“ابوبکرؓ نے سات غلاموں کو آزاد کیا جنہیں ان کے ایمان کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا تھا۔ ان میں حضرت بلالؓ اور عامر بن فہیرہؓ بھی شامل تھے۔”
[مستدرک حاکم 3/284]

❹ رشتہ داروں پر احسان اور عفو و درگزر

حضرت ابوبکر صدیقؓ نہ صرف عام لوگوں بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر بھی فیاضی سے خرچ کرتے تھے۔ انہی میں سے ایک قریبی رشتہ دار حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ تھے، جو محتاج تھے اور ابوبکرؓ ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔

جب واقعۂ اِفک (ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر لگائی گئی تہمت) پیش آیا، تو مسطحؓ بھی اُن چند سادہ دل مسلمانوں میں شامل ہوگئے جو منافقوں کی پھیلائی ہوئی افواہوں سے متاثر ہو گئے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کی براءت نازل فرمائی، تو ابوبکرؓ نے قسم کھالی:

( وَاللّٰہِ لَا أُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ شَیْئًا أَبَدًا بَعْدَ مَا قَالَ لِعَائِشَۃَ )

ترجمہ:

“اللہ کی قسم! اب میں مسطح پر کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا کیونکہ اس نے عائشہ پر تہمت لگانے میں حصہ لیا۔”

تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾

[النور: 22]

ترجمہ:

“اور تم میں سے جنہیں وسعت اور فضیلت حاصل ہے، انہیں اپنے قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں پر خرچ کرنا بند کرنے کی قسم نہیں کھانی چاہیے۔ بلکہ معاف کر دینا اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟ اور اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔”

جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:

( بَلٰی وَاللّٰہِ یَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا )

ترجمہ:

“کیوں نہیں! اے ہمارے رب! ہم چاہتے ہیں کہ تُو ہمیں معاف فرما دے۔”

پھر انہوں نے حضرت مسطحؓ کا خرچ پہلے کی طرح جاری کر دیا۔
[البخاری: 4757]

یہ واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے عفو و کرم، درگزر، اور اعلیٰ اخلاقی کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

❺ تقویٰ اور پرہیزگاری

حضرت ابوبکرؓ نہایت محتاط، پارسا اور متقی انسان تھے۔ ان کے تقویٰ کا ایک منفرد واقعہ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا:

“ابوبکرؓ کا ایک غلام تھا جو کچھ کھانے کی چیز لایا۔ ابوبکرؓ نے اس میں سے کچھ کھا لیا۔ غلام نے کہا: ‘کیا آپ جانتے ہیں یہ کہاں سے آیا ہے؟ میں نے جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی (یعنی جھوٹی غیب دانی کا دعویٰ کیا تھا)، اور آج اس نے اس کے بدلے یہ کھانا دیا ہے۔’
یہ سنتے ہی ابوبکرؓ نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر وہ سب کچھ قے کر دیا جو پیٹ میں جا چکا تھا، اور فرمایا:
‘اگر یہ میری جان نکالنے کے بغیر باہر نہ نکلتا تو میں اسے زبردستی بھی نکال دیتا۔ اے اللہ! جو کچھ میری رگوں میں رہ گیا ہے، میں اس سے بیزار ہوں۔’”
[البخاری: 3842]

یہ تقویٰ اور خوفِ خدا کی ایسی مثال ہے جس نے امت کو یہ سکھایا کہ رزق میں معمولی شبہ بھی اہلِ ایمان کو کانپنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

❻ دفاعِ رسول ﷺ

حضرت ابوبکرؓ اپنی جان پر کھیل کر رسول اکرم ﷺ کا دفاع کیا کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

“نبی کریم ﷺ حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر زور سے مروڑنے لگا تاکہ آپ کو گلا گھونٹ کر قتل کر دے۔
اسی وقت ابوبکرؓ دوڑے آئے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر ہٹا دیا اور فرمایا:
﴿ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ ﴾
[البخاری: 3856]

ترجمہ:

“کیا تم اس شخص کو صرف اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے ‘میرا رب اللہ ہے’؟”

یہ جملہ ابوبکرؓ کے ایمان، شجاعت اور نبی ﷺ سے والہانہ محبت کا مظہر ہے۔

❼ نرمی اور رقتِ قلب

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ابوبکرؓ نے عمرؓ سے کہا: آؤ ام ایمنؓ کے پاس چلتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ان کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔
جب وہ دونوں وہاں پہنچے تو ام ایمنؓ رونے لگیں۔
ابوبکرؓ اور عمرؓ نے کہا: ‘آپ کیوں رو رہی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کے لیے جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ان کے لیے بہتر ہے۔’
ام ایمنؓ نے کہا: ‘میں اس لیے نہیں رو رہی کہ رسول اللہ ﷺ چلے گئے، بلکہ اس لیے کہ اب آسمان سے وحی کا نزول منقطع ہوگیا ہے۔’
یہ سن کر ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں زاروقطار رونے لگے۔”
[مسلم: 2454]

یہ واقعہ ان کے نرم دل ہونے اور نبی ﷺ سے دلی محبت کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

❽ تواضع و انکساری

حضرت ابوبکرؓ تکبر سے پاک، انتہائی متواضع اور عاجز مزاج انسان تھے۔

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

( مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )

[البخاری: 3665]

ترجمہ:

“جو شخص تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا گھسیٹے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہیں فرمائے گا۔”

حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا:
“یارسول اللہ! میرا کپڑا ایک طرف سے نیچے ہو جاتا ہے مگر میں اسے اوپر کرتا رہتا ہوں، کیا یہ بھی تکبر ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:

( إِنَّکَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذَلِکَ خُیَلَائَ )

ترجمہ:

“آپ ایسا تکبر کے طور پر نہیں کرتے۔”

یہ جواب اس بات کی دلیل ہے کہ ابوبکرؓ کا دل تکبر سے پاک اور انکساری سے لبریز تھا۔

❾ خلافت کے دوران تواضع کی ایک مثال

سعید بن مسیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابوبکرؓ نے شام کی جانب لشکر روانہ کیا تو انہوں نے یزید بن ابی سفیانؓ، عمرو بن عاصؓ اور شرحبیل بن حسنہؓ کو امیر مقرر کیا۔
جب وہ سوار ہوئے تو ابوبکرؓ پیدل چل کر انہیں الوداع کرنے لگے۔
انہوں نے کہا:
“اے خلیفۃ الرسول! آپ پیدل چل رہے ہیں اور ہم سوار ہیں؟”
تو ابوبکرؓ نے فرمایا:

( إِنِّی أَحْتَسِبُ خُطَایَ ہٰذِہِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ )

[موطا امام مالک: 971، بیہقی: 18592]

ترجمہ:

“میں سمجھتا ہوں کہ میرے یہ قدم اللہ کے راستے میں اٹھ رہے ہیں۔”

یہ جملہ ان کی عاجزی، اخلاص اور تقویٰ کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے کہ خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے باوجود خود کو اللہ کا عاجز بندہ سمجھتے تھے۔

نتیجہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ:
① ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت صدق و اخلاص ہے۔
② محبتِ رسول ﷺ ایمان کی بنیاد ہے۔
③ عفو و درگزر، ایثار، سخاوت اور عاجزی ہی حقیقی تقویٰ کی نشانیاں ہیں۔
④ قیادت اور اقتدار کے باوجود بندگی و انکساری کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اگر امتِ مسلمہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے کردار کو اپنالے تو دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے